”نیہا آجاتی ہے تو اُس سے بھی کاسٹیومز اور وارڈ روب کا بجٹ ڈسکس کر لو۔ پچھلی دفعہ اوور بجٹ ہو گئی تھی ہماری وارڈ روب۔” قلبِ مومن نے ٹینا اور دائود سے کہا۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھے اپنی اگلی فلم کے لیے ایکٹرز کی لُک ٹیسٹ اور وارڈ روب کی ڈسکشن کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔
”اس بار ایک دو دوسری ڈیزائنرز بھی اپروچ کر رہی ہیں وارڈ روب کے لیے۔ نیہا مان جائے تو ورائٹی بھی آجائے گی اور وارڈ روب کا بجٹ بھی کم ہو جائے گا کیوں کہ اُن ڈیزائنرز کو تو صرف کریڈٹس میں اپنا نام چاہیے۔” ٹینا نے مومن سے کہا۔ اُس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”میرا نہیں خیال کہ نیہا مانے گی کریڈٹس کو شیئر کرنے کے لیے تو ہمیں وہ آپشن سوچنا ہی نہیں چاہیے۔” بات کرتے کرتے مومن نے گھڑی دیکھی اور اس نے ٹینا سے کہا۔
”نیہا کو اور کتنا ٹائم لگے گا آنے میں، ذرا چیک کرو۔ ہماری تو میٹنگ ختم ہونے والی ہے اور وہ ابھی تک نہیں پہنچی۔” وہ قدرے ناخوش تھا۔ اس سے پہلے کہ ٹینا کچھ کہتی، کمرے کا دروازہ کھول کر نیہا مسکراتی ہوئی ضوفی کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔
”ہیلو۔ سوری! میں زیادہ لیٹ تو نہیں ہوئی۔” اس نے اندر آتے ہی مومن کو مخاطب کیا۔
”بس ایک گھنٹہ۔” مومن نے جواباً کہا تھا۔ ضوفی کو دیکھ کر اُس کے ماتھے پر بل پہلے ہی آگئے تھے۔
”اچھا۔ پھر تو ٹائم پر ہی ہوں میں۔” نیہا نے ہنستے ہوئے کندھے اچکائے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ ضوفی نے بھی یہی کیا تھا۔
”دائود! جو شہلا کی پریزنٹیشن ہے وہ چلا دیں۔ Excuse me۔ اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کچھ دیر کے لیے ویٹنگ روم میں بیٹھ جائیں۔ ہم لوگ یہ میٹنگ ختم کر لیں۔” مومن نے پہلا جملہ دائود سے اور اُس کے بعد ہونے والی ساری بات ضوفی سے مخاطب ہو کر کی تھی۔ جس کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر گزرا تھا اور وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لیکن نیہا نے اُسے روک دیا۔
”تم سے ملوانا تھا میں نے ضوفی کو آج۔ بات ہوئی تھی نا تم سے میری۔”
”آج تو بہت مصروف ہوں میں، اس میٹنگ کے فوراً بعد فنانسرز کے ساتھ میٹنگ لائن اپ ہے میری۔” مومن نے صاف انکار کیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس وقت ضوفی پر کیا گزر رہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”صرف دس پندرہ منٹ ہی کی تو بات ہے۔” نیہا نے اصرار کیا تھا۔
”مجھے اگر پہلے پتا ہوتا تو ضرور، لیکن آج تو پانچ منٹ کے لیے بھی فارغ نہیں ہوں میں۔” مومن بھی بدلحاظی کی انتہا پر پہنچا ہوا تھا۔
”ٹینا! تم دو دن بعد ضوفی کے ساتھ میری میٹنگ شیڈول کر دو۔ I hope it’s Ok with you Zoofi”
اُس نے نیہا کو صاف جواب دے کر پہلے ٹینا اور پھر ضوفی کو مخاطب کیا۔ جس کا رنگ اس وقت اُڑا ہوا تھا اور اُس نے قلبِ مومن کی اس آفر کو بے حد خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے جیسے گھٹنے ٹیکے۔
”No problem at all. That’s Ok.’
ٹینا نے اپنے سامنے پڑے لیپ ٹاپ میں ضوفی کی اپائنٹمنٹ نوٹ کرنا شروع کی ہی تھی کہ یک دم نیہا اپنا بیگ اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”ایسا کرو، تم میری اپائنٹمنٹ بھی دو دن بعد ہی کی کر دو کیوں کہ آج تو میں بھی اس میٹنگ میں نہیں بیٹھ سکوں گی۔ مجھے بھی کہیں جانا ہے۔” نیہا نے ضوفی کے اٹھتے ہی اپنے تیور دکھائے تھے۔
”بائے۔” وہ کہہ کر سیکنڈوں میں کمرے سے باہر گئی تھی۔ ضوفی اس سے پہلے ہی کمرے سے نکل چکا تھا۔
”نیہا۔ نیہا۔” مومن نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نکلتی چلی گئی۔ مومن اٹھ کر اس کے پیچھے گیا تھا۔
وہ کمرے کے دروازے سے باہر نکلی ہی تھی جب مومن نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔
”یہ کیا Childish Behaviour ہے؟” مومن نے بڑی خفگی سے دبی آواز میں کہا۔ نیہا نے اُس کا ہاتھ جھٹک کر اپنا بازو اُس سے چھڑاتے ہوئے کہا۔
”Behave yourself۔ اگر تمہیں دوسروں کا احساس نہیں ہے تو دوسرے کیوں تمہارا احساس کریں۔” اُس کے لہجے میں بے حد تلخی اور غصہ تھا۔
”تم اس لڑکے کی وجہ سے مجھ سے جھگڑا کر رہی ہو؟” قلبِ مومن کو جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں کر رہی ہوں۔ تو؟” اُس نے بڑی بدتمیزی سے کہا اور تیز قدموں سے وہاں سے چلی گئی۔
زندگی میں پہلی بار مومن کو ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ کوئی اُس پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا اور وہ بھی وہ جو اُس کی منگیتر تھی۔ گلاس وال سے اُس نے نیہا کو ضوفی کے ساتھ دور جاتے دیکھا تھا، مائوف ذہن کے ساتھ۔
٭…٭…٭
میز کے دوسری طرف بیٹھے اُن دونوں افراد نے آپس میں چند سرگوشیاں کی تھیں پھر اُس انڈین نژاد امریکن عورت نے مومنہ سے انگلش میں کہا۔
”تم گونگی اور بہری ہو اور تم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دوست کو قتل ہوتے دیکھا ہے اور تم چھپ کر اپنی زندگی بچانے کی کوشش کر رہی ہو۔”
مومنہ نے بغور اس عورت کی ہدایات کو سنا تھا اور اُس کا دل ڈوبا۔ تو اُس کے کوئی ڈائیلاگز ہی نہیں تھے اور وہ اُسے بغیر ڈائیلاگز کے پرفارم کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔
”لگتا ہے وقت ہی ضائع کیا یہاں آڈیشن کے لیے آکر۔ تین سینز کا رول ہے اور بغیر ڈائیلاگ کے۔ میں کروں گی کیا۔” اس نے اُلجھے ہوئے انداز میں سوچا تھا۔ وہ عورت اب اُسے سچویشن سمجھا رہی تھی۔
”گونگی اور بہری لڑکی۔” مومنہ اب ذہنی طور پر اُس کردار کے اندر اُتر رہی تھی جس کو کرنے کی اُسے اس وقت کوئی خواہش تھی نہ مل جانے کی اُمید۔
پھر بھی وہ پہلا سین پرفارم کرنے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کا آڈیشن بہت طویل ہو گیا تھا اور جب وہ آڈیشن کے بعد باہر نکلی تھی تو باہر موجود آڈیشن کے لیے منتظر دوسری فنکاروں نے اُس سے سوال جواب کرنے شروع کر دیے تھے۔ سب کو یہ تجسس تھا کہ اُس کا آڈیشن اتنا لمبا کیوں ہوا تھا۔
اُسے باہر آئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے جب اندر سے ایک لڑکے نے باہر آکر اس کے بہت قریب مدھم آواز میں اس سے ایک دوسرے کمرے میں چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے اُس کے ساتھ اس دوسرے کمرے میں آگئی تھی۔ وہاں وہ انڈین امریکن عورت پہلے سے موجود تھی جو آڈیشن لینے والی ٹیم میں بھی شامل تھی۔ وہاں بیٹھے اُس نے اس بار مومنہ سے بڑے دوستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے اُس سے اپنا تعارف کروایا اور پھر اُس سے پوچھا۔
”آپ کچھ دن اور لاہور میں رہ سکتی ہیں؟” مومنہ اس بار چونکی تھی۔
”ہاں مگر کیا میں اس آڈیشن کے نتیجے کے بارے میں پوچھ سکتی ہوں؟”
وہ عورت جواباً مسکرائی اور اُس نے کہا۔ ”کاسٹنگ ایجنٹ ہی اس سلسلے میں آپ سے بات کرے گا مگر فی الحال ہم آپ کا یہاں قیام بڑھا رہے ہیں اور آپ کو یہیں پی سی میں ٹھہرا رہے ہیں۔”
وہ خوشی کی ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہوئی تھی، دل کی تیز رفتار دھڑکن کے ساتھ۔ تو کیا وہ کاسٹ کر لی گئی تھی؟ اُس نے آڈیشن پاس کر لیا تھا؟ وہاں بیٹھے مومنہ سلطان کا دل خوشی سے اُچھلا تھا اور پھر جیسے بے یقینی سے رُکا تھا۔ جہانگیر کا چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔ کیا واقعی ایک معجزہ ہو گیا تھا۔ ہالی ووڈ کی فلم؟
آدھ گھنٹہ کے بعد اُسی کمرے میں کاسٹنگ ایجنٹ موجود تھا۔ وہ ایک پاکستانی تھا اور اُس نے مومنہ کو یہ خوش خبری سنا دی تھی کہ وہ آڈیشن میں منتخب ہو چکی ہے۔ پہلی کال جو مومنہ سلطان نے وہاں سے کی تھی وہ اقصیٰ کی تھی جو یہ خبر سن کر دوسری طرف شاید خوشی سے چھلانگیں لگانے لگی تھی۔
”میں نے کہا تھا تمہیں۔ دیکھو میں نے کہا تھا نا۔I am so proud of you۔” وہ فون پر چلا رہی تھی اور مومنہ ہنس رہی تھی۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا اقصیٰ! صرف تمہاری وجہ سے آج میں یہاں کھڑی ہوں۔” مومنہ اُس سے اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”بس بس کوئی ضرورت نہیں ان فضول باتوں کی۔ کانٹریکٹ سائن ہو گیا کیا؟”
”کل ہو گا۔”
”آنٹی اور جہانگیر کو بتایا ہے؟”
مومنہ ہنسی اور اُس نے کہا۔
”نہیں۔ ابھی نہیں بتایا، انہیں کراچی جا کر خود بتائوں گی، سرپرائز دوں گی۔”
”زندگی بدلنے والی ہے مِس مومنہ سلطان! تمہاری۔ اب مجھے پہچاننا مت بھولنا۔” اقصیٰ نے اُسے جیسے تنگ کیا تھا اور وہ ہنس پڑی تھی۔
اور زندگی بدلنے کا یقین اسے تب تک نہیں آیا جب تک اگلے دن اس نے اپنے سامنے پڑا وہ کانٹریکٹ نہیں دیکھا تھا جس پر دس ہزار ڈالر کی سائننگ امائونٹ کا اندراج تھا۔ اس کانٹریکٹ پر سائن کرتے ہوئے اس کا ہاتھ کانپنے لگا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا اب تک ملنے والا سب سے بڑا معاوضہ تھا اور یہ معاوضہ نہیں تھا۔ یہ اس کی زندگی کے سب مسئلوں کا حل تھا۔ زندگی واقعی اب بدلنے جا رہی تھی۔ وہ اس رقم سے بڑے آرام سے جہانگیر کے گردے ٹرانسپلانٹ کروا لیتی۔ اتنے آرام سے کہ۔ اسے بے اختیار رونا آیا تھا اور کاسٹنگ ایجنٹ پریشان ہوا تھا۔
”سب ٹھیک ہے۔ بس میں کچھ جذباتی ہو گئی تھی۔”
وہ آنسوئوں کے درمیان ہنسی تھی۔ دونوں ہتھیلیوں سے اپنی آنکھیں اور گال کسی بچے کی طرح رگڑتے ہوئے اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اُڑ کر واپس کر اچی جا پہنچے اور خوشی کے اس لمحے کو ثریا، سلطان اور جہانگیر کے ساتھ منائے اور اسی جذباتیت میں اس نے خبر کو سرپرائز رکھنے کا ارادہ بھی ترک کر دیا تھا۔
اس نے جہانگیر کے سیل فون پر کال ملانی شروع کی۔ نمبر آف تھا۔ پھر باری باری اس نے سلطان اور ثریا کے نمبر ملانے شروع کیے، کسی نے اس کی کال ریسیو نہیں کی۔
اس نے اقصیٰ کو فون کیا اور کانٹریکٹ سائن کرنے کی خبر بریک کی۔ اسے اس بار اقصیٰ کا ردِعمل بے حد عجیب سا لگا تھا۔
”تم واپس کب آرہی ہو؟” اقصیٰ نے اس سے پوچھا تھا۔
”کل رات فلائٹ ہے میری۔” مومنہ نے اسے بتایا۔
”بس ٹھیک ہے پھر کل بات کرتے ہیں مل کر۔” اقصیٰ نے جواباً اس سے کہا۔
”سنو اقصیٰ! تم پریشان ہو کیا؟ سب خیریت تو ہے؟” مومنہ اُس سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
”ہاں ہاں۔ بالکل خیریت ہے، بس ایک سیٹ پر لڑائی ہو گئی تھی میری تو اس لیے۔” اس نے فوراً سے پیشتر مومنہ سے کہا۔
”تم آرام سے اپنا کام کرو۔ ٹینشن مت لو۔” مومنہ کچھ مطمئن ہوئی۔
”میں اماں اور ابا کو فون کر رہی ہوں، وہ کال ریسیو نہیں کر رہے۔ جہانگیر کا فون آف ہے۔” اس نے اقصیٰ سے کہا۔
”اچھا۔ میں صبح کوشش کرتی ہوں کہ تمہاری بات کروائوں۔ میری تو آج ہی بات ہوئی تھی ثریا آنٹی سے۔” اقصیٰ نے جواباً کہا۔
”تم نے انہیں بتا دیا؟” مومنہ نے بے اختیار کہا۔
”نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس تم آجائو تو بتا دینا۔”
اقصیٰ کے لہجے میں عجیب بے ربطگی سی محسوس ہوئی تھی اُسے مگر وہ اُس سے زیادہ دیر بات نہیں کر سکی۔ اُسے فلم کی ٹیم کے ساتھ بیٹھنا تھا اور اگلے دن رات تک یہ مصروفیت اسی طرح چلتی رہی اور بالآخر جب وہ کراچی ایئرپورٹ پر اتری تھی تو اُس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
ایئرپورٹ پر دائود اور اقصیٰ نے اسے ریسیو کیا تھا۔ اقصیٰ اسے دیکھتے ہی اُس سے لپٹ گئی تھی اور اُس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ مومنہ نے ہنس کر اُسے خود سے الگ کیا۔
”اچھا اچھا۔ اب اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم بہت خوش ہو مگر یہ سب تمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے اور اب رونا بند کرو ورنہ میں بھی رو پڑوں گی۔”
اس نے اقصیٰ سے کہا تھا اور دائود نے آگے بڑھ کر اقصیٰ کو اس سے الگ کیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھے دائود اُس سے چھوٹے چھوٹے سوال کرتا رہا اور وہ اُسے بڑے پُرجوش انداز میں تفصیلات بتاتی رہی مگر اس نے نوٹس کیا تھا، اقصیٰ مسلسل خاموش ہی تھی۔ وہ بول نہیں رہی تھی۔
”تم نے غلط ٹرن لے لیا دائود۔ اس طرف سے تو گھر نہیں آئے گا۔”
ایک غلط موڑ مڑنے پر اُس نے دائود کو ٹوکا تھا اور دائود نے جواباً اُس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ مومنہ کو لگا شاید اسے وہاں کچھ کام تھا۔ وہ اب ایک ہاسپٹل کے اندر چلا آیا تھا۔ مومنہ تب بھی کچھ نہیں بولی لیکن اُس کی چھٹی حس نے اچانک اُسے الارم دینا شروع کیا تھا۔ اماں ابا تین دن سے فون نہیں اٹھا رہے۔ جہانگیر کا فون بند تھا اور دائود اسے ہاسپٹل کیوں لایا تھا۔ کیا جہانگیر کی طبیعت خراب تھی۔ اُس کا دل جیسے حلق میں آیا تھا۔ پھر دائود نے گاڑی ایک جگہ کھڑی کر دی تھی۔
مومنہ نے اُس عمارت کے اوپر لگی عبارت پڑھی۔ وہ مردہ خانہ تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});