اس بات میں کتنی گہرائی اور درد تھا۔ اگر آج میں سوچوں تویہ سو فیصد درست ثابت ہوتی ہے۔بڑی آنٹی واحد شخصیت تھیں جنہوں نے اپنے بڑوں کی باتوں کو ناصرف اپنایا بلکہ اپنے بھانجے بھانجیوں میں بھی ، اُن خصوصیات کو پرونے کی کوشش کی۔ ”بیٹھ کر پانی پی… تین سانسوں میں… دوپٹا کہاں ہے تیرا؟…نماز کا وقت ہوگیا…سیدھے ہاتھ سے پکڑو۔ شادی میں کوئی لڑکی ساڑھی نہیں باندھے گی، صرف عورتیں …عید کے دن کالے رنگ کا لباس نہیں ہونا چاہیے …لڑکیاں زیادہ چھوٹے بال نہیں کٹواتیں …” یہ ٹوکم ٹاکی اس قدر بڑھ گئی کہ اب بھانجیوں کا خاص طور سے بڑی آنٹی سے جی کترانے لگتا۔ جوانی چیز ہی ایسی ہوتی ہے، برائی سے روکنے والا خود ہی برا لگنا شروع ہوجاتا ہے۔دراصل یہ وہ باتیں تھیں جو ماؤں کی طرف سے بچیوں کو بتانی چاہیے ٔ تھیں، لیکن انہیں اپنے بناؤ سنگھار اور رشتہ داریاں نبھانے سے فرصت ملتی، تب ناں ۔
ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا ، کہ ڈیڈی جی روزہ کھولنے کی نیت سے مسجد پہنچے۔ عین دوران ِ سجدہ وہ اللہ میاں کو پیارے ہوگئے ۔ تمام رشتہ دار دور دراز علاقوں سے رشید میاں کی وفات پر بھاگے چلے آئے اور بہنوں کو بے پناہ دلاسے دیتے رہے۔ سب لوگوں کی نگاہوں کا مرکز صرف اور صرف شگفتہ ناز تھیں ، جن کا اب کوئی والی وارث نہ تھا۔ اشک بار آنکھوں سے وہ بار بار اپنے بھانجے بھانجیوں کو روک کر پوچھتیں ”میں تو اپنے ماں باپ کی بخشش کے لیے قرآن پاک پڑھتی ہوں ، لیکن میری تو کوئی اولاد نہیں ہے ، تم سب میری بخشش کے لیے بھی قرآن پڑھا کروگے نا ؟” بچے بھی یقین دلانے کے لیے مثبت جواب دے ڈالتے۔
تقدیر بھی کیا کیا کھیل دکھاتی ہے۔ پرویز میاں نے گھر کا بڑا داماد ہونے کی حیثیت سے بڑی آنٹی کو کرائے کا مکان خالی کرکے اپنے نئے گھر میں اوپر کا کمرا دینے کا فیصلہ سنا ڈالاجسے تمام بہنوں نے موقع کی نزاکت جانتے ہوئے قبول کرلیا۔ اب ظاہر ہے کہ ایک انسان اگر آپ کے گھر میں رہے گا ،،وہ گھر کا فرد ہی کہلائے گا ، کیا یہ ممکن ہوتا کہ بچوں کے شادی بیاہ کے معاملات طے پا جائیں اور اس بہن سے مشورہ بھی نہ لیا جائے، جس نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ اُن بچوں کی پرورش میں گزارا ہو؟ نہیں نا۔ شہناز بی بی کی منجھلی بیٹی آسیہ کو کسی چار بچوں کے باپ اور فیکٹریوں کے مالک الیاس سے عشق ہو گیا۔ پہلے تو ماں باپ نے اس آدمی کے نامہذب انداز سے رشتہ بھجوانے کی خوب مخالفت کی، لیکن بیٹی کو کھو بیٹھنے کے ڈر سے کچھ ہی عرصہ بعد اس منحوس رشتہ کے لیے حامی بھر لی۔ اب یہ بات کسی طرح بڑی آنٹی کو ہضم نہ ہوئی تو انہوں نے اپنے اصولوں کے خلاف نہ جاتے ہوئے، اس نکاح میں شرکت سے معذرت کرڈالی۔
معلوم ہوا کہ چالاک الیاس تو نکاح کے بعد آسیہ کو ماں باپ کے در پر ہی چھوڑ گیا کہ نہ تو وہ پہلی بیوی کے ساتھ اسے رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اکیلا گھر دلائے گا ، حفاظت و امانت کے طور پر آسیہ کو والدین کے ساتھ ہی رہنا پڑے گا اور وہ خود ملنے آتا جاتا رہے گا۔ بڑی آنٹی نے سختی سے تمام گھر والوں کو تنبیہ کردی کہ الیاس کبھی اُن کے سامنے آسیہ سے ملنے نہ آئے کیوں کہ جس بے تُکے رشتے کو انہوں نے دل سے قبول ہی نہیں کیا، اُسے اپنے سامنے پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔ بات بھی سولہ آنے درست تھی ۔ اپنے سامنے پلی بڑھی بچی کو کسی ادھیڑ عمر اور کم پڑھے لکھے آدمی کی بیوی کے طور پر دیکھنا ان کو ہر گز قبول نہ تھا،لیکن یہ کمبخت جوانی کی محبت بھی ناں ہر رشتے کی تمیز بھُلا دیتی ہے۔ وہ آسیہ جو پہلے بڑی آنٹی بڑی آنٹی کہتے تھکتی نہ تھی، اب ان کے خلاف دل میں عداوت کے جذبات رکھنے لگی۔ الیاس بھی بیوی پہ نظر رکھنے کے لیے دھڑلے سے کسی وقت بھی منہ اُٹھائے گھر آدھمکتا کہ ”پاس سے گزر رہا تھا سوچا آسیہ سے ملتا چلوں۔” یہ تو صرف بہانہ تھا ، اصل مقصد تو انکوائری تھا۔ اکثر دوسری شادی یا کسی کم عمر سے شادی میں بندھنے کے بعد آدمی شوہر کم جاسوس زیادہ بن جاتا ہے۔ وہی حال الیاس کا بھی ہوچلا تھا۔آخرکار جو بھی تھا ، اس گھر کادامادِ اوّل تھا ۔ شہناز بیچاری بڑی آنٹی کو کچھ کہنے جوگی نہ ہی الیاس کو گھر آنے سے منع کرسکتی تھی۔
پرہونی کو کون ٹال سکتا ہے ؟ایک شام شگفتہ ناز بوتیک سے جلدی فارغ ہوکر گھر واپس آگئیں۔ کچھ ہی لمحے پہلے آسیہ اپنا کمرا نہ ہونے کی بنا پر، الیاس کوبڑی آنٹی کے کمرے میں لے گئی۔ شہناز نے پہلے تو اپنی بہن کو باتوں میں لگائے رکھا پر جب اوپر کمرے سے کھٹ پٹ کی آوازیں سنائی دیں ،تو بڑی آنٹی نے اوپر جانے کے لیے سیڑھیوں پر پیر ہی رکھا ہوگا کہ شہناز نے اپنی بہن کا ہاتھ تھام لیا اور اوپر جانے سے روکا۔ آسیہ کے ہنسی مذاق کی آوازوں نے یہ بات ان پر واضح کر ڈالی کہ اوپر کون ہوسکتا ہے۔ بڑی آنٹی نے آو ٔ دیکھا نہ تاؤ زور زور سے غصے میں چیخنا شروع کردیاتاکہ الیاس تک ان کا غصہ پہنچے اور وہ گھر سے فوراََ دفع ہوجائے۔ ایک نیک پارسا عورت کے کمرے میں یوں کسی غیر مرد کا داخل ہونا واقعی معیوب تھا۔ اور وہ بھی ایسا شخص جسے انہوں نے دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا۔ اب شہناز کی سمجھ میں نہ آئے کہ بیٹی کا ساتھ دے یا اپنی بہن کا ۔بڑی آنٹی کے منہ میں جو بھی اول فول آرہا تھا ، بولتی گئیں۔ اب شہناز نے باجی کی انگلیوں پر اپنی گرفت ذرا مضبوط کرلی ۔ایک چیخ کے ساتھ شگفتہ ناز نے رونا شروع کردیا۔ ”آہ !میرا ہاتھ گیا، میرا ہاتھ ٹوٹ گیا۔” وہ تو پہلے ہی دھان پان سی تھیں ۔ساری زندگی کی محنت ، غم وبیماری نے جسم سے ساری قوت تو چھین ہی رکھی تھی کہ ذرا سادباؤ پڑا تو ہاتھ میں جھٹکا آگیا۔ بلقیس کو فون کیا کہ وہ فوراََ آکر بڑی آنٹی کو اپنی طرف لے جائے ۔ بلقیس تڑپ کر بھاگی تو پر یہ نہ جانتی تھی کہ اب بڑی بہن کو رکھنے کی ذمہ داری بھی اس کی ہوگی۔
معاملہ جب سامنے رکھا گیا، تو بلقیس کو شہنازہی کی غلطی نظر آئی کہ آخر کیوں الیاس باجی کی موجودگی میں گھر آیا۔وہ بھی بہن کو لعن طعن کیے بڑی باجی کو گھر لے آئی۔شہناز بیچاری نے ایک اچھی ماں کا کردار نبھاتے بہن کا رشتہ گنوا دیا۔کرتی بھی کیا ؟ داماد کے آگے عزت جو رکھنی تھی۔ جو ہوا سو ہوا، اب بڑی آنٹی نے بلقیس کے ڈیفنس میں موجود عالیشان بنگلے میں رہنا شروع کردیا ۔نیچے کے گیسٹ روم میں اپنا سامان منگوا کر مکمل طور پر شفٹ ہوگئیں۔ بلقیس کے بھی چار بچے تھے ۔سونے کا نوالہ لیے پیدا ہوئی یہ اولاد نہ تو ماں باپ کو خاطر میں لاتی اور نہ کسی غیر کو ۔ ہر کوئی مغربی طرز کے لائف اسٹائل اپنا ئے، پرائیویسی کی دنیا میں جیتا تھا ۔ بڑی بیٹی فائزہ کچھ حد تک سمجھ دار تو تھی پر اسے بھی اپنی تنہائی میں کسی دوسرے کا مخل ہونا، منظور نہ تھا۔
بلقیس کے تمام افراد خانہ نے بڑی آنٹی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا پر جس کی بنا پر بڑی آنٹی اس در پہ تھیں اسی نے ان کا یہاں ہمیشہ کے لیے رکنا منظور نہ کیا تھا اور وہ تھی خود بلقیس۔
خدا نے بلقیس کو دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا تھا ، اگر کوئی کمی تھی تو وہ تھی شوہر کے پیار و عزت کی۔ کلیم میاں نے جب سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا، اُن کے جائز وناجائز تعلقات کے قصوں سے اکثر خود اُن کے دوست و احباب ، بلقیس کے گوش گزار کردیا کرتے تھے۔ تبھی میاں بیوی میں مسلسل ناچاقی ، تُو تُو میں میں جاری رہتی جس پر بلقیس جھولیاں اٹھا کر اپنے شوہر کو بددعائیں دیا کرتی۔ ظاہر ہے جس عورت نے اپنی پوری زندگی ایک شخص کے نام کردی اگر وہ ہی اسے پیار نہ دے اور اِدھر اُدھر منہ مارتا پھرے ، تو عورت تڑپ کر بدعا ہی دے سکتی ہے۔بلقیس کا دماغی تواز ن کچھ خراب سا رہنے لگا تھا۔ دیکھنے میں تو وہ نارمل تھی پر ڈاکٹر نے اسے شیزوفزینیا تشخیص کردیا تھا۔ اب جب بھی بلقیس کو غصہ آتا ،تو کلیم میاں کے سوا بچوں، بڑی آنٹی اور گھر کے ملازمین سب کو بھلا برا سننا پڑتا ۔
ایک رات تو بلقیس نے بڑی آنٹی کو وہ کھری کھوٹی سنائی کہ بیچاری رات کے اندھیرے میں ، چاند کی روشنی تلے ، لکڑی کے بنچ پر بیٹھی ہچکیوں سے رونے لگیں۔ تمام لوگ ٹی وی دیکھنے میں مشغول تھے۔ فائزہ نے جب اپنے کمر ے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھا،تو اس سے رہا نہ گیا۔ اُسے یقین تھا کہ ماں اور خالہ میں کوئی تلخ کلامی ہوئی ہے۔ سو وہ باہر آئی۔ ”کیا ہوا آنٹی”؟ فائزہ کا بس اتنا پوچھنا تھا کہ بڑی آنٹی نے اس گلے سے لگا لیا بچوں کی طرح روتے بولیں: ”میرا کوئی گھر نہیں ہے فائزہ۔میرا کوئی گھر نہیں ہے۔” دلاسا دیتی فائزہ خود روہانسی ہوگئی۔” کون کہتا ہے کہ آپ کا گھر نہیں ہے، یہ ہے آپ کا گھر ہے یہاں سے آپ کبھی نہیں جائیں گی ، جب تک آپ کا دل کرے یہاں رہیں۔ ”
ایسا ایک بار نہ ہوا ، اکثر بڑی آنٹی عشاء کی نماز ادا کرتے کرتے جائے نماز پر ہی سو جایا کرتی تھیں۔ شاید وہ خدا سے عزت و وقار کے ساتھ رہنے کا ایک ایسا ٹھکانہ مانگ رہی تھیں جس میں تنہا دال روٹی کھاکر زندگی گزار سکیں کسی کے در پر مفت رہنا اور ان کے طعنے یا جلی کٹی سننا ، اب ان کی برداشت سے باہر ہورہاتھا۔ خوددار عورت کی طرح عمر گزاری تھی تو مرنا بھی وقار کے ساتھ چاہتی تھیں۔
تقریباً سال گزرا ہوگا کہ کسی شادی کی تقریب کے دوران بڑی آنٹی کو کسی پتھر سے ٹھوکر لگنے کے باعث چوٹ لگی اور پیر کا انگوٹھا نیلا ہوگیا ۔ بیچاری پہلے ہی ذیابیطسکی مریضہ تھیں۔ سب نے سوچا ظاہری نیل ہے وقت گزرنے کے ساتھ ٹھیک ہوجائے گا ۔پر ہائے ری قسمت، زخم بڑھتے بڑھتے ناسور بن گیا۔بلقیس کے ہاں اس بات کا آرام تھا کہ فائزہ ،جس کی ابھی ابھی کسی ملٹی نیشنل فرم میں ملازمت لگی تھی، آفس جاتے جاتے بڑی آنٹی کو پک اینڈ ڈراپ کر۔اب بسوں اور ویگنوں میں دھکے کھانے کی عمر بھی تو نہیں رہی تھی ۔سب کہتے ” باجی نوکری چھوڑ دو ، اب آپ بیمار رہنے لگی ہو۔” لیکن کہاں انہیں تو اپنی عزت اور غیرت جان سے زیادہ عزیز تھی ۔ کہتیں” ساری زندگی اپنے ہاتھ سے کما کر کھایا ہے ، محتاجی سے بہتر ہے اللہ مجھے اپنے پاس ہی بلا لے۔” پاؤں میں درد برداشت کرتی ،سسکتی ،کراہتی اپنے کام پرچلی جاتی تھیں۔ ایک روز بلقیس کی نودولتن موٹی پڑوسن ، نئے گھر کے مکینوں کی سن گن لینے آپہنچی۔جب بلقیس نے بہن کا تعارف کرایا کہ یہ میری بڑی باجی ہیں ،تو اس وقت مل ملا اپنے گھر چلی گئی لیکن بعد میں طنزیہ کسی بات پر جملہ کس گئی ”اچھا! وہ جو سوکھی سی ہیں وہ آپ کی بہن ہیں۔” یہ محلے والے بھی اپنا منہ بند نہیں رکھتے، نہ جانے کیوں ان کی نظریں دوسروں کے گھر تاک جھانک کرنے سے باز نہیں آسکتیں۔ وہ خود حرام کھا کھا کر سانڈ بن چکی تھی ،تو کسی یتیم ،مسکین اور حق حلال کی روزی کما ، روکھی سوکھی کھانے والے کو اس طرح طنز کرنا ،کہاں کا انصاف ہے۔ بلقیس کا دماغ تو یہ سن کر دہل گیا۔ سارا غصہ باجی پر نکلا ”کہ تم کیا حلیہ بناکر پھرتی ہو گھر میں ،اونچی سوسائٹی کے لوگ اس طرح لان کے ملگجے کپڑے گھر میں بھی نہیں پہنتے۔ کیا کروں میں تمہارا ؟کلف ہی لگوا لیا کرو ان پر، وہ بھی تمہیں کاٹتی ہے۔ بیڑا غرق ہو شہناز باجی تمہارا۔میری بے عزتی کروانے بڑی باجی کو یہاں بھیج دیا۔” نہ جانے اور کیا کیا مغلظاتبڑی آنٹی کو سننا پڑتی تھیں۔کلیم میاں اور بچے اکثر بلقیس کو سمجھاتے کہ اپنی بہن کے بڑے پن کا ہی کچھ لحاظ کرلیا کرو۔ ناجی، بلقیس پر جب شیزوفزینیا کا جن سوار ہوتا ، وہ کسی کی پروا نہ کرتی۔اکثر جمعہ، ہفتہ ، اتوار کے دن شگفتہ ناز نے شمع کی طرف گزارنے شروع کردیے تھے تاکہ بلقیس کی تلخ کلامی سننے سے بچاجاسکے۔
ویسے تو شمع غریب تھی ، لیکن چار کمروں کے مکان میں رہنے والوں کا اخلاق اور دل بہت بڑا تھا۔صرف اسی گھر میں شگفتہ ناز کو اپنے بڑے ہونے کا احساس ہوتا تھا۔پیار تو بلقیس سے بھی خوب تھا ، پر بیچاری میاں کی بے وفائی اور سسرالیوں کی نفرت کی ستائی تھی۔بے قصور سمجھ کر کبھی اس کی باتوں کو دل پر نہ لگاتی تھیں۔
ایک دن کلیم میاں نے کسی بات پر فائزہ کو ناشتے کی ٹیبل پر بُری طرح جھڑک دیا،نتیجتاً فائزہ نے اپنا کمرا بند کرکے زور زور سے رونا شروع کردیا ۔ بڑی آنٹی سے برداشت نہ ہو ا۔ کلیم میاں تو آفس چلے گئے۔ دیر تو بڑی آنٹی کو بھی ہورہی تھی پر انہوں نے فائزہ کے پاس جانا مناسب سمجھا ، خواہ انہیں بعد میں بسوں میں دھکے کھاتے جانا پڑتا۔بڑی آنٹی نے دروازہ کھلوا کر ماں کی طرح فائزہ کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ فائزہ تو پہلے ہی رو رہی تھی کہ ساتھ بڑی آنٹی نے بھی ہچکیوں سے رونا شروع کردیا ۔ شاید اولاد نہ ہونے کا غم تھا جو کسی بچے کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھ پاتیں۔
اپنی بہنوں کی بڑی بیٹیوں کی شادی کی فکر ہر وقت لاحق رہنے لگی تھی کیوں کہ انہیں یہ منظور نہ تھا کہ بڑی بیٹیاں ان کی طرح کنواری بیٹھی رہیں۔فائزہ چوں کہ جوان تھی اور جہاں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں ۔ انہیں دنوں فائزہ بھی کسی لڑکے کے ساتھ محبت میں کر بیٹھی اور گھر والوں سے چھپ کر راتوں کو ٹیلیفون پر باتیں چلتی رہتیں۔ اس لیے وہ اپنے کمرے میں سونے کے بجائے گیسٹ روم میں بڑی آنٹی کے ساتھ ہی سونا شروع ہوگئی۔گھر والوں نے کچھ عرصہ تو برداشت کیا پر ایک دن بلقیس نے کلیم میاں کا نام لگا کر فائزہ کو بڑی آنٹی کے ساتھ سونے سے صرف اس بنا پر منع کیا کہ کیا پتا باجی کے اثرات تم پر آجائیں اور تمہاری بھی شادی نہ ہوسکے۔دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے پر ہمارے معاشرے کے فرسودہ اذہان ، ابھی تک گلی سڑی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ اگر شگفتہ ناز کو اس بات کا علم ہوجاتا، تو کتنا دُکھ ہوتا کہ جس نے اپنی زندگی اور خوشیوں کی قربانی دے کر ، باقی بہنوں کاماں بن کر گھر بسایا ، وہ آج ان کے لیے سراپۂ زحمت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
تکلیف روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ اب شگفتہ ناز کا پاؤں سوجنا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اگر شوگر کنٹرول نہ ہوئی تو یہ زخم کبھی ٹھیک نہ ہوپائے گا۔ میٹھے سے تو ویسے کوئی خاص رغبتنہ تھی صرف روٹی سالن اور چائے پی کر زندگی گزری تھی اب کیا وہ بھی ختم کردیتیں۔ درد کی وجہ سے رات بھر تڑپتی رہتیں۔ کبھی بلقیس پیر دبا دیتی تو کبھی مالش والی بلواکر بہن کا مساج کروادیتی، تو کبھی بالکل نظر انداز کرکے کہہ دیتی کہ ناٹک کرتی ہیں باجی، رونے دو بس ہمدردیاں لینے کی عادت ہے۔تاہم ایک دن شہناز معافی تلافی کرکے باجی کو اپنے ساتھ لے گئی۔
تقریباًدو سال بعد سب کا ماتھا ٹھنکا جب بڑی آنٹی کا پورا پیر نیلا کچ ہو گیا، یوں لگتا تھا جیسے سانپ نے ڈسا ہو اور سار ا زہر پیر میں پھیل گیا ہو۔معلوم ہوا کہ بڑی آنٹی کو گینگرین جیسا خطرناک مرض لاحق ہوچکا ہے اور اب پیر کاٹنا پڑے گا۔ یہ سن کر بہنوں کے ہوش اُڑ گئے کہ اب باجی کو کیا کہیں گے کیسے راضی کریں گے؟ کلیم میاں ذرا پڑھے لکھے اور دانا آدمی تھے۔ انہوں نے باجی کو ہسپتال داخل کروانے کا مشورہ دیا۔ انہیں صرف یہ بتایا گیا کہ وہاں علاج ہونا ہے ۔ایک معمولی سا آپریشن ہوگا اور کچھ نہیں۔ پر بہنوں کی بیوقوفی کہ پیر کٹوانے پر راضی نہ تھیں کہ کسی طرح دم دعا سے یا حکمت سے ہی آرام آجائے باجی کا پیر نہ کٹوانا پڑے۔ بہنوں نے گٹھ جوڑ کرکے عباد میاں کو اپنے ساتھ ملایا اور لوگوں کے بتائے ہر مزار ، پیر ، بزرگ کی درگاہ پر باجی کو لیے پہنچ جاتیں۔ پر ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” کے مصداق آرام نہ آیا۔ نوکری تو پہلے ہی چلی گئی تھی، پر شگفتہ ناز کی مالکن نے ہمدردی کرتے ،تاحیات خدمت کے عوض ماہانہ تنخواہ بند نہ کی اور ہر ماہ رقم شگفتہ ناز کو ملتی رہی ۔ ہڈیوں کے ڈھانچے کو پکڑ پکڑ ایک بہن ہومیو پیتھک لے جاتی، تو دوسری کسی حکیم کے اور تیسری کسی پیر کے پاس۔ایک تماشا بن چکی تھیں ناز۔ تین مہینے بعد ڈاکٹر نے وارننگ دے دی کہ پیر کاٹنے کے سو ا اب کوئی چارہ نہیں۔شہناز نے سوچا کیوں نہ آخری کوشش کی جائے پیر تو کٹنا ہی کٹنا ہے۔ایک محلے والی کے بتانے پر کسی ٹیکے والے حکیم کے پاس بڑی آنٹی کو لے جایا گیا۔ سنا تھا اس نے ٹیکے لگاکر ایسے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا تھا۔ اب باری بڑی آنٹی کی تھی۔ دور کہیں شہر اوکاڑہ میں وہ حکیم دکان جمائے بیٹھا تھا۔ ٹیکا لگنے کا اثر ایسا ہوا کہ پیر چھوڑ پوری ٹانگ نیلی ہوگئی۔ خدا کی پناہ! یہ کیا ہورہا تھا اس مظلوم عورت کے ساتھ اور وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں یا پھر بہنیں بھی کسی معجزے کے انتظار میں تھیں۔
جب کیس بگڑا تو کلیم میاں کے بھی چھکے چھوٹ گئے۔فوراً سے پہلے بڑی آنٹی کو نامی گرامی سرکاری ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ سب کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے۔ آسیہ بڑی آنٹی کی نگرانی کے لیے ہرپل ان کے ساتھ مقرر تھی۔ آپریشن کامیاب ہوا اور ٹانگ گھٹنے سے الگ کردی گئی۔ شگفتہ ناز ہوش میں کہاں تھیں جو انہیں اپنے جسم کے نامکمل ہونے کا احساس ہوتا۔ لوگ ملنے آتے رہے ، تمام بہن بہنویوں اور ان کی مالکن نے ہسپتال کا خرچہ مل جل کر اٹھایا۔ دو دن بعد ہسپتال سے اطلاع موصول ہوئی کہ بڑی آنٹی کی ٹانگ مزید کاٹنی پڑے گی۔ کیوں کہ زہر مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یہ سن کر بہنوں نے بین ڈالا خوب دعائیں کی ۔” یا االلہ ہماری بہن کو صحت دے۔” پر شاید اللہ نے شگفتہناز کی جائے نمازپر کی گئی سجدہ رو دعائیں قبول کرلی تھیں۔ دوسرے آپریشن کے دوران ہی بڑی آنٹی اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ ان کا جسد خاکی گھر لاکر بوسیدہ سی چارپائی پرایک کمرے میں رکھ دیا گیا۔ بہنوں کا رو رو کر بُرا حال تھا بچے اپنی ماؤں کو چپ کروا رہے تھے۔ مہمان تعزیت کے لیے دور دور سے آئے بیٹھے تھے ۔بہنوں کی نظروں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت تھی جیسے کہہ رہی ہوں” تم نے مارا ہے بڑی باجی کو… تم نے۔”
جنازہ اٹھایا جانے والا تھا کہ آسیہ نے آواز لگا کر فائزہ کو کہا:” جاو ٔ بڑی آنٹی کا آخری بار دیدار کر لو ، جنازہ جانے کا وقت ہوگیا ہے۔” یہ سن کر فائزہ اٹھی اور میت کے پاس آئی۔ جیسے ہی چہرے پہ نظر گئی ، ان کے ماتھے پر ایک کیڑا سا رینگتا دکھائی دیا۔ پوچھنے پر آسیہ نے بتایا کہ نہ جانے ہسپتال میں بڑی آنٹی کے سر میں کیسے جوئیں پڑ گئیں۔ میں نے بہت صفائی کی ،پروہ ختم نہ ہوئیں ۔ یہ کہہ کر اس نے رینگتے کیڑے کو سر سے ہٹادیا۔ اے خدا !یہ کیسا انصاف تھا کہ جس عورت نے ہمیشہ گندگی اور پلیدی سے نفرت کی، کسی مرد کی میلی نظر سے بھی اپنا دامن پاک رکھا وہ عور ت جو تقویٰ اور پرہیزگاری کا پیکر تھی۔ آج کس حال میں مرن سیج پر لیٹی ہے۔اس لمحیفائزہ کی آنکھیں ٹھٹھر گئیں اور اس نے آگے بڑھ کر سفید چادر سے بڑی آنٹی کا چہرہ ڈھانپ دیا۔ عورتوں نے زار وقطار رونا شروع کردیا پر فائزہ کی آنکھیں بالکل خشک تھیں۔ رات کا وقت تھا ، جیسے ہی جنازہ اُٹھایا گیا، کلمۂ شہادت بلند ہوا۔ اہل علاقہ کی بتی چلی گئی۔ کسی برگزیدہ عورت کی پیچھے سے آواز آئی۔ ”نیک عورتوں کے اللہ پردے ڈھک لیتا ہے۔”یہ سُن کر بہنیں مزید روئیں پر فائزہ نے ایک نظر اپنی ماں اور خالاو ٔں پر ڈالی اور جنازہ جاتے دیکھ خشک آنکھوں سے دل میں بولی۔ ”جائیں بڑی آنٹی جائیں اللہ کے گھر جائیں، یہ دنیا آپ کے قابل نہیں۔مجھے ہمیشہ فخر رہے گا کہ میں آپ جیسی پاک باز خاتون کی بھانجی ہوں۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے ۔”