وہ تمام رات حسن نے آنکھوں میں کاٹی۔ یوں تو جب محبوبہء دلربا کا پیغا م آیا تھا، صدمہء مفارقت سے دل پہلو میں گھبرایا تھا ۔مگر یہ تازہ شگوفہ جو پھولا تو حسن اپنا رنج یک قلم بھولا۔ زلیخا کی باتیں یاد آتی تھیں، حسن کا کلیجہ جلاتی تھیں۔ کبھی اٹھتا تھا، کبھی بیٹھتا تھا، کبھی کمرے میں ٹہلنے لگتا تھا۔ از بس بے چین و بے قرار تھا، پریشان حالی کا شکار تھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسی وقت جائے اور اس سیاہ بخت ڈاکٹر کو تہہِ تیغ کرے، قتل بے دریغ کرے ۔لیکن زلیخا کی وجہ سے مجبور تھا کہ اسے کسی مصیبت میں ڈالنا نامنظور تھا۔
صبح ہوئی تو اتفاق سے بُندو کا فون آیا، حسن کو سینہ فگار پایا۔ اس وقت تو حسن سے کچھ نہ پوچھا مگر کچھ دیر بعد نعیم اور عاصم کو لے کر گھر آیا تاکہ حسن کی مزاج پرسی کرے اور اگر وہ بیمار ہے تو تیمار داری کرے۔
حسن ساری رات کا جاگا، پریشان و خستہ حال تو تھا ہی، دوستوں نے بصد ہمدردی حال پوچھا تو رہ نہ سکا اور پھٹ پڑا۔ تمام ماجرا کہہ سنایا اور کہا: ‘‘اے اہلِ اسلام! ذرا انصاف کرو۔ اس شخص نے ایک معصوم لڑکی کے ساتھ دست درازی کی، دغا بازی کی۔ اگر اسے سزا نہ دی گئی تو نہ جانے کتنی عورتوں کی بے آبروئی کرے گا۔ مزے سے دندنائے گا، بغلیں بجائے گا۔’’
سارا ماجرا سن کر دوست سوچ میں پڑ گئے۔
عاصم نے کہا۔ ‘‘ویسے تو میں والد صاحب کا اثرورسوخ استعمال کر کے تھانے میں رپورٹ لکھا سکتا ہوں لیکن اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔ الٹا مفت میں بدنامی ہاتھ آئے گی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘نہیں نہیں۔ اس بدنامی کے ڈر سے ہی تو میں خاموش ہوں۔ ورنہ ابھی اسی وقت جاتا۔ اس کثیفِ پلید کو دونیم کرتا، دوزخ میں مقیم کرتا۔’’
نعیم نے جوش میں آکر کہا۔ ‘‘میں بندے بلوا لیتا ہوں، عاصم تو اپنے گارڈز لے آ۔ چل کے اس ذلیل ڈاکٹر کی پھینٹی لگاتے ہیں۔’’
بندو نے سوچتے ہوئے کہا: ‘‘میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔’’
سب ہمہ تن گوش ہوئے کیوں کہ جانتے تھے کہ بندو ان سب سے زیادہ چالاک اور تیز دماغ ہے۔ اس کی عقل صرف تب ماؤف ہوتی تھی جب وہ عشق فرما رہا ہوتا تھا اور چوں کہ فی الوقت یہ کوئی عشقیہ صورتحال نہ تھی لہٰذا بندو پر سب کو اعتبار تھا، وہ سب میں آزمودہ کار تھا۔
بندہ نے اپنی تجویز پیش کی تو سن کر حسن پھڑک اٹھا اور بے تاب ہو کر کہا: ‘‘اے میرے پیارے بندو، تو نے رہین ِ منت ِبیکراں اور مرہونِ احسانِ بے پایاں کیا اور مجھے بے داموں مول لے لیا۔ اب اسی وقت چلو اور اس ملعون کا قلع قمع کرو۔’’
چنانچہ اسی وقت سب دوست عاصم کی گاڑی میں بیٹھے اور سیدھے ہسپتال کو گئے۔ اندر جا کر ڈاکٹر شکیل کے کمرے کے باہر انتظار گاہ میں بیٹھے اور جونہی وہ مردود باہر نکلا، حسن نے بندو کو اشارہ کیا اور بندو نے کھڑے ہو کر اپنے فون سے کچھ ایسا جادو چلایا اور کوئی ایسا پرزہ دبایا کہ کھٹ سے اس کی تصویر فون پر نقش ہو گئی۔ نقل بمطابق اصل ہو گئی۔
یہ کام کر کے واپس گاڑی میں آئے۔ حسن کو اس کے مکان پر اتارا اور خود سدھارے۔ وعدہ کیا کہ سہ پہر میں آئیں گے، منصوبہ کے مطابق کام دکھائیں گے۔
حسن خوش خوش اندر صحن میں آیا تو سامنے بنےّ بھائی کو بیٹھا پایا۔ چاہا کہ کنی کترا کر گزر جائے لیکن بنےّ بھائی نے اٹھ کر راستہ روک لیا اور خشمگیں ہو کر کہا: ‘‘کیوں بے؟ سنا ہے تو فیل ہو گیا ہے؟’’
یہ سنا تو ڈر کے مارے حسن کا دم سوکھ گیا، سمجھ گیا کہ یہ سب کنیز کی شرارت ہے، اس نے اس راز کو طشت ِاز بام کیا ہے، ظالموں میں نام کیا ہے۔
بنےّ بھائی نے کہا: ‘‘میں بھی کہوں یہ کیسی بیماری ہے جو راتوں رات ٹھیک ہو گئی۔ اب پتا چلا سب ڈرامہ تھا۔ تیرا کیا خیال تھا، مرنے کے ایکٹنگ کر کے تو یہ بات چھپائے گا۔’’
پیچھے تخت پر بیٹھی نانی تڑپ کر بولیں: ‘‘اللہ نہ کرے، مریں اس کے دشمن ’’۔
ممانی چمک کر بولی: ‘‘ہاں تو صاف کیوں نہیں کہتیں کہ ہم مر جائیں۔ ہمیں ہی اس کا دشمن سمجھتی ہیں آپ۔ اب آپ کو پتا چلا کیوں سختی کرتی تھی میں؟ جو کہتی تھی عین مین سچ ثابت ہوا کہ نہیں؟ ناک کٹوا دی اس نے پورے خاندان کی۔’’
غرض کہ خوب ہی ہنگامہ ہوا۔ نانی اور ممانی میں چومکھی لڑائی ہوئی۔ بنےّ بھائی بھی چیختے چلاتے رہے۔ بیچ میں دو چار ہاتھ بطور ادائے فرض حسن کو بھی جڑ دیئے جو اس غریب نے تابعداری سے کھا لیے۔ بارے ہنگامہ سرد ہوا تو حسن نے خود کو نانی کے ساتھ تخت پر بیٹھا پایا۔ بنےّ بھائی گھر کو سدھارے تھے اور ممانی اندر غائب ہو چکی تھی۔ نانی روتی تھی اور آنسو پونچھتی تھی۔ حسن اس کے کندھوں پر بازو پھیلائے بیٹھا تھا او رتسلیاں دیتا تھا۔
اتنے میں کنیز کہیں سے نکل کر آئی اور آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بڑی معصومیت سے نانی کو پانی پیش کیا۔ پھر ہمدردی سے ان کی کمر سہلائی اور سرزنش کرنے والے انداز میں حسن سے بولی: ‘‘ویسے بڑے افسوس کی بات ہے۔’’
یہ سن کر حسن بہت تلملایا، غصے میں آیا۔ بددماغ ہو کر بولا: ‘‘دفع دور! تو ہی اس شرارت کی بانی ہے، یہ سب تیری ہی کار ستانی ہے۔’’
کنیز نے بھولے بن کر کہا: ‘‘لو بھلا ،کوئی میں نے آپ کو فیل کیا ہے؟ میں تو آپ کو کہتی رہتی تھی کہ دل لگا کے پڑھائی کیا کریں، ادھر اُدھر تاکا جھانکی نہ کیا کریں۔ لیکن آپ سنتے ہی نہیں تھے۔’’
حسن نے ڈانٹ کر کہا: ‘لے بس اب بہت بے ادبی نہ کیجئے، ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کی راہ لیجئے۔ معلوم ہو گیا کہ تو عورت نا معقول ہے، تجھ سے بات کرنا فضول ہے۔ لیکن ایک بات میری یاد رکھیو۔ کسی کا راز افشا کرنا گناہ ہوتا ہے، پردہ در روسیاہ ہوتا ہے۔’’
کنیز کو حسن کی بات تو کوئی سمجھ میں نہ آئی مگر اس وقت حسن کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا بہت مزا پاتی تھی، اس شغل سے بہت حظ اٹھاتی تھی۔
نانی سے بولی: ‘‘دادی اماں جی، اب آپ حسن بھائی کو دکان پہ بٹھائیں گی؟’’
نانی نے خفگی سے کہا: ‘‘چل بھاگ یہاں سے۔ مت ہر وقت اتنی بک بک کیا کر۔’’
کنیز نے مزے سے ہاتھ جھاڑے اور جاتے جاتے حسن سے بولی: ‘‘ویسے بھائی جان پچھلے محلے والے آفتاب بھائی کو میں نے مشورہ دیا ہے کہ ڈگری خرید لیں، کام آئے گی۔ ان کو تو پانچ سو روپے لے کر مشورہ دیا ہے، آپ کو مفت دے رہی ہوں۔ مان لیں ،فائدے میں رہیں گے۔’’
یہ کہہ کر سدھاری۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!