گھر میں کسی کو بھی ثمر کے کمرشل کی شوٹنگ کا پتہ نہیں تھا۔ صرف ثانیہ اس بارے میں جانتی تھی اور ثمر نے بہت منتوں کے بعد اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ شہیر یا فاطمہ کو اس بارے میں کچھ نہیں بتائے گی۔
ثمر کے ہیئر اسٹائل میں ہونے والی تبدیلی کو شہیر نے بہت دلچسپی سے دیکھا تھا اور اس کی تعریف بھی کی تھی مگر اسے بھی یہ شک نہیں ہوا تھا کہ وہ ہیئر اسٹائل کسی آنے والے کمرشل کا نتیجہ بھی ہو سکتا تھا۔
وہ کمرشل کی ریہرسلز اور شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے جتنا پُرجوش تھا’ بعد میں اتنا ہی خاموش ہو گیا تھا۔ ثانی کو چند دن اس کے رویے پر حیرت ہوئی تھی کہ اس نے ہمیشہ کی طرح اس کے کان کھانے کی کوشش کیوں نہیں کی’ کمرشل کے بارے میں بتابتا کے ‘ مگر پھر اس نے اسے نظر انداز کر دیا۔ لیکن وہ زیادہ دن اسے نظر انداز نہیں کر سکی تھی۔
وہ کمرشل کی شوٹنگ کا پہلا دن تھا۔ ثمر شام کے قریب واپس آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح سب کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد صحن کے تخت پر جا بیٹھا۔
رات کافی گزر گئی’ جب کمرے کے اند کام کرتے کرتے ثانی کو اچانک ثمر کا خیال آیا۔ فاطمہ تب تک سو چکی تھی اور دوسرے کمرے میں شہیر بھی سو چکا تھا۔ کمرے کی صحن میں کھلنے والی کھڑکی سے اسے تخت پر لیٹا ہوا ثمر نظر آیا۔ اپنی کتاب بند کر کے وہ باہر نکل آئی۔
ثمر اپنے دونوں بازو سر کے نیچے رکھے تخت پر سیدھا لیٹا آسمان کو دیکھنے میں مصروف تھا۔ ثانی اس کے پاس آ کر تخت پر بیٹھ گئی۔ ثمر اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ ثانی نے سر اٹھا کر سیاہ آسمان اور اس میں نظر آنے والے ستاروں کو دیکھا پھر ثمر کو دیکھا۔
”سارے تارے گن لیے؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں۔” اس نے اسی طرح آسمان پر نظریں جمائے کہا۔
”کتنے ہیں؟”
”میری گنتی ختم ہو گئی ہے۔” ثمر نے اسی انداز میں کہا۔
”تب تو صرف سو ہی گن سکے ہو گے تم۔” ثانی نے پھر سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
”نہیں۔”
”پھر؟”
”ایک سو ایک ہیں۔” اس نے اسی سنجیدگی سے کہا۔ ثانی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
”تو پھر اب سوجاؤ۔”
”سو جاؤں گا۔” وہ اسی سنجیدگی سے بولا۔
”تم نے مجھے اپنی شوٹنگ کے بارے میں نہیں بتایا؟” ثانی نے پوچھا۔
وہ خاموشی سے آسمان کو دیکھتا رہا۔ ثانی کو اس کا انداز خلاف عادت لگا۔
”کیا بات ہے۔” اس نے قدرے تشویش کے عالم میں ثمر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”کچھ نہیں۔” اس نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
”شوٹنگ ٹھیک نہیں ہوئی؟”
”نہیں۔ شوٹنگ ٹھیک ہوئی ہے۔”
”پھر کیا ہوا ہے؟”
”کچھ نہیں۔”
”تو پھر اس طرح چپ کیوں ہو؟”
”چپ کب ہوں’ باتیں تو کر رہاہوں۔”
”مگر عجیب سی باتیں کر رہے ہو۔”
”تم تو ہمیشہ ہی کہتی ہو کہ میری باتیں عجیب ہیں۔”
وہ چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگی۔
”تم پریشان ہو؟”
اس بار ثمر نے نظریں آسمان سے ہٹا کر اسے دیکھا۔ ”پریشان کیوں ہوں گا؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”یہ تو تم مجھے بتاؤ۔”
وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ثانی کو اب کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ وہ پریشان تھا۔ اس کے برابر تخت پر بیٹھا وہ انگلی کے ناخن سے اپنے انگوٹھے کے ناخن کو کھرچنے لگا۔
”کیا بات ہے ثومی! ” ثانی نے بڑی نرمی کے ساتھ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”میں آج کل بہت عجیب عجیب باتیں سوچتا رہتا ہوں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”کیسی باتیں؟” اس نے ثمر کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”بہت ساری باتیں۔”
”مثلاً؟” وہ کچھ دیر خاموش رہا۔
”میرے جیسے فیملی بیک گراؤنڈ کے ساتھ شوبز میں آگے جانا بہت مشکل کام ہے۔” اس نے بہت مدھم آواز میں کہا۔ ثانی نے بمشکل اس کی آواز سنی۔
”لوگ بہت سے سوال کرتے ہیں۔ میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتا۔” وہ پھر رکا۔ ”یہاں کانٹیکٹس کی ضرورت ہے۔ سورسز کا استعمال آنا چاہیے۔ میرے پاس تو دونوں ہی نہیں ہیں اور فیملی بیک گراؤنڈ تو …” وہ چپ ہو گیا۔ ثانی نے اس کی رنجیدگی کو محسوس کیا۔
”میں اسی لیے تم کو منع کرتی تھی کہ شوبز میں آنے کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔” ثانی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”یہ ہمارے جیسے لوگوں کی فیلڈ نہیں ہے۔ اس کمرشل کو بھی چھوڑ دو۔”
”نہیں۔” اس نے دو ٹوک انداز میں سرہلایا۔ ”میں نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے’ اسی فیلڈ میں کرنا ہے۔ یہ نہیں کر سکوں گا تو کچھ بھی نہیں کروں گا۔”
”تو پھر یہ سب کچھ کیوں سوچ رہے ہو۔ یہ سب کچھ تو ایسے ہی رہے گا۔ بیک گراؤنڈ بھی’ ہمارا اسٹیٹس بھی اور لوگوں کے سوال بھی۔” ثانی نے کندھے اچکائے۔
”میں ان سب چیزوں سے ڈرتا نہیں ہوں’ صرف تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
ثمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”کیا ان بیساکھیوں کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں۔ میرا ٹیلنٹ کچھ بھی نہیں ہے؟۔” اس نے جیسے احتجاج کیا۔
”ٹیلنٹ کو آج کے دور میں پروں کی ضرورت ہوتی ہے یا پیروں کی اور یہ دونوں چیزیں اسے ہم جیسے لوگ نہیں دے سکتے۔” ابھی تو تم نے چند دن ایک کمرشل کے لیے گزارے ہیں اور تم یہ سب کچھ سوچ رہے ہو۔ آگے تو اس سے زیادہ تکلیف وہ رستہ ہے۔”
”جو بھی ہے’ چلنا تو مجھے اسی رستہ پر ہے۔ میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میرا ٹیلنٹ واقعی کچھ نہیں ہے۔”
”اور کتنے دن ہیں اس کمرشل کی شوٹنگ میں؟”
”چار۔”
”اس کے بعد تم اپنی اسٹڈیز پر توجہ دو۔ ایگزامز قریب آ رہے ہیں۔” ثانی نے ایک بار پھر اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔
”تمہیں پتا ہے’ وہ مجھے کتنے پیسے دے رہے ہیں۔” ثمر کو جیسے یک دم یاد آیا۔
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے ۔ تم نے کب بتایا ہے۔” ثانی نے کہا۔
”بیس ہزار۔”
ثانی بے یقینی سے کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”بیس ہزار … واقعی ؟”
”ہاں’ واقعی دے رہے ہیں۔” ثمر نے اسے یقین دلایا۔
”تم کیا کرو گے اتنے پیسوں کا؟” ثانی پر جوش ہوئی۔
”تمہیں دے دوں گا۔” ثمر نے شرارت سے کہا۔
”خیر مجھے تو کبھی نہیں دو گے۔ امی کو دے دینا۔” اسے فوراً فاطمہ کا خیال آیا۔
”تاکہ وہ فوراً جوتوں سے میری تواضع کریں۔” ثمر نے بُرا مانا۔ ”پوچھیں گی نہیں کہ یہ روپے کہاں سے آئے ہیں۔”
”تم کہہ دینا کہ پرائز بانڈ نکلا ہے۔”