الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط
(رات:٢٧)
آخری رات
ظاہر ہونا حسن پر عشق،بنّے بھائی اور حُسن کی اصلیت کا:
ستائیسویں کی رات وہ رات ہے کہ اس کے آگے ہزار سالوں کو مات ہے۔ ستائیسویں کی ایک رات رمضان میں آتی ہے کہ اس رات کو باری تعالیٰ انسانوں کی جوق در جوق جان بخشی کرتا ہے اور ایک ستائیسویں رات آج ملکہ شہرزاد کی زندگی میں آئی تھی، جانے اپنے جلو میں کیا لائی تھی؟ جاں بخشی یا قضائ؟ صلہ رحمی یا سزا؟ ملکہ کا دل گھبراتا تھا، چین نہیں آتا تھا۔ سوچتی تھی، آج ستائیسویں رات جب کہانی ختم ہوگی تو دیکھئے کیا انجام ہو؟ جان بخشی ہو یا کام تمام ہو۔
اسی فکر میں غلطاں و پیچاں، حیران و پریشاں تھی کہ خورشید ِتابدار نے چادرِ مشکیں میں منہ چھپایا اور چاند نے چرخِ نیلی پر مکھڑا دکھایا۔ بادشاہ شہریار سلطنت کے کام سے فراغت پاکر خوابگاہ میں آیا اور شہر زاد کو طلب فرمایا۔
شہرزاد پہلے تو بادشاہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوئی اور توصیف میں یوں عذب البیان ہوئی۔
نطق نے تیس حروفوں سے ترے عہد کے بیچ
سین و واؤ و الف و لام کو ڈالا ہے نکال
تو وہ عادل ہے جہاں میں کہ قلمرو میں ترے
چیونٹی بھی دستِ تعدی سے نہ ہووے پامال
بادشاہ بے اختیار مسکرایا اور خود کو بہت محظوظ پایا۔ ملکہ شہرزاد کی تعریف میں چھپے سوال کو بخوبی سمجھ گیا لیکن کسی وعدے سے گریز کیا۔ کہا تو صرف اتنا: ”اے ملکۂ جادو جمال ۔حسن بدرالدین کی باقی کہانی کہہ ڈالو کہ پہاڑ سی رات کٹ جائے، صبح خدا جانے تقدیرکیا پلٹا کھائے۔”
ملکہ شہرزاد، رشکِ گلر خانِ نوشاد نے دل کو سنبھالا اور جھک کر تسلیم بجالائی اور سلسلۂ سخن یوں شروع کیا کہ اے ظلِ الٰہی، حسن بدرالدین خاتونِ ضعیفہ سے مل کر خوش خوش واپس آیا اور ہوٹل کے کمرے میں پہنچتے ہی سجدئہ شکر بجا لایا۔ فوراً اپنا سامان کھولا اور اس کے خفیہ خانے سے اپنے ماں کے جواہرات نکالے۔ اپنی ماں کی انگوٹھی وہ ہمہ دم اپنے ساتھ رکھتا تھا اور پل بھر کو بھی جدا نہیں کرتا تھا۔ یہ انگوٹھی اس کے لیے خوش بختی کا سبب تھی۔ جب سے ملی تھی، حسن کی زندگی بہتری کی جانب رواں تھی۔ اس لیے وہ یہ انگوٹھی اور دو ہیرے اپنے ساتھ لیتا آیا تھا۔ ارادہ تھا کہ یہاں کسی جوہری کو دکھا کر قیمت لگوائے گا اور اگر بہتر قیمت ملی تو بیچ کر کام میں لائے گا۔
اب جو قسمت نے یہ پلٹا کھایا کہ اپنی زندگی میں واپس جانے کا موقع میسر آیا تو حسن کی دلی مراد برآئی، سفرِ زمانہ کی دھن سمائی۔ سوچا، اس زمانے کا پھل پاچکا ہوں، انواع و اقسام کے صدمے اٹھا چکا ہوں۔ اگرچہ باری تعالیٰ نے بہت فضل کیا اور معاملات کو میرے لیے آسان کردیا لیکن اب واپس جانا ضرور ہے، یہ بات مجھے دل سے منظور ہے۔ میری اصل زندگی تو وہی تھی۔ یہاں تو میں بیگانہ ہوں، کسی کا اپنا ہوں نہ یگانہ ہوں۔ وہاں میرے والد جنت مکاں، فردوس آشیاں کا محل موجود ہے، اس میں جاکر ٹھہروں گا۔ ماں کے یہ ہیرے بیچ کر والد ہی کی دکان واپس خریدوں گا اور ان کی نصیحت کے بموجب تجارت کے جوگرُ میں نے والد سے اور اس نئے زمانے سے سیکھے ہیں، انہیں دیانتدارانہ کام میں لاؤں گا، تجارت میں نام کماؤں گا۔ میں اکیلی جان ہوں، بہت نہ بھی کما سکا تو تھوڑا بہت بھی میرے گزارے کو بخوبی کافی ہوگا۔ یہی سرمایہ وافی ہوگا اور نہ بھی ہوا تو تن بہ تقدیرر ہوں گا ،کہ جس خدا نے یہاں روزی دی ہے وہ وہاں بھی دے گا، کبھی اکیلا نہ چھوڑے گا۔ اپنے شہر میں روزی نہ ملی تو کہیں اور چلا جاؤں گا، دست و بازو سے روٹی کماؤں گا۔ ملک خدا تنگ نیست، پا ے میرا لنگ نیست۔
بہت دیر تک حسن اپنے ماضی کو یاد کرتا رہا، کبھی ہنستا کبھی روتا رہا۔ اس ماضی میں حسن کی پوری زندگی تھی، ماں باپ کی یا دیں تھیں، ان کی قبریں تھیں۔ وہ مکان تھا جہاں حسن کا بچپن اور جوانی ماں باپ کی شفقت کے سائے تلے گزرے تھے۔ وہ گھر جس کی اس نے قدر نہ کی، ماں باپ کو کوئی خوشی نہ دی۔ اب تقدیر نے ایک موقع دیا تھا تو حسن کا بس نہ چلتا تھا کہ لمحے کی دیر کیے بغیر واپس جائے، باپ کے نام کو چار چاند لگائے۔ ایسی شرافت، خردمندی اور وضع داری سے زندگی گزارے کہ سب لوگ پکار اٹھیں کہ یہ مرحوم بدرالدین کا فرزند ہے، درِ جہالت اس پر بند ہے۔
زندگی کے معجزے بھی عجیب ہیں کہ وہ وقت جو کبھی ماضی تھا، اب مستقبل بننے جارہا تھا۔ ماضی اور مستقبل سے نظر ہٹی تو حال پر پڑی۔ حسن کو ہر اُس فرد کا خیال آیا جسے وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ وہ دوست یار جن کی کہانیاں اس نے پہلی مرتبہ ایف سی کالج کے بوٹینیکل گارڈن میں بیٹھے سگریٹ پیتے ہوئے سنی تھیں۔ اسے وہ طوطا یاد آیا جو بندو نے اپنی محبوبہ کو تحفے میں دیا تھا، جس کا نام اس نے بندو کے نام پر بندو رکھا تھا اور جس کے ہاتھوں بندو نے جدائی و رسوائی کا مزا چکھا تھا۔ یہ سوچ کے حسن خوش و مسرور ہوا کہ اب بندو دکان میں اس کا رفیقِ سلیقہ شعار تھا، فنِ تجارت میں آزمودہ کار تھا اور چونکہ بہت اچھا کھاتا کماتا تھا تو بلا رکاوٹ اپنی معشوقہ کو عقدِ نکاح میں لایا تھا، جہیز میں طوطا بھی پایا تھا۔ اب بندو حسن کے بغیر بھی زندگی کی گاڑی خوش اسلوبی سے کھینچ سکتا تھا۔ یہی صورتحال نعیم اور محسن کی بھی تھی۔ نعیم دکان کا سارا حساب کتاب کمپیوٹر پر چڑھاتا تھا، محسن اپنی طعام گاہ چلاتا تھا۔ دونوں اپنی مرضی اور خوشی کا کام کرتے تھے، حسن کی سخاوت کا دم بھرتے تھے۔ دونوں ہی کا روزگار خود بخود چل رہا تھا، دونوں ہی کو اب حسن کے سہارے کی ضرورت نہ تھی۔ رہا عاکف تواس کااور اس کے ساتھ ساتھ کرن کا باب بند ہوچکا تھا اور حسن کو ان کی کچھ پرواہ نہ رہی تھی۔
5 Comments
The last episode of Alif Laillah is not completed. Please add the pages. Its very interesting. I want to finish it. Thank you
الف لیلہ کی آخری قسط نامکمل ہے۔ اس کو مکمل کردیں۔ شکریہ
Assalam o alaikom
Alif Lela ki last epi mukammal nahe hai kuch pages miss hain plz epi complete post kr dain
داستان الف لیلیٰ 2018 آخری قسط نامکمل ہے، محض 6 صفحات باقی کہاں ہے؟
فیڈ بیک کا جواب تو دیں آپ نے ابھی تک اس کہانی کو مکمل بھی نہیں کیا۔