الف — قسط نمبر ۰۳

”وہ بھی تمہاری فلم کے لیے آڈیشن دینا چاہتا ہے۔” نیہانے بے ساختہ کہا۔
”male lead تو میں فائنل کر چکا۔” قلبِ مومن نے بے ساختہ کہا۔
”تو کسی اور رول کے لیے دیکھ لو اسے۔” نیہا نے فوراً اسے پیش تر کہا۔ ”تمہارے ساتھ کام کرنے کا بہت اشتیاق رکھتا ہے وہ اور میں نے وعدہ بھی کیا ہے اس سے۔”
”اس نے بہت زیادہ متاثر نہیں کیا مجھے۔” قلبِ مومن نے نیہا کو بغور دیکھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔
”تم کیا بات کر رہے ہو، اتنی آفر آرہی ہیں اس کے پاس۔”
”تو پھر کیا مسئلہ ہے؟ وہ کرے اُن آفرز کو قبول۔” مومن نے جواباً کہا تھا۔
”وہ تمہارا فین ہے اور تمہارے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور مجھے نہیں پتا مومن۔۔۔! میں نے وعدہ کیا ہے اس سے۔ تمہیں اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اب۔”
نیہا نے بڑے ناز سے اٹھلاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ مومن تب تک اپنا بیگ بند کر کے کھڑا ہو چکا تھا۔
”فی الحال تو گھر چلتے ہیں۔ تمہیں دادا سے ملوانا ہے پھر بعد میں دیکھوں گا، کچھ ہو سکتا ہے یا نہیں مگر مجھے عورتوں کو سیڑھی بنا کر آگے بڑھنے والے مرد اچھے نہیں لگتے۔”
اس نے اٹھتے اٹھتے نیہا سے کہا تھا شاید اسے ضوفی کے لیے نیہا کی وکالت اچھی نہیں لگی تھی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ بیسٹ فرینڈ ہے وہ میرا۔” نیہا نے جیسے احتجاج کیا تھا مگر مومن تب تک اپنا بیگ اٹھائے آفس سے باہر نکل چکا تھا۔
وہ کچھ تلملائے ہوئے انداز میں اس کے پیچھے آئی تھی اس کے باوجود کہ اسے یقین تھا، قلبِ مومن اُسے انکار نہیں کر سکتا تھا اور اب وہ اس فلم میں ضوفی کے لیے کوئی نہ کوئی جگہ ضرور نکالے گا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”انٹریئر چینج کیا ہے تم نے؟” اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی نیہا نے جیسے کچھ چونک کر اُس سے کہا تھا۔ اس کے لائونج کی دیواروں پر سے بھی وہ نیوڈ پینٹنگز اور وہ عریاں مجسمے غائب تھے جو وہاں چند دن پہلے موجود تھے اور جو قلبِ مومن کے ذوق جمال کا اظہار تھے۔
”کچھ دنوں کے لیے ہٹایا ہے انہیں۔” قلبِ مومن نے جواباً اس سے کہتے ہوئے اپنا بیگ لائونج میں رکھا۔
”کیوں؟” نیہا نے حیرانی سے پوچھا۔
”کچھ زیادہ ہی نیوڈ تھا سب کچھ۔” مومن نے جواباً مسکرا کر عجیب نادم انداز میں کہا۔
”تو کیا ہوا؟ آرٹ تھا۔” نیہا جیسے اس کے انداز پر حیران ہوئی۔
”دادا ہیں ابھی یہاں تو بس جب تک وہ یہاں ہیں، میں یہ سب ان کے سامنے نہیں رکھ سکتا۔” مومن نے بالآخر اسے اصلی وجہ بتائی۔
”کنزرویٹو ہیں وہ؟ برا سمجھتے ہیں؟ برا بھلا کہتے ہیں۔” نیہا نے بے ساختہ کہا۔
”نہیں۔” مومن نے مختصر کہا۔
”تو پھر؟” وہ حیران ہوئی۔
”کیلی گرافی کرتے ہیں وہ قرآن پاک کی آیات تو بس میں نے سوچا، شاید اُنہیں بُرا نہ لگے۔”
مومن نے جیسے وضاحت دی تھی جو وہ دینا نہیں چاہتا تھا اور تب ہی اُس نے دادا کو لائونج میں آتے دیکھا جنہیں شکور بلانے گیا تھا۔
”السلام علیکم۔” اس سے پہلے کہ وہ اُن سے کچھ کہتا، انہوں نے خوش دلی سے سلام کیا تھا۔ نیہا نے جواباً وعلیکم السلام کہتے ہوئے مومن کو دیکھا یوں جیسے یہ جاننا چاہ رہی ہو کہ اب آگے کیا کہے۔
”دادا! یہ نیہا ہے میری کلوز فرینڈ اور نیہا! یہ میرے دادا ہیں۔” مومن نے دونوں کا تعارف کرایا تھا۔
عبدالعلی نے اس لڑکی کو بغور دیکھا جس کا تعارف مومن کروا رہا تھا۔ وہ پہلی لڑکی تھی جسے مومن نے ان سے متعارف کروایا تھا۔
”مومن بتا رہا تھا، آپ کیلی گرافی کرتے ہیں۔ بڑی تعریف کر رہا تھا آپ کی۔” نیہا نے اسن کے سلام کا جواب دیتے ہوئے بے ساختہ کہا۔
اس کے جملے پر عبدالعلی اور قلبِ مومن نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا اور جیسے دونوں نے ہی بیک وقت نظریں چرائیں پھر عبدالعی نے نیہا سے کہا۔
”مومن بھی تو کرتا ہے کیلی گرافی۔” نیہا کو جیسے کرنٹ لگا۔
”Seriously?” اس نے مومن کو یوں دیکھا جیسے اس نے یہ راز نہ بتا کر کوئی گناہ کیا ہو۔ ”کیلی گرافی آنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میرے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ میں کیلی گرافی کروں۔” مومن نے نادم انداز میں کہاں یوں جیسے وہ اس انکشاف کے ہونے پر پریشان ہوا تھا۔
”نہیں بھی کرتے تو بھی تم نے سیکھی تو ہے نا۔” نیہا اب بھی متاثر تھی۔
”ہاں۔ اور یہ پیدائشی خطاط ہے بیٹا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہنر سے نوازا ہوا ہے اسے۔” عبدالعلی نے بے حد فخریہ انداز میں نیہا کو بتایا تھا ان کے اس انداز سے مومن کی ندامت میں اور اضافہ ہوا تھا۔
”بچپن کا شوق تھا دادا۔ بچپن میں ہی چلا گیا۔” اس نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کی تھی۔
”اللہ تعالیٰ کا نام لکھنے والے ہاتھ اللہ کا نام لکھنا چھوڑ سکتے ہیں، بھول نہیں سکتے۔ تم جب بھی خطاطی کرو گے، بہت اچھی کرو گے۔”
عبدالعلی نے جواباً اس سے کہا تھا۔ نیہا اس ساری گفتگو کے دوران کسی خاموش تماشائی کی طرح کھڑی رہی تھی۔
”میں کپڑے بدل لوں پھر چلتے ہیں۔” ایک لمحہ کی کچھ عجیب سی خاموشی کے بعد مومن نے یک دم دادا کے بجائے نیہا سے کہا اور کمرے سے نکلنے ہی والا تھا جب اس نے نیہا کو کہتے سنا۔
”دادا! وہ اسٹار ڈائریکٹر ہے۔ کیلی گرافی stardom تھوڑا دے گی اُسے۔ آپ نے اس کی فلمیں دیکھی ہیں؟”
مومن بے اختیار پلٹا اور پچھتایا تھا۔ جو موضوع گفتگو بدلنے کے لیے وہ وہاں سے جا رہا تھا، وہ بڑے خطرناک موڑ پر آگیا تھا۔
”نہیں، میں نے نہیں دیکھیں۔” اس نے عبدالعلی کو مدھم آواز میں کہتے سنا۔
”اوہ! آپ کو دیکھنا چاہیے انہیں۔” نیہا بے حد پرجوش اندازمیں کہہ رہی تھی۔ ”مومن عورت کو جس طرح اسکرین پر پیش کرتا ہے۔ Awesomeہے۔ ڈریم وومین بنا دیتا ہے وہ اپنی ہیروئن کو۔Diva اسٹار۔”
نیہا بولتی جا رہی تھی اور عبدالعلی خاموشی سے سن رہے تھے اور پھر انہوں نے گردن موڑ کر اس دروازے کو دیکھا جس پر ہاتھ رکھے مومن کھڑا تھا۔ یوں جیسے وہ جانتے تھے کہ وہ اب بھی وہیں تھا۔ ان کی آنکھوں میں کچھ ایسی چیز جھلکی تھی کہ وہ وہاں کھڑا نہیں رہ سکا تھا۔ پلٹ کر دروازہ کھول کر وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔
٭…٭…٭
”مجھے سارا سکرپٹ یاد ہو گیا ہے۔”
جہانگیر نے فاتحانہ انداز میں مومنہ سے کہا۔ وہ اس ڈرامہ کا اسکرپٹ پڑھ رہا تھا جو مومنہ کر رہی تھی اور وہ کچھ دیر پہلے بنی چائے او ربسکٹ لیے اس کے پاس آکر صحن کی چارپائی پر آکر بیٹھی تھی جس پر وہ نیم دراز تھا۔
”اچھا سنائو پھر؟” مومنہ نے مسکرا کر جواباً اس کے ہاتھ سے اسکرپٹ لیا اور آلتی پالتی مار کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”سین نمبر13؟” جہانگیر بھی فوراً تیار ہوا تھا۔
”سین نمبر 13…نہیں 18 ہیرو نائل اور آبگینے کا سین۔” مومنہ نے چیلنج کرنے والے انداز میں اسکرپٹ کے صفحے اُلٹتے پلٹتے اس سے کہا۔ ایک لمحہ سے بھی پہلے جہانگیر نے کھٹ سے ہیرو نائل کا ڈائیلاگ دہرایا تھا۔
”ارے تم غصہ کیوں کھا رہی ہو؟” وہ کہہ کر رکا پھر اس نے مومنہ سے پوچھا۔
”ہیروئن کے بھی سنا دوں؟’
”چلو، ہیروئن کے میں سناتی ہوں۔ تم بس ہیرو کے بولو۔” چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے ہوئے مومنہ نے اس سے کہا اور ساتھ ہی اگلا ڈائیلاگ دہرایا تھا۔
”غصہ کھانے والی بات ہے۔”
”خوب صورت لگ رہی ہو۔”
”بکو مت۔”
”تعریف کروں تو غصہ نہ کروں تو غصہ۔ اب مجھے بھی غصہ آنے لگا ہے تم پر۔”
”تو ٹھیک ہے۔ ختم کرو یہ سب کچھ۔”
”آئزہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے میرا۔”
”تمہارا نہیں ہے، اس کا ہے۔”
”وہ بھی نہیں ہے۔”
”بھائی ہو نا پھر تم اس کے۔”
”وہ تو تمہارا ہوں اس اسکرپٹ میں۔” روانی سے ہیرو کے ڈائیلاگز طوطے کی طرح دہراتے ہوئے جہانگیر بالآخر ڈائیلاگ بھولا اور اس نے اگلا جملہ اپنے پاس سے بولا اور مومنہ نے ہاتھ میں پکڑا سکرپٹ بے اختیار اس کے کندھے پر مارتے ہوئے اس سے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۲

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!