الف — قسط نمبر ۰۳

”آپ سے معذرت کرنے۔۔۔ اُس دن جو ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔” مومنہ نے اُس کے لہجے کی کرختگی کو نظراندازکی اور مدھم آواز میں اُس کو مدعا بتایا تھا۔
”معذرت کرنے۔۔۔؟ کس چیز کی معذرت کرنے۔۔۔؟ میڈم۔۔۔ یہ دروازہ دیکھ رہی ہیں آپ؟ اسے کھولیں۔and get lost۔ یہ میرا آفس ہے، تمہارے باپ کا آفس نہیں ہے۔” قلبِ مومن نے جو جواب دیا تھا مومنہ کو لگا اُس کا چہرہ ضرور سرخ ہوا ہوگا۔ وہ اُس کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
”میں واقعی شرمندہ ہوں اور آپ سے معذرت کرنا چاہتی ہوں۔” وہ ڈھیٹ نہیں تھی، بے شرم بھی نہیں تھی مگر زندگی تھی اور وہ مجبوری بھی تھی جو اُس کے پیروں اور ہاتھوں کو ایک ہی رسی سے باندھے ہوئے تھی۔ قلب ِ مومن اس بار اُس پر دھاڑا تھا۔
”تمہیں سنائی نہیں دے رہا، میں کیا کہہ رہا ہوں۔ Get lost اور دوبارہ مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔۔۔ اور تم۔۔۔ یہ آخری بار ہے کہ یہ میرے آفس میں نظر آرہی ہے۔ یہ تمہاری جو کوئی بھی ہے۔ اس آفس میں نظر نہیں آنا چاہیے۔ اگلی بار یہ آفس میں آئے گی تو پھر صرف یہ نہیں جائے گی، تم بھی جائو گے۔”
مومن نے آخری چند جملے دائود سے کہے۔ بے حد درشت لہجے میں اور پھر کاغذ اُس کی ٹیبل پر پھینکنے والے انداز میں اُچھال کر وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔ مومنہ دائود سے نظریں نہیں ملا سکی۔۔۔ نہ ہی دائود ملا سکا۔ ایک عجیب سناٹا اُترا تھا اُس آفس میں بھی اور مومنہ سلطان پر بھی۔ ذلت اس وقت اُس کے سامنے اتنی چھوٹی چیز ہوگئی تھی کہ اُسے اُس کی پرواہ نہیں رہی تھی۔۔۔ پروا اگر کسی چیز کی رہ گئی تھی تو وہ جہانگیر تھا۔
”میں نے بتایا تھا تمہیں۔۔۔” دائود نے جیسے صورت حال سنبھالنے کی کوشش کی۔
”ہاں۔۔۔ اور مجھے افسوس ہے۔ میری وجہ سے تمہیں یہ سب کچھ سننا پڑا۔” اپنا بیگ اُٹھاتے ہوئے اُس نے دائود سے نظریں چرائی تھیں۔ آنکھوں میں پانی تھا اور یہ آنسو وہ کسی کے سامنے بہانا نہیں چاہتی تھی۔
”مجھے اپنی پروا نہیں ہے مومنہ مگر۔۔۔” دائود نے اتنا کہہ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ مومنہ سر ہلا کر رہ گئی۔
”جہانگیر کے لیے آئی تھی۔” اُس نے عجیب بے ربطگی سے یہ جملہ بولا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تم جہانگیر کے لیے پریشان مت ہو۔ جو بھی ہوا، میں کروں گا۔۔۔ کچھ لوگوں سے کہا ہے میں نے تمہارے لیے۔۔۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔”
وہ یہ نہ بھی بتاتی تو بھی دائود کو اندازہ تھا، اُسے اس طرح اُس فلم میں کام مانگنے اور اُس کے لیے قلبِ مومن جیسے شخص کے سامنے ناک رگڑنے کے لیے کون سی ضرورت مجبور کررہی تھی۔
مومنہ نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آئی۔ اُس بے حد مختلف انداز میں ڈیکوریٹڈ سٹوڈیو اور آفس سے جس کا مالک اس وقت مومنہ سلطان کی زندگی کا واحد قابل نفرت شخص تھا۔
٭…٭…٭
کبوتروں والی وہ حویلی ہمیشہ کی طرح پُرسکون، خاموش تھی۔۔۔ سائیکو انالسسٹ کے اُس کائوچ کی طرح جس پر بیٹھ کر انسان اپنا اندر کھوجنے، اپنے بوجھ اُتارنے آتا ہے اور ہلکا پھلکا ہوکر جاتا ہے۔
مومنہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تھی کسی سے اجازت لیے بغیر۔ اُس حویلی کا دروازہ اسی طرح کھلا ملتا تھا۔ وہاں آنے والے ہر شخص کو۔۔۔ اور وہاں آنے والے زیادہ تر آرٹ اسکولز کے اسٹوڈنٹس ہوتے تھے جو اپنی فرصت کے چند گھنٹے وہاں اپنی مرضی سے آکر گزارتے۔ اُس ایک کام میں ماسٹر ابراہیم کے ساتھی اور مددگار بن کر جو ماسٹر ابراہیم نے کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔
حویلی کا دروازہ کھلتے ہی سامنے وہ فوارے والا چھوٹا سا صحن تھا جو ہر وقت کبوتروں سے بھرا رہتا تھا اور اُن کی عجیب خصوصیت یہ تھی کہ وہ وہاں آنے والوں سے ڈر کر نہیں اُڑتے تھے۔ اپنی جگہ پر ہی جمے بیٹھے رہتے یا چلتے چلتے کچھ آگے سرک جاتے۔ یوں جیسے گزرنے والوں کو راستہ دے رہے ہوں۔ پانی کے اُس چھوٹے سے فوارے کے گرد بنے حوض میں جو اُس صحن کے بیچوں بیچ لگا ہوا تھا، اب بھی پانی موجود تھا۔ بے حد صاف رکھنے کی کوشش کی گئی تھی اُسے۔۔۔ اس کے باوجودکہ وہ پانی پینے کے لیے اُڑ کر اُس حوض کے گرد بنی اُس چار انچ چوڑی دیوار پر بیٹھنے والے کبوتروں کی بیٹ سے روز گندی ہوتی تھی پھر بھی ماسٹر ابراہیم اُسے روز صاف کرتے تھے تاکہ کبوتروں کو صاف اور شفاف پانی ملے پینے کے لیے۔
دانہ چُگنے کے لیے جگہ جگہ بیٹھے ہوئے کبوتروں کے بیچ سے گزرتے ہوئے مومنہ سلطان کو عجیب سا سکون ملا اور ہمیشہ ملتا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے شور شرابے سے بھاگتی جب بھی یہاں آتی تھی کچھ دیر کے لیے سارے دکھ جیسے ٹھہر جاتے تھے۔ وہاں بکھری خاموشی اُس کے اندر کا سارا شور کسی اسفنج کی طرح جذب کرلیتی تھی۔
حویلی کے کھلے برآمدے میں ماسٹر ابراہیم فرش پر پڑی اُس دری پر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے ہوئے اپنے کام میں مصروف تھے۔ انہوں نے حویلی کے کھلنے والے دروازے پر سر اُٹھا کر اندر آنے والے کو دیکھا نہ ہی کبوتروں کے بیچوں بیچ سے گزرنے والی مومنہ کے پیروں کی چاپ نے اُنہیں متوجہ کیا تھا۔ وہ سر جھکائے بے حد انہماک سے قرآن پاک کے اُس نسخے کی جلد سازی کرنے میں مصروف تھے جو اُن کے سامنے رکھا ہوا تھا۔
”السلام علیکم ماسٹر صاحب۔” مومنہ نے برآمدے کی دو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مدھم آواز میں اُنہیں سلام کیا اور پھر اپنا بیگ دری پر ایک کونے میں رکھ دیا۔ اپنی مخصوص جگہ پر جہاں فرش پر ہی وہ چھوٹا سا ڈیسک رکھا تھا جس پر وہ کام کیا کرتی تھی۔
”وعلیکم السلام۔۔۔ ارے مومنہ! اس بار بڑے دنوں کے بعد آئیں تم۔” ماسٹر ابراہیم نے بالآخر سر اُٹھا کر بے حد خوش دلی سے اُس کا استقبال کیا تھا۔ مومنہ میکانکی انداز میں برآمدے میں جگہ جگہ دیواروں کے ساتھ رکھے بہت سارے کھلے خانوں والی شیفلوں میں سے موجود ایک قرآن پاک نکال رہی تھی۔
”ایک سیریل میں کام مل گیا تھا ماسٹر صاحب۔” شیلف کے خانے سے اُس قرآن پاک کو بے حد احتیاط سے لا کر اپنی جگہ پر آنے اور زمین پر پڑے اُس فرشی ڈیسک پر اُس قرآن پاک کو رکھتے ہوئے مومنہ نے ماسٹر ابراہیم کو جواب دیا۔ اُن کی طرف دیکھے بغیر، اُن سے نظریں ملائے بغیر۔ وہ اس وقت جس ذہنی کیفیت میں وہاں آئی تھی نہیں چاہتی تھی، کوئی اسے پہچانے۔
”ارے ماشاء اللہسیریل کا کام مل گیا۔” ماسٹر ابراہیم نے بے ساختہ اُ سے کہا اور اُن کے ان الفاظ پر وہ یک دم جیسے رنجیدہ ہوئی تھی۔
”ماشاء اللہ نہ کہیں ماسٹر صاحب۔” ماسٹر ابراہیم نے جیسے حیران ہوکر اُسے دیکھا۔ وہ قرآن پاک کے اُس نسخے کا کام مکمل کرچکے تھے۔
”تمہاری خواہش تھی سیریل میں کام کرنے کی، تم نے دُعا کروائی تھی۔” انہوں نے مومنہ سلطان کا چہرہ بغور دیکھا جو سر جھکائے اب اُس قرآن پاک کو اپنے ڈیسک پر رکھے بیٹھی تھی۔
”ہاں دعا کروائی تھی مگر آپ ماشاء اللہ نہ کہیں، مجھے شرم آتی ہے۔”
”کس سے؟” ماسٹر ابراہیم نے جیسے حیران ہوکر اُسے دیکھا۔
”اللہ کے علاوہ کس سے آئے گی ماسٹر صاحب؟” اُس نے اُنہیں دیکھے بغیر سر جھکائے اب وہ کاغذ کھول لیا جس پر وہ کام کرنے والی تھی۔ اُس کا قلم اور روشنائی کی دوات اُس کے ڈیسک کے پاس پڑی تھی۔ ماسٹر ابراہیم یک دم سمجھ گئے تھے کہ اُس کا اشارہ کس طرف ہے۔
”رزق دیتا ہے یہ کام بھی۔۔۔ رزق کے لیے ہی کہا ہے ماشاء اللہ۔” انہوں نے مدھم آواز میں مومنہ سے کہا۔ وہ اتنے سالوں سے اُن کے پاس آرہی تھی وہ اُس کی زندگی کے ہر امتحان، ہر آزمائش سے بخوبی واقف تھے۔
”آپ نیک ہیں، آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں۔” وہ اُن کی بات پر بے ساختہ بولی اور وہ ہنس پڑے۔
”تم بھی نیک ہو بیٹا۔” اُن کی بات پر مومنہ نے قلم ہاتھ میں پکڑے گہرا سانس لیتے ہوئے پہلی بار سر اُٹھا کمر اُنہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نیک ہوتی آپ کی طرح تو یہاں ”یہ” کررہی ہوتی۔۔۔ ساری دنیا سے کٹ کر، چھپ کر۔” اُس نے ڈیسک پر رکھے اُس کاغذ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا جس پر اُس نے ابھی کام شروع کرنا تھا۔
وہ اُس کی بات پر مسکرائے تھے۔
”یہ بھی تو کررہی ہو۔” انہوں نے اُسے جتانے والے انداز میں کہا تھا۔
”مگر ”صرف” یہ نہیں کر رہی نا۔۔۔ اور کر بھی رہی ہوں تو اپنے سکون، اپنے لالچ کے لیے کررہی ہوں۔” وہ اب کاغذ پر اُس قرآن پاک کے اُن شروع کے صفحات کو لکھ رہی تھی جس پر اُس بوسیدہ قرآ ن پاک کی ابتدائی تحریر تھی۔
وہ وہاں پہلی بار آرٹ اسکول کے کسی اسٹوڈنٹ کے ساتھ آئی تھی جو ماسٹر ابراہیم کی اس حویلی کے بارے میں جانتا تھا۔ جہاں لوگ اپنے بوسیدہ قرآن پاک کے نسخے دے کر جایا کرتے تھے۔ وہاں ماسٹر ابراہیم آرٹ اسکول کے بہت سارے اسٹوڈنٹس کی رضاکارانہ مدد کے ساتھ پھٹ جانے والے صفحات اور مٹ جانے والے الفاظ کو خطاطی کے انداز میں لکھوا کر قرآن پاک کے اُن نسخوں کو دوبارہ جلد کرا کے محفوظ کیا کرتے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۲

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!