ایک دفعہ ماں کو بھی ساتھ کھانے کو کہا تو اس نے خالی پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر اتنی درشتی سے ڈانٹا کہ پیٹ بھی سہم گیا۔ وہ کھا لیتی تو یہ بلونگڑے واقعی غارت ہو جاتے۔
پیاز ٹماٹر کھا کر ماں نے کٹورے کے پیندے میں ہاتھ ڈال کر ہتھیلی گیلی کی۔ پہلے چھوٹے والے نے چاٹی۔ پھر بڑے والے نے بھی اسی کو چاٹا اور آخر میں ماں بھی وہی چاٹ کر چارپائی پہ لیٹ گئی۔
اگر قطرہ قطرہ پانی پی لیتے اور کل کو پانی نہ ملتا تو کہاں جاتے؟….. کاش یہ سب تب سوچا ہوتا جب بچپن میں کُھلا پانی استعمال کرتے تھے۔ ذرا سی بھی قدر کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ماں نے بہ مشکل آسمان کی طرف دیکھا۔ کاش دور جانے والے واقعی ستارے بن جاتے اور ہم ان سے ڈھیروں باتیں کرسکتے۔
عمیر سو چکا تھا اور زبیر کے لئے اپنے واقعی ستارے ہی تھے۔وہ دور ٹمٹماتا ہوا اس کا باپ تھا جو آج اتنا روشن نہیں تھا کیوں کہ اس کے بچے پانی چاٹ کر سوئے تھے ان کے حلق ابھی تک پیاس کی تسبیح پڑھ رہے تھے۔
”ابا مرتے وقت تھوڑا پانی ہی ذخیرہ کرجاتا۔” زبیر نے چپکے سے شکایت کی۔
اسے معلوم تھا کہ اس کا باپ پانی سے مرا ہے۔ پانچ سال پہلے جب خوب بارشیں ہوئی تھیں اور چھوٹا عمیر پنگھوڑے میں جھولتا تھا تب ساتھ کے گاؤں میں میلہ لگا تھا۔ ابا پکے مکان والا تھا ماں کو پیسے دے کر بچوں کے ساتھ بھیجا۔ “جا ان کو گُھما لا۔”
وہ گھومنے گئی اور واپس آئی تو سارا گاؤں گھوما ہوا تھا۔کسی مکان پہ چھت نہیں تھی۔ ماں نمانی کا مکان ہی نہ تھا۔ تین دن میں سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا۔اس نے ککھ بھی نہ چھوڑا۔
زبیر نے اس کے بعد ماں کو دیکھا تو بس یہ دعا کرتے دیکھا: “اللہ جی بارش نہ ہو۔میرے اللہ بارش نہ ہو۔”
بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو کھینچ تان کر دوبارہ پٹڑی پہ لایا گیا۔اب وہ پکے مکان اور چنری والے دوپٹے سے بہت نیچے اُتر آئی تھی۔ ایک گندی سی اوڑھنی تھی اور چھوٹی سی کٹیا۔ بارش بھی جیسے ماں کی بد دعاؤں کے انتظار میں تھی۔ اس کے بعد نہ ہوئی۔
اس برس تو یہ ظلم ہوا کہ پچیس گھروں پر مشتمل گاؤں کا اکلوتا کنواں بھی سوکھ گیا۔ایک ابھاگن نے پانی کے لئے تر نوالہ بننے سے بچنے کو اسی کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ اب سارے گاؤں میں پیاس گونجتی ، پیاس کُرلاتی، پیاس شور مچاتی اور پیاس ہی بین ڈالتی تھی۔
سب ہی گھروں کا یہ حال تھا۔ پنچائیت بٹھائی گئی۔ اس مسئلے کا کوئی تو حل نکالنا تھا۔ بھوکے پیاسے مرنے سے بہتر آخری بار اپنی بساط کے مطابق ہاتھ پیر مارنے تھے۔ وہ بابا سائیں تھا پنچائیت میں جس کا فیصلہ چلتا سب اسے اللہ لوک کہتے اور وہ اپنے منہ سے بہتی رال کو بھی صاف نہ کرسکتا۔ وہ کہاں سے آیا کوئی نہ جانتا تھا لیکن وہ اللہ لوک بابا سائیں ہی تھا۔ لوگ آگے بڑھ بڑھ اس کی رال صاف کرتے۔بابا سائیں ہلکا سا مُسکرا دیتا تو خوشی سے باؤلے ہو جاتے۔ اگر دن کے آخر تک کچھ اچھا نہ ملتا تو اسی خوشی سے خوش ہوتے رہتے۔
بابا سائیں کو کنوئیں کے پاس لے جایا گیا کہ شاید کنوئیں میں کوئی چشمہ پھوٹ پڑے لیکن بابا سائیں نے عجیب حرکت کی۔ اٹھا کر ایک ڈنڈی کنوئیں میں ڈال دی۔ سارا گاؤں وہیں اکھٹا تھا۔ ملگجے حلیے اور الجھے سفید بالوں والے بابا سائیں سے امیدیں لگائے لوگوں کو لگتا تھا کہ ابھی معجزہ ہوگا۔
”شاید بابا سائیں کہنا چاہتے ہیں کہ کنواں قربانی مانگتا ہے۔” ایک بوڑھا دور کی کوڑی لایا۔
مجمع میں سب کی عقل پہ پیاس نے پردہ ڈال رکھا تھا۔جب اتفاقات کچھ ساتھ لے جانے آتے ہیں تو وہ ڈھیر حیلے لے کر آتے ہیں۔اسی لمحے ٹھنڈی ہوا چلی اور بابا سائیں نے ایک شاخ اور کنوئیں کے شکم کے سپرد کر کے اس بات پہ مہر لگائی” ہاں میں قربانی چاہتا ہوں۔”
عورتوں کے دل سہم گئے تھے۔ مرد مرد ہونے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں… عورت عورت ہونے کی وجہ سے قربانی دیتی ہے۔
کون قربان ہوگا اس کا فیصلہ بھی بابا سائیں ہی کریں گے۔ ایک عورت نے آگے بڑھ کر اپنے بڑھاپے سے فائدہ اٹھایا۔
مرد ڈگمگا گئے لیکن بھری پنچائیت میں بہتی ہوا کے مخالف بھی نہیں جایا جاسکتا۔
بابا سائیں کے پیر پکڑ کر کہا گیا آپ جس کے سر پہ ہاتھ رکھیں سے اسے قربان کر دیا جائے گا۔
زمین حیران تھی کہ یہ دریائے نیل نہیں اور یہاں عمر بھی نہیں۔ پھر کیا ہوگا؟ کیوں ہوگا؟ اور کیسے ہوگا۔ بابا سائیں کو درمیان میں بٹھایا گیا اور سب آس پاس دم سادھے بیٹھ گئے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
بابا سائیں نے ڈولتے ڈولتے اپنا ہاتھ عمیر کے سر پہ رکھا۔ ماں کا منہ حیرت سے کُھل گیا اور باقیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس زنداں میں اس کا ساتھ دینے کو کوئی باپ بھائی یا شوہر نہیں تھا۔ اس قربانی کی بھینٹ چڑھنے سے کون بچاتا اور کیسے بچاتا؟
لوگوں نے تسلی دی۔ ”چلو بڑا بیٹا تو ہے۔ لوگ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ ایک بیٹا دوسرے بیٹے کی جگہ لے سکتا ہے؟ کیا بڑے اور چھوٹے میں فرق ہو سکتا ہے؟ ناک کا جو بھی بال کھینچو تکلیف تو ہوتی ہے۔ یہ بلونگڑے تو ناک کے بالوں سے کہیں زیادہ اندر تک جڑیں گاڑے بیٹھے تھے۔ اسے لگا وہ غارت ہوگئی۔
اگر بغاوت کا ایک لفظ بھی نکالتی تو سننے والا کون تھا۔ بہروں کے دیس میں کیا بانسری بجانا۔ اس نے اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دئیے اور ڈھے گئی۔
عمیر خوش تھا۔ وہ گاؤں کے لئے قربانی دے رہا تھا یہ کہہ کہہ کر لوگ اسے چوم رہے تھے۔ اس نے چپکے سے زبیر کے کان میں سوال ڈالا: “اب بارش ہوگی؟”
زبیر نے دو قطرے نمکین پانی کے اپنے اندر اتار کر منہ پھیر لیا۔قربانی کے لئے اگلی صُبح کا وقت مقرر ہوا۔وہ شکست خوردہ سا تین کا قافلہ جن میں سے ایک ہار جانے پہ جیت کا جشن منا رہا تھا گھر آیا۔بچوں کی آنکھ لگ گئی۔
ماں نے آسمان پہ نظریں ٹکائی۔ وہ لفظ کہاں سے لاتی۔ وہ کچھ کیسے مانگتی؟ اس کی گرد آلود آنکھیں دُھل کر شفاف سی ہوگئی۔ بارش اس کی آنکھوں سے ہو رہی تھی۔ چارپائی کے بان کو پوری شدت سے مٹھی میں بھینچ کر اس کی جل تھل نظروں نے عرش پہ سوال بھیجا۔
“بارش کب ہو گی؟”