”مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے امی۔” ثمر نے بالآخر فاطمہ کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا۔ ثانی اور شہیر کسی وقت بھی آنے والے تھے اور وہ ان دونوں کے آنے سے پہلے ہی فاطمہ سے اس بار یمیں بات کر لینا چاہتا تھا۔
فاطمہ پلیٹ میں چاول ڈال کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
”ہاں بولو۔” اس نے چاول کا چمچہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ثمر یک دم اپنی جگہ سے اٹھ کر فاطمہ کے پاس آ کر اس کے پیروں میں بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ اب فاطمہ کے گھٹنوں پر تھے۔ فاطمہ کو کھانا کھاتے کھاتے جھٹکا لگا۔ ثمر کے انداز نے اسے حیران کیا تھا۔
”پہلے وعدہ کریں’ آپ ناراض نہیں ہوں گی۔” ثمر نے کہا۔
”کیا بات ہے؟… کیا کر کے آئے ہو؟” فاطمہ کی بھوک غائب ہو گئی۔ اس نے پلیٹ تپائی پر رکھ دی۔
”نہیں ۔ آپ پہلے وعدہ کریں کہ آپ ناراض نہیں ہوں گی۔”
”تم پہلے بتاؤ تو ہوا کیا ہے؟”
”نہیں۔ پہلے وعدہ کریں۔” وہ منت بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔
”اچھا … وعدہ … اب بتاؤ۔ کیا ہوا ہے؟”
”مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولا۔
”کیا غلطی ہو گئی؟” فاطمہ نے تشویش بھرے انداز میں اسے دیکھا۔
وہ ہچکچاتے ہوئے آہستہ آہستہ فاطمہ کو سب کچھ بتانے لگا۔ وہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی تھی۔
”قسم سے میں … آپ کو سب کچھ بتا دینا چاہتا تھا مگر میں ڈر رہا تھا کہ آپ مجھے یہ کمرشل نہیں کرنے دیں گی۔ اور میں اسے ہر صورت میں کرنا چاہتا تھا۔” اس نے اپنی بات کے اختتام پر فاطمہ کے تاثرات پر غور کرتے ہوئے کہا۔ فاطمہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ثمر سے کیا کہے۔
”امی! روز روز تو کوئی ایسی آفرز نہیں دیتا۔ آپ سوچیں’ میں اگر انکار کر دیتا تو میری جگہ کتنے لڑکے خوشی خوشی اس کمرشل کو کرتے۔” وہ اب وضاحتیں دے رہا تھا۔
”اور پھر مجھے بیس ہزار روپے بھی تو ملے ہیں۔ میں ٹیوشنز کر کے یا چارٹ بنا کر پورا سال اتنے پیسے نہیں کما سکتا تھا جتنے ایک ہفتے میں مل گئے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے ذیشان صاحب نے ہی مجھے دو اور کمرشلز کی آفر کی ہے … سوچیں ذرا کتنی آسانی سے مجھے اتنے پیسے مل جائیں گے اور میں … اپنی تعلیم پروہ روپے خرچ کر سکتا ہوں’ آگے این سی اے میں اڈمیشن کے لیے روپے اکٹھے کر سکتا ہوں … آپ جانتی ہیں وہاں ایڈمیشن لینے کے لیے کتنی رقم کی ضرورت ہے۔”
فاطمہ نے پہلی بار غصے میں اس کی بات کاٹی۔ ”وہاں ایڈمیشن تو تب ہو گا نا جب تم ایف ایس سی کرلو گے … امتحان تمہارے سر پر ہیں اور تم پڑھنے کے بجائے آوارہ گردی کرنے میں مصروف ہو۔”
”امی! آوارہ گردی تو نہیں ہے۔” ثمر نے احتجاج کیا۔
”آوارہ گردی ہی ہے یہ بھی … یہاں آس پاس پتہ چلے گا کہ تم اشتہاروں میں کام کر رہے ہو تو لوگ کس طرح کی باتیں کریں گے۔”
”کچھ نہیں کہیں گے امی…” ثمر نے لاپروائی سے کہا۔ ”پہلے میں اشتہاروں کے بورڈ پینٹ کرتا تھا۔ اب خود اشتہار میں کام کرنے لگا ہوں … کیا فرق پڑا ہے … وہ لوگ تو خوش ہوں گے… ٹی وی پر آنے کے لیے تو لوگ کیا کیا جتن کرتے ہیں اور مجھے تو بیٹھے بٹھائے آفر آ گئی ہے۔”
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ثمر …” فاطمہ نے کہا ۔
”ثمر نے فاطمہ کی بات کاٹ دی۔ ”آپ نے وعدہ کیا تھا’ آپ ناراض نہیں ہوں گی۔”
”میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تم نے اس طرح کی حرکت کی ہو گی ورنہ ایسا وعدہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔”
”اچھا دیکھیں۔ ابھی امتحان ختم ہو جائیں گے تو باقی کے دو کمرشلز تب کروں گا … ابھی وعدہ کرتا ہوں کہ رات دن پڑھتا رہوں گا جب تک امتحان نہیں ہو جاتے۔”
”نہیں۔ اب اور کوئی کمرشل نہیں کرو گے تم … ایک کر لیا بس کر لیا … انکار کر دو ان صاحب کو جنہوں نے تمہیں آفر کی ہے۔” فاطمہ نے سختی سے کہا۔ ”اور ثانی کو تو آنے دو ۔ میں پوچھوں گی اس سے … ” فاطمہ نے کہا۔
”سارا قصور میرا ہے امی … ثانی کا کوئی قصور نہیں ہے۔” ثمر نے کہا۔ میں نے اس کو مجبور کیا تھا کہ وہ آپ کو نہ بتائے۔”
”منہ بند کر لو اب تم اپنا۔”
”دیکھیں۔ آپ نے وعدہ کیا تھا۔ وعدہ کر کے توڑ رہی ہیں۔” ثمر نے ایک بار پھر فاطمہ کو یاد دلایا۔
”آخر یہ شوبزنس کا بھوت تمہارے سر سے اترتا کیوں نہیں … کالج میں بہت ڈرامے کر لیے تم نے۔ میں نے تمہیں منع نہیں کیا۔ لیکن اب اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بے کار لڑکوں کی طرح ان کاموں پر وقت ضائع کرتے رہو جن سے کچھ حاصل نہیں ہو گا … تم نے اپنا کوئی کیریئر بنانا ہے یا نہیں۔”
”کیریئر ہی بنا رہا ہوں امی۔”
”یہ کیریئر ہے؟۔”
”یہ بھی کیریئر ہوتا ہے … میں نے آپ کو پہلے بھی کہا ہے یہ’ میں نے جو بھی کرنا ہے شوبزنس میں ہی کرنا ہے … میں ڈاکٹر انجینئر نہیں بن سکتا۔” ثمر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ فاطمہ کو غصہ آ گیا۔
”ڈاکٹر انجینئر مت بنو … مگر کم از کم انسان تو بنو۔”
”انسان تو ہوں … امی غور سے دیکھیں۔ ثمر یک دم ہنسا اور اس نے منہ اٹھا کر فاطمہ کے سامنے کر دیا۔ فاطمہ کو بھی بے اختیار ہنسی آ گئی۔
”انسان تمہاری طرح کی حرکتیں نہیں کرتے۔”
ثمر نے بالآخر اطمینان کا سانس لیا۔ ”نہیں کرتے ہوں گے … میں ذرا مختلف قسم کا انسان ہوں … آپ دیکھیں جب میں مشہور ہو جاؤں گا تو آپ خود ہی ہر ایک کو بڑے فخر سے میرے بارے میں بتایا کریں گی۔”
”نہیں۔ یہ خوش فہمی تم اپنے دماغ سے نکال دو … میں کسی کو تمہارے بارے میں نہیں بتاؤں گی۔” فاطمہ اس کی بات پر دوبارہ سنجیدہ ہو گئی۔
”مجھے یہ بتائیں امی! کہ آخر ماڈلنگ یا ایکٹنگ کرنے میں برائی کیا ہے؟” ثمر بھی سنجیدہ ہو گیا۔ ”اتنے اچھے اچھے خاندانوں کے لوگ شوبز میں ہیں … لوگ کتنی عزت کرتے ہیں … کتنا نام ملتا ہے … دولت ملتی ہے۔”
”تم عزت کے پیچھے جا رہے ہو؟… نام کے پیچھے یا دولت کے پیچھے؟ ” فاطمہ نے پوچھا ۔
”تینوں کے پیچھے … میں شوبز کی مچھلی ہوں امی … صرف اسی سمندر میں رہ سکتا ہوں … دوسرے کسی پروفیشن میں کچھ نہیں کر سکتا۔” وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فاطمہ کو صاف لفظوں میں بتا رہا تھا۔ ”ابھی پہلے تو شہیر کو آنے دو … وہ تم سے دو دو ہاتھ کرے گا پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ تم کس پانی کی مچھلی ہو۔” فاطمہ نے اسے دھمکایا۔
”آپ کو سب کچھ اسی لیے تو بتا رہا ہوں کہ آپ یہ سب کچھ خود شہیر بھائی کو بتا دیں۔ آپ انہیں سمجھا دیں گی تو وہ ناراض نہیں ہوں گے۔” ثمر نے کہا۔
”اب کھانا کھالیں … چاول ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔” ثمر کو یک دم پاس پڑی پلیٹ کا خیال آیا’ اس نے پلیٹ اٹھا کر فاطمہ کی طرف بڑھا دی۔
”شوبزنس میں بہت دھکے کھانے پڑتے ہیں۔” فاطمہ نے پلیٹ پکڑتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
”میں کھاؤں گا۔” ثمر نے برجستگی سے کہا۔
”بہت خوار ہونا پڑتا ہے۔”
”کوئی بات نہیں۔”
”کامیابی نہ ملے تو زندگی برباد ہو جاتی ہے انسان کی۔”
”آپ قسمت تو آزمانے دیں۔”
”لوگ تعریف تو کرتے ہیں’ عزت نہیں کرتے۔”
”ایسا نہیں ہوتا امی … آپ پرانے زمانے کی بات کر رہی ہیں … اب لوگوں کو دیکھیں … ملیں ‘ آپ کو پتہ چلے گا کہ شوبزنس کے لوگوں کو کس طرح سراہا جاتا ہے۔” وہ اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
فاطمہ نے جواب دینے کے بجائے کھانا کھانا شروع کر دیا ‘ ثمر کی باتیں اسے پریشان کر رہی تھیں۔ اگرچہ وہ شروع سے ہی شوبز میں جانے کی باتیں کرتا تھا مگر گھر میں کسی نے اس کی ان باتوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس کا خیال تھا یہ بچپن کی بے شمار خواہشات میں سے ایک ہے اور بڑا ہونے پر’ کچھ میچور ہو جانے پر بہت سی دوسری خواہشات کی طرح یہ خواہش بھی ختم ہو جائے گی۔ ان سب کا خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ وہ اپنی اس خواہش یا شاید اب اسے جنون کہنا بہتر تھا کو پورا کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتا تھا۔ فاطمہ اب دیکھ رہی تھی۔
وہ بچپن سے اپنے تینوں بچوں کے لیے جو خواب دیکھ رہی تھی۔ ان میں کہیں بھی ان میں سے کسی کا شوبزنس میں جانا شامل نہیں تھا۔ اور اب ثمر کا یہ فیصلہ اس کو جیسے ایک عجیب دوراہے پر لے آیا تھا۔ شہیر اور ثانی نے کبھی اس کو کسی لحاظ سے پریشان نہیں کیا تھا مگر ثمر بچپن سے ہی اس کے لیے خاصے مسائل پیدا کرتا رہتا تھا۔
وہ بچپن میں جسمانی طور پر بہت زیادہ کمزور تھا اور سیزن کی ہر بیماری اسے اپنی لپیٹ میں ضرور لیتی۔ فاطمہ کا زیادہ تر وقت اس کی تیمارداری میں ہی گزرتا۔ وہ تینوں میں سے واحد تھا جسے اسے ہر وقت اپنے ساتھ چپکائے پھرنا پڑتا تھا۔
جب وہ کچھ بڑا ہونا شروع ہوا تو اس نے اپنی شرارتوں سے ان سب کا ناک میں دم کر دیا۔ فاطمہ کو ہر وقت اس پر نظر رکھنی پڑتی تھی کیونکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اگلے ہی لمحے کیا کر بیٹھے۔ بڑا ہونے پر اس نے سکون کا سانس لیا تھا کہ کم از کم اس کی شرارتیں ختم ہو گئی تھیں … اور اب وہ اس کے سامنے ایک نیا مسئلہ لیے بیٹھا تھا۔
٭٭٭