اس رات حسن صحن میں نکلا تو دیکھا کہ زلیخا اسی گوشے میں بیٹھی ہے جہاں کل رات بیٹھی روتی تھی۔ آج اس کی آنکھیں خشک تھیں مگر چہرے سے ملال عیاں تھا، بشرے پر رنج نمایاں تھا۔ گم صم بیٹھی ٹکٹکی باندھے ایک طرف کو دیکھتی تھی، گویا وہاں ہوتے ہوئے بھی موجود نہ تھی۔
حسن نے کھنکھار کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو زلیخا چونکی۔ حسن کو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی مگر مسکرا نہ پائی۔ حسن خوش خوش اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس دن کی ساری واردات کہہ سنائی۔ ڈاکٹر شکیل کے پٹنے کا حال ہنس ہنس کر سنایا، ہنگامے کا نقشہ ہوبہو کھینچ دکھایا۔
حسن کا خیال تھا کہ یہ سب سن کر زلیخا خوش ہو جائے گی، غم و غصہ دور ہو جائے گا، رنج و الم کافور ہو جائے گا۔ لیکن ہوا اس کے برعکس زلیخا کا گلِ رخ اور بھی مرجھا گیا۔ پژمردہ و افسردہ وہ سرجھکا کر بیٹھ رہی۔
حسن نے حیران ہو کر پوچھا: ‘‘اے زلیخا، وہ مردِ لعین اپنے انجام کو پہنچا۔ اب اس کا کیا سبب ہے کہ تیرا دلِ غمزدہ بشاش نہیں ہوتا؟ رنگ زرد، دل میں درد، حزین و ملول، ہر دم آہِ سرد کا معمول؟ چہ معنی دارد؟’’
زلیخا نے چہرہ اٹھایا اور زبردستی مسکراتے ہوئے بولی: ‘‘نہیں میں خوش ہوں۔ دیکھو کتنا مسکرا رہی ہوں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اگر یہ مسکراہٹ ہے تو غلام کو اس سے معاف فرماؤ اور اس اداکاری کو ازراہِ نوازش نہ بڑھاؤ۔ میں سمجھ نہیں پاتا ہوں کہ وہ کون سا رازِ سربستہ ہے جو مجھ سے چھپاتی ہو؟ سببِ مرض صاف صاف کیوں نہیں بتاتی ہو؟’’
زلیخا نے بے بسی سے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور بولی: ‘‘جس بات کے پیچھے پڑ جاؤ، اگلوا کے چھوڑتے ہو۔ گھر میں کوئی اور میرے حال پر اتنا غور نہیں کرتا۔ پتا نہیں تم کیوں میرے پیچھے پڑے رہتے ہو؟’’
حسن نے کہا: ‘‘میں بطریقِ انسانی اور بہ شرفِ مسلمانی اس بات کو اپنا فرضِ منصبی خیال کرتا ہوں کہ اپنی زندگی سے وابسطہ ہر عورت کو رنج و الم سے بچاؤں، ہر ممکن آسانی بہم پہنچاؤں۔ تم، نانی، نسیمہ باجی حتیٰ کہ ممانی کو بھی میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔’’
زلیخا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور آہستہ سے بولی: ‘‘بہت شِولری آگئی ہے تم میں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘بات کو مت ٹالو، ذرا خود پر نظر ڈالو۔ اور میرے سوال کا جواب دو۔ میں نے تمہارا بدلہ لے لیا، پھر بھی تم از بس پژمردہ کیوں ہو؟ اتنی افسردہ کیوں ہو؟’’
زلیخا بہت دیر خاموش رہی۔ پھر آہستہ آواز میں یوں گویا ہوئی: ‘‘میرے دل سے اس منحوس لمحے کی یاد نہیں جا رہی جب اس کمبخت ڈاکٹر نے ……….مجھے وہ وقت بھلائے نہیں بھول رہا اور تم ظلم یہ دیکھو کہ میں کسی سے اپنا حال کہہ بھی نہیں سکتی۔ لوگ مجھ سے ثبوت مانگیں گے۔ میں ثبوت کہاں سے لاؤں؟ میرے پاس تو بس یہ یاد ہے جو میرے دل کو چیرے ڈالتی ہے۔ لیکن میرے پاس کوئی ثبوت نہیں حسن۔ میرے پاس کوئی ٹھوس، tangible ثبوت ہی نہیں۔’’
اتنا کہہ کر زلیخا کی آواز بھرا گئی اور وہ خاموش ہو گئی۔
حسن نے ہمدردی سے کہا: ‘‘جو کچھ ہوا، اس کا افسوس اور ملال ہے۔ مگر اب یہ عرضِ حال ہے کہ اس مردود لعین نے اپنے کیے کی سزا پائی، صد شکر کہ تم پر کوئی آنچ نہ آئی۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں لیکن میں کبھی اس کا گریبان نہیں پکڑ سکتی۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے جرم کا قصاص نہیں طلب کر سکتی۔ میرا دل چاہتا ہے میں اس کے پرخچے اڑا دوں، اس کے وہ ہاتھ کاٹ دوں جن سے اس نے مجھے چھوا۔ لیکن میری بے بسی دیکھو، میں انصاف نہیں مانگ سکتی کیوں کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ بس وہ یاد ہے جو مجھے سانس نہیں لینے دے رہی۔’’
حسن کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھا زلیخا کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد زلیخا نے خودکلامی کے سے انداز میں کہا: ‘‘مجھے خود سے نفرت ہو گئی ہے۔ سیلف اسٹیم پہلے بھی کسی پہاڑ پر نہیں کھڑی تھی، اب تو گٹر میں گر گئی ہے۔ میں موٹی ہوں، کالی ہوں، بدصورت ہوں…….’’
حسن نے بات کاٹ کر کہا: ‘‘زلیخا یہ بات……’’
لیکن زلیخا گویا اپنی ہی دنیا میں تھی۔ حسن کی آواز ہی نہ سنی اور کہتی رہی: ‘‘…..اور وہ سب کچھ ہوں جسے کوئی پسند نہیں کرتا۔ میری زندگی میں جو بھی آتا ہے مجھے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ ڈاکٹر، ارسلان اور وہ بندر یاد ہے جو رشتہ لے کر آیا تھا، جہیز کی خاطر؟ کہیں ہوس، کہیں انجوائے منٹ، کہیں پیسہ، لوگوں کو مجھ سے بس یہی مطلب ہے؟ اس سب میں میں کہاں ہوں، حسن؟’’
حسن نے کہا :‘‘اس سب میں تم وہاں ہو جہاں تم نے اپنے آپ کو کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ خود کو دوسروں کے آئینے میں دیکھو؟ یہ دنیا شہرِناپرساں ہے۔ اگر تم اپنی قدردان نہیں تو کوئی بھی تم پر مہربان نہیں۔ رنگ روپ کا رونا روتی رہی تو دنیا ٹھٹھا اڑائے گی۔ کوئی ہنر سیکھو، کوئی فن اپناؤ تو یہی دنیا گھٹنوں کے بل سلام کرنے آئے گی۔’’
زلیخا نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور کہا: ‘‘تمہارے منہ سے ایسی عقلمندی کی باتیں سنتی ہوں تو یقین نہیں آتا۔’’
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ‘‘اگرچہ نوجوانِ نوخاستہ ہوں مگر ہر ہُنر سے آراستہ ہوں۔ میرے باپ نے مجھے بہترین مدرسوں میں تعلیم دلائی تھی اور بڑے بڑے علماء و فضلا میرے پڑھانے کو مقرر کیے تھے۔ میری ماں بہت پڑھی لکھی تھی۔ علم و فضل میں طاق، فنِ تاریخ میں شہرہ آفاق، تمام صحابہ کرام کی سوانح عمری اور انبیاء کے حالاتِ تاریخی یاد، ہر فن میں استاد، بڑی فہم و ذکی، صاحبِ سلیقہ و شعور تھی، مشہورِ نزدیک و دور تھی۔’’
زلیخا نے حیران پریشان ہو کر اسے دیکھا اور بے اختیار ہو کر بولی: ‘‘کون؟ عذرا پھوپھو؟’’ حسن نے آہِ سرد بھر کر کہا: ‘‘ہاں یہی میری ماں کا نامِ نامی تھا، دور از قصور و خامی تھا۔’’
زلیخا نے کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر کچھ سوچ کر چپ ہو رہی۔
حسن ماں کی یاد سے باہر آیا اور بولا: ‘‘اسی لیے کہتا ہوں میرے مشورے پر کان دھرو اور ڈاکٹر بنو۔ خدا جانے کتنی عورتیں ڈاکٹر شکیل جیسوں کے ہتھے چڑھتی ہوں گی اور عزت کے خوف سے چپ رہتی ہوں گی۔ تم ڈاکٹر بنو گی تو تمہارے سبب سے بہت سی شریف زادیاں انواع و اقسام کے صدمے اٹھانے سے بچ جائیں گی۔’’
زلیخا نے آہِ سرد بھری، بہ دل پردر د بھری اور کہا: ‘‘ڈرتی ہوں، پھر ناکام ہو گئی تو سہہ نہ سکوں گی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘کامیاب بھی تو ہو سکتی ہو۔’’
زلیخا نے نفی میں سرہلایا: ‘‘بہت مشکل ہے۔ سلیبس سے بالکل آؤٹ آف ٹچ ہوں۔ اکیڈمی جوائن کیے بغیر تو امتحان دیا ہی نہیں جا سکتا۔ ماں باپ کا پیسہ لگے گا وہ الگ اور ایک سال ضائع ہو گا وہ الگ۔ یہ جنوری 2019ء ہے۔ ابھی امتحان دیا تو سال کے آخر میں داخلہ ہو گا۔’’
حسن نے تسلی دے کر کہا: ‘‘امید جان کے ساتھ ہے، بھلا یہ کیا بات ہے؟ ایک برس کا زمانہ بات کرتے جاتا ہے، دوسرا سال چٹکی بجاتے آتا ہے۔’’
زلیخا نے سرجھکا لیا اور مایوسی سے بولی: ‘‘مجھ میں نئے سرے سے ذلت سہنے کا حوصلہ نہیں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اور ساری عمر ذلت سہنے کا حوصلہ ہے؟’’
زلیخا نے سراٹھایا اور ناسمجھی سے بولی: ‘‘کیا مطلب؟’’
حسن نے کہا: ‘‘میری ماں کہا کرتی تھی، جو عورت اپنے دھن کی خود مالک نہیں ہوتی، اس کا تن اور من ساری زندگی ذلت سہتے گزارتے ہیں۔’’
زلیخا کو بات سمجھ آگئی۔ اس کے چہرے پر پہلے تحیر کا رنگ آیا، پھر خوف کا اور پھر مایوسی کا۔
حسن نے بات جاری رکھی: ‘‘عورت کے ہاتھ میں اپنا پیسہ ضرور ہونا چاہیے۔ میری ماں نواب خاندان سے تھی۔ لیکن تجارت کے فن میں طاق تھی، شہرہ آفاق تھی۔ ہر قافلے کے ساتھ دس ہزار روپے کا سامان بھیجتی تھی اور کچھ نقد و جنس ہمیشہ چھپا کر رکھتی تھی کہ اگر ناگہانی نقصان ہو تو کام آئے۔ بہت غیرت مند تھی، ساری زندگی اس نے میرے باپ سے حبہ تک نہ مانگا۔’’
یہ کہہ کر حسن کو اپنے حالات کی یاد آئی، تیرِ غم نے نشانے کی داد پائی۔ رنج سے بولا: ‘‘میں نے اپنے ماں باپ کی تربیت کو بٹہ لگایا، ان کا مال دونوں ہاتھوں سے لٹایا۔ بجز ندامت کے کوئی صورت نہیں پاتا ہوں، بہت پچھتاتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوا، غم و الم رسیدہ ہوا۔
زلیخا نے ترس و ہمدردی سے اسے دیکھا اور بولی: ‘‘ADHD کے مریض تو تم پہلے بھی تھے، اب delusioual بھی ہو گئے ہو۔ مجھے تو بائی پولر ڈس آرڈر کی کوئی قسم لگتی ہے۔ یا تو بہت عقلمندی کی باتیں کرتے ہو یا ایک دم پٹڑی سے اتر کر نواب خاندان میں پہنچ جاتے ہو۔ خیر تمہارا کیس ڈسکس کرتی ہوں اپنے ٹیچرز سے۔’’
یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور بہت نرمی سے بولی: ‘‘ہارٹ ٹو ہارٹ ڈسکشن کے لیے شکریہ۔ اب اندر چلو۔ بہت ٹھنڈ ہو گئی ہے۔’’
یہ کہہ کر اپنی گرم چادر کو لپیٹا اور اندر چلی گئی۔ حسن اپنے ماں باپ کی یادوں اور پچھتاوؤں کے ساتھ وہیں بیٹھا رہ گیا۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!