الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

اُس رات زلیخا باورچی خانے میں کام کر رہی تھی کہ حسن اس کے پاس پہنچا اور پوچھا: ’’ماموں جان کہاں ہیں؟‘‘
وہ کام کرتے ہوئے بولی: ’’ابا اس وقت ڈرائنگ روم میں تلاوت کرتے ہیں۔ تمہیں کوئی کام ہے؟‘‘
حسن نے ہچکچا کر کہا: ’’ہاں، کچھ پیسوں کی ضرورت ہے، بڑی بے چارگی کی صورت ہے۔‘‘
اچانک زلیخا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا: ’’شش۔ ۔ ۔‘‘ اور دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ حسن کو ممانی کی جھلک نظر آئی جو لاؤنج سے گزر کر ڈرائنگ روم کی طرف جا رہی تھی۔ حسن گھبرا کر خاموش ہوا، پنبہ درگوش ہوا۔
زلیخا نے سرگوشی میں کہا: ’’ماما آج بڑے غصے میں ہیں۔‘‘
حسن نے گھبرا کر اشاروں میں پوچھا: ’’کیوں؟‘‘
وہ بولی: ’’بنّے بھائی آئے تھے۔ کچھ پھونک گئے ہوں گے کان میں۔ جب آتے ہیں جھگڑا کروا کر جاتے ہیں۔‘‘
اتنے میں ڈرائنگ روم سے ممانی کے تیز تیز بولنے کی آواز آئی۔ زلیخا نے آگے بڑھ کر باورچی خانے کی روشنی گُل کی اور حسن کو خاموش رہنے کا اشارہ کر کے دروازے سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اور حسن کان لگا کر اندر ہونے والا جھگڑا سننے لگے۔
ممانی چلا رہی تھی: ’’تم کسی قابل ہوتے تو ہم ایسے پھٹے حالوں میں نہ رہ رہے ہوتے۔ تمہارے ساتھ کے دکانداروں نے محل کھڑے کر لیے اور ہم ابھی تک اسی کھنڈر میں رہ رہے ہیں۔‘‘
ماموں نے منمنا کر کہا: ’’رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے، اس کا شکر ادا کیا۔۔۔‘‘
ممانی بات کاٹ کر چلائی: ’’اللہ نیچے اتر کر رزق نہیں دیتا کسی کو۔ کمانے کے لیے عقل دی ہے اور ہاتھ پاؤں دیے ہیں۔ انہیں کام میں لاؤ گے تو رزق ملے گا ورنہ نہیں۔‘‘
ماموں نے بے چارگی سے کہا: ’’تو کیا کروں؟ کتابوں کے گاہک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جیب میں اتنا پیسہ نہیں کہ کوئی اور مال ڈالوں۔ دال دلیہ چل رہا ہے، شکر ہے مالک کا۔‘‘
ممانی نے تیز ہو کر کہا: ’’بس ایسی ہی باتوں کی وجہ سے تم بزنس مین نہ بن سکے۔ تمہارے ساتھ کے دکانداروں نے۔۔۔‘‘
ماموں نے تھک ہار کر بات کاٹی اور کہا: ’’اچھا تو تم اب کیا چاہتی ہو؟ کیا کروں میں؟‘‘
ممانی نے دو لمحے سکوت کیا پھر حکمیہ انداز میں بولی: ’’تم ریٹائر ہو جاؤ اور دکان بنّے کے حوالے کر دو۔‘‘
یہ سن کر حسن چونکا۔ زلیخا نے بھنوئیں اچکائیں جیسے کہتی ہو، دیکھا میں نہ کہتی تھی؟
اندر ماموں پریشان ہو کر کہہ رہے تھے: ’’بنّے کو دے دوں؟ تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟‘‘
ممانی نے کہا: ’’وہ چلائے گا دکان کو۔ آدھے آدھے کے پارٹنر ہو گے تم۔ دیکھنا دنوں میں وارے نیارے ہو جائیں گے ہمارے۔ بہت تیز دماغ ہے بنّے کا۔‘‘
زلیخا بڑبڑائی: ’’واقعی بہت ہی تیز دماغ ہے۔‘‘
ماموں نے سوچتے ہوئے کہا: ’’حساب کتاب تو ویسے بھی بنّا ہی دیکھتا ہے۔ اس میں تو آج تک کوئی معجزہ نہیں دکھایا اس نے۔‘‘
ممانی جل کر بولی: ’’دکھائے بھی کیسے؟ دکان میں بیچتے ہی کیا ہو جس سے منافع ہو؟ یہ تو بنّے کا احسان ہے کہ مفت میں تمہارا حساب دیکھتا ہے۔ جب منافع میں حصے دار ہو گا تو دیکھنا دنوں میں کہاں سے کہاں پہنچا دے گا کاروبار کو۔ لیکن تمہیں یہ بات کہاں سمجھ آئے گی۔ میں خوب جانتی ہوں کہ تمہاری اماں نہیں دینے دیتیں دکان۔ انہوں نے کبھی بنّے کو اپنا سمجھا ہی نہیں۔‘‘
ماموں خاموش ہو گئے۔ ممانی کچھ دیر بک بک جھک جھک کرتی رہی پھر پاؤں پٹختی ڈرائنگ روم سے نکلی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
زلیخا نے ٹھنڈا سانس بھرا اور روشنی جلا دی۔ حسن نے دیکھا اس کے چہرے پر اداسی تھی۔
حسن نے کہا: ’’تم ٹھیک کہتی تھیں۔ بنّے بھائی جب آتے ہیں قیامت ڈھاتے ہیں۔ نانی جان ٹھیک کرتی ہیں جو انہیں دکان دینے سے منع کرتی ہیں۔‘‘
زلیخا نے کہا: ’’دادی اماں نہیں، دکان دینے سے میں منع کرتی ہوں ابا کو۔ بنّے بھائی سے مجھے کسی خیر کی امید نہیں اور یہ بات بنّے بھائی جانتے ہیں کہ میں ان کی اصلیت سمجھتی ہوں۔ اسی لیے تو میری شادی کروانے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ میں ان کے راستے کا کانٹا ہوں۔‘‘
حسن نے متعجب ہو کر کہا: ’’قہر برائے جان ہیں، بنّے بھائی ہیں یا چنگیز خان ہیں؟‘‘
زلیخا ہنس پڑی: ’’ہاں، ٹھیک کہتے ہو۔ چنگیز خان ہی ہیں۔ نسیمہ بھابھی کو بھی بہت ستاتے ہیں۔‘‘
حسن نے کہا: ’’یہ بات مردانگی کے خلاف ہے۔ بیوی کی دل شکنی کرنا بھلا کون سا انصاف ہے؟ کل میں نسیمہ باجی سے ملنے جاؤں گا، خبر گیری کر آؤں گا۔‘‘
یہ کہہ کر حسن اپنے کمرے کو سدھارا۔ زلیخا وہیں کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی اور ایک عجیب تاثر تھا۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!