زلیخا تو دن رات سوچ و فکر میں گم رہنے لگی تھی لیکن نانی تھیں کہ ہر وقت حسن کو خوش کرنے کے جتن کرتی تھیں۔ کبھی منے سے کہتیں کہ حسن کو کرکٹ کھلانے لے جائے، کبھی زلیخا سے کہتیں کہ اسے گھما لائے۔ اور اس قدر اصرار کرتیں کہ ناک میں دم کردیتیں۔ ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے زلیخا ایک دن حسن کو ماڈل ٹاؤن پارک بھی لے گئی۔ گوکہ حسن نے وہاں کی جھیل میں کشتی رانی کا لطف اٹھایا لیکن باہم خوش فعلیاں کرتے جوڑوں کودیکھ کر اسے محبوبہ ناز نین کا خیال آیا، دل بھر آیا۔ زلیخا کو بہت غصہ آیا، بہت ناک بھوں چڑھائی، ناراض ہوکر گھر کو آئی۔
گھر آکرنانی سے بولی۔ ‘‘یہ پکڑیں اپنا نمونہ۔ بیٹھے بیٹھے اس کو اپنی محبوبہ یاد آجاتی ہے ۔ رونے دھونے لگ جاتا ہے۔ میں کہاں تک اس کی بے بی سٹنگ کروں؟ ’’
نانی کو فکر ہوئی کہ گھر بیٹھے بیٹھے کہیں حسن کا دماغ مزید نہ الٹ جائے۔ اس لئے اس کے دوستوں کو بلوایا اور فرمائش کی کہ حسن کو ساتھ لے جائیں، دل بہلائیں۔
دوست حسن کو لے کر باہر آئے۔ بندو نے کہا۔ ‘‘لے جانی خوش ہوجا۔ ایسا دل بہلائیں گے تیرا کہ کیا کبھی بہلا ہوگا۔ وہ لڑکا یاد ہے جو ہمارے ساتھ ہیش پیا کرتا تھا؟ وہ جس کا باپ بڑا امیر تھا۔’’
نعیم نے کہا۔ ‘‘کون؟ باپ تو عاصم کا امیر ہے۔’’
بندو بولا۔ ‘‘نہیں یار، وہ جس کا باپ بزنس مین تھا۔ ڈیفنس میں رہتا تھا۔ خوب پارٹیوں کا شوقین تھا۔ چار گرل فرینڈز تھیں اس کی۔ ’’
حسن کو وہ چہار قلندروں کی محفل یاد آئی جو ایف سی کالج کے بوٹینکل گارڈن میں جمی تھی اور جس میں نعیم، بندو اور عاصم کے ساتھ ساتھ دو اور لڑکے بھی تھے۔ ایک وہ جس کا ابھی بندو نے ذکر کیا تھا اور دوسرا وہ جو انجینئر نہیں باورچی بنناچاہتا تھا۔
بندو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ‘‘غفران نام ہے اس کا ۔ یار کیا ٹائٹ پارٹیاں ہوتی ہیں اس کی۔ بیدیاں روڈ پہ فارم ہاؤس ہے اس کا۔ وہاں کرتا ہے پارٹی ۔ آج بھی پارٹی ہے۔ چل وہاں چلیں۔’’
حسن نے پوچھا۔ ‘‘اور وہ دوسرا لڑکا کون تھا جسے باپ نے زبردستی پڑھنے پر لگا رکھا تھا ؟ جو تندور پر روٹیاں لگانے کا شوق رکھتا تھا؟ ’’
بندو نے کہا۔ ‘‘کون؟ محسن؟ ہاں یار اس بے چارے کی بھی بڑی مسکین زندگی ہے۔ چل اس کو بھی لے چلتے ہیں۔’’
یوں یہ پانچ لوگ بندو، نعیم، حسن، عاصم اور محسن مل کر بیدیاں روڈ جا پہنچے جہاں ایک چہار دیواری نظر پڑی جو روشنیوں سے بقدر نور ہوئی جاتی تھی ، چنگ و رباب کی صدا روح وجد میں لاتی تھی۔ اس چہادر دیواری کا عالیشان پھاٹک محراب دار تھا اور یہاں سے وہاں قیمتی قیمتی گاڑیوں کا عجیب لطف بہار تھا۔ پھاٹک پر کچھ لوگ بندوقیں لئے کھڑے تھے۔ یقینا گارڈز تھے۔ حسن اور اس کے دوست قریب پہنچے تو انہوں نے روک لیا اور رقم طلب کی۔
بندو نے کہا۔ ‘‘یار ہم تو غفران کے دوست ہیں۔’’
گارڈز نے مودب ہوکرکہا۔ ‘‘انہی کا آرڈر ہے سر۔ پارٹی کی اینٹری فیس must ہے۔ آپ 5 ہزرار روپیہ فی بندہ پے کریں اور پارٹی انجوائے کریں ۔’’
سب دوستوں نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ پھر نعیم نے کہا ۔ ‘‘اتنے پیسے تو ہمارے پاس نہیں۔’’
گارڈ نے کہا ۔ ‘‘ایک دوسری صوت بھی ہے، سر۔ آپ لوگ ایک ایک Ecstacy کی pill خرید لیں۔ وہ آپ کی انٹری کا ٹکٹ ہوجائے گی۔’’
بندو خوش ہوا اور بولا۔ ‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے۔ کتنے کی ہے ایک pill؟’’
گارڈ نے چھوٹی چھوٹی گولیوں کا ایک پتہ نکال اور ہوا میں لہرا کر بولا۔ ‘‘صرف تین ہزار روپے فی pill۔ ڈسکاؤنٹ پرائس۔’’
اب پھر یہ پانچوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ ان سب میں صرف عاصم پیسے والا تھا، باقی سب فُقرے تھے۔
عاصم نے کہا۔ ‘‘یار یہ تو نہ دینے والی بات ہوئی۔ کچھ تو خیال کریں، سٹوڈنٹ ہیں ہم۔’’
بڑی دیر ردوکد اور بحث مباحثہ ہوتا رہا، آخر طے یہ پایا کہ سب دوست مل کر دو گولیاں خریدیں گے اور جس کے عوض انہیں دو گھنٹے تک اندر رہنے کی اجازت ہوگی۔
بندو نے منہ بنا کر کہا۔ ‘‘ہم نے کون سا استعمال کرنی ہے Ecstacy ؟ ہم نے تو لے کرپھینک ہی دینی ہے۔ خیر لاؤنکالو سب پیسے۔’’
جس کے پا س جو کچھ تھا نکال کر دیا (زیادہ حصہ عاصم نے ڈالا) اور انہوں نے دو گولیاں خریدلیں۔ بندو نے گولیاں جیب میں ڈالیں اور کچھ سوچ کر بولا۔ ‘‘پھینکنے کے بجائے آدھی پرائس پر آگے بیچ دیتا ہوں۔ کچھ پیسے تو واپس وصول ہوں۔’’
حسن نے پوچھا۔ ‘‘میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس گولی کا مصرف کیا ہے اور اندر اس محفل طربِ ونشاط میں جانے کے لئے اسے خریدنا کیوں ضروری ہے؟’’
بندو ہنسا اور پچکار کر بولا۔ ‘‘میری ریشماں تو کب جوان ہوگی؟ چاند میرے ، یہ نشے کی گولی ہے۔ ایسی تیز کہ دنیا بھلادے، مریخ پہ پہنچادے۔ لوگ یہ گولی کھائیں گے تو ہی پارٹی میں رونق لگے گی نا۔ چل اب اندر چل ۔ دوگھنٹے کا وقت ہے صرف۔’’
یہ کہہ کر تیز قدموں سے اندر کو چل دیا۔ سب دوست پیچھے پیچھے چلے اور پھاٹک سے اندر پہنچے۔
اندر گئے تو حسن نے دیکھا کہ ایک وسیع وعریض باغ کے کنارے ایک عمارت عالیشان ہے۔ عمارت کیا ہے، حوروں کے رہنے کامکان ہے، صاف پرستان ہے۔ باغ میں جدھر دیکھئے سبزہ زمرد گلگوں ، گلہائے معنبرکے الوان بوقلموں ۔ عین صحنِ چمن میں سنگ مرمر کا حوض لطافت بار، پانی جواہرخیز و گوہر بار۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس حوض کے کنارے پندرہ بیس ماہ رو اور ماہ جبیں، حوارنِ حسیں محوِ رقص ہیں۔ لڑکیاں کیا ہیں، پریاں ہیں۔ پندرہ پندرہ سولہ سولہ برس کا سن، جوانی کی راتیں مُرادوں کے دن۔ جو ہے پری زاد ہے، عجب حسنِ خداداد ہے۔ ان کے ساتھ اسی قدر تعداد میں جوان مرد، عمدہ عمدہ لبا س زیب تن، ظالم جوانی، ستم کا جوبن۔ حسن حیران تھا کہ یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے کہ اتنے خوبرو مرد گلبدن و حسینانِ پرفن، شوخ و شنگ ، گلرخانِ فرنگ ایک مقام پر جمع ہیں۔ پریوں کا دنگل ہے، جنگل میں منگل ہے۔ صرف ایک بات عجیب تھی کہ ان پریوں نے اتنے چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن رکھے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں پھٹتی تھیں۔ عاشق کے گریبان کے بارے میں سنا تھا کہ چار گرہ کپڑے کا ہوتا ہے۔ یہاں سب کے گریبان عاشق کے گریبان کو مات کرتے تھے۔ بندِقبا اور دامنِ قبا میں دو بالشت سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ موسیقی کی صدائیں دل گرماتی تھیں، کانوں کے پردے پھاڑے ڈالتی تھیں۔ اور اس موسیقی پر یہ تمام نوجوان پر فن محوِ رقص تھے۔ جی جان سے ناچے جاتے تھے، لطف زندگانی اٹھاتے تھے۔
شہرزاد یہاں تک کہانی کہہ چلی تھی کہ اتنے میں جمالِ شب نے سیاہی کا بوجھ اتارا اور عاملِ روز کا خیمہ زنگار دور سے کچھ کچھ نظر آیا۔ شہزاد نے بادشاہ سے عرض کیا کہ جہاں پناہ رات کی سیاہی دور ہوئی، ظلمتِ شب کا فور ہوئی۔ اب انشاء اللہ شب کو جب حضور آرام کو آئیں گے تو اس جلسہء خوش نصیب کا حال سناؤں گی، معرضِ بیان میں لاؤں گی۔
(باقی آئندہ)