الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

زلیخا نے نانی اور حسن کو ایک کرسی پر بٹھایا اور خود اس شخص سے کچھ بات کرنے لگی۔ حسن جس کا بخار اب اتر چکا تھا، تجسس سے اردگرد دیکھتا تھا اور دل میں سوچتا تھا کہ اس مقام نایاب کی کیا حقیقت ہے؟ اتنا تو سمجھ میں آتا تھا کہ اس دوا خانے کا حصہ ہے جسے یہ لوگ ہسپتال کہتے ہیں لیکن اس کے خاموش ماحول میں کیا راز سربستہ ہے؟
حسن کو ایک بند دروازہ نظر آیا اور وہ اس ارادے سے اٹھا کہ دیکھوں اس میں کیا اسرار ہے اور کس جن یا پری کا یہ مسکنِ رودبار ہے۔ دروازے پر ایک شیشے کی کھڑکی جڑی تھی، اندرایک عورت کھڑی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سفید جبوں میں ملبوس دو آدمی آئے اور اس عورت کو پکڑ کر ایک سنگ ِ سفید کے تختے پر لٹایا اور کچھ ایسا افسوں اٹھایا کہ تختہ اپنے آپ رواں ہوا، قضا کا ساماں ہوا۔ ٹوں ٹوں کی آوازیں آئیں اور دم کے دم میں تختہ اس عورت کو لیے ہوئے ایک سنگِ مرمر کے مقبرے میں جا داخل ہوا۔ عورت زندہ دفن ہوئی، بے غسل و کفن ہوئی۔ اسے یوں زندہ درگور کر کے وہ دونوں آدمی کچھ جادو منتر کرنے لگے۔ مقبرے پر شمعیں کافوری روشن ہو گئیں۔ نیلی پیلی قندیلیں نورافگن ہو گئیں۔
اس ماجرائے عبرت عنواں کو دیکھ کر حسن کے ہوش و حواس غائب ہوئے۔ درودیوار سے قضا کی صورت نظر آنے لگی، خوف کے سبب سے جان نکل کر جانے لگی۔ حد سے زیادہ خوف طاری ہوا، کلمہء طیب زبان پر جاری ہوا۔
زلیخا نے جو حسن کو کھڑکی سے اندر جھانکتے اور ہیبت کے سبب سے کانپتے دیکھا تو بھاگ کر حسن کے پاس آئی اور پوچھا: کیا ہوا حسن؟ طبیعت خراب ہو رہی ہے؟’’
حسن نے گھگھیا کر اندر اشارہ کیا اور خوف کے مارے کچھ بول نہ پایا۔ زلیخا نے جھانک کر دیکھا اور تسلی دیتے ہوئے بولی: ‘‘اس سے ڈر گئے؟ ارے ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ ایم آر آئی ہو رہا ہے۔ بالکل پین لیس پروسیجر ہے۔ تمہارا بھی ہو گا، خود دیکھ لینا۔ ڈاکٹر شکیل نے کروانے کو کہا ہے تو۔۔۔’’
لیکن حسن نے صرف یہ جملہ سنا کہ یہی کارروائی اس کے ساتھ بھی ہو گی۔ جب یہ سنا تو اس کا کلیجہ دہل گیا۔ سمجھ گیا کہ حکیم ڈاکٹر اس کا دشمن ِ جانی ہے، اس پر اعتبار کرنا سخت نادانی ہے۔ حکیم سے طبیعت نفور ہوئی، پچھلی پاس داشت و محبت کافور ہوئی۔ ایک جھٹکے سے زلیخا سے اپنا بازو چھڑایا اور جدھر منہ اٹھا، بھاگ کھڑا ہوا۔
اندھا دھند بھاگتے، کرسیوں، میزوں کو پھلانگتے حسن کو ایک دروازہ نظر آیا، دروازے کے اس پار دن کا سماں روشن پایا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور سڑک پر دوڑ پڑا۔ ابھی چند قدم دور ہی گیا تھا کہ ایک بائیک فرشتہء قضا کی مانند تیزی سے آئی، حسن سے ٹکرائی۔ ٹکر کا لگنا تھا کہ حسن گر پڑا اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
آنکھوں کے آگے سے اندھیرا چھٹا تو حسن نے دیکھا کہ سڑک پر گرا پڑا ہے اور بہت سے لوگ اردگرد اکٹھے ہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ اتنے میں ایک طرف سے زلیخا افتاں و خیزاں آتی نظر آئی۔ آتے ہی دو تین لوگوں کی مدد سے حسن کو اٹھایا اور اچھی طرح تسلی کر لینے کے بعد کہ اسے کہیں چوٹ نہیں آئی ہے، نہ کہیں سے لہو بہتا ہے، زلیخا نے ایک گاڑی روکی جو تین پہیوں پر چلتی تھی اور دنیا کی منحوس ترین چیز تھی اور جسے رکشہ کہتے تھے۔ اس رکشے میں بیٹھ کر نانی، زلیخا اور حسن گھر کو آئے۔
کچھ عورت کے زندہ دفن ہونے کا منظر دیکھ کر ہیبت سے اور کچھ سڑک پر گرنے کے صدمے سے حسن کو بخار پھر چڑھ چکا تھا اور وہ چکراتا تھا، کانپتا تھا اور کھڑا ہونے کی سکت خود میں نہ پاتا تھا۔ نانی اور زلیخا نے اسے رکشے سے اتارا اور سہارا دے کر گھر کے اندر لے چلیں۔ لاؤنج میں پہنچے تو کنیز نظر آئی۔ حسن کو جو یوں سہارا لے کر چلتے اور لڑکھڑاتے دیکھا تو بھاگ کر آئی۔ نانی کے کندھے سے حسن کا بازو اتار کر اپنے کندھے پر رکھا اور آنکھیں پھاڑ کر بولی: ‘‘ہائے بھائی جان، یہ آپ کو کیا ہو گیا؟’’
کنیز کو جو یوں ہمدرد پایا تو حسن کا دل بھر آیا۔ کنیز سے مخاطب ہو کر کہا: ‘‘اے کنیزِ ہردل عزیز، بس اب میں چند گھڑی کا مہمان ہوں، گو بظاہر زندہ ہوں مگر نیم جان ہوں۔ از برائے خدا میرا ایک کام کرو، کرن کے پاس جاؤ اور دست بستہ عرض کرو کہ اے خاتونِ عالی خاندان، حُسن کی کان، آپ کا غلام حسن بدرالدین بہت بیمار ہے، اجل سے دوچار ہے۔ اس سے کہنا ایک مرتبہ آکر اپنی پیاری صورت دکھا جائے تاکہ

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Read Next

عبادالرحمن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!