دوستوں کی طرف سے تسلی ہوئی تو حسن کو گھر والوں کا خیال آیا۔ نانی جان کی یاد آئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ، آنکھ میں نمی آئی۔ اس مادرِ مہربان کی شفقت و محبت میں حسن کو اپنی ماں نظر آئی تھی۔ غریب الوطنی میں انہی کے سبب راحت پائی تھی۔ لیکن نانی کو اس کے جانے سے کوئی فرق نہ پڑے گا۔ انہیں اپنا حسن بدر الدین واپس ملے گا۔ وہ اسی سے دل لگائیں گی، شاید کوئی فرق پہچان بھی نہ پائیں گی۔
سب سے بڑی ذمہ داری جو حسن نے اپنے اوپر لی تھی وہ نسیمہ آپا کی تھی۔ اب وہ اپنے گھر میں خوش و مسرور تھی، ماموں کے ساتھ زندگی بھرپور تھی۔ اب ان دونوں کو حسن سے سروکار کیوں ہو؟ اس کا انتظار کیوں ہو؟ یہ سوچ کر حسن کو اطمینان ہوا، طالعِ نیک کا احسان ہوا۔ یہ سوچ کر اور بھی طمانیت ہوئی کہ دونوں دکانوں کے معاملات بہت حسن و خوبی کے ساتھ کاغذات میں لکھ رکھے تھے اور ان پر گواہوں کے دستخط تھے۔ نئے زمانے کے حسن بدرالدین کو دکانوں کے معاملات میں کوئی مسئلہ و ابہام نہ پیدا ہوگا۔ حسن کی دکان حسن کے نام تھی اور ماموں کی دکان کرائے پر لی گئی تھی جس کا کرایہ ممانی کو آتا تھا، ان کا گھر چلاتا تھا۔
ممانی کی یاد آئی، حسن کو بہت ہنسی آئی۔ ممانی نے پینترا بدل لیا تھا اور اب ماموں کو قابو کرنے کی فکر میں تھی۔ حسن کی ضرورت نہ اسے پہلے کبھی تھی نہ آئندہ ہوگی۔ ہاں، مُنّا حسن کو پیارا تھا،حسن نے اس کا مستقبل بھی سنوارا تھا۔ ابھی سے اسے دکان لے جانے لگا تھا، تجارت کے گر سکھانے لگا تھا۔ ابھی سے سودا گری کی تعلیم پاتا تو جوان ہونے پر خوش اسلوبی سے کاروبار چلاتا۔ بس ایک معمولی سی فکر تھی کہ حسن اسے باقاعدگی سے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ حسن کے جانے کے بعد جانے کون اسے لے جاتا، کہیں وہ دوبارہ صحبتِ بد میں نہ پڑ جاتا؟ خیر حسن نہ بھی ہوا تو زلیخا تو ہے ہی وہ خود ہی اسے………
زلیخا کا خیال آنا تھا کہ حسن کے دل کو گویا کسی نے اس زور سے گھونسا مارا کہ سانس بند ہوگئی۔ ہاتھ سے ماں کی انگوٹھی چھوٹ کر گر پڑی اور حسن دم بخود، مانندِ تصویر ساکت، نقش بہ دیوار صامت بیٹھا رہ گیا۔ اس نے زندگی کے ایک ایک فرد کے بارے میں خود سے سوال کیا تھا کہ اگر میں واپس چلا گیا تو کیا وہ میرے بغیر رہ لیں گے؟ ہر سوال کا جواب اثبات میں ملا تھا۔ زلیخا کی یاد آتے ہی دل میں پہلا خیال آیا تھا کہ کیا میں زلیخا کے بغیر رہ لوں گا؟ اور اس سوال کا جواب اس شدت سے نفی میں ملا تھا کہ حسن کو یوں لگا جیسے وہ زلیخا سے دور ہونے کے خیال ہی سے بے دم ہوگیا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوا گویا وہ سمندر میں ڈوب رہا ہے اور صرف زلیخا ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔ یوں لگا کہ جسم سے روح چھوٹے جاتی ہے، سانسوں کی لڑی ٹوٹے جاتی ہے۔ اس انکشاف سے اس قدر خلفشار ہوا کہ غش آیا۔
لیکن یہ کچھ ایسا عجیب و غریب غش تھا کہ حسن دم بخود بسترپر پڑا تھا، آنکھیں کھلی تھیں اور آنکھوں کے آگے ان دو سالوں کی ایک ایک یاد تصویر بن کر چلتی تھی۔ اس عالمِ بے خودی میں حسن نے یاد کی آنکھوں سے دیکھا کہ جب اس نے نئے زمانے میں آنکھ کھولی تھی تو جس انسان کا چہرہ سب سے پہلے نظر آیا تھا وہ زلیخا تھی۔ یہ زلیخا ہی تھی جس نے ہمیشہ اسے بنّے بھائی کے دستِ تعدی سے بچایا تھا۔ زمانے کا نشیب و فراز سمجھایا تھا۔ ہمیشہ نانی اور ممانی کے آگے حسن کی طرفداری کی تھی، سداوفاداری کی تھی۔ حسن نے اپنی داستانِ غم، باپ کے بکرا بننے کا احوال، نئے زمانے میں آپڑنے کا جنجال سب سے پہلے زلیخا ہی کو سنایا تھا۔ اور جب کندئہ نا تراش گھامٹر بن کر کرن پر فریفتہ ہوگیا تھا، بلا سوچے سمجھے والہ و شیفتہ ہوگیا تھا، تو عشق کی یہ واردات بھی سب سے پہلے زلیخا کو سنائی تھی۔
دکان میں بنّے بھائی کی سازشیں، کرن سے ملاقات کے لیے جانا، وہاں کھڑکی سے گر کر ٹانگ تڑوانا، اداکاری کی پیشکش کا ہونا، ماں کا خزانہ پانا، دکان میں مال ڈلوانا، نسیمہ باجی کو کاروبار شروع کرانے کا منصوبہ، کرن کی بے وفائی… حسن کی زندگی کی کوئی خوشی، کوئی غم، کوئی منصوبہ ایسا نہ تھا جس میں زلیخا اس کی ہمدم و ہمسازنہ تھی، رفیق و ہمراز نہ تھی۔
باہر رات بھیگتی تھی اور اندر حسن اپنے بستر پر پڑا زلیخا کو اپنے دل پر قابض ہوتے دیکھتا تھا۔ اس کی خوب صورت آنکھیں، اس کی سلونی رنگت، اس کے ناک میں پڑی ہیرے کی لونگ، سب حسن کے سامنے یوں روشن تھیں کہ گویا زلیخا اس کے سامنے بیٹھی ہو اور بہ زبانِ حال کہتی ہو۔
توُ من شدی من توُ شدم من تن شدم توُ جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم توُ دیگری
(توُ میں ہوگیا اور میں توُ بن گیا، میں جسم ہوا اور توُ جان۔ تاکہ بعد میں کوئی یہ کہہ سکے کہ توُ کوئی اور ہے اور میں کوئی اور)
حسن اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خود سے کہا۔ ”اے حسن بدرالدین! خارج العقل، عدوئے خرد، میاں صاحبزادے، آپ آج تک نہ سمجھے کہ زلیخا کے ساتھ آپ کا رشتہ کیا ہے؟ کرن کے عشق میں سودائی، ڈھی دیئے، بیٹھے رہے۔ دل لگی اور محبت میں فرق نہ جانا؟ کرن پر صرف اس لیے ریشہ خطمی تھے کہ صورت اچھی تھی اور صرف یہ غرض تھی کہ ایسی پری وش ہاتھ آئے اور بغل گرمائے۔ تو پھر اس عشق میں جو بویا وہی کاٹا، جو چاہا وہی پایا۔ ”اس کے لیے آپ ہیں نا۔” جیسا دل آزار جملہ سننے میں آیا۔ اُس کے پاس صرف دل لگی کے لیے جاتے تھے، لیکن دل کی بات اور تسلی تشفی صرف زلیخا سے پاتے تھے۔ پھر بھی نہ سمجھے کہ زلیخا سے محبت کرتے ہو؟ وہ محبت جو دل کو دل سے ہوتی ہے روح کی گہرائیوں کو چُھوتی ہے۔ جس میں آپس میں بات کرنے کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ وہ دھیمی آنچ ہے جو شعلے کی صورت نہیں ہوتی۔”
حسن نم آنکھوں کے ساتھ ہنس پڑا۔ اسے یاد آیا کہ جب لاہور کے ہوائی اڈے پر وہ اندر جارہا تھا اور مڑ مڑ کر زلیخا کو دیکھتا تھا تو اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا اپنے ہاتھ بازو وہاں چھوڑے جارہا ہو۔ اب معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ بازو نہیں اپنا دل زلیخا کے پاس چھوڑے جاتا تھا، اس کے بغیر زندگی کو بے مایہ پاتا تھا۔ اور اگر صرف چند دن زلیخا کی رفاقت، ہمدردی اور مدد کے بغیر کاٹنے دشوار تھے تو کیا وہ پوری زندگی زلیخا کے بغیر رہ پائے گا؟ اس سے دوری سہہ پائے گا؟
فیصلہ ہوگیا تھا۔ حسن واپس نہیں جاسکتا تھا، زلیخا کے بغیر ایک ناخوش و نامراد زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔ زندگی تھی تو زلیخا کے ساتھ تھی، ورنہ نہیں تھی۔
باہر پوپھٹنے لگی تھی۔حسن نے کاغذ قلم نکالا اور اپنے تمام حالاتِ زندگی تفصیل سے تحریر کیے۔ جس وقت وہ اپنی آپ بیتی لکھ کر فارغ ہوا، دن خاصا چڑھ آیا تھا۔ حسن نے اس خط کو لفافے میں بند کیا، اس پر ایک پتہ لکھا اور اسے جیب میں ڈال کر باہر نکل آیا۔
اللہ کا نام لے کر چلا اور خضر فرخ پے یعنی جی پی ایس کی مدد سے اس زنِ پیر کی گلی میں پہنچا جو خود کو ساحرہ بتاتی تھی ،حسن کو واپس بھیجنے کی صلاحِ بزرگانہ سمجھاتی تھی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اس ضعیفہ کے کمرے میں پہنچا تو اسے اپنا منتظر پایا۔
5 Comments
The last episode of Alif Laillah is not completed. Please add the pages. Its very interesting. I want to finish it. Thank you
الف لیلہ کی آخری قسط نامکمل ہے۔ اس کو مکمل کردیں۔ شکریہ
Assalam o alaikom
Alif Lela ki last epi mukammal nahe hai kuch pages miss hain plz epi complete post kr dain
داستان الف لیلیٰ 2018 آخری قسط نامکمل ہے، محض 6 صفحات باقی کہاں ہے؟
فیڈ بیک کا جواب تو دیں آپ نے ابھی تک اس کہانی کو مکمل بھی نہیں کیا۔