”بھول گئے نا۔” جہانگیر جواباً فاتحانہ انداز میں ہنسا تھا۔ یہ اُن دونوں کا بہت پرانا کھیل تھا۔ اسکرپٹ اسکرپٹ کھیلنا۔ جو وہ ایک بار پھر سے کھیل رہے تھے اور اب ڈائیلاگز بھول جانے پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوتے جا رہے تھے۔ بچوں کی طرح۔
”کیا ہوا تم دونوں کو؟ کس بات پر ہنس رہے ہو؟” ثریا بالکل اُسی وقت اندر کمرے سے نکلی تھی اور اب ان دونوں کو یوں ہنستے دیکھ کر ہکابکا ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ مومنہ کچھ کہتی، اس کا فون بجنے لگا تھا۔ اپنی ہنسی پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مومنہ نے فون دیکھا۔ وہ اقصیٰ کی کال تھی۔
”تمہیں تو لگتا ہے، دائود نے پہلے ہی بتا دیا ہے۔” اس کی آواز سنتے ہی اقصیٰ نے کہا تھا۔
”کیا؟” مومنہ حیران ہوئی تھی۔
”تمہارے آڈیشن کا۔”
”کیسے آڈیشن کا؟” مومنہ مزید حیران ہوئی تھی۔
”تم ہنس رہی تھیں تو میں سمجھی تمہاری بات ہوئی ہے اس سے۔ بہت بڑی خوش خبری ہے تمہارے لیے۔ لاہور جا رہی ہو تم۔” اقصیٰ اب پرجوش انداز میں اسے بتانے لگی تھی۔ ”دائود نے تمہاری شوریل اور قلبِ مومن کی فلم کے لیے ہونے والے آڈیشن کی فوٹیج بھیجی تھی کسی کو۔ ہالی ووڈ کی کسی فلم کی کاسٹنگ ہو رہی ہے یہاں اور پاکستان میں ہی شوٹنگ ہونی ہے اس کے کچھ حصہ کی۔ تمہیں آڈیشن کے لیے بلوایا ہے ان لوگوں نے تمہاری شوریل دیکھ کر۔ تو بس تم تیاری پکڑو لاہور کی۔”
چند لمحوں کے لیے مومنہ جیسے اس کی بات سمجھ ہی نہیں پائی۔
”تم مذاق کر رہی ہو؟” اس نے کہا تھا۔
”یار مذاق کروں گی تم سے؟ سیٹ پر بیٹھی ہوئی ہوں اور خوشی سے بے قابو ہو کر تمہیں فون کر رہی ہوں۔” اقصیٰ نے اسے ڈانٹا تھا۔
”تم ہالی ووڈ کی فلم کے آڈیشن کی بات کر رہی ہو؟” مومنہ کو لگا، اُس نے کچھ غلط سنا تھا۔
”ہاں یار! امریکا اور پاکستان میں شوٹنگ ہے اُس کی اور شوٹنگ ہے بھی جلدی۔ پہلے کچھ انڈین ایکٹرز کو لیا ہوا تھا انہوں نے لیکن ویزا پرابلمز ہو رہے ہیں اُنہیں تو اب فوری طور پر یہاں کاسٹنگ کر رہے ہیں۔”
اقصیٰ دوسری طرف سے کہہ رہی تھی لیکن مومنہ جہانگیر کے تاثرات دیکھ رہی تھی۔ جو ہالی ووڈ اور آڈیشن کے لفظ اُس کی زبان سے سن کر اس وقت یک دم ہی بے حد پُرجوش ہو گیا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تو اب؟” مومنہ کو اب بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”بس تم تیاری کرو۔ دائود بھی کال کر ے گا تمہیں۔ ٹکٹ اور قیام کے انتظامات بھی وہی لوگ کریں گے۔ اچھا بس سین آگیا ہے میرا، بعد میں بات کرتے ہیں تو تفصیل بتاتی ہوں تمہیں۔” اقصیٰ نے یک دم عجلت میں کہہ کر فون بند کر دیا۔
”کیا ہوا آپی؟” ہالی ووڈ کی فلم کے لیے آڈیشن ہو رہا ہے؟”
فون بند کرتے ہی جہانگیر نے اس سے پوچھا تھا اور صحن میں تار پر کپڑے ڈالتی ہوئی ثریا بھی پاس آگئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے مومنہ کا دل چاہا، وہ کوئی جھوٹ بول دے۔ وہ انہیں پھر سے امید اور نا اُمیدی کے دھاگے سے باندھنا نہیں چاہتی تھ۔ فلم اس کا جنون نہیں تھا مگر جہانگیر اور اس کے گھر والوں کا تھا اور وہ قلبِ مومن کے آڈیشن کی ناکامی کے بعد والی صورت حال کا سامنا دوبارہ نہیں کر نا چاہتی تھی۔ مگر جتنی دیر میں وہ کوئی جھوٹ گھڑپاتی۔ جہانگیر نے اُس کی خاموشی سے خود ہی جواب اخذ کر لیا تھا۔ وہ بڑے پُرجوش انداز میں ثریا کو فون پر ہونے والی گفتگو بتا رہا تھا۔
”آپا کی سلیکشن ہوئی ہے، ہالی ووڈ کی کسی فلم کے آڈیشن کے لیے اور آپ لاہور جا رہی ہیں۔”
”اللہ تیرا شکر ہے۔” مومنہ نے ثریا کو بے اختیار ہاتھ دعائیہ انداز میں اوپر اٹھاتے دیکھا۔
”آڈیشن کے لیے سلیکشن ہوئی ہے اماں! انہوں نے کاسٹ نہیں کیا مجھے ابھی۔” مومنہ نے بے اختیار اُن کی توقعات پر بند باندھنے کی کوشش کی تھی۔
”وہ بھی ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ میں تمہارے ابا کو تو بتائوں ذرا۔ کہاں کھڑے ہیں۔” ثریا اسی جوش و خروش سے کہتے ہوئے باہر گلی کا دروازہ کھول کر سلطان کو ڈھونڈنے نکل گئی تھی۔
”آپا! تم نے بہت بڑا سٹار بن جانا ہے۔ بتا رہا ہوں میں تمہیں۔ ہالی ووڈ میں کام کرو گی۔ پھر آسکر لینے جائو گی۔ پھر اسپیچ کرنا اور میرا تھینک یو کرنا کہ اگر جہانگیر نہ ہوتا تو۔” مومنہ نے چائے میں بسکٹ کا بچا ہوا ٹکڑا ڈبوتے ہوئے جہانگیر کی بات کاٹی۔
”پھر تمہاری آنکھ کھل جائے گی اور جب آنکھ کھل جائے تو تم مجھے بھی جگا دینا۔” وہ کہتے ہوئے چارپائی سے اٹھ گئی تھی۔
”آپا! دیکھ لینا تم۔” جہانگیر کی آوا ز اُس کے تعصب میں آئی تھی مگر مومنہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
٭…٭…٭
وہ ایک جمائی لیتے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ چابی سے کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ شکور اس وقت سو چکا ہوتا تھا اور وہ اسے نہیں جگاتا تھا۔ لائونج سے گزرتے ہوئے اسے ٹیرس پر ٹہلتے دادا دکھائی دیے۔ قلبِ مومن نے بے اختیار کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی۔ اس وقت تین بجنے والے تھے۔ عبدالعلی نے بھی لائونج کی گلاس وال سے اُسے دیکھ لیا تھا اور وہ اندر آگئے تھے۔
”آپ اب تک جاگ رہے ہیں؟” مومن نے اُن کے اندر آتے ہی اُن سے کہا تھا۔
”ہاں تہجد کے لیے اُٹھا تھا پھر تمہارا انتظار کرنے لگا۔ تم بہت دیر سے آتے ہو رات کو واپس۔ جب سے آیا ہوں تمہارے ساتھ بیٹھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا۔”
ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے گراتے ہوئے۔ مومن بھی دوسرے صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔
”ہاں بس اگلی فلم کی تیاری کر رہا ہوں۔ ایسی ہی ہے میری زندگی آج کل۔” مومن نے گہرا سانس لے کر آنکھیں رگڑیں اور صوفہ سے ٹیک لگائی۔
”ایسی ہونا تو نہیں چاہیے۔” عبدالعلی نے جواباً اس سے کہا تھا۔
”آپ کو نیہا کیسی لگی؟” مومن نے یک دم موضوع بدلا۔
”نیہا؟” عبدالعلی کو فوری طور پر وہ یاد نہیں آئی تھی۔
”اس دن ایک لڑکی سے ملوایا تھا نا آپ کو، اُس کی بات کر رہا ہوں۔”
مومن کو حیرانی ہوئی، دادا نیہا کو اتنی آسانی سے کیسے بھولے تھے۔ وہ اتنی ”عام” تو نہیں تھی کہ اُن کی یادداشت کا حصہ بھی نہ بن پاتی۔
”اوہ ہاں۔ اچھی لڑکی ہے۔” عبدالعلی کو یک دم یاد آیا۔
”میں شادی کرنا چاہتا ہوں اُس سے۔” مومن نے بغیر کسی تمہید کے کہا۔ اُس کے فیصلے ایسے ہی ہوتے تھے اچانک اور خود کردہ۔
”مجھے اندازہ ہو گیا تھا۔” عبدالعلی نے جواباً مدھم آواز میں کہا۔ مومن دھیمے سے ہنسا۔
”آپ کو ہر بات کا اندازہ پہلے ہی کیسے ہو جاتا ہے؟”
وہ بھی مسکرائے تھے پھر انہوں نے بڑی محبت سے کہا۔
”صرف تمہارے بارے میں ہوتا ہے یہ۔”
”نہیں، مجھے لگتا ہے آپ کو ہر چیز کا پہلے سے پتا ہوتا ہے۔ کوئی جن ہے آپ کے پاس۔” اس نے مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہا اور عبدالعلی اُسے بغور دیکھتے مسکراتے رہے پھر انہوں نے یک دم اُس سے کہا۔
”تم خوش ہو قلبِ مومن؟” آواز دھیمی تھی لہجہ نرم لیکن سوال عجیب تھا۔ مومن عجیب طرح سے ہی کھٹکا تھا۔
”آپ نے کیا پوچھا۔” اس نے جیسے دوبارہ سوال کی تصدیق چاہی۔
”تم خوش ہو؟” انہوں نے نظریں اُس کے چہرے پر جمائیں ان ہی الفاظ میں اپنا سوال دہرایا۔ مومن بے اختیار ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا لیکن اس نے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”بہت۔ بہت زیادہ۔ بلکہ بے تحاشا۔” اس نے گہرا سانس لے کر بے حد خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”لگتے کیوں نہیں ہو مجھے؟” عبدالعلی کے اگلے جملے نے مومن کی مسکراہٹ کو ماند کیا تھا۔
”میرا لائف سٹائل دیکھیں دادا۔ میری شہرت، میری کامیابی، گھر، کیریئر۔ میرے پاس سب کچھ ہے جو میری عمر کے کسی لڑکے کا خواب ہو گا۔ پھر خوش نہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے اُس نے کہا۔
”شاید غلط بات کر گیا ہوں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ بعض دفعہ غلط سوال پوچھ بیٹھتا ہوں۔ لیکن میں تمہیں ہمیشہ خوش ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔” عبدالعلی کہہ رہے تھے اور وہ سن رہا تھا۔ ایسی بات انہوں نے پہلی بار کی تھی۔
”سو جائو تم اب۔ تھکے ہوئے ہو گے۔”
وہ کہتے ہوئے یک دم اُٹھ گئے تھے لیکن مومن وہیں بیٹھا رہا تھا۔ بعض سوال جیسے انسان کو آئینے کے سامنے لا بٹھاتے ہیں اُس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ خوشی کا وہ کون سا پیمانہ تھا جس پر اُس کے دادا نے اُسے پرکھ کر یہ نتیجہ نکالا تھا۔ وہ کچھ دیر وہیں اُن کے جملوں کی گونج میں بیٹھا رہا تھا۔ پھر اُٹھ کر اپنے کمرے میں جانے لگا تو کنسول کے آئینے نے ایک بار پھر جیسے اُس کا راستہ روکا تھا۔ وہاں اُس کا عکس نظر آرہا تھا اور عبدالعلی کے سوال کی گونج۔ کیا وہ چہرے سے ناخوش لگ رہا تھا؟ لیکن کیوں؟ وہ تو ناخوش نہیں تھا ۔وہ تو ”خوش” تھا پھر دادا اُسے ان بھول بھلیوں میں کیوں اُلجھا کر گئے تھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});