”اچھی طرح جانتی ہیں وہ کہ میں کبھی دس روپے جمع نہیں کر سکا’ پرائز بانڈ خریدنا تو دورکی بات ہے۔”
”پھر کیا کرو گے۔ کیا سارے خود خرچ کر لو گے؟”
”نہیں’ سارے خود تو نہیں کروں گا مگر کچھ تو کروں گا۔ ثانی! ہوٹل میں جا کر کھانا کھائیں گے۔” ثمر کو یاد آیا۔
”کس ہوٹل میں؟”
”PCمیں چلیں گے۔”
”بیس ہزار وہاں ضائع کر دیں گے؟”
”نہیں’ بیس ہزار نہیں کریں گے۔ دوچار ہزار۔”
”کیا فائدہ ہو گا؟” ثانی کچھ متامل ہوئی۔
”یہ ہر وقت ہر چیز کا فائدہ کیوں پوچھتی رہتی ہو تم۔” ثمر بے اختیار جھلایا۔ ”تمہارا دل نہیں چاہتا کہ کسی اچھی جگہ پر جاؤ’ جا کر کھانا کھاؤ۔”
”کھانا بہت مہنگا ہو گا وہاں۔”
”ہم چائے پی لیں گے’ آئس کریم کھا لیں گے۔ ٹھیک ہے۔”
”امی کو نہیں بتائیں گے؟” ثانیہ کو پھر فاطمہ یاد آئی۔
”نہیں۔ ” ثمر نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور شہیر بھائی کو؟”
”انہیں بھی نہیں۔ وہ دونوں جانے بھی نہیں دیں گے اور امی تو کمرشل میں کام کرنے پر بھی بہت ناراض ہوں گی۔” ثمر کے پاس توجیہہ تھی۔
”تم مجھے یہ بتاؤ’ جانا چاہتی ہو یا نہیں؟” ثمر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”اور اگر میں نے کہا کہ نہیں تو …؟”
”تو کیا؟”
”تو کیا تم اکیلے چلے جاؤ گے؟” ثانی کو کچھ فکر ہوئی۔
”نہیں۔”
”پھر؟”
”پھر میں خود بھی نہیں جاؤں گا۔” ثمر نے قدرے مایوسی سے سر کو جھٹکا۔ ”تم چلونا۔”
”ٹھیک ہے چلیں گے۔” ثانیہ نے یک دم جیسے کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے کہا۔ ”مگر تم ان روپوں کو اس طرح ضائع مت کرنا۔ بینک اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں رکھ دو۔”
”آئی پرامس’ میں ایسا ہی کروں گا۔ بس اب تم یاد رکھنا کہ تمہیں میرے ساتھ جانا ہے۔” ثمر نے جلدی سے کہا۔
”امی کو کیا کہہ کر جائیں گے؟” ثانی کو پھر فکر ہوئی۔
”ان سے کہہ دیں گے ‘ تمہیں کوئی کتاب چاہیے۔ مارکیٹ تک جا رہے ہیں۔” ثمر نے بے فکری سے کہا۔
”مگر وہاں سے آنے میں دو تین گھنٹے لگ جائیں گے۔” ثانی اب وقت کا حساب کتاب کر رہی تھی۔
”تو ایک اور جھوٹ بول دیں گے۔ جہاں اتنے جھوٹ بول رہے ہیں’ وہاں ایک اور جھوٹ سے کیا ہو گا۔” ثمر کو اب بھی کوئی فکر نہیں تھی۔
”لیکن اگر ہمیں کسی نے وہاں دیکھ لیا اور امی کو پتا چل گیا تو ؟” ثانی کو اب طرح طرح کے خدشات ستا رہے تھے۔
”وہاں ہمیں کون دیکھے گا۔ رشتے دار ہمارے کوئی نہیں’ باقی بچے محلے والے۔ تو کیا اب یہ محلے والے پی سی میں جائیں گے۔ یہ جا سکتے ہیں؟”
”فرض کرو’ کسی نے دیکھ لیا اور بتا دیا تو؟” ثانی مطمئن نہیں ہوئی۔
”تو کیا … ہم پھر جھوٹ بول دیں گے۔ کہہ دیں گے کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں’ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔”
”آخر کتنے جھوٹ بولیں گے ہم؟” اس بار ثانی جھنجلائی۔
”پی سی میں جانے کے لیے مجھے تو جتنے جھوٹ بولنے پڑے ‘ میں بولوں گا۔”
”مگر میں نہیں بول سکتی۔”
”تم کو کچھ کہنے کے لئے کون کہہ رہا ہے؟” ثمر نے کہا۔ ”میں بولوں گا۔ تمہارے لیے بھی میں ہی جھوٹ بولوں گا۔ تم بس خاموش رہنا۔”
ثانی کچھ سوچنے لگی۔ اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔
”زندگی میں رسک لینا سیکھو ثانی! ضروری نہیں ہوتا کہ ہر چیز کو ہی سوچ سمجھ کر کیا جائے۔” ثمر نے اسے سوچتے دیکھ کر کہا۔
”تم اپنے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی دن مجھے بھی مرواؤ گے۔” ثانی نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”تو پھر کیا ہوا میرے بغیر تم زندہ رہ کر کرو گی بھی کیا۔” ثمر نے شرارتی انداز میں کہا۔ ”ہم دونوں رومیوجولیٹ ہیں۔ ہم دونوں کو اکٹھے جینا’ اکٹھے مرنا ہے۔ کیوں جولیٹ؟”
ثانی نے یکے بعد دیگرے اس کی کمر میں بہت سے مکے مارے۔
”بدتمیز’ اس طرح کی بکواس کرو گے تو میں پہلے ہی سب کچھ امی کو بتا دوں گی۔”
ثمر نے بے اختیار اپنی کمر سہلائی۔ ”کچھ غلط ہو گیا’ کیوں جولیٹ؟” اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے آخری دو لفظ رک کر وقفے سے کہے۔ ثانی نے دوبارہ اس کی کمر میں مکا مارا۔
”دفع ہو جاؤ تم’ میں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ۔ امی کو سب کچھ بتا دوں گی صبح۔” وہ ناراضی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
ثمر نے بے اختیار اس کا بازو کھینچ کر اسے جھٹکے سے دوبارہ تخت پر بٹھایا۔ ”اچھا … اچھا … معاف کر دو’ مذاق کر رہا تھا۔”
”ایسے بونگے مذاق میرے ساتھ مت کیا کرو۔” ثانی نے ناراضی سے کہا۔
”تمہیں میں نے ایک بات نہیں بتائی۔” ثمر کو اچانک جیسے کچھ یاد آیا۔
”کیا؟۔” ثانی ناراض ہونے کے باوجود پھر دلچسپی لیے بغیر نہیں رہ سکی۔
”میرے ساتھ کمرشل میں ایک لڑکی کام کر رہی ہے ‘ نایاب کمال۔” ثمر نے کہا۔
ثانیہ سوالیہ نظروں سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”تمہیں پتا ہے’ اس کی شکل کس سے ملتی ہے؟”
”مجھے کیسے پتا ہو گا۔”
”شہیر بھائی سے۔”
ثانی پھر ناراضی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”تم پھر بکواس کرنے لگے ہو۔ کہہ رہی ہوں’ میرے ساتھ اس طرح کے مذاق مت کیا کرو۔”
”میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ سچ کہہ رہا ہوں۔” ثمر بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ”میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ تم دیکھو گی تو تم بھی حیران رہ جاؤ گی۔ وہ بالکل شہیر بھائی کی طرح لگتی ہے جیسے تم میری طرح لگتی ہو۔” ثمر اب وضاحتیں دینے میں مصروف تھا۔
”اچھا فرض کرو’ اس کی شکل شہیر بھائی سے ملتی بھی ہے تو کیا۔ بہت سے لوگوں کی شکل آپس میں ملتی ہے۔” ثانی نے کھڑے کھڑے کہا۔
”تو میں نے کیا کہا۔ میں تو ویسے ہی تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے شہیر بھائی سے ملتی جلتی لڑکی دیکھی ہے۔” ثانی ناراضی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”اس کی شکل مجھ سے زیادہ شہیر بھائی سے ملتی ہے؟”
”ہاں کسی حد تک ۔ میرا کمرشل آن ایئر جائے گا تو پھر تم دیکھنا۔”
”تم لڑکیوں پر دھیان کم دیا کرو۔”
”کیوں’ میں کوئی اندھا ہوں۔” ثمر نے برجستگی سے کہا۔ ثانی کچھ کہنے لگی مگر اس سے پہلے ہی ثمر نے اس سے کہا۔
”اب خدا کے لیے یہ مت کہنا کہ امی کو سب کچھ بتا دوں گی اور تمہارے ساتھ PC نہیں جاؤں گی اور میرے ساتھ ایسے فضول مذاق مت کیا کرو’ وغیرہ وغیرہ۔”
ثانی کا کھلا ہوا منہ بند ہو گیا۔ اس نے پوری قوت سے ایک اور مکا اس کی کمر میں مارا اور کچھ کہے بغیر اندر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
٭٭٭
شہیر اس سہ پہر PCمیں کسی ایجوکیشن سے متعلقہ ایگزی بیشن میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا ایک دوست بھی تھا۔ ایگزی بیشن میں پھرتے پھرتے شہیر کو کسی کام سے ہال سے باہر ہوٹل کی لابی میں آنا پڑا اور واپس ہال کی طرف آنے سے پہلے اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے ثمر اور ثانیہ کو وہاں سے گزرتے دیکھا۔ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ وہ دونوں اس وقت وہاں نہیں ہو سکتے تھے مگر اس کے باوجود وہ کسی لاشعوری احساس کے تحت آگے بڑھ آیا۔ چند منٹ کاؤنٹر سے کچھ فاصلے پر کھڑے وہ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ فوری طور پر ان لوگوں میں اسے ان دونوں کے چہرے نظر نہیں آئے۔ اسے لگا’ اسے وہم ہوا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر دوبارہ ایگزی بیشن ہال کی طرف جاتا’ اس کا وہم حقیقت میں تبدیل ہو گیا تھا۔ وہ دونوں وہی تھے’ اگرچہ اس کے اور ان کے درمیان بہت فاصلہ تھا مگر وہ انہیں پہچاننے میں دھوکہ نہیں کھا سکتا تھا۔ وہ دونوں بہت فاصلے پر ایک نوجوان لڑکی اور ایک مرد اور عورت کے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔
شہیر بے یقینی کی کیفیت میں بے اختیار ان کی طرف آیا۔ ان دونوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان سے باتیں کرتے ہوئے تینوں افراد کی پشت اس کی طرف تھی۔ البتہ ثمر اور ثانی اسے دیکھ سکتے تھے اور یہ ثمر ہی تھا جس نے باتیں کرتے کرتے مسکراتے ہوئے شہیر کو چند قدموں کے فاصلہ پر اپنی طرف آتے دیکھا تھا اور اس کے چہرے سے مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ بھی اڑ گیا تھا۔ وہ بات کرنا بھول گیا۔ اس کے چہرے پر آنے والی تبدیلی اتنی نمایاں تھی کہ ثانی سمیت باقی تمام افراد نے اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے مڑ کر دیکھا۔ شہیر اب ان کے بالکل سامنے تھا۔ چند لمحوں کے لیے دونوں اطراف خاموشی چھائی رہی’ پھر اس خاموشی کو ہارون کمال کی آواز نے توڑا تھا۔
”آپ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟” وہ ثمر سے پوچھ رہا تھا۔
”یہ میرے بڑے بھائی ہیں۔” ثمر کو ایک جملہ بولتے ہوئے پسینے آ گئے تھے جبکہ ثانی کے تو جیسے کاٹو تو لہو نہیں کی کیفیت تھی۔
”اوہ … Thats wonderful” ہارون کمال نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا اور شہیر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
”میرا نام ہارون کمال ہے۔ یہ میری مسز ہیں شائستہ اور یہ میری بیٹی نایاب۔” ہارون اب تعارف کا مرحلہ سرانجام دے رہا تھا۔ شائستہ کی نظریں بے یقینی سے شہیر کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ پاس پاس کھڑے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی ہارون اور شہیر کے چہرے کی مشابہت کو نظر انداز کر پاتا۔
”میرا نام ہارون کمال ہے۔ یہ میری مسزہیں شائستہ اور یہ میری بیٹی نایاب۔”
ہارون اب تعارف کا مرحلہ سرانجام دے رہا تھا۔ شائستہ کی نظریں بے یقینی سے شہیر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ پاس پاس کھڑے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی ہارون اور شہیر کے چہرے کی مشابہت کو نظر انداز کر پاتا’ وہ بھی نہیں کر پائی تھی۔
فوری طور پر شہیر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح ردعمل ظاہر کرے۔ الجھی ہوئی نظروں سے ثمر اور ہارون کو دیکھتے ہوئے اس نے ہارون سے ہاتھ ملایا۔
”آپ بھی” شوبز سے منسلک ہیں؟۔”
ہارون نے اس سے پوچھا اور وہ یہ سوال کرنے میں بالکل غلط نہیں تھا۔ شہیر’ ثمر سے زیادہ ہینڈ سم تھا اور اس کے نقوش ثمر کی نسبت زیادہ اٹریکٹو تھے’ وہ اس وقت ایک عام سی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس تھا۔ اس کے باوجود اس کے سراپے کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
شہیر اس ”بھی” کا پس منظر نہیں سمجھا’ ثمر کے چہرے کی مزید پھیکی پڑتی ہوئی رنگت بھی اسے کچھ نہیں سمجھا سکی تھی اس نے آس پاس کھڑے لوگوں پر ایک نظر دوڑائی اور پھر ہارون سے کہا۔
شہیر نے ایک نظر ثمر پر ڈالی دوسری نایاب پر۔ وہ ان دونوں کے تعلق کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
”آپ کے فادر کیا کرتے ہیں؟” شائستہ نے سوال کیا تو شہیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی نظروں نے اسے قدرے بے چین کیا اور اس کے سوال نے اسے حیران۔
”ان کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اوہ … اور آپ کی مدر؟” شائستہ نے اگلے ہی جملے میں دوسرا سوال کیا۔ اس بار ہارون نے ماتھے پر ایک ہلکی سی شکن کے ساتھ شائستہ کو دیکھا جو مکمل طور پر شہیر کی طرف متوجہ تھی۔
”وہ ٹیچر ہیں۔ ایک گورنمنٹ اسکول میں۔”
شہیر نے کہا۔ وہ اب ثمر کو گھور رہا تھا۔ کیونکہ اسے یہ اندازہ ہو گیاتھا کہ وہ جو بھی تھے۔ ثمر کے ہی جاننے والے تھے اور ثمر کے اس کلاس کے جاننے والے کہاں سے آئے تھے۔ یہ اگلا سوال تھا جو بھی تھے۔ ثمر کے ہی جاننے والے تھے اور ثمر کے اس کلاس کے جاننے والے کہاں سے آئے تھے۔ یہ اگلا سوال تھا جو اس کے لیے پریشان کن تھا۔