الف — قسط نمبر ۰۲

”ہاں، لیکن میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔” اس نے بے حد گرم جوشی سے قلبِ مومن سے مصافحہ کیا۔ وہ جو اسکن ٹائٹ ٹی شرٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کی مختصر آستینیں اس کے Biceps کو، اس کا وی گلا اس کے سینے کے مسلز کوdisplay پر رکھے کسی شوپیس کی طرح دکھا رہا تھا۔
”Thank you” مومن مسکرایا لیکن اس نے ضوفی میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ وہ کسی اور کی طرف متوجہ ہونے والا تھا جب نیہا نے ایک بار پھر اسے ضوفی ہی کی طرف متوجہ کیا۔
”ضوفی نے ابھی ابھی ماڈلنگ اور ایکٹنگ شروع کی ہے اور بہت بے تاب ہے وہ کسی فلم میں کام کرنے کے لیے۔” مومن نے نیہا کی بات اب بھی دھیان سے نہیں سنی تھی۔ اس کی توجہ اپارٹمنٹ کے بار بار کھلنے والے دروازے پر مبذول تھی جہاں سے چند چند منٹوں کے وقفے سے کوئی نہ کوئی مہمان نمودار ہو رہا تھا۔
نیہا اور ضوفی نے اس کی عدم توجہ بیک وقت نوٹس کی اور ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر نیہا نے جیسے کوشش نہ چھوڑتے ہوئے اس سے دوبارہ بات کا آغاز کیا تھا۔
”میں سوچ رہی تھی مومن! اگر تم اپنی فلم میں…”
”Excuse me dear!” اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کر پاتی، مومن کسی مہمان کو آتا دیکھ کر نیہا کی بات سنے بغیر اس کا بازو تھپکتے ہوئے چلا گیا۔ ضوفی اور نیہا دونوں کچھ نادم سے ہوئے تھے۔ ضوفی نے نیہا سے کہا۔
”میں نے کہا تھا نا، اس سے پہلے بات کر لینا۔” اس کا لہجہ شکایتی تھا۔
”کر لوں گی یار! ٹینشن کیوں لے رہے ہو؟” نیہا نے جواباً اس کا کندھا تھپکا۔
”ابھی کچھ دیر میں دوبارہ بات کرتی ہوں اس سے۔ اسے ذرا مہمان ریسیو کر لینے دو۔” وہ اسے لیے ہوئے ٹیرس کی طرف گئی۔
دور ایک جرنلسٹ کے ساتھ کھڑی شیلی نے تیکھی نظروں سے نیہا اور ضوفی کو دیکھاتھا۔ وہ جب سے آئی تھی اس کی نظروں کا مرکز نیہا اور مومن ہی رہے تھے۔
”You were like a goddes in the movies”
اس کے سامنے کھڑی ڈسک کی فیچر رائٹر اس کی تعریف کر رہی تھی۔ شیلی دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس نے اپنے بالوں کو تھپکا اور مسکرائی مگر اس کی نظریں اب پھر نیہا پر تھیں جو ضوفی کو ٹیرس پر چھوڑ کر واپس مومن کے ساتھ کھڑی مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھی۔
”ان کا کچھ چل رہا ہے کیا؟” اس جرنلسٹ نے شیلی کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے تجسس سے پوچھا۔ شیلی ایک دم گڑبڑائی اور ہنسی۔
”نہیں، نہیں، مومن سنگل ہے۔” شیلی نے کہا۔
”لیکن اس کا رویہ تو بالکل میزبان جیسا ہے۔” جرنلسٹ نے اصرار کیا۔
”گرل فرینڈ ہے یار! اور وہ تو مومن کی کئی ہیں۔” شیلی نے دوبارہ کہا۔
”میں نے تو خبر لگائی تھی کہ مومن اور تم ڈیٹنگ کر رہے ہو۔” جرنلسٹ نے اس بار شیلی کو چھیڑا۔ وہ قہقہہ مار کر خوش دلی سے ہنسی۔
”اچھا۔ میں نے نہیں پڑھی۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ایسا سین ہے کیا؟” جرنلسٹ نے کریدا۔
”Keep your Fingers Crossed”
شیلی نے معنی خیز انداز میں اس کو شہہ دی۔ نیوز میں اسٹار بننے کے لیے انڈسٹری کے heart throbکے ساتھ کسی بھی حیثیت میں نتھی رہنا ضروری تھا اور شیلی ایسے تعلقات کی افادیت پر یقین رکھنے والوں میں سے تھی۔
ناز نے دور کھڑے قلبِ مومن کو بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ ایک ابھرتی ہوئی ماڈل تھی اور ایک بڑے ایوارڈ شو میں بیسٹ ماڈل کا ایوارڈ جیت چکی تھی۔ اس وقت وہ ایک مشہور فیشن ڈیزائنر کے ساتھ قلب ِمومن کی اس پارٹی میں آئی تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس فیشن ڈیزائنر کو ڈمپ کرکے قلبِ مومن کے ساتھ جا کھڑی ہوتی جو چند لمحے پہلے ان دونوں کے ساتھ گپ شپ کر کے وہاں سے گیا تھا اور جس نے ناز کے نام نہاد لباس سے جھلکنے والے تم اثاثہ جات پر کچھ زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ ناز جانتی تھی وہاں موجود سب خواتین۔ اسی ”display” کے لیے آئی تھیں۔ قلبِ مومن اپنی فلموں میں گلیمر کے علاوہ کچھ پیش نہیں کرتا تھا اور وہاں سب ”گلیمر’ذ کے سب تیر تلواروں سے لیس ہو کر آئی۔
”شیلی کے ساتھ کوئی چکر چل رہا ہے مومن کا ؟” ناز نے اس فیشن ڈیزائنر سے پوچھا جس کی ہمراہی میں وہ آئی تھی۔
”شیلی۔ ہا ہاہاہا۔” وہ فیشن ڈیزائنر استہزائیہ انداز میں ہنسا۔
”شیلی مومن ٹائپ نہیں ہے۔” اس نے دور مومن کا بازو پکڑے شیلی کو دیکھتے ہوئے ناز کو تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
”اور وہ جو دوسری لڑکی ہے۔” ناز نے نیہا کو دیکھت ہوئے کریدا۔ ”گرل فرینڈ ہے مومن کی۔ اب دیکھو اسے کبdump کرتا ہے۔ تم انٹرسٹڈہو رہی ہو کیا؟” اس ڈیزائنر کو یک دم خیال آیا۔
”صرف فلم میں۔” ناز نے گڑبڑا کر کہا۔ ”اس کے کیریر کو یہاں تک پہنچانے میں اس ڈیزائنر کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور ناز کو اچانک خیال آیا کہ اسے یہ ساری معلومات اس ڈیزائنر سے نہیں لینی چاہیے تھیں۔
”مومن میں Loyalty نہیں ہے۔” اس ڈیزائنر نے جیسے ناز کے انکار کے باوجود اسے خبردار کیا۔
”Dump تو سب ہی کر دیتے ہیں یہاں کام نکلنے کے بعد لیکن مومن۔” ڈیزائنر نے بے حد معنی خیز انداز میں جملہ ادھورا چھوڑتے ہوئے ایک جتانے والی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے گلاس سے سِپ لیا۔
”میں تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔” ناز کو اس فیشن ڈیزائنر سے اظہار محبت پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، ان کا تعلق اتنا ہی ”خالص” تھا۔
اور قلبِ مومن کے بارے میں ایسے سوال و جواب کرنے والی ناز تنہا نہیں تھی اور اس پارٹی میں۔ وہاں موجود ہر لڑکی اپنے آپ کو جیسے قلبِ مومن کی بھینٹ چڑھا دینے کے لیے تیار پھر رہی تھی۔ یہ محبت نہیں تھی، بزنس تھا۔ شوبزنس۔ قلبِ مومن کا ساتھ ان میں سے کسی کو بھی آسمان پر پہنچا دیتا، ان تین ہیروئنز کی طرح جن کی زندگیاں قلبِ مومن کی فلموں سے بدلی تھیں۔ اور آسمان کس کو اچھا نہیں لگتا۔ قلبِ مومن اس سب سے باخبر تھا۔ اپنی اہمیت سے، اپنی ضرورت سے، اپنے اسٹارڈم سے۔ ہر چیز سے۔ وہ پھندوں میں پھنسنے والا نہیں تھا۔ دام میں آجانے والا صیّاد نہیں تھا، نہ جال میں قابو آتا تھا۔
”جان! یہ میں تم سے ملوا رہی تھی ضوفی کو۔” نیہا تیسری بار ضوفی کو مومن کے پاس لے کر آئی تھی اور یہ پہلا موقع تھا جب مومن نے ضوفی پر بالآخر غور کیا تھا۔ وہ اسے اس طرح بار بار اس کے پاس کیوں لا رہی تھی۔ چھوٹے موٹے ریفرنسز چلتے رہتے تھے لیکن اتنی شدت اور بے تابی سے تو کبھی نیہا نے کسی کو اس سے ملوانے کی کوشش نہیں کی تھی، مومن کو پہلی بار خیال آیا تھا۔
”ضوفی کی خواہش ہے تمہارے ساتھ کام کرنے کی۔” وہ اب اس سے کہہ رہی تھی۔
”خواہش نہیں خواب ہے سر! آپ میرا آئیڈیل ہیں، آپ کی کامیابی پر مجھے رشک آتا ہے۔ آپ کے کام کا مجھ سے بڑا فین کوئی نہیں ہے پاکستان میں۔” ضوفی نے اس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کی۔ مومن نے اسے درمیان میں ہی ٹوکا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ٹیرس اور لاوؑنج میں موجود لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”تمہیں پتا ہے یہ سب کون ہیں؟” ضوفی الجھا۔ اس نے نیہا کو دیکھا۔ نیہا کو لگا، مومن کچھ نشے میں ہے۔
”یہ سب اسٹارز ہیں۔” ضوفی نے کچھ اٹک کر کہا۔
مومن مسکرایا۔ ”نہیں، یہ سب میرے فینز ہیں اور پاکستان میں ان سے بڑھ کر میرا مداح کوئی نہیں۔ سب میرے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، یہ خواب ہے ان سب کا۔” وہ ضوفی کے جملے دہرا رہا تھا۔ ضوفی کو عجیب سی ہتک محسوس ہوئی۔
”تو یار! دو نا اسے فلم میں چانس۔” نیہا نے جیسے صورت حال سنبھالی۔
”کیسا چانس؟” مومن نے جواباً بے حد سپاٹ لہجے میں اس سے پوچھا۔
”اپنی فلم کے لیے آڈیشن کرو اس کا۔ تم خود متاثر ہو جاوؑ گے ضوفی کی اسکرین پر پریزینٹیشن اور ٹیلنٹ سے۔” نیہا نے ملائم لہجے میں کہا۔
”I Don’t think so ” مومن نے سر سے پاؤں تک ضوفی کو دیکھنے کے بعد اسی اطمینان سے گلاس ایک سے دوسرے ہاتھ میں بدلتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ ضوفی اور نیہا کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ضوفی نے بے حد اپ سیٹ ہو کر شکایتی نظروں سے نیہا کو دیکھا۔ اس نے ایک بار پھر اسے تھپکتے ہوئے تسلی دی تھی۔
”نشے میں ہے ابھی اس لیے اس طرح کی باتیں کر رہا ہے۔Let him sober up۔”
”کیا خوب صورت شاہکار ہے آرٹ کا۔”
اس ڈیزائنر نے مومن کو روکتے ہوئے اس کیلی گرافی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ شاید پہلی بار مومن کی کسی پارٹی میں آیا تھا اور پہلی بار اس کیلی گرافی کو دیکھ رہا تھا۔
مومن اس کی تعریف پر مسکرایا اور اس نے کہا۔
”Thank you”
”سر! آرٹسٹ کون ہے؟ اس ڈیزائنر نے مزید پوچھا۔ چند اور لوگ بھی اب اپنے ڈرنکس پکڑے اس کیلی گرافی کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے تھے۔
”عبدالعلی۔” ایک لمحے کے توقف کے بعد مومن نے بالآخر کہا۔
”Amazing” اس ڈیزائنر نے مزید سراہا۔
”اس کے اسٹروک، کلرز اور خط دیکھیں، brilliant۔” وہ اس کیلی گرافی کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔
”لکھا ہوا کیا ہے؟” ایک ماڈل نے اپنے امریکن لب و لہجے میں مومن سے پوچھا۔
”قرآن پاک کی آیت ہے۔” مومن نے بتایا۔ وہ ماڈل بے اختیار ہنسی۔
”آف کورس۔ وہ تو جانتی ہوں میں لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟”
بیک وقت ان لوگوں نے مومن کو دیکھا۔ مومن نے محقق انداز میں پیش کی گئی اس خطاطی پر نظر دوڑائی پھر مدھم آواز میں کہا۔
”میں نہیں جانتا۔” وہ کہہ کر پلٹا اور اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے ہٹ جاتا، اس کے سامنے اس کا ملازم ایک مہمان لے کر آیا تھا اور آنے والے مہمان کو دیکھ کر قلبِ مومن جامد ہو گیا تھا۔ مشروب کا گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا ہو۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۱

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!