الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

اب سے پہلے حسن کی زندگی میں جب بھی کوئی دکھ، تکلیف یا رنج آتا تھا۔ وہ سب سے پہلے بھاگتا ہوا زلیخا کے پاس جاتا تھا۔ اسی کی تسلی، ہمدردی اور غمخواری سے راحت پاتا تھا۔ اب کے تقدیر نے ایسا پلٹا کھایا اور بدنصیبی نے وہ رنگ دکھایا کہ آپ اپنے ہی دل میں محبت کا مزار ہوا، وفورِ غم سے سینہ فگار ہوا۔ یوں لگتا تھا جان جاتی ہے، کچھ کرتے دھرتے بن نہ آتی ہے۔ پوری دنیا میں کسی کو اپنا مونس و غمخوار نہ پاتا تھا، دل تھا کہ پھٹا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ اخفائے راز اور صبر دونوں محال تھے اور زلیخا کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جو حالِ دل سمجھتا اور زخمی دل پر ہمدردی کا پھاہا رکھتا۔ ستم تو یہ تھا کہ جس کا داغِ مفارقت خون رلاتا تھا، اُسی کے پاس اس درد کی دوا پاتا تھا اور وہ اب حسن کی نہ رہی تھی۔
نانی سے معلوم ہوا کہ یہ رشتہ سراسر ممانی کی خواہش پر ہوا ہے۔ زلیخا ابھی شادی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتی تھی لیکن ممانی نے اس قدر اصرار کیا کہ زلیخا کو ناچار کیا۔
یہ سن کر حسن نے رنج و ملال سے بھر کر کہا:”اتنی جلدی بھی کیا تھی؟ ادھر میں چین گیا، ادھر رشتہ بھی طے کر دیا؟”
نانی نے آہ بھر کر کہا: ” جلدی کہاں، بیٹا؟ یہ رشتہ تو پچھلے تین مہینے سے چل رہا تھا۔ وہ تو زلیخا نہیں مانتی تھی تو ہمارا خیال تھا کہ یہ رشتہ ہو گا ہی نہیں۔لیکن پروین نے اپنے دکھوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ زلیخا کو مجبور کر دیا۔ پروین کے کسی جاننے والے کے رشتے دار ہیں یہ لوگ۔ پروین کی ہمیشہ سے صرف ایک ہی خواہش تھی کہ بس کسی طرح زلیخا کا رشتہ کسی امیر گھر میں ہو ۔ ہاں بھئی ماں ہے، بیٹی کے لیے اچھے گھر کی خواہش تو فطری ہے۔لیکن بچی کی تعلیم تو پوری ہونے دیتی۔ وہ غریب روتی رہ گئی کہ میری پڑھائی پوری ہونے دو۔ پھر آخر میں نے شرط رکھی کہ کم از کم تین سال تک شادی کا نام نہیں لیں گے وہ لوگ۔”
حسن کو کچھ ڈھارس ہوئی، امید بندھی۔ کہا:”کون جانے تین سال میں کیا ہو جائے؟”
نانی نے کہا۔” ہونا کیا ہے؟ لڑکاا مریکہ پڑھنے جا رہا ہے۔ گھر والے منگنی کر کے بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ کسی میم سے دل نہ لگا بیٹھے۔ کہتے ہیں بس ایک سال انتظار کریں گے ،پھر شادی کر دیں گے۔ زلیخا بھی ساتھ باہر چلی جائے، وہاں پڑھتی رہے۔اب توُ خود ہی بتا بیٹے، ایسے رشتے کو ہم انکار کیسے کرتے؟”
حسن کی رہی سہی آس بھی ٹوٹ گئی، آخری امید بھی چھوٹ گئی۔ ممانی پر جو غصہ آیا سو آیا، رقیب پر بھی اس قدر جھنجھلایا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی :” یا الٰہی، اپنی قدرت سے موٹے کو کوئی ایسی حسین میم عطا کر کہ یہ ناہنجار اسکے عشق میں گھر جائے، زلیخا سے دل پھِر جائے۔”
حسن کا خیال تھا کہ جس طرح اس نے کرن کو کھودینے کے بعد دکان میں دل لگایا تھا اور کام کو اسے بھلانے کا ذریعہ بنایا تھا۔ اسی طرح اب بھی یہ کوشش باآور ثابت ہوگی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ کرن کی بے وفائی سے اسے بالکل ویسا صدمہ ہوا تھا جو ایک بچے کو اپنی پسند کا کھلونا نہ ملنے سے ہوتا ہے لیکن زلیخاکو کھو دینے پراس کی حالت اس بچے کی سی تھی جو بھرے میلے میں کھو گیا ہو، اور اسے سمجھ نہ آتی ہو کہ اب کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ 
وہ دکان جاتا تھا، کھاتا پیتا تھا، لوگوں سے ملتا تھا لیکن دل تھا کہ مستقل بیٹھے جاتا تھا، مسلسل کسک سے کہیں چین نہ پاتا تھا۔ایک دو مرتبہ حسن کے دل میں آیا کہ چِین چلا جائے اور جاکر اس زنِ پیر سے التجا کرے کہ مجھے میرے زمانے میں واپس بھجوا دو، مجھ پر یہ احسان فرما دو۔ لیکن پھر سوچتا وہاں جاکر بھی چَین کیونکر پاؤں گا؟ زلیخا کو دیکھے بغیر کیسے جی پاؤں گا۔ تنہائی کا جو عالم یہاں ہے وہاں اس سے بھی سِوا ہوگا، دل میں حشر بپا ہوگا۔
ایک شام حزن و ملال کے اسی عالم میں دکان پر بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اٹھا کر دیکھا تو زلیخا فون کرتی تھی۔ حسن کو یقین نہ آیا۔ اتنے دن سے زلیخا اس سے چھپتی پھر رہی تھی۔ صبح حسن کے اٹھنے سے پہلے کالج چلی جاتی، دیر سے واپس آتی اور آتے ہی کمرے میں بند ہوجاتی۔ اور کہیں بیٹھی ہوتی اور حسن آجاتا تو فوراً اٹھ کر چلی جاتی۔ حسن خود بھی اس سے نظریں چراتا تھا۔ جب وہ اس محبت نہیں کرتی تھی تو خواہ مخواہ میں خود کو اس پر مسلط کیوں کرتا؟ یک طرفہ آئیلویولوکا دم کیونکر بھرتا؟
لیکن اب زلیخا فون کرتی تھی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ حسن نے فون اٹھایا۔ زلیخا کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ ”حسن! منّادکان پر ہے؟”
چند لمحے تک حسن کو سمجھ نہ آیا کہ کیا پوچھتی ہے۔ ادھر ادھر دیکھا ، منّا کہیں نظر نہ آیا۔ اس وقت حسن کو احساس ہوا کہ وہ اپنے غم و حزن میں اس قدر ڈوبا رہتا تھا کہ اتنے دن سے توجہ ہی نہ دی تھی کہ اردگرد کیا ہوتا ہے، کون کیا کرتا ہے۔ منّا دکان پر آتا بھی ہے یا نہیں۔
حسن نے پاس سے گزرتے لڑکے کو روک کر اس سے منّے کی بابت دریافت کیا۔ معلوم ہوا آج صبح سے نہیں آیا ہے۔ حسن حیران ہوا۔ یہی بات زلیخا کو بتائی۔ وہ روہانسی ہو کر بولی:” آج سکول بھی نہیں گیا۔ صبح یونیفارم پہن کر گھر سے نکلا تھا۔ دوپہر کو واپس نہیں آیا۔ سکول فون کرکے پتا کیا تو وہ کہتے ہیں آج سکول آیا ہی نہیں۔ میں نے سوچا شاید تمہارے ساتھ ہو۔ لیکن وہاں بھی نہیں۔ منّا کہاں گیا، حسن؟” 
یہ سن کر حسن گھبرایا، بے حد پریشان ہوا۔ کہا: ”تم فکر مت کرو، زلیخا۔ میں آرہا ہوں۔” 
حسن افتاں و خیزاں گھر واپس آیا تو وہاں نانی اور ماموں کو بھی بیٹھاپایا۔ نانی بے حد پریشان بیٹھی تسبیح پڑھتی تھی، دعائیں کرتی تھی۔ ماموں ہاتھ پیر چھوڑے بے دم پڑے تھے۔ ممانی زارو قطار روتی تھی اور ہائے میرا بچہ، ہائے میرا بچہ کی گردان کرتی تھی۔ اور زلیخا دھواں دھواں چہرے کے ساتھ ممانی کے پاس بیٹھی انہیں تسلیاں دیتی تھی۔ حسن کو آتے دیکھا تو ممانی روتے ہوئے اٹھی اور تیزی سے حسن کے پاس آکر اس کے ہاتھ دبوچ لیے۔
گڑگڑا کر بولی :”میرے منّے کو ڈھونڈلا، حسن۔ تجھے تیری ماں کا واسطہ! میرے بچے کو ڈھونڈ لا۔ توُ بڑا پیار کرتا تھا اس سے۔ چھوٹا بھائی سمجھتا تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی کو ڈھونڈلا۔” 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

Read Next

ورثہ

5 Comments

  • The last episode of Alif Laillah is not completed. Please add the pages. Its very interesting. I want to finish it. Thank you

  • الف لیلہ کی آخری قسط نامکمل ہے۔ اس کو مکمل کردیں۔ شکریہ

  • Assalam o alaikom
    Alif Lela ki last epi mukammal nahe hai kuch pages miss hain plz epi complete post kr dain

  • داستان الف لیلیٰ 2018 آخری قسط نامکمل ہے، محض 6 صفحات باقی کہاں ہے؟

  • فیڈ بیک کا جواب تو دیں آپ نے ابھی تک اس کہانی کو مکمل بھی نہیں کیا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!