امربیل — قسط نمبر ۶

”نہیں میں کسی خاندانی لڑکی کے ساتھ گزار نہیں کر سکتا مجھے زارا جیسی ایک لڑکی کی ضرورت ہے جو میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ آپ اس شادی کی اجازت دیں گے تب بھی اور نہیں دیں گے تب بھی، مجھے شادی زارا سے ہی کرنی ہے۔”
باپ کے لمبے لیکچر کے بعد اس نے بڑے سکون سے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔
معاذ حیدر نے اس کے بعد اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اسے شادی کی اجازت دے دی۔ باہر جانے سے پہلے بہت دھوم دھام سے اس نے زارا کے ساتھ شادی کرلی۔




زارا نے شو بزنس چھوڑ دیا تھا۔ وہ عمر میں جہانگیر سے دو سال بڑی تھی مگر جہانگیر کے قدو قامت کی وجہ سے یہ فرق کبھی نمایاں نہیں ہوا۔ جہانگیر سے شادی پر وہ بے حد خوش تھی۔ شادی کی تقریبات میں جہانگیر کے والدین کی ناپسندیدگی بھی اس سے چھپی نہیں رہی تھی مگر اسے اس بات پر اعتراض نہیں ہوا۔ وہ جانتی تھی کہ جہانگیر کے بجائے کوئی دوسری فیملی بھی اپنے بیٹے کی ایک ماڈل گرل سے شادی کرنے پر اسی طرح اعتراض کرتی مگر وہ مطمئن تھی کہ شوبز کو چھوڑنے کے بعد آہستہ آہستہ جہانگیر کی فیملی اسے قبول کرے گی۔
شادی کے بعد وہ جہانگیر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئی تھی جہانگیر یہاں آنے کے بعد اپنی جاب میں مصروف ہوگیا تھا۔ لندن میں جہانگیر کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں مگر اس کے باوجود تفریح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ وہ زارا کے ساتھ ان تقریبات میں جاتا رہتا جس میں اسے مدعو کیا جاتا زارا کو کراچی اور یہاں کی زندگی میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔ وہاں بھی اسی طرح ہر رات کسی نہ کسی تقریب میں شرکت کرتی رہتی اور یہاں بھی وہ کوئی شام بے کار نہیں گزارتی تھی بس فرق یہ تھا کہ وہاں وہ اپنے حوالے سے جانی جاتی تھی اور یہاں وہ جہانگیر کے حوالے سے اور اسے جہانگیر کے حوالے سے جانے جانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
اس شام بھی وہ جہانگیر کے ساتھ پاکستانیوں کی طرف سے آرگنائز کی جانے والی تقریب میں شریک ہونے کیلئے تیار ہو رہی تھی جب جہانگیر نے اس سے کہا۔
”آج اس پارٹی میں میں تمہیں ایک آدمی سے ملواؤں گا… سعید سبحانی… ہوٹل انڈسٹری میں بہت بڑا نام ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکہ میں بھی بہت سی اسٹیٹس میں ہوٹل چلا رہا ہے۔ بیوی امریکن ہے اس وجہ سے یہاں کی نیشنلٹی بھی ہے اس کے پاس۔”
زارا نے کسی دلچسپی کے بغیر اس شخص کا تعارف سنا تھا وہ اس وقت مسکارا لگانے میں مصروف تھی۔
”میں اس آدمی کا ایک ہوٹل خریدنا چاہتا ہوں جو یہ کچھ عرصہ تک بیچنے والا ہے۔”
زارا کا ہاتھ رک گیا۔ ”جہانگیر! تم ہوٹل خریدنا چاہتے ہو؟”
”تم جاب چھوڑ رہے ہو؟”
”نہیں۔”
تو پھر ہوٹل؟”
”سائیڈ بزنس کے طور پر۔”
”مگر تمہیں تو جاب کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اجازت نہیں ہے۔” وہ کچھ الجھی۔
”ہاں، صرف مجھے ہی نہیں کسی کو بھی جاب کے علاوہ کچھ اور کرنے کی اجازت نہیں ہوتی مگر سب کرتے ہیں۔ کیا تم یہ جانتی ہو کہ ہمارے سفیر وال اسٹریٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں بلکہ صرف موجودہ سفیر ہی نہیں ہر آنے والا یہاں آکر یہی کرتا ہے اور موجودہ سفیر تو ایمبیسی کے فنڈز کو بھی ناجائز طور پر اسی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں۔” وہ بڑے مزے سے ٹائی کی ناٹ لگاتے ہوئے بتا رہا تھا۔
”مگر یہ تو بہت بڑا جرم ہے۔ یہاں ایمبیسی میں جو ایجنسیز کے آدمی ہوتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کو ایسی چیزوں کے بارے میں انفارم نہیں کرتے۔”
”کرتے ہوں گے مگر گورنمنٹ کے اپنے بہت سے لوگ بھی سفیر صاحب کے ذریعے سے اپنے بہت سے کام کرواتے رہتے ہیں، اسی لیے ایسی ساری انفارمیشن دبا دی جاتی ہے ویسے بھی سفیر کے بھائی کیبنٹ سیکرٹری ہیں۔ ان کے سسر میجر جنرل ہیں۔ ایک سالا صدر کا پروٹوکول آفیسرہے دوسرا انٹریئر منسٹری میں ہے باقی رشتہ داروں کو گنوانا شروع کردوں گا تو ہم فنکشن میں نہیں جاپائیں گے۔ اس لیے انہیں کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا وہ جو چاہتے ہیں آزادانہ طریقے سے کر رہے ہیں اور باقی سب بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔”
زارا کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
اسے ایک بار پھر اپنے مسکارے کی فکر ہونے لگی تھی۔ ”ٹھیک ہے تم خرید لو ہوٹل۔” اس نے جیسے جہانگیر کو گرین سگنل دیا۔
”میں اسی لیے تمہیں اس شخص سے ملوانا چاہتا ہوں۔ یہ شخص خاصا رومینٹک ہے۔ میں چاہتا ہوں تم اس سے تعلقات بڑھاؤ اور پھر اس سے کہو کہ یہ ہوٹل مجھے فروخت کرے اور نسبتاً کم قیمت پر۔”
زارا نے بے یقینی سے مڑ کر جہانگیر کو دیکھا تھا۔
”میں سمجھی نہیں، تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”اتنی مشکل بات نہیں ہے۔ تم اتنی خوبصورت ہو۔ تمہیں مردوں کو چارم کرنا آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس آدمی پر بھی اپنے ہتھیاروں کا استعمال کرو، مجھے یقین ہے کہ تمہارے سامنے یہ مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ پھر وہ ہوٹل مجھے مل جائے گا۔”
اس بار اس نے پہلے سے بھی صاف اور واضح لفظوں میں اپنی بات دہرا دی۔ زارا کیلئے مردوں کو رجھانا اور لبھانا نئی بات نہیں تھی وہ ایک ایسے ہی پروفیشن سے منسلک رہی تھی جس میں بہت سی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اپنے کلائنٹس سے خاص طور پر اسے ملواتی رہی تھیں تاکہ وہ ان ایجنسیز کیلئے بزنس حاصل کرسکے اور بدلے میں وہ ایجنسیز اپنے اشتہارات میں صرف اسے ہی لیتیں۔ اسے کبھی یہ سب برا بھی نہیں لگا کیونکہ وہ جانتی تھی یہ اس پروفیشن کی ضرورت تھی اور ماڈلنگ کے شعبے سے منسلک ہر لڑکی یہی کرتی تھی اگر وہ یہ نہ کرتی تو شہرت اور مقبولیت کی اس سیڑھی پر بھی نہ پہنچتی جہاں وہ پہنچ گئی تھی۔ مگر یہ سب اس کے پروفیشن کا حصہ تھا اور وہ اس پروفیشن کو چھوڑ چکی تھی۔ اب ذاتی زندگی میں وہی سب کچھ کرنا اور پھر شوہر کے کہنے پر کرنا…؟
”تمہیں پتا ہے’ تم کیا کہہ رہے ہو جہانگیر؟” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اچھی طرح۔ مگر ہم لوگ جس سوسائٹی میں ہیں وہاں آگے بڑھنے کیلئے یہ سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے اور میرا خیال ہے۔ اس میں کوئی بری بات نہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ترقی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔” وہ مطمئن تھا۔
”مگر یہ مناسب نہیں ہے۔”
”کم آن زارا! کم از کم تم تو یہ بات نہ کرو۔ یہ سب کچھ تمہارے لیے تو نیا نہیں ہے۔”
”تم جس پروفیشن سے منسلک رہی ہو، کیا تم یہ سب کچھ نہیں کرتی رہیں۔”زارا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۵

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!