الف — قسط نمبر ۰۳

وہ وہاں یہ کام کئی سالوں سے کررہے تھے۔ پہلے اکیلے کیا کرتے تھے، اب کئی نوجوان وہاں آکر شوقیہ اور جذبے کے ساتھ یہ کام کرتے تھے۔ خاص طور پر خطاطی سے منسلک اسٹوڈنٹس اور مومنہ سلطان کا اس جگہ سے تعارف بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ اب وہ مسلسل وہاں آنے والے افراد میں شامل تھی جو اپنی سہولت کے اوقات میں وہاں آکر ماسٹر ابراہیم کی مدد کیا کرتے تھے۔
یہ مومنہ سلطان کا اپنے اس ٹوٹے ہوئے خواب کے ساتھ آج بھی جڑے رہنے کا ذریعہ تھا جو آرٹ اسکول میں آرٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی صورت میں کبھی اس نے دیکھا تھا۔ وہ خطاط بننا چاہتی تھی۔ خطاطی کرنا چاہتی تھی اور بچپن سے اس کا اگر کوئی شوق تھا تو یہی تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک فلمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں باپ ایک فلم میک اپ آرٹسٹ تھا اور ماں ثریا ریڈیو سے منسلک رہنے والی ایک سنگر اور وائس اوور آرٹسٹ مگر مومنہ کو ایکٹنگ میں دلچسپی تھی نہ گانے میں، نہ ہی فلم سے منسلک کسی اور چیز میں۔ اسے خطاطی کا شوق تھا اور اس شوق کو بڑھاوا دینے میں سلطان اور ثریا دونوں کا ہاتھ تھا۔ یہ ان کے بھی اچھے وقتوں کا خواب تھا جب وہ مومنہ کو خطاط بنانا چاہتے تھے۔ آرٹ اسکول میں پڑھا کر پھر باہر کے کسی ملک میں بھیج کر بہت زیادہ پڑھا لکھا کر۔ مومنہ کے لیے انہوں نے یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ جہانگیر کی طرح فلم کی فیلڈ میں آتی۔ ہیروئن بنتی۔ اور اس کی وجہ سلطان تھا یا حسنِ جہاں۔ یہ فیصلہ کرنا کبھی کبھی مومنہ سلطان کے لیے مشکل ہو جاتا۔ مگر زندگی اپنے فیصلوں، اپنے خوابوں اور اپنی خواہشات کے تابع نہیں ہوتی۔ مومنہ سلطان کی زندگی بھی نہیں تھی۔ وہ جہانگیر کی گردوں کی بیماری کا پتا چلنے کے بعد اپنی تعلیم چھوڑ کر اس کا علاج کرنے کے جنون میں اداکارہ بنی تھی اور آرٹ اسکول کے خواب کے ساتھ ہی اس نے زندگی میں اور بھی بہت کچھ چھوڑ دیا تھا کیوں کہ اسے اچانک پتا چل گیا تھا کہ آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ جو بھی اچھے دن انہوں نے کبھی گزارے تھے وہ پیچھے رہ گئے تھے اور اب اگر زندگی میں اسے کوئی بڑا کام بھی کرنا تھا تو وہ صرف جہانگیر کا علاج کروانا تھا۔
”جہانگیر کیسا ہے؟” ماسٹر ابراہیم نے موضوع گفتگو یک دم بدلا۔
”دوسرا گردہ بھی فیل ہو رہا ہے اس کا۔” وہ ایک لمبی خاموشی کے بعد کام کرتے کرتے بولی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”میں ابھی پہلے کے لیے بھی پیسے جمع نہیں کر پائی۔ ماسٹر صاحب! مجھے لگتا ہے میں آدھی پاگل ہو گئی ہوں۔ عنقریب پوری پاگل ہو جائوں گی۔” اس کے اندر کا لاوا جیسے پھٹ پڑا تھا آنسوئوں کے سیلاب کے ساتھ۔
”جو رزق کما رہی ہوں، وہ کمانا نہیں چاہتی۔ جو کما رہی ہوں، اس سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ جو چاہتی ہوں، وہ ملتا نہیں۔ جو ملتا ہے وہ چاہ نہیں بنتا۔” اس نے سر جھکا لیا تھا۔ پھر آستین سے اپنی آنکھیں اور چہرہ رگڑا۔
”میں کچھ کرتا ہوں تمہارے لیے۔” ماسٹر ابراہیم بے اختیار پریشان ہوئے تھے۔ انہوں نے مومنہ کو اتنا ڈسٹرب کبھی نہیں دیکھا تھا۔
”آپ بس دعا کریں۔ میں اس آزمائش سے نکل جائوں۔ یہ ختم ہو جائے۔” اس نے جواباً ان سے کہا۔
”آمین۔” ماسٹر ابراہیم نے بے ساختہ کہا۔
”میرا گردہ لگ سکتا نا تو میں اپنے دونوں گردے اسے دے دیتی۔ وہ جینا چاہتا ہے، میں جینا نہیں چاہتی۔” اس کے لہجے میں آج کچھ ایسا تھا جو ماسٹر ابراہیم کو بُری طرح پریشان کر رہا تھا۔
”اللہ کی ذات سے اتنی مایوسی ٹھیک نہیں مومنہ۔” انہوں نے جیسے اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”اللہ سے تو مایوس نہیں ہوں۔ دنیا سے ہوں۔ لوگوں سے ہوں۔” اس نے جواباً کہا تھا۔
”اللہ کی دنیا ہے بیٹا۔ اللہ کے لوگ ہیں۔” ماسٹر ابراہیم نے جیسے اسے ایک بار پھر سمجھایا۔
”ہاں سب اللہ کے ہیں بس ایک مومنہ اللہ کی نہیں ہے نا۔”
اس نے آنسو صاف کر لیے تھے۔ وہ اب دوبارہ کام شروع کر چکی تھی۔ ماسٹر ابراہیم۔ اس بار کچھ نہیں کہہ سکے تھے۔ وہ خاموشی سے اس کا جھکا ہوا سر دیکھتے رہے۔ وہ اب کام میں مصروف تھی، یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔ مگر جی ہلکا کرنا تھا، وہ ہو گیا تھا اس کا۔ یہ آنسو وہ نہ ثریا کے سامنے بہا سکتی تھی نہ جہانگیر کے اور اقصیٰ کو اس کی بات سمجھ میں ہی نہیں آتی تھی۔جب وہ اداکاری کے حوالے سے وہ باتیں کرتی جو وہ ماسٹر ابراہیم کے سامنے کر رہی تھی اور وہ سمجھ رہے تھے۔
”میں نے کبھی تمہیں ایسے شکوہ کرتے نہیں دیکھا مومنہ!” ماسٹر ابراہیم نے لمبی خاموشی کے بعد اس بار بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا تھا۔
”آج اس رزق کے لیے کسی کے ہاتھوں ذلیل ہو کر آئی ہوں جس کے لیے ماشاء اللہ کہہ رہے تھے۔”
مومنہ ان سے یہ جملہ بولنا چاہتی تھی لیکن بول نہیں سکی۔ اس نے سراٹھا کر ماسٹر ابراہیم کو دیکھا پھر عجیب بے بسی سے مسکرائی۔
”آپ سے کہا نا۔ میں پاگل ہو رہی ہوں۔” اس سے پہلے کہ ماسٹر ابراہیم کچھ کہتے، حویلی کا دروازہ کھول کر ایک اور لڑکی اندر صحن میں داخل ہوئی۔ مومنہ اور ماسٹر ابراہیم بے اختیار اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ وہ بھی وہاں کام کرنے والوں میں سے تھی۔ ایک ہلکی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس بے حد ماڈرن حلیے میں لیکن سر کے گرد ایک حجاب اوڑھے۔ ماسٹر ابراہیم کے پاس ہر طرح کے اسٹوڈنٹ آتے تھے ہر حلیے میں لیکن اس مقصد کے لیے سب کا جذبہ ایک جیسا تھا یا پھر وہ اس جگہ کا اثر تھا۔ اپنے جوتے اُتارتے ہوئے وہ لڑکی اب ماسٹر ابراہیم کو سلام کر رہی تھی اور ساتھ بمشکل اس حجاب کو گرہیں لگا لگا کر سنبھال رہی تھی جو اس نے شاید صرف یہ کام کرتے وقت ہی اوڑھاہو گا زندگی میں۔ ماسٹر ابراہیم نے موضوعِ گفتگو وہیں بدل دیا تھا اور مومنہ نے اپنا جھکا ہوا سر مزید جھکا کر اپنی سرخ آنکھوں کو اس لڑکی سے چھپایا تھا۔
٭…٭…٭
”قلبِ مومن فلمیں نہیں بناتا جیسے اپنے ہاتھوں سے مجسمے تراشتا ہے جو فلم دیکھنے والوں کے دل اور ذہن میں بس جاتے ہیں۔ وہ اپنی ہیروئنز کو نمائشی پتلی کے طور پر پیش کرتا ہے اور ایکfeminist ہونے کے ناتے یہ میری اس سے ایک فلم ڈائریکٹر کے طور پر واحد شکایت ہے۔ اس کی Diva اس کی فلم میں ہیرو کے سامنے ایک کھلونے سے زیادہ حیثیت اور اہمیت نہیں رکھتی۔ اپنے سارے گلیمر اور سحر سے سینما بینوں کو سحر زدہ کرنے اور سال کی سب سے بڑی کمرشل ہٹ دینے کے باوجود۔”
ٹینا قلبِ مومن کے آفس میں میگزین کے ایک آرٹیکل کا آخری پیراگراف پڑھ رہی تھی جب اپنی آفس چیئر پر جھولتے ہوئے مومن نے اسے ٹوکا تھا۔
”تبصرہ نگار کون ہے؟” اس کا لہجہ بے حد تیکھا تھا۔
”صدف سحر۔” ٹینا نے اس مشہور بلاگر اور فلمی نقاد کا نام لیا جو سوشل میڈیا کیreview queen مانی جاتی تھی۔
”آخری چند جملوں کے علاوہ تو بہت اچھا ریویو دیا ہے اس نے ہمیں اور ہماری فلم کو۔” ٹینا نے اس کے تاثرات دیکھتے ہوئے جو اچھے نظر نہیں آہے تھے۔
”آخری چند جملے بھی کیوں لکھے ہیں اس آرٹیکل اور ویب سائٹ میں۔ جب ہم فائیو سٹار ریویو کے لیے pay کر رہے ہیں تو وہ کیسے اس طرح کے کمنٹس کر سکتی ہے میرے اور میری فلم کے بارے میں۔” قلبِ مومن واقعی خفا تھا۔
”میری بات ہوئی تھی صدف سے وہ کہہ رہی تھی بیلنس رکھنے کے لیے آخر میں یہ چند لائنز شامل کی ہیں ساری تعریفیں ہی ہوں تو پھر پڑھنے والے شک کرتے ہیں کہ پیسے لے کر ریویو لکھ دیا ہے۔”
ٹینا نے وضاحت کی۔ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے مختلف میگزینز اور ویب سائٹس پر قلبِ مومن کی فلم کے بارے میں آنے والے مختلف تبصرے اسے پڑھ پڑھ کر سنا رہی تھی اور اس میں بے لاگ اور لفافہ دے کر کرائے گئے دونوں طرح کے تبصرے تھے اور اب صدف سحر کا وہ ریویو قلبِ مومن کو جیسے لڑ گیا تھا۔
”یہ اُن کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اگر ایک ویب سائٹ کو پیسے دے کر ایک ریویو لکھوا رہے ہیں تو وہ ہمارے خلاف ایک لائن بھی کیسے لکھ سکتے ہیں۔” قلبِ مومن نے ہمیشہ کی طرح دوٹوک انداز میں کہا۔
”میں دوبارہ بات کرتی ہوں صدف سے اور دیکھتی ہوں، اس کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے۔” ٹینا نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس سے پہلے کہ قلبِ مومن اس سے کچھ کہتا دروازہ کھلا تھا۔
”ہیلو۔” نیہا نے دروازے میں کھڑے کھڑے اندر جھانکتے ہوئے مومن کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔
”اوہ ہیلو۔” مومن اسے دیکھ کر جواباً مسکرایا۔ ٹینا کرسی سے اٹھ گئی تھی اس نے باہر جاتے ہوئے اندر آتی ہوئی نیہا سے ہیلو ہائے کی اور قلبِ مومن ٹیبل پر پڑا اپنا لیپ ٹاپ بند کرنے لگا تھا۔
”میں بس دو منٹ میں فارغ ہوتا ہوں پھر چلتے ہیں۔” مومن نے تیزی سے اپنی سکرین پر کھلی ہوئی مختلف ونڈوز کو بند کرنا شروع کر دیا تھا۔
”مجھے اصل میں تم سے بڑی ضروری بات کرنا تھی آج۔”
نیہا نے اس کی بات کے جواب میں کسی تمہید کے بغیر اپنے مدعا پر آتے ہوئے کہا۔ قلبِ مومن نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے چونک کر اسے دیکھا۔
”ہاں کرو۔”
”تم سے ضوفی کے بارے میں بات کرنی تھی۔”
”کون ضوفی ؟” قلبِ مومن بے اختیار اُلجھا۔
”یار! وہ دوست جسے میں تمہاری پارٹی میں ساتھ لائی تھی اور تم سے ملوایا تھا۔ وہ اسمارٹ، ہینڈسم، good looking model۔” نیہا نے اسے تفصیلات دے کر جیسے اس کی یادداشت بحال کرنے کی کوشش کی۔ قلبِ مومن کو یک دم وہ یاد آیا تھا۔
”اوہ اچھا۔ وہ لڑکا۔ اس کے بارے میں کیا بات کرنا تھی؟”
مومن نے کچھ حیرانی سے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۲

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!