ایک رات کی بات — محمد جمیل اختر

”جی ہاں بالکل اور…”
”لیجیے چائے پیجئے ویسے آپ کے گھر میں کون کون ہے۔”
”جی میں اکیلارہتا ہوں۔”
”تو یعنی آپ نے شادی نہیں کی۔”
”نہیں ابھی نہیں کی۔”
”کیوں؟”
”جی معلوم نہیں ، لیکن جلد کرلوں گا کہ گھر والے رشتہ ڈھونڈھ رہے ہیں ”
”لو بھئی رشتہ ڈھونڈھنے کی کیا ضرورت ہے یہ اپنی عمارہ کی چھوٹی بہن کا بھی ہم رشتہ ہی ڈھونڈھ رہے ہیں اور آپ جیسے پڑھے لکھے اور شریف النفس آدمی سے بہتر رشتہ ہمیں کیوں کر ملے گا کیوں عمارہ بیگم ، اثمارہ کے لیے یہ رشتہ کیسے رہے گا۔”
”جی آپ بہتر سمجھتے ہیں۔”
یہ خاتون تو ابھی بے تحاشا چلا رہی تھیں ابھی انہیں کیا ہوگیا لگتا ہے ان کے منہ میں تو زبان ہی نہیں ہے۔
”لیکن میرے گھر والے۔”
”اجی انہیں بھی بلوالیتے ہیں میں تو کہتا ہوں کل ہی انہیں فون کرکے یہاں بلوا لیں ملتان کون سا دور ہے یوں آجائیں گے اورہماری ساس صاحبہ تو کل ویسے بھی آرہی ہیں ہماری سالی بھی ساتھ ہوں گی اگر آپ کہیں تو اس اتوار کو منگنی کی تقریب کرلیتے ہیں۔”
”جی کیا؟؟؟”
”غالبا آپ بھی منگنی وغیرہ کی تقریبات کے خلاف ہیں میں خود منگنی کے خلاف ہوں سیدھا سیدھا نکاح ہی ہونا چاہیے۔
اور نکا ح بھی مسجد میں ، کیا خیال ہے آپ کا؟
مسجد میں نکاح کیسارہتاہے ؟”
”جی یہ تو نیک عمل ہے ”
”جی بالکل آپ کے میرے خیالات کتنے ملتے ہیں ”





”آپ کھانا وغیرہ خود ہی پکاتے ہوں گے شادی ہوگئی تو یہ سہولت توہوجائے گی”
”آپ کی تنخواہ کتنی ہے ”
”جی ابھی تو دس ہزار روپے ہے ”
”ہاں ہاں شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے آگے ان شاء اللہ ترقی ہوجائے گی میں ساس صاحبہ کو سمجھا لوں گا آپ ٹینشن نہ لیں ” یہ کہہ کر انہوں نے ایک آنکھ دبائی
” اجی دیکھیے باہر کسی نے ڈور بیل بجائی ہے۔”
”اوہ ہو! اِس وقت کون آگیا۔”
”ارے ہمدانی صاحب آپ اِس وقت ، میں معذرت چاہتاہوںکہ آپ کو گھر کا کرایہ بروقت ادا نہ کرسکامیں کوشش کروں گا کہ جلد کچھ روپوں کا انتظام ہوجائے۔”
” بس بس بہت سُن لیے آپ کے یہ بہانے آج تو میں رقم لے کر ہی جاوں گاتین ماہ سے یہی بہانے سُن رہاہوں۔”
”دیکھیں ابھی تو میرے پاس رقم نہیں ہے میرے بچوں کی فیس بھی رہتی ہے کچھ خیال کیجئے”
میں اٹھ کر دروازے تک آیا۔
”جی کیا مسئلہ ہے۔”
”یہ کون ہیں ” ہمدانی صاحب نے بغور مشاہدہ کرتے ہوئے کہا
”جی یہ ہمارے عزیز ہیں ملتان سے آئے ہیں اپنی عمارہ بیگم کی چھوٹی بہن اثمارہ کے منگیتر ہیں یہ یہیں سامنے والے مکان میں رہتے ہیں۔”
” اچھا اچھا ٹھیک ہے وہ میرے پیسے مجھے دیں۔ ”
‘ ‘ دیکھیں ابھی تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ۔”
”کچھ نا کچھ تو ہوگانا، بالکل خالی ہاتھ تو میں نہیں جانے والا۔”
” اچھا، وکیل صاحب آپ کے پاس دو ہزار روپے ہونگے زرا انہیں دیجئے گا۔”
”جی وہ ”
”میں لوٹا دوں گا جناب کیا بات کرتے ہیں ۔”
” نہیں نہیں وہ میں کہہ رہاتھا اچھا یہ لیں دوہزار روپے۔”
”یہ لیجیے ہمدانی صاحب اب خوش ہیں آخر اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں باقی رقم میں جلد لوٹا دوں گا۔”
”اچھاچلوٹھیک ہے چلتا ہوں ”
”آئیے وکیل صاحب بیٹھیے وہ اصل بات تو وہیں رہ گئی کہ جس کی وجہ سے میرا اور عمارہ بیگم کا جھگڑا ہورہاتھا۔”
”وہ آپ بچوں کی فیس اگر دے دیں تو میں عمارہ بیگم کو دے دوں ۔”
”جی وہ میرے پاس تو صرف تین ہزار روپے ہیں ”
”کوئی نہیں جناب آپ تین ہزار ہی دے دیں باقی کا میں کوئی انتظام کرلوں گا”
”جی یہ لیجئے ”
”بہت بہت شکریہ”
”جی میں چلتاہوں ”
”جی جیسے آپ کی مرضی”
”خدا حافظ”
”خدا حافظ ”
”سنیے آپ کا نام کیا تھا وکیل صاحب؟”

ختم شُد




Loading

Read Previous

ذوالفقار — اقراء اعجاز

Read Next

چپ — عزہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!