حسن سوچ میں پڑ گیا۔ دل میں سوچا۔ ‘‘آخر یہ ڈگری ہوتی کیا ہے اور کیوں ہر کوئی اس کے حصول کے پیچھے پڑا ہے؟ زلیخا سے پوچھوں گا کہ کہاں سے ملتی ہے۔ اگر کہیں سے مول لے لوں تو ہر کوئی میرا قدر دان ہو جائے گا، مجھ پر مہربان ہو جائے گا۔’’
یہ سوچ کر دل ہی دل میں مطمئن ہو گیا اور نانی کو گلے لگا کر تسلیاں دینے لگا۔
سہ پہر کو دوست آئے، ہاتھوں میں پانچ بنڈل اٹھا کر لائے۔ ان بنڈلوں میں ایکانبار تھا، عجیب و غریب طومار تھا۔ ایک مرتبہ پھر سب عاصم کی گاڑی میں سوار ہوئے اور ہسپتال گئے۔ وہاں پہنچے تو خلقت کا اژدھام تھا، اندر باہر ہنگام تھا۔ اندر انتظار گاہوں میں مریض بھرے تھے، باہر سڑکیں اور میدان گاڑیوں سے لدے تھے۔ حسن حیران ہوا اور کہا: ‘‘یہ اتنے لوگ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ یوں لگتا ہے پورا شہر بیمار ہے۔ یہ کیا اسرار ہے؟ بڑا خلفشار ہے۔’’
بندو نے کہا: ‘‘ہاں یار آج تو واقعی بڑا رش ہے، لیکن ہمارے لیے تو یہ اچھا ہے۔’’
سب لوگ گاڑی سے اترے۔ بندو نے کہا: ‘‘اچھا تو ہم آٹھ بندے ہیں۔ چار ہم اور چار گارڈز۔ حسن اور عاصم دو گارڈز کے ساتھ اندر جائیں گے اور میں اور نعیم دو گارڈز کے ساتھ باہر رہیں گے۔ یاد رکھو جو کرنا ہے بجلی کی سی تیزی سے کرنا ہے۔ جلدی جلدی فٹا فٹ۔ کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔’’
یہ کہہ کر گارڈز سے کہا: ‘‘تم لوگ ہمارے ساتھ ساتھ رہنا۔بندوقیں اس طرح پکڑو جیسے لوڈڈ ہوں۔ چہرے پر ایسے تاثرات لاؤ کہ جیسے ابھی فائر کر دو گے۔ ذرا غنڈہ غنڈہ لگنے کی کوشش کرو۔’’
بندو نے اپنا منصوبہ چند لفظوں میں ایک مرتبہ پھر دہرایا، ایک ایک بنڈل حسن اور عاصم کے ہاتھ میں تھمایا اور وہ دونوں دو عدد گارڈز کے ساتھ اندر کو چلے۔ گارڈز نے وہ لوہے کے عجیب و غریب ڈنڈے پکڑ رکھے تھے، بندوقیں جن کا نام تھا،خدا جانے کیا کام تھا۔
اندر پہنچے تو عاصم ایک طرف کو چلا گیا، حسن دوسری طرف کو۔ اپنے حصے کی جگہ پہنچ کر حسن نے اپنا بنڈل کھولا اور اس میں سے کاغذوں کا ایک پلندہ نکالا۔ ہر کاغذ پر اس مردِ لعین، ڈاکٹر شکیل کی وہ تصویر بنی تھی جو صبح بندو نے کھینچی تھی۔ تصویر کے اوپر جلی الفاظ میں لکھا تھا۔ ‘‘مسیحا کے روپ میں شیطان’’ تصویر کے نیچے لکھا تھا۔ ‘‘یہ ڈاکٹر جس کا نام شکیل جنید ہے، لڑکیوں کو جنسی ہراساں کرتا ہے اور ان کے ساتھ دست درازی کرتا ہے۔ آئیے اس شیطان کو اس کے انجام تک پہنچائیں۔’’ ہر کاغذ کے پیچھے ایک نیلے سے کاغذ کی پٹی لگی تھی، جس کو اتارنے پر نیچے لگی گوند ظاہر ہوتی تھی۔
حسن نے آدھے کاغذ اپنے ساتھ آئے گارڈ کو پکڑائے اور خود بندو کی ہدایت کے مطابق بجلی کی سی تیزی سے کاغذوں پر لگی پٹیاں اتار کر وہ کاغذ دیواروں پر چپکانے لگا۔ گارڈ ویسی ہی تیزی سے انتظار گاہ میں ٹھساٹھس بھرے لوگوں میں یہ کاغذ تقسیم کرنے لگا۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک ہاہا کار مچ گئی۔ جب تک ہسپتال کے کارندوں کو خبر ہوئی، حسن تقریباً ساری دیواریں بھر چکا تھا اور وہاں بیٹھے ہر مرد و عورت کے ہاتھ میں ڈاکٹر شکیل کا اعمال نامہ پکڑایا جا چکا تھا۔ کارندے بھاگتے ہوئے آئے اور حسن کو دبوچ لیا۔ چوں کہ گارڈ کے ہاتھ میں بندوق تھی اس لیے اسے ہاتھ لگانے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔
حسن کو دبوچے ہوئے وہ استقبالیہ تک پہنچے تو حسن نے دیکھا کہ دوسری طرف سے اسی طرح چند لوگ عاصم کو دبوچے آتے ہیں۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کا گارڈ خطرناک تیور لیے آتا ہے۔ اگرچہ ان گارڈز کو ہدایت تھی کہ کسی سے کوئی تعرض نہ کریں اور کسی پر ہاتھ نہ اٹھائیں لیکن ان کا جثہ، ان کے تیور اور ان کی بندوقیں دیکھ کر ہی ڈر لگتا تھا۔ آدمی رعب میں آجاتا تھا۔
ان دونوں کو پکڑ کر لایا گیا تو ان کے ادگرد ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا، ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر کو بھی بلا لیا گیا۔
حسن نے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا: ‘‘اے لوگو! مسلمانو! دہائی ہے خدا کے نام کی اور بادشاہ عمران خان کی۔ ذرا انصاف کرو۔ اس ناہنجار ڈاکٹر نے میری ماموں زاد بہن کے ساتھ دست درازی کی اور اس کو بہت صدمہ پہنچایا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کی بہو بیٹیاں اس کے شر سے محفوظ رہیں۔ ظلم ہے کہ یہ شخص پیسے بھی لے اور عزت بھی۔’’
یہ سن کر ایک عورت روتے ہوئے پکار اٹھی: ‘‘اس ڈاکٹر نے میری بیٹی کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔ میری بیٹی آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکلی۔’’
یہ سن کر اس کے ساتھ آیا نوجوان تڑپ کر بولا: ‘‘آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا امی؟ میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔’’
دوسری طرف سے ایک مردِ بزرگ نے غصے سے کہا: ‘‘میں بھی اپنی بیٹی کو اسے دکھانے لایا تھا۔ اب وہ مرتی مر جائے اس ہسپتال میں آنے کو راضی نہیں ہوتی۔ اب سمجھ آئی کہ یہ وجہ تھی۔’’
ایک لڑکی منحنی آواز میں چیخ اٹھی۔ ‘‘میری بہن کے ساتھ بھی یہ یہی کچھ کر چکا ہے۔’’
آہستہ آہستہ ہر کوئی ڈاکٹر شکیل کے خلاف بولنے لگا۔ ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے گھبرا کر سب کو چپ ہوجانے کا اشارہ کیا اور کہا: ‘‘آپ سب گھبرائیں مت۔ ہم آپ کی شکایت کا ازالہ ضرور کریں گے۔’’
ایک عورت نے کہا: ‘‘خاک ازالہ کریں گے آپ۔ میں نے شکایت کی تھی۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔’’ دوسری عورت بولی: ‘‘ہم تو بدنامی کے ڈر سے چپ ہو گئے تھے ورنہ پولیس میں رپورٹ لکھواتے۔’’
بڑا ڈاکٹر بولا: ‘‘ہاں ہاں، ہم پولیس میں رپورٹ کریں گے۔’’
یہ کہہ کر حسن اور عاصم سے کہا: ‘‘اور آپ کی رپورٹ بھی ہو گی۔ گن مین لے کر آپ ہسپتال میں گھس آئے اور امنِ عامہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔’’
عاصم نے اپنا فون نکالا اور کہا: ‘‘میں تو خود چاہتاہوں کہ آپ پولیس کو بلائیں۔ بلکہ ٹھہریں میں خود ہی فون کرتا ہوں۔ آئی جی صاحب میرے والد لطف اللہ ایم این اے کے بہت گہرے دوست ہیں۔ ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں ایک فون کروں گا، پورا تھانہ یہاں حاضر ہو جائے گا۔’’
اچانک کوئی چلا اٹھا۔ ‘‘و ہ رہا ڈاکٹر شکیل۔’’
سب نے مڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر شکیل اپنے کمرے سے نکل کر کھڑا تھا اور ہکابکا نظروں سے چاروں طرف لگی اپنی تصویروں کو دیکھ رہا تھا۔
وہ نوجوان جو سب سے پہلے بولا تھا اور جس کی بہن اس مرد و ڈاکٹر کا شکار بن چکی تھی، چلا کر بولا: ‘‘کتے، کمینے، میں تیرا خون پی جاؤں گا۔’’
یہ کہہ کر لوگوں کو دھکیلتا، کرسیاں پھلانگتا ڈاکٹر شکیل کی طرف لپکا۔ ڈاکٹر شکیل نے جو اسے یوں اپنی طرف آتے دیکھا تو ڈر کر بھاگا۔ لیکن اب صرف ایک نوجوان نہیں بلکہ پورا ہجوم اس کے پیچھے تھا۔ آخر آستینیں چڑھائے مردوں اور جوتے ہاتھ میں پکڑی عورتوں نے ڈاکٹر شکیل کو گھیر لیا اور دھنا دھن اسے پیٹنے لگے۔
اس ہنگامے کا فائدہ اٹھا کر عاصم اور حسن اپنے گارڈز کے ساتھ باہر کھسک لیے۔ باہر نکلے تو وہاں اندر سے بھی بڑا ہنگامہ کھڑا پایا، عجب منظر دیکھنے میں آیا۔
کیا دیکھتے ہیں کہ باہر کی دیواریں اور درخت ڈاکٹر شکیل کی تصویروں سے بھر چکے ہیں۔ بندو اور نعیم تصویروں والے کاغذ گاڑیوں کے اندر ڈال رہے ہیں، رکشوں پر چپکا رہے ہیں اور لوگوں کو تھما رہے ہیں اور چند چست و چالاک اجنبی نوجوان رضاکارانہ اس کارِ خیر میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ہسپتال کے دوچوکیدار ایک کو پکڑتے ہیں تو دوسرا ہاتھ سے نکلتا ہے، دوسرے پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو پہلا بھاگ نکلتا ہے۔ چوکیدار اور ہسپتال کے کارندے کبھی ادھر دوڑتے ہیں کبھی ادھر، لیکن بے بس ہیں کیوں کہ تنومند گارڈر بڑی بڑی بندوقیں اٹھائے سڑکوں پر پہرا دے رہے ہیں، گویا ہلاکو خان بن کر کھڑے ہیں۔ ان کے ڈر سے کوئی قریب نہیں آتا تھا، دور دور سے دیکھتا جاتا تھا۔
اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہجوم کا ہجوم اند ر سے ڈاکٹر شکیل کومشکیں کس کر لیے آتا ہے۔ مارپیٹ سے اس کے کپڑے پھٹ چکے تھے، جسم پر نیل پڑ چکے تھے، بال بکھرے تھے، حواس اڑے تھے۔ چہرہ طمانچوں سے لال تھا، جینا وبال تھا۔ کوئی ٹھڈا مارتا تھا، کوئی گھونسہ جڑتا تھا، غرض لوگ چلتے میں اسے پیٹتے جاتے تھے، ہاتھ پاؤں باندھ کر کوتوالی لیے جاتے تھے۔
جب لوگ ڈاکٹر شکیل کو لیے حسن کے پاس سے گزرے تو حسن نے پکار کر کہا: ‘‘اے کثیفِ پلید۔ تو ڈاکٹری کے عظیم پیشے کے نام پر دھبہ ہے۔ اب میں خوش ہوا کہ تو اپنی سزا کو پہنچا۔ جو کیا وہ پایا، بختِ بد اور افعالِ ناشائستہ نے تجھے یہ دن دکھایا۔ اے لوگو! مسلمانو! سن لو! ہر وہ مرد جو کسی عورت پر ظلم کرتا ہے، خدا اسے فعلِ بد کی سزا دنیا میں ہی دے گا اور مرنے کے بعد دوزخ کے سب سے نچلے گڑھے میں جگہ ملے گی۔’’
پورا مجمع یک آواز ہو کر بولا: ‘‘آمین۔’’

گندم از گندم بروید جو زجو
ازمکافاتِ عمل غافل مشو

۔۔٭٭٭ــ

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!