الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

نسیمہ کے گھر جانے کے لیے ضروری تھا کہ حسن کے ہاتھ میں کچھ پیسے ہوتے۔ بہن کے گھر خالی ہاتھ جانا غیرت کے منافی تھا، کچھ آٹا شکر لے جاتا تو کافی تھا۔ زلیخا سے رقم مانگنے میں بھی بے عزتی محسوس ہوئی۔ اس لیے صبح اٹھ کر ماموں سے کہا کہ دکان جانا چاہتا ہوں مجھے ساتھ لے جائیے۔ شاید کوئی وسیلہ بن جائے، کوئی کمائی ہاتھ آئے۔ ماموں یہ سن کر خوش ہوئے اور کہا: ’’ہاں بیٹا ضرور چلو لیکن اگر تمہاری ممانی نے دیکھ لیا تو میرے سرپر ایک بال بھی نہ رہنے دے گی۔ مجھے گلی کے نکڑ پر ملنا، میں وہاں سے تمہیں سکوٹر پر بٹھا لوں گا۔ پھر چلیں گے۔‘‘
چنانچہ حسن نے یہی کیا۔ ماموں کے ساتھ بازار پہنچا اور جا کر ماموں کی دکان کا جائزہ لیا۔ دیکھا کہ پرانی پرانی گرد آلود کتابوں کا انبار ہے، عجب روبکار ہے۔ جاتے ہی ماموں نے کپڑا اٹھا کر کرسی کی گرد جھاڑی اور ایک کتاب اٹھا کر اس میں گم ہو گئے۔ بارے ایک گھنٹہ بعد ایک آدمی آیا اور کچھ قلم اور روشنائی خرید کر لے گیا۔ ماموں نے بتایا کہ کتابیں نہیں بکتی ہیں بس سٹیشنری کا سامان بکتا ہے۔ کوئی بھولا بھٹکا گاہک آجائے تو آجائے ورنہ ہم ہیں اور ہماری کتابیں ہیں۔ یہ کہہ کر ماموں دوبارہ کتاب میں گم ہوئے اور حسن پر تمام صورتِ حال آشکار ہوئی۔ سمجھ گیا کہ ماموں صاحب کا روز کا یہی کام ہے، اس لیے کمائی برائے نام ہے۔
ماموں نے ایک کتاب ختم کر کے دوسری اٹھائی، حسن کی اکتاہٹ سے جان پر بن آئی۔ پھر خیال آیا کہ اِسی بازار میں ایک اور دکان بھی ہے جس کے بارے میں زلیخا نے بتایا تھا کہ موجودہ زمانے کے حسن بدرالدین کے ابا یعنی زلیخا کے پھوپھا کی تھی۔
ماموں سے پوچھا: ’’ماموں جان، میرے ابا کی دکان کون سی ہے؟‘‘
ماموں نے کہا: ’’بیٹا، ہماری دکان سے چار دکانیں چھوڑ کر ہے۔ فرنیچر کی دکان ہے۔ کھڑکی میں سنہری کرسیاں ڈسپلے پر رکھی ہیں۔‘‘
حسن اٹھا اور اس دکان کی تلاش میں گیا۔ سنہری کرسیوں والی دکان نظر آئی تو اس میں گھس گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دو دکانوں کے برابر ایک گودام نما دکان ہے اور ہر طرح کے الم غلم سامان یعنی میز کرسیوں، تپائیوں، مسہریوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں بھی وہی عالم تھا جو ماموں کی دکان میں تھا یعنی ہر چیز گرد آلود تھی، بس لاپروائی کی نمود تھی۔ ایک اکتایا ہوا دکاندار بیٹھا جمائیاں لے رہا تھا۔ حسن نے ایک عجیب قطع کی چوکور میز کی قیمت پوچھی تو اس نے دو لاکھ روپے بتائی۔ یہ سن کر حسن بڑا ہی حیران و ششدر ہوا۔ پوچھا: ’’یہ کیا اسرار ہے؟ عجب خلفشار ہے۔ اتنی سی میز کی قیمت دو لاکھ روپے؟ لوگوں کو الّو بناتے ہو، لوٹ لیے جاتے ہو۔ دکاندار ہو یا ڈاکو؟‘‘
اس مردِ خدا نے جمائی لی اور کہا: ’’ہمیں کیا پتا سر، ہم تو یہاں سیلزمین ہیں۔ جن کی دکان ہے وہ جانیں۔‘‘
اس ماجرائے عجیب و غریب پر سر دھنتا حسن واپس آیا اور ماموں سے سب کچا چٹھہ کہہ سنایا۔ ماموں نے افسوس سے سرہلایا اور کہا: ’’بیٹا یہ دکان ایک سرکاری افسر نے اپنی بیوی کے نام پر لے رکھی ہے۔ برسوں سے اس دکان سے نہ کچھ بکتا ہے نہ نیا مال آتا ہے لیکن کاغذوں میں اس کی کمائی کروڑوں میں دکھاتے ہیں تاکہ اپنے رشوت کے روپے کو حلال ظاہر کر سکیں۔ میاں رشوت لیتے ہیں اور سرکار کو بتاتے ہیں کہ یہ دولت تو بیوی کی دکان سے کمائی ہے۔ ستم یہ دیکھو کہ ہمیں کرایہ بھی مارکیٹ ریٹ سے ایک چوتھائی ادا کرتے ہیں۔ ہم شریف لوگ ہیں، ان سے لڑنے کی حیثیت نہیں۔ آہ! ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔‘‘
یہ ماجرائے تعجب خیز سن کر حسن کو بے حد حیرت ہوئی۔ ایک طرف کی دکانیں دیکھ چکا تھا۔ اب جی میں آئی کہ دوسری طرف کی دکانیں دیکھے۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ کپڑوں کی دکانیں ہیں اور ریشم کے رنگ برنگ تھانوں سے بھری پڑی ہیں۔ بہت خوش ہوا اور باری باری ہر دکان کے اندر گیا اور ریشم کے تھان دیکھے اور اپنے پدرِبزرگوار جو زمانِ پاستان میں ریشم کے سوداگر تھے، کو یاد کر کے زار زار رویا۔ دکاندار ان دکانوں کے شریف آدمی تھے۔ انہوں نے جو حسن کو یوں روتے دیکھا تو سمجھے کہ کوئی غربت کا مارا نوجوان ہے، حالات سے پریشان ہے۔ مصیبت سے دوچار ہے، نوکری کا خواستگار ہے۔ اور جب انہیں معلوم ہوا کہ کتابوں والے زاہد صاحب کا بھانجا ہے تو بہت خوش ہوئے اور ایک دکان میں حسن بدرالدین کو نوکری مل گئی۔ کام یہ تھا کہ صبح آنا ہو گا، صفائی کرنا ہو گی اور دن بھر کپڑا بیچنا ہو گا۔ یہ کام اور نوکری حسن کو دل و جان سے پسند آئی کہ سوداگری اس کے خون میں رچی بسی تھی اور یہ کام اس نے والدِ بزرگوار سے سیکھا تھا۔ سات ہزار روپے تنخواہ قرار پائی، حسن بدرالدین کی خوب بن آئی۔
یوں حسن نوکری پر جانے لگا، اپنی میٹھی باتوں سے گاہکوں کو لبھانے لگا۔ جو عورت آتی، اس سے کپڑا خریدے بنا نہ جاتی۔ مالک اس سے خوش تھے اور حسن کو صاحبِ تمیز جانتے تھے، ہر دل عزیز جانتے تھے۔ حسن بھی خوش تھا اور مہینہ گزرنے کا منتظر تھا کہ تنخواہ پائے اور کنیز کو اس کے پیسے چکائے تاکہ وہ محبوۂ ماہ لقا کا فون نمبر لائے۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!