کیا ہوا شانزے؟ یہ آواز کیسی تھی؟
ساتھ والے کمرے سے آئی لالہ کی آواز شانزے کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ جو خود حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، اچانک ہوش میں آئی۔ اُسے چند لمحے پہلے دیکھا جانے والا خواب یاد آگیا۔
”شانزے؟” لالہ کی آواز دوبارہ سنائی دی تو وہ فوراً بولی:
”کچھ نہیں لالہ! میری قمیص نیچے گر گئی تھی۔”
”قمیص گرنے کی آواز کچھ زیادہ نہیں تھی؟” لالہ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
”جی لالہ! قمیص کے اندر میں بھی تھی۔” شانزے نے زمین سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ لالہ نے ہنستے ہوئے اسے تھپکی دی اور مسکراتے ہوئے بولے:
”شکر ہے کہ تم خواب میں ہی پولو کھیلتی ہو ورنہ نہ جانے کتنی بار چوٹ لگتی۔”
”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔” شانزے نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تو لالہ پھر ہنس دیے۔
”ویسے لالہ! کیا تاریخ میں کبھی لڑکیوں نے یہ کھیل کھیلا ہوگا؟” شانزے نے معصومیت سے پوچھا۔
”بھئی! میرے خیال میں تو نہیں، لیکن پھر بھی تم یہ بات بابا سے پوچھنا۔”
”بابا سے؟ ” شانزے ہچکچائی۔
”ہاں بھئی! اس بہانے تم اس کھیل کی تاریخ بھی جان لوگی۔” لالہ کے کہنے کی دیر تھی، شانزے فوراً اٹھی اور بال سمیٹتی ہوئی بابا کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
…٭…
”وہ کیا خواہش تھی بابا؟”شانزے ابھی تک نیت قبول حیات کے اس انعام میں الجھی ہوئی تھی جو ماس جنالی بنانے پر گلگت و بلتستان کی ساری عوام کو دیا گیا تھا۔
”بھئی بتاتا ہوں۔ پہلے اپنی ماں سے میرا ناشتا تو لے آئو۔”
”جی بابا!” شانزے اٹھی اور تھوڑی ہی دیر میں بھاپ سے تیار کی گئی ٹراؤٹ مچھلی بابا کے سامنے تھی۔
”تم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ مچھلی اس علاقے بلکہ اس براعظم میں بھی نہیں ہوتی تھی، پھر یہ یہاں کیسے آگئی؟”
”بابا اس میں کیا مشکل ہے؟ کسی اور دریا سے آگئی ہوگی۔” شانزے اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔ اسے بس اپنے سوال کا جواب چاہیے تھا۔
”لو بھلا اتنی بلندی پر کون سے دریا آپس میں ملتے ہیں پھر کسی اور ملک کا کوئی دریا کیسے پاکستانی دریائوں سے ملے گا؟ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی اور ملک سے یہ مچھلی منگوا کر یہاں کی جھیلوں میں ڈالی گئی ہو۔”
”کسی اور ملک سے…؟ مگر یہ تو ٹھنڈے پانی میں رہتی ہے اور ٹھنڈا پانی کن کن ملکوں میں زیادہ ہے؟” شانزے سوچ میں پڑ گئی۔
”ارے ارے! کہیں یہ اس انعام کا نتیجہ تو نہیں جو نیت قبول حیات نے مانگا تھا؟” وہ اچانک چونکی اور بابا مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلانے لگے۔ شانزے نے اپنی سہیلیوں کو بھی مزے لے کر یہ بات بتائی کہ پولو یا چوگان کا آغاز کیسے ہوا اور انعام میں یہاں کے حاکم نے کس طرح برطانوی افسر سے ٹرائوٹ مچھلی کی فرمائش کی۔ اس کی فرمائش پوری کی گئی۔ آج بلتستان کے ضلع شندور کے اس حاکم کی وجہ سے نہ صرف پولو پورے ملک میں کھیلی جاتی ہے بلکہ ٹرائوٹ مچھلی بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔
…٭…
پاکستان کا حسین ترین علاقہ یعنی گلگت و بلتستان کا خطہ لوک کہانیوں سے بھر ا پڑا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو ایسی تمام شخصیات کے قصے سناتے ہیں جن کو جانے بغیر اس خطے کا تعارف مکمل نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ہر لوک کہانی کسی نہ کسی شخصیت سے جڑی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا محور کوئی عمارت، میدان، علاقہ ہی کیوں نہ ہو مگر اس علاقے کی فتح اور میدان یا عمارت کی تعمیر کے پیچھے بھی کسی نہ کسی شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں ضلع غذِر کے ایک حاکم کا تذکرہ ہے جس نے اپنے جد ِامجد علی شیر انچن کے نقش قدم پر چل کرلگ بھگ ایک صدی قبل1935ء میں ”ماس جنالی” بنوایا۔ ماس کے معنی ہیں چاند جبکہ جنالی کھلے میدان کو کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے میدان کی تعمیر کا قصہ ہے جہاںچاند کی روشنی میں چوگان کھیلا جاتا تھا۔ اسے بنانے پر حاکمِ غذِر کو برطانوی حکومت کی جانب سے بڑے انعام و اکرام کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اپنی ذات سے زیادہ عوامی فلاح کو مقدم رکھا۔