وہ سیٹ پر اقصیٰ کے انتظار میں پچھلے ایک گھنٹہ سے بیٹھی ہوئی تھی اور بالآخر وہ اپنے سین سے فارغ ہو کر آگئی تھی اور آتے ہی مومنہ کو دیکھ کر اُس نے بڑی گرم جوشی سے اُسے گلے لگایا تھا۔
”مبارک۔ مبارک۔ مبارک۔”
”مجھے اب ڈر لگ رہا ہے کہ اگر آڈیشن میں فیل ہوئی تو تم نے ملامت بھی اُتنی ہی کرنی ہے جتنی مبارک باد دے رہی ہو۔” مومنہ نے اُس سے کہا۔
”خواہ مخواہ میں ہی۔ ایک منٹ ذرا بیگ میں سے ڈھونڈ لوں میں۔ ایک تو پتا نہیں چیزیں جاتی کدھر ہیں میری۔ رکھو کہیں، ملتی کہیں سے ہیں۔” وہ اپنے بیگ کی زپ کھولے اُس کے اندر موجود سامان کو کھنگالنے میں مصروف تھی۔
”ہاں، یہ رہا۔” اسے بالآخر وہ لفافہ مل گیا تھا جو وہ ڈھونڈ رہی تھی۔
”تمہارے آڈیشن کے لیے کال لیٹر، تمہارا ٹکٹ اور ہوٹل میں بکنگ کا وائوچر۔ تینوں چیزیں ہیں اس میں۔ پہلے کبھی لاہور گئی ہو؟” اقصیٰ کو اُسے لفافہ تھماتے ہوئے اچانک خیال آیا۔ مومنہ نے نفی میں سرہلایا۔
”کوئی بات نہیں، بس ایئرپورٹ سے ٹیکسی پکڑنا اور اس ہوٹل میں پہنچ جانا۔ یہ پی سی لاہور کے قریب ہی ہے اور تمہارا آڈیشن وہاں ہے۔” وہ بڑی تیز رفتاری سے اُسے بتاتی جا رہی تھی۔
اسسٹنٹ دور سے اُسے اگلے سین کے لیے تیاری کی آوازیں لگا رہا تھا اور وہ ایک بات مومنہ سے کرتی پھر اگلا جملہ اسسٹنٹ سے کہتی، عجیب ہڑبڑاہٹ میں تھی۔
”بس اب میرا سین آرہا ہے۔ میں ڈراپ کر دوں گی تمہاری فلائٹ والے دن تمہیں اور واپس پک بھی کر لوں گی۔ بس تم کوئی اچھی خبر لے کر آنا۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”تم نے کیوں نہیں کوشش کی اس آڈیشن کے لیے۔” مومنہ نے یک دم اُس سے کہا۔
”کی تھی، مجھے شارٹ لسٹ نہیں کیا انہوں نے۔” اقصیٰ نے اُسی طرح کھلکھلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے زیادہ اُمید بھی نہیں تھی۔” اس نے مومنہ کے تاثرات دیکھ کر اُسے جیسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ”یار بس جا رہی ہوں میں۔ دو دن سے میری اور اس اسسٹنٹ کی لڑائی ہو رہی ہے۔ یہ پھر ڈائریکٹر کے کان بھرے گا میرے خلاف اگر ایک بار بھی اور آواز لگانی پڑی تو۔”
وہ کہتے ہوئے تقریباً بھاگتی ہوئی گئی تھی۔ مومنہ اُس لفافے کو کھولتے ہوئے سیٹ سے باہر آگئی تھی۔ ٹکٹ اور وائوچر کے بعد اُس نے بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر کال لیٹر کو کھولا اور جب وہ شرائط و ضوابط پر آئی، اس کا دل بری طرح بوجھل ہوا تھا۔ فون نکال کر اُس نے اقصیٰ کو کال کی۔ فون چند لمحے بجتا رہا پھر فوراً ہی کال ریسیو کی گئی۔
”تم مجھے کٹ کروا کر ہی سکون کا سانس لو گی مومنہ!” اقصیٰ اب اُس پر تقریباً دھاڑی تھی۔
”تم نے کیوں کیا یہ؟” مومنہ نے بے ساختہ اس سے کہا۔
”کیا؟” وہ یک دم دھیمی پڑی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”وہ لوگ تو ایرٹکٹ اور اکاموڈیشن نہیں دے ہے۔ شرائط میں لکھا ہے۔ یہ تم نے کیا ہے نا۔” دوسری طرف اقصیٰ خاموش ہوئی تھی۔
”تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا اقصیٰ۔” مومنہ نے اُس سے کہا۔
”ایک چانس مل رہا تھا اتنا بڑا۔ تم نے جانا ہی نہیں تھا یہ پڑھ کر وہ لوگ جہاز کا کرایہ اور اکاموڈیشن نہیں دیں گے۔ صرف اس لیے کروایا یہ میں نے۔” اقصیٰ نے بالآخر اس سے کہا تھا۔
”میں یہ پیسے واپس کروں گی تمہیں۔” مومنہ نے جواباً کہا۔
”ہاں ہاں۔ مجھے پتا ہے بہن، بڑی خوددار ہو تم۔ سب کچھ واپس کر دو گی تم۔ پہلے جائو تو۔” اقصیٰ نے جیسے ہاتھ جوڑ کر اُس سے کہا تھا۔
”تمہاری وجہ سے دنیا مجھے تھوڑی کم کالی لگتی ہے۔” مومنہ کی آواز بھرا گئی تھی۔
”تم ہر چیز دل پر لینا کم کر دو نا تو دنیا اور بھی کم کالی لگے گی۔” اقصیٰ نے جواباً اس سے کہا تھا۔
”بس آگئی میری۔” مومنہ نے اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں رگڑی تھیں اس کے لیے وہاں اس وقت بات کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے اقصیٰ کو خداحافظ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
”ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں سب کو جو اپنے پر توڑ کر دوسروں کو اُڑنے کے لیے دے دیں۔” مومنہ سلطان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ زندگی میں دائود اور اقصیٰ کے احسانوں کا بوجھ کیسے اُتارے گی۔ قرض تو وہ یقینا اُتار ہی دیتی۔
٭…٭…٭
”سلطان سے میک اپ کروانے کے لیے منتیں کرتے تھے چھوٹے بڑے ایکٹرز، پر میرے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا، حسنِ جہاں کی فلمیں ہی ختم نہیں ہوتی تھیں، پھر اس کے شوز، پرفارمنسز کتنے تو ملک پھر کر آیا تھا میں اُس کے ساتھ۔ انڈیا، جاپان، لندن، دبئی، ترکی۔ بس ترکی لڑ گیا۔”
سلطان ہمیشہ کی طرح وہی پرانے قصے لیے بیٹھا ہوا تھا اور ترکی کے نام پر اُس نے ایک آہ بھری تھی۔
اپنے گھر کے برآمدے میں اپنے سامنے کرسی پر بیٹھے وہ اُس نوجوان لڑکے کا میک اپ کرنے میں مصروف تھا جو فلم میں ملنے والے کسی چھوٹے موٹے رول کے لیے اُس کے پاس بیٹھا میک اپ کروا رہا تھا۔ میک اپ کروانے کے دوران سلطان نے ہمیشہ کی طرح حسنِ جہاں نامہ کھول لیا تھا۔ اس کے لیے میک اپ کرتے ہوئے ہر چہرہ جیسے حسنِ جہاں کے چہرے کا عکس اور بازگشت بن جاتا تھا۔
”بس سلطان بھائی!دُعا کرنا آج ایسی پرفارمنس دے جائوں کہ چھا جائوں۔” اس لڑکے نے اس کی باتیں صرف سنی تھیں اُن پر توجہ نہیں دی تھی۔
”ان شاء اللہ۔ حسنِ جہاں بھی سیٹ پر جانے سے پہلے یہی کہتی تھی سلطان سے۔ میں صدقہ دیتا تھا۔ خیرات کی دیگ بنتی تھی پھر حسنِ جہاں پائوں رکھتی تھی سیٹ پر اور اگر کبھی مجھے وہم ہو جاتا نا کسی فلم یا پروڈیوسر کے بارے میں تو ساری دنیا ایک طرف ہو جاتی لیکن حسنِ جہاں پھر وہ فلم نہیں کر تی تھی۔”
سلطان کے سارے سابقے، سارے لاحقے، سارے حوالے حسنِ جہاں سے رشوع ہو کر اُسی پر ختم ہو جاتے تھے۔ گفتگو کسی بھی زمانے کی کیوں نہ ہوتی۔
”تم کو بھی ایک ایک بات یاد ہے اپنے زمانے کی سلطان بھائی۔ اس طرح دہراتے ہو جیسے کل کی بات ہو۔” وہ لڑکا اب ہنس پڑا تھا اور اُس نے وہ کپڑا اپنی گردن کے گرد سے ہٹا دیا تھا جسے سلطان اُس کے سینے اور کندھوں کے گرد پھیلائے اس کی پفنگ کر رہا تھا تاکہ میک اپ اُس کی سفید قمیص پر نہ لگے۔
”اپنا زمانہ کل بھی ہو تو بھی سب کو اچھا ہی لگتا ہے اور وہ بھی، وہ کل جو کبھی گزرتا ہی نہیں۔” سلطان بڑبڑا کر ہنسا تھا۔
”ہنر تو بڑا ہے سلطان بھائی! تمہارے ہاتھ میں۔ پر پیسہ نہیں۔ اتنا نام بنایا تھا تم نے سلطان بھائی! تو تھوڑا پیسہ بھی بنا لیتے۔ میک اپ آرٹسٹ تو سیلون بنا لیتے ہیں اور کچھ نہیں تو گھر کی چھت ہی بنا لیتے۔” اس نوجوان کو پتا نہیں کیا خیال آیا تھا کہ سلطان کو چند نوٹ تھماتے ہوئے اس نے ساتھ میں نصیحت بھی تھما دی تھی۔
”ٹھیک کہتے ہو تم۔ سلطان کو پیسہ نہیں جوڑنا آیا۔ سلطان ہی سمجھتا رہا ساری عمر خود کو۔ پتا ہی نہیں تھا۔ حسنِ جہاں کے سورج کی طرف میرا سورج بھی غروب ہو جائے گا۔” اس نے جاتے ہوئے گاہک کو دیکھ کر سوچا اور گاہک کے بیرونی دروازے سے باہر جاتے ہی جھومر تالیاں بجا کر اندر آیا تھا۔
”سلطان بھائی! اتنی بڑی بات تم نے جھومر سے چھپا لی۔” اس نے آتے ہی اپنے مخصوص انداز میں تالی پیٹتے ہوئے اُس سے شکوہ کرنے والے انداز میں کہا تھا۔
”کیا چھپا لیا تجھ سے جھومر؟” سلطان نے اپنا میک اپ کا سامان سمیٹتے ہوئے کہا۔
”لو بھلا جھومر کو نہ پتا چلے گا کہ باجی مومنہ ہالی ووڈ کی فلم میں کام لینے گئی ہے۔” جھومر نے دو تالیاں اور پیٹیں۔”
”تجھے کس نے بتایا ہے جھومر؟” سلطان اُس کی بات پر ہنسا۔
”جھومر کیوں بتائے تجھے جب تُو نے نہیں بتایا۔ ارے اس محلے والے کچھ چھپا کر تو دکھائیں جھومر سے۔” وہ خفگی سے کہہ رہا تھا۔ جھومر تھا تو مخنث لیکن محلے کے ہر گھر میں اُس کا آنا جانا تھا اور وہ محلے والوں کی خوشی اور غمی میں سب سے پہلے پہنچتا تھا۔
”بس جھومر! تو دُعا کرنا کوئی اچھی خبر لے کر آئے مومنہ۔ ہالی ووڈ میں کام مل جائے تو نصیب بدل جائے گا ہمارا۔ پھر جہانگیر کا علاج ہو جائے گا اور میرا بیٹا کام کرے گا فلموں میں ہیرو بن کر۔” سلطان نے خوابوں کا چرخا پھر سے کاتنا شروع کر دیا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});