امربیل — قسط نمبر ۶

زارا نے اس کا کارڈ پکڑ لیا۔
”آپ تو خاصے مصروف رہتے ہوں گے پھر کسی سے ملنا خاصا مشکل ہوتا ہوگا۔” زارا نے کارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”خوبصورت عورتوں کیلئے ہر مصروفیت ختم کی جاسکتی ہے اور آپ خوبصورت ہیں۔”
اسے کمپلیمنٹ سمجھوں؟”
”نہیں tribute (خراج) ۔”وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بے خوفی سے اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے لگتا ہے، آپ سے میری بہت اچھی دوستی ہوسکتی ہے۔” وہ جیسے کسی نتیجہ پر پہنچی تھی۔
”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس کے بعد آپ سے یہ کہوں کہ مجھے آپ کا کانٹیکٹ نمبر چاہیے۔”
چند لمحوں کے تامل کے بعد زارا نے اپنا پرس کھول کر اپنا فون نمبر اور ایڈریس اسے تھما دیا۔
ان کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ملاقات آخری ثابت نہیں ہوئی۔ جہانگیر نے دوسرے دن ہی اسے فون کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ زارا ستر کی دہائی کی ایک خاصی مشہور ماڈل تھی۔ اس نے اپنا کیریئر ساٹھ کی دہائی کے آخری چند سالوں میں شروع کیا اور اپنے بے باک انداز کی وجہ سے بہت جلد ہی وہ بہت مقبولیت اختیار کرگئی۔ مگر اس کی طرح ماڈلنگ میں بہت سے نئے چہرے آہستہ آہستہ آنے شروع ہوگئے اور مقبولیت کی جس سیڑھی پر وہ ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں جاکھڑی ہوئی تھی۔ چند سالوں میں آہستہ آہستہ وہ وہاں سے نیچے آنے لگی۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق ایک ایرانی فیملی سے تھا وہ بہت عرصے پہلے پاکستان آکر سیٹل ہوگئی تھی وہ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور ماڈلنگ کا آغاز اس نے صرف شوقیہ طور پر کیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس شعبے میں اس کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس کے والدین نے اس شعبہ میں آنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ اس کی ماں خود بھی کسی زمانے میں ایک مشہور سنگررہ چکی تھی۔ جبکہ اس کا باپ بھی بہت عرصہ اسٹیج کے ساتھ منسلک رہا تھا۔
ماڈلنگ کے شعبے میں آنے کے کچھ عرصہ کے بعد اس کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ اس سے بڑے دونوں بہن بھائی کی شادی ہو چکی تھی اور وہ دونوں ہی انگلینڈ میں تھے۔ مالی طور پر اسے اس شعبہ سے منسلک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے والدین اس کیلئے وراثت میں اچھا خاصا ترکہ چھوڑ گئے تھے اس کے زیادہ رشتہ دار امریکہ اور یورپ میں سیٹلڈ تھے۔ پاکستان میں صرف چند ایک ہی تھے جنہیں وہ اپنا رشتہ دار کہہ سکتی تھی مگر وہ بھی بہت قریبی نہیں تھے۔ خود وہ اس حد تک اس ماحول میں رچ بس چکی تھی کہ اس کیلئے پاکستان چھوڑ کر جانا آسان نہیں رہا تھا کیونکہ یہاں وہ اپنی ایک شناخت بنا چکی تھی اور مقبولیت یا شہرت کا مزہ چکھنے کے بعد مکمل طور پر اس سے قطع تعلق کرنا خاصا دشوار کام تھا۔ اس لیے زارا نہ صرف ایران یا اپنے بہن بھائی کے پاس نہیں گئی بلکہ وہ ماڈلنگ کے شعبہ کے ساتھ منسلک رہی۔
ابتدائی طوفانی قسم کی شہرت کے بعد آہستہ آہستہ اس کا جادو اس وقت ختم ہونے لگا جب بہت سی دوسری لڑکیاں بھی اس شعبہ میں آنے لگیں اور ان کم عمر لڑکیوں نے نہ صرف اس کی مارکیٹ ویلیو کو اچھا خاصا متاثر کیا بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی کافی کمی ہوگئی۔ کسی دوسری ماڈل کی طرح ڈپریشن یافر سٹریشن کا شکار ہونے کے بجائے زارا نے حقیقت پسندی سے حقائق کو تسلیم کیا وہ جان گئی تھی کہ اب وہ زیادہ دیر کیمرے کے سامنے نہیں رہ سکتی۔ وہ اپنی پروفیشنل اور گلیمرس لائف کے اختتام پر کھڑی تھی اور اب اسے کیا کرنا تھا۔ شادی کر کے اس فیلڈ سے الگ ہوجانا تھا اور جن دنوں جہانگیر معاذ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ ان دنوں وہ شادی کے بارے میں نہ صرف فیصلہ کرچکی تھی بلکہ شناسا مردوں کو اس سلسلے میں جانچ اور پرکھ بھی رہی تھی۔





جہانگیر معاذ کو بھی اس نے ان ہی نظروں سے دیکھا تھا جبکہ خود جہانگیر معاذ کے نزدیک اس رات اس سے ہونے والی ملاقات بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زارا مسعود کو بھی ان بہت سی دوسری عورتوں کی طرح ہی لیا تھا جن سے اس کی دوستی تھی اور جنہیں وہ وقت گزاری کیلئے استعمال کیا کرتا تھا۔ فارن سروس میں آنے کے بعد ابھی وہ فارن آفس میں کام کر رہا تھا اور اپنی پہلی باقاعدہ پوسٹنگ کا منتظر تھا۔ ستائیس سال کا نوجوان، ہینڈ سم اور ایک بہت اونچے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ آفیسر اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اپنے ہتھیاروں کو بروقت اور پوری مہارت سے استعمال کرنے میں بھی ماہر تھا۔ اپنے لمبے اور شاندار کیریئر کے آغاز پر ہی وہ ایسی سرگرمیوں میں انوالو ہونا شروع ہوگیا تھا جن میں انوالو ہونے کیلئے خاصے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران اقدار کا جو نیا سیٹ اپ اس نے اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ فارن سروس میں آنے کے بعد اس نے ان پر باقاعدہ طور پر عملدرآمد شروع کردیا تھا۔ اس کے نزدیک کوئی بھی چیز اس کے کیریئر سے بڑھ کر نہیں تھی نہ کوئی خونی رشتہ اسے جذباتی کرتا تھا اور نہ ہی دنیا میں کوئی دوسری ایسی چیز تھی جس کے بغیر وہ رہ نہ سکتا ہو… سوائے روپے کے۔
جہانگیر معاذ کے نزدیک زندگی ایک بہت ہی Rational اور منطقی چیز تھی اور اس میں کامیاب ہونے کی خواہش رکھنے والوں کیلئے بھی دو خصوصیات کا اپنے اندر رکھنا ضروری تھا اس کے نزدیک اخلاقیات کی وہی اقدار تھیں جو اس نے اپنی زندگی کیلئے منتخب کرلی تھیں۔ وہ کسی بھی کام کو اس کے اچھے یا برے ہونے کی بنیاد پر نہیں کرتا تھا۔ وہ ہر کام کو کرتے ہوئے دیکھتا تھا کہ وہ کام اس کیلئے کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہے اور وہ ان اقدار کو اپنانے والا واحد شخص نہیں تھا۔ جس سوشل سرکل میں وہ موو کرتا تھا وہ اسی جیسے لوگوں پر مشتمل تھا جہاں وہ کام کرتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کا code of ethics (اصول اخلاقیات) بھی اس سے ملتا جلتا تھا اور اس کے اپنے خاندان میں اس کے بڑے بھائی ان ہی اصولوں اور نظریات پر عمل پیرا تھے جنہیں اب وہ اپنانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کے باپ معاذ حیدر کی فلاسفی کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی یہی محسوس کرتا تھا کہ اس کے باپ کی فلاسفی بہت آؤٹ ڈیٹڈ شے ہے جس کو اپنانے والا شخص اس دنیا میں نہیں چل سکتا جس میں جہانگیر معاذ اور اس کے بھائی رہتے تھے۔
وہ ڈرنک کرتا تھا۔ اس کی بہت سی گرل فرینڈزتھیں۔ اپنی جاب سے روپیہ بنانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تھا اور وہ بہت زیادہ ambitious تھا۔ وہ اپنی زندگی میں اپنے بھائیوں سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا تھا۔
زارا مسعود کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح زارا سے میل جول بڑھانا شروع کردیا تھا۔ فارن سروس کے ساتھ منسلک اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی میڈیا سے متعلقہ لڑکیاں خاصی اٹریکٹ کرتی تھیں چاہے وہ ایکٹرسز ہوں یا پھر ماڈلز۔ ذاتی طور پر بھی وہ ایسی عورتوں کو بہت پسند کرتا تھا جو بہت آزاد خیال، بے خوف اور بے باک ہوں اور زارا بھی ایسی ہی ایک عورت تھی۔ مگر زارا کے ساتھ دوستی ہونے کے بعد اسے احساس ہونا شروع ہوا تھا کہ اس میں ان چیزوں کے علاوہ کوئی خاص کشش بھی ہے جومردوں کو خاص طور پر فوراً اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اس نے پارٹیز میں بہت بڑے لوگوں کو اس کے سامنے بچھتے دیکھا تھا اس کے ساتھ پارٹیز میں شرکت کرتے وقت وہ بڑی خاموشی سے سب کچھ دیکھتا جاتا تھا اور یہ سب کچھ ایک لمبے عرصہ تک چلتا رہا۔
یہاں تک کہ اس کی پوسٹنگ ہوگئی لیکن باہر جانے سے پہلے اس نے زارا کو پرپوز کردیاتھا۔ زارا نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ پرپوزل قبول کرلیا، وہ جہانگیر کی طرف اسی مقصد کیلئے بڑھی تھی مگر اسے حیرت ہوئی تھی وہ اس بات سے بھی واقف تھی۔ وہ انتہائی ضدی ہے یہ بات بھی اس کی نظروں سے چھپی نہیں رہی تھی مگر وہ یہ بات نہیں جان سکی تھی کہ اس کے نزدیک رشتے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
جہانگیر نے اپنے گھر والوں کو جب اپنی پسند سے آگاہ کیا تو گھر میں ویسا ہی ہنگامہ اٹھا تھا جیسا اس کے بڑے بھائیوں کی اپنی پسند سے کی جانے والی شادیوں پر اٹھا تھا۔
”تم نے اپنے بھائیوں کی زندگی سے واقعی کوئی سبق حاصل نہیں کیا ورنہ تم کبھی اس طرح ایک ماڈل کو بیوی بنانے کی خواہش نہ کرتے۔” معاذ حیدر نے اس سے کہا تھا۔
”زارا اچھی لڑکی ہے اور وہ ایسے بھی شادی کے بعد ماڈلنگ چھوڑ رہی ہے۔”
”تم کو ایک بہت اچھی بیوی کی ضرورت ہے اور زارا ویسی بیوی ثابت نہیں ہوسکتی۔ تم اتنی بولڈ لڑکی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ کبھی بھی تم دونوں کے درمیان اختلافات ہوئے تو وہ تمہیں بڑی بے خوفی کے ساتھ چھوڑ کر چلی جائے گی جبکہ تمہیں ایسی لڑکی کی ضرورت ہے جو ہر حال میں تمہارے ساتھ رہ سکے۔ تمہارے ساتھ نباہ کرنا کسی بھی عورت کیلئے بہت مشکل ہوگا مگر زارا جیسی لڑکیاں تمہارے جیسے مردوں کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتیں۔ تمہیں ایک خاندانی لڑکی کی ضرورت ہے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۵

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!