الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

حسن نے کہا: ‘‘اے زلیخا میں گھر سے بھاگا جاتا ہوں۔ بجز اس کے کوئی راستہ نہیں پاتا ہوں۔’’
زلیخا نے سرگوشی میں ڈانٹ کر کہا: ‘‘پاگل ہو گئے ہو؟ نیچے اترو۔ بھاگ کر کہاں جاؤ گے؟’’
دوسری طرف جب باہر کھڑے نعیم، بندو اور عاصم نے دیکھا کہ حسن دیوار پر لٹکا ہے اور اس پار اترنے کا نام نہیں لیتا ہے تو بصد اصرار اسے بلانے لگے، ہاتھ بڑھانے لگے کہ اسے اپنی طرف کھینچ لیں۔
حسن نے بصدِ منت و سماجت زلیخا سے کہا: ‘‘مجھے جانے دو، زلیخا۔ بنّے بھائی مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ان سے بچ گیا تو ایم آر آئی میں جان دوں گا۔ اب خدا نے یہ صورتِ مفرد کھائی ہے، کشتیء خاطر ساحلِ مراد پر آئی ہے۔’’
یہ کہہ کر زلیخا کے ہاتھ سے ٹانگ چھڑانے کے لیے زور جو لگایا تو اس ہاتھا پائی نے بڑا ستم ڈھایا۔ ٹانگ تو زلیخا کے ہاتھ سے نکل گئی مگر زورآزمائی کے ہنگام میں حسن کا پاؤں اس زور سے زلیخا کے پیٹ میں لگا کہ اس کے منہ سے ایک چھوٹی سی ‘‘ہائے’’ نکلی اور وہ دوہری تہری ہو کر زمین پر جا پڑی۔
زلیخا کا یہ عالم دیکھا تو حسن کا حال زار ہوا، دل بے قرار ہوا۔ ارادہ کیا کہ اندر اترے اور زلیخا کی خبر لے۔ دوستوں نے جو دیکھا کہ باہر نہیں آتا ہے، اندر اترا جاتا ہے تو دبی دبی آواز سے غل مچایا، حسن کو اپنی طرف بلایا۔
حسن نے کہا: ‘‘اے برادرانِ عزیز، میری ماموں زاد بہن چوٹ لگنے سے گر پڑی ہے۔ یہ سب مجھ سیاہ کار کا قصور ہے، مجھے اس کی خبر لینا ضرور ہے۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا۔ تم چلے جاؤ۔ یہ نہ ہو کہ کوئی آجائے اور ہم گرفتار ہوں، بہت ذلیل و خوار ہوں۔’’

یہ بات سنی تو عاصم بے تابانہ آگے بڑھا اور حسن کے ہاتھ تھام کر گلوگیر ہو کر بولا: ‘‘میں تمہیں لئے بغیر نہیں جاؤں گا۔ اتنے دن میں نے کیسے گزارے، میں ہی جانتا ہوں۔اب میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آئی لو یو۔’’
عاصم کی زبانی آئیلویو لو سنا تو حسن کے ہوش اڑے۔ اس قدر حیران و ششدر، سراسیمہ و مضطر ہوا کہ ہاتھ سے دیوار چھوٹ گئی اور دھڑام سے فرشِ صحن پر زلیخا کے برابر آگرا۔

اتنے میں
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
ہلکا  ہلکا  سپیدۂ   صبح
شہرزاد خاموش ہو رہی کہ اب سحرنمودار ہوئی، سفید ظاہر و آشکار ہوئی۔ اگر حیاتِ مستعار باقی ہے تو انشا اللہ شب کو وہ قصہ بیان کروں کہ عش عش کرنے لگو اور بے سنے دم نہ لو۔
بادشاہ کو تو اب قصے کہانی کا چسکا پڑ چکا تھا۔ خوش ہو کر فرمایا کہ شہرزاد یاد رکھو، جو کہا ہے وہی کروں گا، بے پورا قصہ سنے نہ رہوں گا۔ وہ آداب بجا لائی اور کہا: ‘‘شاہوں کا قول ضرور پورا ہو گا۔ اور میں بھی یہ کہانی ادھوری نہ چھوڑوں گی، فسانہ گوئی سے منہ نہ موڑوں گی۔’’

٭……٭……٭

(باقی آئندہ)
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Read Next

عبادالرحمن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!