تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

گھر پر پہلی نظر پڑتے ہی امبر کا چہرہ اتر گیا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت منیزہ اور اس کی باقی دونوں بیٹیوں کی تھی۔ صبغہ کے ساتھ وہ لوگ کچھ دیر پہلے ہی وہاں آئے تھے۔ ان کا ذاتی سامان صرف چند سوٹ کیسز پر مشتمل تھا جسے وہ اس دن اپنے ساتھ وہاں لے کر آئی تھیں۔ جبکہ صبغہ پچھلے کچھ دنوں سے کچھ ضروری فرنیچر اور باقی اشیاء کی خریداری میں مصروف رہی تھی۔ وہ خریداری کے ساتھ ساتھ سامان وہاں منتقل بھی کرتی رہی تھی۔
جس دن وہ وہاں شفٹ ہوئے تھے۔ اس دن خریدا گیا تمام سامان پہلے سے ہی وہاں رکھا جا چکا تھا۔
اس محلے میں داخل ہو کر گھر تک کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہوئے وہ سب لوگ زندگی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے تھے۔ اور یہ دور کتنا مشکل اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ ان تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوئے انہیں احساس ہو رہا تھا۔ وہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کے علاقے کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھ رہی تھیں اور یہ احساس کہ اب انہیں زندگی یہیں گزارنی تھی … ان ہی لوگوں کے درمیان … ان کو ہولائے دے رہا تھا۔
گھر کو دیکھ کر مایوسی کا یہ احساس اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ صبغہ کو ان میں سے کسی کے چہرے پر خوشی کی رمق نظر نہیں آئی۔ اسے اس کی توقع بھی نہیں تھی۔ منیزہ گھر کو پہلے ہی دیکھ کر ناپسند کر چکی تھیں اور اب اسی نا پسندیدہ جگہ پر رہنا … یہ تصور ان کے لیے سوہان روح تھا۔
دو کمروں کا وہ مکان ان سب کو تفصیلی طور پر دکھانے میں صبغہ کو صرف چند منٹ لگے تھے اور اب وہ سب اس گھر کے ایک کمرے میں موجود تھیں۔ بہت دیر تک وہ پانچوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے وہاں بیٹھی رہیں۔ ان سب کے پاس یک دم لفظ جیسے ختم ہو گئے تھے … زندگی میں بہت سے مواقع پر لفظ ختم ہو جایا کرتے ہیں … وہ سب اسی تجربے سے گزری رہی تھیں۔
صبغہ نے بالآخر اس خاموشی کو توڑا۔ وہ کہنا چاہ رہی تھی ”گھر اچھا ہے” مگر ان لوگوں کے چہروں کے تاثرات نے اسے اچھا کے لفظ کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ ”گھر ٹھیک ہے؟” سوالیہ نظروں سے ان سب کے چہروں کو دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔




فوری طور پر کوئی جواب نہیں آیا۔ صرف وہاں بیٹھے چاروں افراد نے چند لمحوں کے لیے اس کو دیکھا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر امبر نے کہا۔
”ہم کتنے دن یہاں رہیں گے؟”
صبغہ نے امبر کو دیکھا پھر مدھم آواز میں کہا۔ ”دن نہیں مہینے’ یا سال۔” اس نے تصحیح کی۔ امبر کا چہرہ اور پھیکا پڑ گیا۔
”مگر ہمیشہ یہاں نہیں رہیں گے۔ حالات کچھ بہتر ہوں گے تو ہم کسی اچھی جگہ پر منتقل ہو جائیں گے۔”
”حالات کیا بہتر ہوں گے۔” اس بار منیزہ تلخی سے بڑبڑائیں۔
”ہو جائیں گے ممی…! کچھ وقت لگے گا مگر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” صبغہ نے منیزہ کو ٹوکتے ہوئے جیسے انہیں تسلی دی۔” ”کم از کم آپ تو اس طرح کی بات نہ کریں۔”
”تو میں کس طرح کی بات کروں … یہ کہوں کہ بس راتوں رات ہماری قسمت بدلنے والی ہے … پوری دنیا ہی ہمارے قدموں کے نیچے ہو گی۔” منیزہ نے کاٹ کھانے والے انداز میں کہا۔
صبغہ کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”ممی! بُرا وقت تو راتوں رات آ سکتا ہے اچھا وقت نہیں۔ اچھے وقت کو آتے کچھ وقت لگتا ہے مگر سب کچھ بالکل پرفیکٹ نہ بھی ہو’ بہتر ضرور ہو جاتا ہے۔” اس نے ماں کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ وہ ان کی تلخی کو کم کرنا چاہ رہی تھی۔
”میں چھوٹی بچی نہیں ہوں صبغہ جسے تم یہ سب کچھ سمجھا رہی ہو۔” منیزہ پر اس کی تسلیوں کا الٹا اثر ہوا۔ ”میں دنیا کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہوں … لوگوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہوں۔ مجھے سبز باغ مت دکھاؤ۔”
صبغہ’ منیزہ کی بات پر بے بسی سے مسکرائی۔ ”سبز باغ؟ … ممی! میں آپ کو سبز باغ کیوں دکھاؤں گی… مگر اتنی مایوسی بھی ٹھیک نہیں ہے۔”
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ صبغہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
کچھ دیر کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے ساتھ فاطمہ تھی۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے چاروں افراد نے حیرانی سے اس عورت کو دیکھا تھا جو صبغہ کے ساتھ بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی۔ اور اس کے حلئے اور سراپے نے ان سب کو بری طرح چونکایا تھا۔ وہ چاروں ان حالات میں نہ ہوتیں تو شاید اس عورت پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے انداز میں کچھ تحقیر بھی شامل ہوتی۔
”ممی! یہ فاطمہ آنٹی ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ان کے بارے میں۔”
صبغہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے فاطمہ کو متعارف کروایا۔ منیزہ بادل نخواستہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ پہلی ہی نظر میں فاطمہ کو ناپسند کر چکی تھیں۔ فاطمہ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ منیزہ سے ہاتھ ملایا۔ اس نے منیزہ کے انداز کے روکھے پن کو نظر انداز کر دیا تھا۔
”یہ میری بڑی بہن ہے …امبر۔” صبغہ اب امبر کا تعارف کروا رہی تھی۔ منیزہ کی نسبت امبر’ فاطمہ سے اچھے طریقے سے ملی تھی۔ وہ پچھلے چند ہفتوں میں گھر کی مرمت کے سلسلے میں اس کی مدد کا احوال صبغہ سے سن چکی تھی۔
”یہ میری چھوٹی بہنیں … رابعہ اور زارا …”
فاطمہ نے پیار سے ان دونوں کے گال تھپتھپائے پچھلے چند ماہ میں یہ پہلا پیار بھرا لمس تھا جو ان دونوں نے کسی دوسرے فرد سے وصول کیا تھا۔
”بہت پیاری بچیاں ہیں آپ کی۔” فاطمہ نے منیزہ سے کہا۔ منیزہ نے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا وہ صرف پھیکے انداز میں مسکرائیں۔
”میں آپ لوگوں کا ہی انتظار کر رہی تھی’ صبغہ نے مجھے کل بتایا تھا آپ لوگوں کی شفٹنگ کے بارے میں سامان وغیرہ سیٹ کرنے میں تو آپ کو مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ تو پہلے ہی رکھا جا چکا ہے۔”
فاطمہ نے کمرے میں نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ ”مگر اس کے علاوہ آپ کو دن اور رات کے کسی بھی وقت کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو آپ لوگ مجھ سے کہہ سکتے ہیں۔” فاطمہ نے کہا۔
”تھینک یو آنٹی … لیکن آپ ہمارے کہے بغیر ہی بہت کچھ کر رہی ہیں ہمارے لیے۔” صبغہ تشکر بھرے لہجہ میں بولی۔
”کچھ نہیں کر رہی میں…” فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اس قدر احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے’ میں آپ لوگوں کے لیے کھانا بھجواتی ہوں۔” وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
”باہر نکلتے ہوئے اس نے کہا ”اور رات کو بھی بھجواؤں گی۔”
”نہیں آنٹی! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کھانا لینے جا رہی ہوں۔” صبغہ نے فاطمہ کو روکا۔
”اور رات کے لیے ہم کچھ نہ کچھ پکا لیں گے۔ وہ اتنا مسئلہ نہیں ہے۔”
”اتنا تکلف مت کرو صبغہ!” فاطمہ نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ ”میں نے آپ لوگوں کی وجہ سے آج دوپہر کا کھانا زیادہ پکایا ہے۔ اور جہاں تک رات کے کھانے کا تعلق ہے تو ابھی آتے ہی کیا پکانا شروع کر دوگی … کل سے شروع کر لینا۔ ظاہر ہے خود ہی پکائیں گے آپ لوگ۔”
فاطمہ کہتے ہوئے اس کے ساتھ بیرونی دروازے تک آ گئی۔
”ابھی تو سبزی تک نہیں خریدی ہو گی تم لوگوں نے۔” فاطمہ مسکرائی۔
”ہاں میں سہ پہر کو جا کر لانا چاہتی تھی۔” صبغہ نے کہا۔
”میرے ساتھ چلنا۔ یہاں پاس ہی سبزی کی کچھ دکانیں ہیں۔ مجھے بھی سبزی خریدنی ہے۔ تمہیں بھی سبزی خریدنے کا کچھ تجربہ ہو جائے گا۔” فاطمہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی۔
دروازے بند کرتے ہوئے صبغہ نے ہونٹ کاٹے۔ اس کے چہرے پر ایک ثانئے کے لیے ایک پھیکی سی مسکراہٹ آئی تھی۔ ”کس کس چیز کا تجربہ ہو رہا ہے … اور ہو گا یہ میں نہیں جانتی … اور یہ سارے وہ تجربے ہیں جن کے بارے میں میں نے کبھی اپنے ڈراؤنے خواب میں بھی کچھ نہیں دیکھا تھا۔”
اس نے واپس اندر کمرے کی طرف جاتے ہوئے اپنے دل میں سوچا تھا۔
٭٭٭
”کیا ہوا ” ہارون نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے شائستہ کو دیکھا۔
رات کے نو بجنے والے تھے اور وہ اسے اپنے ساتھ ایک بزنس ڈنر پر لے جانے کے لیے آیا تھا۔ مگر گھر پہنچنے پر خلافِ توقع اس نے شائستہ کو تیاری کرنے کے بجائے بستر میں پایا۔
”میرے سر میں درد ہے۔” شائستہ نے اسی طرح لیٹے لیٹے کہا۔
”کوئی ٹیبلٹ لے لو … اور چلو … یہ کوئی اتنا سیریس مسئلہ تو نہیں ہے۔” ہارون نے کہا۔
”مگر میں جانا نہیں چاہتی … میرا موڈ نہیں ہے۔” شائستہ نے کہا۔
”کیوں؟… موڈ کو کیا ہوا … کچھ گھنٹے پہلے تک تو تمہارا موڈ ٹھیک تھا۔” ہارون کمال اس کی بات پر کچھ جزبز ہوا۔
”اب ٹھیک نہیں ہے۔ شائستہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”پھر تمہیں پی سی سے واپسی پر مجھے بتا دینا چاہیے تھا۔ میں ان لوگوں کو انفارم کر دیتا … اب تو وہاں جانا ہی پڑے گا … میں بابر کو بتا چکا ہوں کہ ہم لوگ آ رہے ہیں۔” ہارون نے کچھ ٹٹولنے والی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
”تم چلے جاؤ … اور میری طرف سے ایکسکیوز کر لینا۔” شائستہ نے کہا۔ اس کے انداز اور لہجے میں ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”میں وہاں اکیلا جا کر کیا کروں گا؟” ہارون کمال اپنی بات سے ہٹنے پر تیار نہیں تھا۔
”تم بہت سی جگہوں پر اکیلے جاتے رہتے ہو۔ ہر جگہ مجھے ساتھ لے کر تو نہیں جاتے۔” شائستہ نے اسے دیکھتے ہوئے بڑے تیکھے انداز میں کہا۔
”مگر اس جگہ پر تمہیں ساتھ لے کر ہی جانا چاہتا ہوں … اور یہ تم اچانک اتنی rudeکیوں ہو رہی ہو؟ ” ہارون نے اس کے لہجے پر غور کرتے ہوئے کہا۔
”میں rudeنہیں ہو رہی ہوں …” شائستہ نے اسی انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۹

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!