شہریار نظیر کی گاڑی حسن بدر الدین کو لے گئی اور ایک ایسی عظیم الشان حویلی کے سامنے جا اتارا کہ جس کی شوکت و سِطوت سلاطینِ دہلی کے دور کی یاد تازہ کرتی تھی اور جسکے پھاٹک پر تین خوبصورت گھوڑے بندھے تھے۔ جب سے حسن نئے زمانے میں آیا تھا، اس نے گھوڑے نہ دیکھے تھے۔ اب جو زمانوں بعد گھوڑوں پر نظر پڑی تو خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ نگاہوں میں باپ کے اصطبل کے وہ اصیل ترکی اور عربی گھوڑے گھوم گئے جن پر وہ سواری کیا کرتا تھا۔ روز ایک سے ایک بڑھ کر اسپِ تازہ دم پر جاتا تھا۔ مزے سے دندناتا تھا۔ حسن بے اختیار آگے بڑھا اور سفید رنگ کے ایک مشکی گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ گھوڑا لمس ہی سے پہچان گیا کہ کسی تجربہ کار ، ماہر شاہسوار کا ہاتھ ہے۔ چوکنا ہوا، کنوتیاں کھڑی کیں اور گردن موڑ کر حسن کو دیکھا گویا اندازہ لگایا کہ دوست ہے یا دشمن ہے۔ حسن نے پیار سے اس کی گردن کو تھپتھپایا۔ گھوڑا آہستہ سے ہنہنایا۔ پھر سپر ڈالنے کے انداز میں حسن کے چہرے سے ماتھا رگڑنے لگا۔
اتنے میں شہریار نظیر اندر سے نکل کر آیا اور حسن بدرالدین کو گھوڑوں کے ساتھ کھڑا پایا تو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ ایک کمرے میں پہنچے تو بہت سے لوگوں کو بیٹھا پایا۔ کمرے میں فرش فروش بنے تھے، قدم آدم آئینے سجے تھے ۔عمدہ عمدہ تصویریں دیواروں پر لگی تھیں۔ کوئی سبز ، کوئی سرخ کوئی زنگاری ، سامان میں مسہری، کرسی ، الماری ، ان پر سنہری روپہلی پچی کاری، پتی پنکھڑی کی میناکاری، اور ان سب پر سواکمرے میں جابجا تیز روشنیوں کے ہندولے لگے تھے اور سفید رنگ کی بڑی بڑی چھتریاں ادھر ادھر لگی تھیں۔
شہریار نظیر نے حسن کا تعارف کراوتے ہوئے کہا۔ ‘‘یہ حسن بدر الدین ہے۔ میں نے اسی کا ذکر کیا تھا تم لوگوں سے۔ نواب کے لئے پرفیکٹ رہے گا۔’’
پھر حسن سے بولا۔ ‘‘یہ میرا کریو ہے۔ ابھی تمہارا آڈیشن اور سکرین presence چیک کریں گے۔ ڈرامہ شوٹ پر جانے سے پہلے فوٹو شوٹ ہوگا جو ملک کے تمام بڑے میگزینز میں چھپے گا۔ میں شوبز میں تمہاری دھماکے دار انٹری کرانا چاہتا ہوں۔ I want to introduce you wirth a bang’’
یہ کہہ کر ایک شخص کو اشارہ کیا اور وہ حسن کو ایک دوسرے کمرے میں لے گیا۔ جہاں لوہے کے پہیوں والے بانسوں پر عمدہ عمدہ کپڑے لٹکے تھے۔ اطلس کی شیروانیاں، کمخواب کے انگرکھے ، ململ کے چکن کاری کے کرتے۔ کھڑے پائجامے، ریشم کی پگڑیاں۔ غرض ہر طرح کا بیش قیمت جوڑ اموجود تھا۔
حسن کے ساتھ آنے والے شخص نے ایک سیاہ رنگ کی شیروانی منتخب کی اور حسن کو پہنائی۔ یہ خلعت بیش بہا کیا پہنایا گویا حسن کو دولہا بنایا۔ اسے لے کر پھر پہلے والے کمرے میں آیا۔ وہاں ایک کرسی پر بٹھا کر کچھ غازہ اور خشکہ حسن کے چہرے پر ملا، کنگھی پٹی کر کے حسن کو ایک شہ نشین پر بٹھایا اور اس کے دائیں بائیں روشنیاں جلادیں۔ سامنے ایک شخص کالے رنگ کی ایک عجیب وضع کی چیز لئے کھڑا ہوگیا جس کے کل پرزے مروڑنے پر کلک کلک کی آواز آتی تھی۔
شہریار نظیر اس شخص کے ساتھ کھڑا تھا، اس کی طرف اشارہ کرکے حسن سے بولا۔ ‘‘کیمرے میں دیکھو۔’’
حسن نے نظر اٹھائی اور اس کالی چیز پر گاڑ دی اور دل میں سوچنے لگا۔ ‘‘یا الٰہی یہ کیا جادو کا کارخانہ ہے؟ بھلا اس تمام کارروائی سے کیا مرا دہے۔’’
‘‘فریز فریز۔ ’’ شہریار چلایا۔ ‘‘او مائی گاڈ کیا ایکسپریشن ہے۔ فوراً پکچر لو۔ ’’
کلک کلک کی بے تحاشہ آوازیں آنے لگیں۔ کالی چیز کو ہاتھ میں پکڑے وہ شخص ادھر ادھر پھدک پھدک کر کچھ عجیب سی ورزش کرنے لگا۔ کبھی کھڑا ہوجاتا، کبھی بیٹھ جاتا، کبھی نیم دراز ہوجاتا، اس سارے عرصے میں اس نے اپنا جادوئی ، کالا، جام جہاں نما حسن کے چہرے سے نہ ہٹایا۔
شہریار نظر نے کہا۔ــــ‘‘ اب ایکسپریشن چینج کرو۔ تھوڑی سوفٹینس لے کر آؤ چہرے پہ ۔ ذرا رومینٹک ایکسپریشن ہونے چاہیے۔ As if you are dreaming and wondering۔’’
حسن کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کہتا ہے ۔ حیران ہوکر شہریار کو دیکھنے لگا۔
‘‘فریز …… فریز۔’’شہریار چلایا۔ ‘‘او مائی گاڈ…… اس حیرت زدہ ایکسپریشن کی پک لو۔’’
اس شخص کی اچھل کود دوبارہ شروع ہوئی۔ کبھی دائیں آتا، کبھی بائیں ۔ کبھی قریب آتا کبھی دور۔ کچھ دیر بعد شہریار نے کہا۔ ‘‘یار میں رومینٹک ایکسپریشن ضرور شوٹ کرنا چاہتا ہوں۔ کوشش کرو۔ اپنی کسی گرل فرینڈ کو یاد کرو۔ کوئی لڑکی جو تمہیں سب سے خوبصورت لگتی ہو۔’’
یہ سنا تو حسن کو محبوبہ رشک قمر کا خیال آیا۔ غنچہ دل کھلکھلایا۔ آنکھیں اس کے خواب دیکھنے لگیں۔
‘‘فریز …… فریز ۔’’ شہریار چلایا۔ ‘‘او مائی گاڈ۔ This guy is a natural۔ ’’
یہ کہہ کر سر دھننے لگا۔
حسن کو معلوم ہوا کہ جس کالی چیز سے کلک کلک کی آواز آتی تھی اس کا نام کیمرہ تھا اور وہ سحر کا ایک ایسا نادر کرشمہ تھا کہ ایک پرزہ دبانے پر حسن کی تصویر اس کے شیشے پر نقش ہوجاتی تھی۔ اور وہ شخص جو کیمرہ پکڑے کودپھاند کرتا تھا اس کا نام فوٹو گرافر تھا۔
حسن کے نت نئے لباس بدلوا بدلواکر تصویریں لی گئیں۔ حسن بدر الدین ،کہ خوبروئی میں شہرہ آفاق اور یکتائے روزگار تھا، سعادت مند تھا، معقولیت پسند تھا، تمام حاضرین جلسہ کا پسندیدہ ہوا۔ ہر کوئی اس کا گرویدہ ہوا۔ کبھی اس کی تصویریں گھوڑوں کے ساتھ لی گئیں ، کبھی درخت تلے، کبھی آئینے کے سامنے اور کبھی تلواروں کے ساتھ ۔
‘‘اومائی گاڈ۔’’ شہریار نظیر نے حسن کو تلوار پکڑے ہوئے دیکھ کر کہا ۔ ‘‘۔Unbelievable،اگر فواد خان اور ریتک روشن کی شادی ہوجائے تو ان کا بیٹا ایسا ہوگا……’’
یہ سنا تو حسن کو عاصم کے آئیلویولو کا خیال آیا، بڑا غصہ آیا۔ پیچ و تاب کھایا، تیوری پر بل آیا۔
‘‘فریز فریز۔’’شہریار چلایا۔ ‘‘او مائی گاڈ …… What an expression’’
٭……٭……٭