بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔ انھیں یہ سوٹ سلوانے کے لیے اپنے درزی کو دینے جانا تھا۔اتنے سارے خوب صورت اور سٹائلش سوٹ سامنے ہونے کے باوجود ان کا دل خوش نہیں تھا۔ اس کی وجہ مشہور برانڈ کا وہ جوڑا تھا جو پچھلے ہفتے وہ آئوٹ لیٹ پر دیکھ کر آئی تھیں ۔اس وقت کسی وجہ سے بیگم مہرین وہ جوڑا نہ خرید سکیں۔ دو دن بعد جب وہ جوڑا لینے متعلقہ آئوٹ لیٹ پر گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو بِک چکا ہے ۔ یہ برانڈ ڈیزائن محدود پیمانے پر بناتا تھا ۔ ایک دفعہ جو ڈیزائن ختم ہو جاتا پھر دوبارہ وہ نہیں بنایا جاتا۔
بیگم مہرین کو وہ جوڑااتنا پسند آیا کہ وہ اپنے شہر میں اس برانڈ کے ہر آئوٹ لیٹ سے معلوم کرنے گئیں مگر وہ کہیں پر دستیاب نہیں تھا ۔ وہ جوڑا ان کے دل کو اتنا بھایاتھا کہ اس کا نہ ملنا کچھ اس طرح پھانس بن کر ان کے دل میں چبھا کہ سامنے رکھے پچاس ساٹھ ہزار کے جوڑے بھی ان کو کوئی خوشی نہیں دے پائے۔ یہ سب بھی اُنھوں نے اپنی پسند سے خریدے تھے اور ہر ایک کی قیمت پانچ سے دس ہزار کے درمیان تھی۔وہ ابھی تک اسی ایک کے غم میں مبتلا تھیں۔ حالاں کہ کل ان کے شوہر مظہر نے اس بات پر ان کی اچھی خاصی کلاس لی تھی۔
ہوا یوں کہ مظہر صاحب دفتر سے آئے تو بیگم مہرین اُداس اور دل گرفتہ سی بیٹھی تھیں۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ اُنہوں نے اپنا کوٹ ہینگر میں لٹکایا۔
’’ کچھ نہیں۔ آپ فریش ہو کر چینج کر لیں میں چائے لگواتی ہوں۔‘‘ وہ اُٹھ کر کچن کی جانب چلی آئیں جہاں ان کی ملازمہ چائے اور دیگر لوازمات کی تیاری میں مصروف تھی۔
’’ثریا ! دس منٹ تک چائے باہر لان میں لگادینا۔‘‘اُنہوں نے اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر بائیں کندھے پر ڈالا۔
’’ جی بیگم صاحبہ!‘‘ثریا مؤدبانہ لہجے میں بولی۔
موسم بہت خوش گوار تھا ۔ اسی لیے اُنہوں نے چائے لان میں پینے کو ترجیح دی تھی ۔ڈیفنس میں چار کنال پر بنا ان کا یہ خوب صورت گھر دور سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتا تھا۔گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی یوں لگتا جیسے انسان کسی پرستان میں آگیا ہو۔گیٹ کے ساتھ دائیں جانب دور تک وسیع و عریض لان میں امپورٹڈ گھاس کا سبز فرش بچھا ہوا تھا جس پر رکھی ہوئی سفید لان ٹیبل اور چیئرز آنکھوں کو بہت بھلی لگتی تھیں۔ لان کے ایک طرف خوب صورت پھولوں کی باڑیں تھیں اور دوسری طرف لاتعداد گملے جن میں اُگے ہوئے رنگ بہ رنگے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ سامنے وسیع و عریض کار پورچ تھا ۔ لائونج سے اُوپر جاتی سیڑھیاں کسی حسینہ کی بل کھاتی کمر کی طرح دکھتی تھیں۔لائونج سے لے کر کچن تک پورے گھر میں ہر چیز میں نفاست اور امارت کا عکس نظر آتا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’اب بتائیے بیگم صاحبہ!آپ کو کیا ٹینشن ہے؟‘‘ مظہر صاحب نے لان چیئر پر آرام دہ انداز میں بیٹھ کر چائے کا کپ پکڑ لیا۔
مہرین بیگم منہ بسور کر خاموش رہیں۔ مظہر صاحب نے ان کی طرف غور سے دیکھا ۔ انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کی بیٹیاں او لیول اور اے لیول کی اسٹوڈنٹس ہیں۔ وہ آج بھی اتنی ہی سمارٹ اور خوب صورت تھیں جتنی شادی کے وقت تھیں۔ بلکہ اب ان کی خوب صورتی میں مزید کشش اور ایک وقار سا پیدا ہو گیا تھا جو مظہر صاحب کو یک ٹک انہیں دیکھنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
’’بتائیے نا!‘‘ مظہر صاحب سے ان کی اُداسی برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔
’’ مظہر ! مجھے میرا پسندیدہ جوڑا کہیں سے نہیں مل رہا۔‘‘ مہرین نے منہ بنا کر کہا۔
’’چھوڑو مہرین! کوئی دوسرا سوٹ لے لو۔ ‘‘ مظہر صاحب نے بے پروائی سے کہا۔
’’لیے ہیں پورے دس سوٹ، مگر وہ سوٹ نہیں ملا تو لگ رہا ہے میرے پاس پہننے کو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔
بسا اوقات ان کے اس شوق سے مظہر صاحب چڑ جاتے تھے ۔ روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی اور نہ ہی مظہر صاحب نے کبھی ان کی شاپنگ وغیرہ کے حوالے سے ٹوکا تھا ۔ ان کو نت نئے لباس سلوانے کا شوق تھا ۔ وہ ان کا یہ شوق خوشی خوشی پورا کرتے مگر جب مہرین کسی برانڈ کے کسی خاص ڈیزائن کے پیچھے پاگلوں کی طرح پڑ جاتیں تو وہ چڑ جاتے۔ کوئی مشہور برانڈ ایسا نہیں تھا جس کے کپڑے ان کے پاس نہ ہوں مگر ان کا یہ شوق جیسے ان کا نشہ بننے لگا تھا ۔ اب بھی دس سوٹ خریدنے کے باوجود ان کی تسلی نہ ہو سکنے کے بارے میں سن کر مظہر صاحب کا سارا موڈ غارت ہو گیا ۔
’’چھوڑ وبھی مہرین ! کیا ہے؟‘‘ مظہر صاحب نے خود پر کنٹرول کر کے کہا۔
’’ کیسے چھوڑ دوں؟میری راتوں کی نیند اُڑی ہوئی ہے اور آپ… ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے یہ سوٹ کہیں سے’’ بلیک‘‘ میں مل جائے بھلے سے قیمت ڈبل ہو ۔‘‘ مہرین نے مظہر کو دیکھا۔
’’مہرین پلیز! خود کو کنٹرول کرو۔ تمہارا یہ شوق تمہارا جنون بنتا جارہا ہے ۔ جب کوئی چیز انسان کا جنون بن جائے تو پھر وہ انسان کو اپنے بس میں کر کے اسے خیرو شر کی تمیز بھلا دیتا ہے۔ تم بھی کہیں اپنے اس جنون کے ہاتھوں کوئی نقصان نہ اُٹھا لینا۔‘‘ مظہر صاحب نے اپنے لہجے کو حتی الامکان پر سکون رکھنے کی کوشش کی تھی مگر پھر بھی اس سے ہلکی سی ناراضی جھلک گئی۔ مہرین کو ان کا انداز بُرا لگا ۔
’’ مظہر ! بس کیا کریں۔ کبھی کبھی آپ جاہل مردوں کی طرح باتیں کرنے لگتے ہیں جن سے اپنی بیوی کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘اُنھوں نے زور سے کپ میز پر پٹخا اور ٹک ٹک کرتی اندر چلی گئیں۔مظہر صاحب سر جھٹک کر چائے پینے لگے۔
اگلے روز مہرین بیگم نے سارے کپڑے دو تین بڑے شاپنگ بیگز میں ڈال کر پکڑے اور اپنے کمرے سے باہر نکل آئیں۔
’’ ثریا! میں ذرا ٹیلر تک جارہی ہوں ۔ صاحب آئیں تو انہیں چائے سرو کر دینا۔‘‘ وہ جلدی جلدی ہدایات دے کر پلٹ گئیں۔
ماسٹر صاحب! یہ دس سوٹ ہیں ۔ ناپ وغیرہ بالکل ٹھیک رکھیے گا ۔ ہر سوٹ کے ساتھ ڈیزائن والا پوسٹر ہے اسی کے مطابق بنائیے گا۔‘‘ مہرین بیگم نے کپڑوں والے بیگز کائونٹر پر رکھ کر ٹیلر کو ہدایات دیں۔
’’ٹھیک ہے میڈم۔‘‘ ٹیلر نے کپڑے اُٹھا کر ریک میں رکھے۔
’’ اچھا اللہ حافظ۔‘‘مہرین دکان کے خارجی دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ٹیلر نے کسی دوسری گاہک کے کپڑے کٹنگ کے لیے نکال کر کٹنگ کائونٹر پر رکھے۔ کچھ یاد آنے پرمہرین بیگم دکان کے دروازے سے واپس پلٹیں ۔
’’ماسٹر صاحب! وہ بلیو والا سوٹ…‘‘ کائونٹر کے قریب آکر اُنہوں نے ٹیلر کو مخاطب کیا مگر ان کی آدھی بات منہ میں ہی رہ گئی۔ ٹیلر ہاتھ میں وہی ڈیزائنر سوٹ پکڑے کھڑا تھا جس کی تلاش میں وہ بھٹک رہی تھیں۔
’’ یہ کس کا سوٹ ہے؟‘‘ اُنھوں نے سوٹ کی طرف اشارہ کیا۔وہ بہت عرصے سے یہاں سے کپڑے سلوا رہی تھیں۔ مالک سے لے کر دکان کا گارڈ تک اسے اچھی طرح جانتے تھے اور بہت عزت سے پیش آتے تھے۔
’’ پچھلے ہفتے ایک خاتون دے کر گئی ہے۔پہلی دفعہ آئی ہے ۔ ابھی یہی سوٹ دیا ہے کہ پہلے ٹرائی کرے گی پھر اور کپڑے سلنے دے گی۔‘‘ ٹیلر نے تفصیل سے جواب دیا۔ مہرین بیگم کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا ۔ انہیں اپنی منزل بہت قریب نظر آرہی تھی۔
’’ماسٹر صاحب ! آپ میرا ایک کام کریں گے ؟‘‘ مہرین نے ٹیلر سے خوشامدانہ انداز میں کہا۔
’’ بتائیے میڈم۔‘‘
’’آپ …آپ یہ سوٹ میرے ناپ پر سی دیں۔‘‘مہرین کی بات پر ٹیلر نے انھیں یوں دیکھا جیسے ان کا دماغ چل گیا ہو۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’مجھے یہ سوٹ بہت پسند ہے ۔ ہر جگہ ڈھونڈا مگر کہیں نہیں ملا۔‘‘ وہ لجاجت سے بولیں۔
’’مگر میں ان بی بی کو کیا جواب دوں گا؟‘‘وہ ہچکچایا۔
’’ دیکھو کپڑے خراب بھی تو ہو جاتے ہیں نا…تم انہیں کہہ دینا کہ غلطی سے کسی اور کے ناپ پر سل گئے ۔‘‘ اُنھوں نے راہ دکھائی۔
’’ مگر میں ان کا نقصان کیسے پورا کروں گا ؟ میں اس دکان پر دہاڑی پر کام کرتا ہوں ۔ میں اس قیمتی سوٹ کی قیمت کہاں سے بھروں گا؟‘‘ ٹیلر نے انھیں ڈھکے چھپے انداز میں انکار کیا۔
’’ آپ گھبرائیے نہیں ماسٹر صاحب! اس سوٹ کی قیمت سات ہزار روپے ہے ۔ یہ لیجیے اس کی قیمت جو آپ اُس خاتون کو واپس کریں گے اور یہ پانچ ہزار روپے آپ اپنی محنت کے رکھ لیں۔‘‘ مہرین بیگم نے بیگ کھول کر بارہ ہزار روپے کائونٹر پر رکھ دیے۔ٹیلر نے چور نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی بھی ان دونوں کی طرف متوجہ نہیں تھا۔اُس نے وہ روپے اٹھا کر گویا مہرین بیگم کا کام کرنے کی حامی بھر لی۔مہرین کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’شکریہ ماسٹر صاحب!‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے میڈم! مگر آپ ایک سوٹ کے لیے اتنے پیسے…‘‘ وہ آدھی بات کہہ کر خاموش ہو گیا۔
’’آپ آم کھائیں ماسٹر صاحب ! پیڑ نہ گنیں۔ آپ نے سنا نہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔‘‘مہرین کا لہجہ بہت ہی خوش گوار ہو گیا تھاجیسے سوٹ کی صورت میں ہفت ِ اقلیم کی دولت ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔ٹیلر سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور مہرین بیگم مطمئن سی دکان سے باہر نکل گئیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});