الف — قسط نمبر ۰۲

”تمہارا اور میرا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ دیکھو، اس دیوار پر میرا ایک بھی ایوارڈ نہیں ہے۔ سارے ایوارڈز، ساری شیلڈز تمہاری ہیں۔” مومنہ نے جیسے اسے ڈرامے میں اپنا رول پلے کرنا شروع کیا جو وہ سب مل کر جہانگیر کے لیے کرتے تھے۔
”ہاں، یہ تو ہے لیکن تم بھی میری طرح چائلڈ آرٹسٹ بن جاتیں تو میرے جتنے نہیں لیکن کچھ نہ کچھ ایوارڈز تو جیت ہی لیتیں تم۔” وہ جواباً اس ڈرامے میں اپنا رول ادا کرنے لگا۔
”ارے اس کا بس چلے تو یہ تو آج بھی نہ کرے اداکاری۔ یہ کہاں قدر جانتی ہے ایکٹنگ کی۔ آرٹسٹ کی۔” ثریا نے مداخلت کی۔ مومنہ خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ سلطان کو حسن جہاں یاد آگئی۔
”حسنِ جہاں قدر کیا کرتی تھی آرٹسٹوں کی۔” مومنہ نے یک دم کھانے کی ٹرے اٹھائی اور کمرے سے نکل گئی۔
”پتا نہیں ابا کو ہر بات پر حسنِ جہاں کیوں یاد آجاتی ہے۔” اس نے جیسے چڑ کر سوچا۔
”اور اب گھنٹوں اس کی مثالیں دیتے رہیں گے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ابا کو حسنِ جہاں سے محبت تھی، صرف کام نہیں کرتے تھے اس کے ساتھ اور اماں۔ اماں جہانگیر کے عشق میں مبتلا ہیں اور میں؟ میں ان سب کے۔ ہم سب دائروں میں چل رہے ہیں۔ کوئی دائرہ کسی دوسرے دائرے سے ملتا ہی نہیں۔”
برآمدے کے تخت پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے اس نے برآمدے کی کھلی کھڑکی سے نظر آتے جہانگیر، ثریا اور سلطان کی تکون کو دیکھا۔ وہاں جیسے اس کی کوئی جگہ ہی نہیں تھی۔ مگر مومنہ سلطان کو اس کی شکایت بھی نہیں تھی۔ جہانگیر ان کے گھر کا ”ہیرو” تھا اور فلم انڈسٹری صرف ہیرو کی پرستش کرتی ہے۔ اس کے ماں باپ کا خواب تھا۔ اس فلم انڈسٹری میں ایک ”ہیرو” ان کے خاندان سے بھی ہوتا۔ مومنہ سلطان کے لیے انہوں نے کبھی ایسا خواب نہیں دیکھا تھا۔ اسے ضرورت اور مجبوری اس میدان میں لے آئی تھی۔ جہاں کے کانٹے صرف عورت کے پیروں کو زخمی کرتے۔
٭…٭…٭
”آئینہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔ میں تم سے اور تم کسی اور سے۔ تینوں پاگل ہیں اور تینوں خالی ہاتھ رہیں گے۔”
قلبِ مومن اپنے اسٹوڈیو میں رات کے اس پہر آڈیشنز کی فوٹیج دیکھنے میں مصروف تھا اور اسکرین پر اس وقت مومنہ سلطان کے اس نامکمل آڈیشن کی فوٹیج چل رہی تھی۔ وہ غضب کی ایکٹریس تھی۔ کمال کا آئی کانٹیکٹ تھا اس کا۔کیمرہ اور کیمرے کے ذریعے دوسری طرف بیٹھی آڈینس کے ساتھ۔ اس کے تاثرات بے حد جان دار تھے۔ ڈائیلاگ ڈیلیوری اور آواز قاتل۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار اس کے آڈیشن کی فوٹیج پر آرہا تھا۔ اس آڈیشن کی فوٹیج کو جیسے اس کا گرتا دوپٹہ بھی خراب نہیں کر پایا تھا۔ اس کا فٹ ورک بہترین تھا۔ وہ فریم میں تھی اور فریم میں ہی رہی تھی۔ اداکاری اس کے لیے جیسے خالہ جی کا گھر تھا۔
اس کے آڈیشن کو دیکھتے ہوئے قلبِ مومن کے ذہن میں اس کے ساتھ ہونے والی پوری ملاقات گھومی۔ وہ اگر اتفاقاً اس فوٹیج کو نہ دیکھ لیتا تو شاید اس ملاقات کے بعد مومنہ سلطان اسے کبھی یاد تک بھی نہ رہتی مگر اس وقت وہ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد نئی ایکٹریسز کے آڈیشنز دیکھنے کے بعد دوبارہ اس کے آڈیشن پر آجاتا۔ ان درجنوں اسٹائلش اور خوب صورتی اور گلیمر کے معیار پر ہرلحاظ سے پورا اترنے والی لڑکیوں میں سے اسے کوئی ایک ”ادکارہ” نظر نہیں آئی تھی۔ فوٹیج کو آخری بار دیکھ کر اس نے اسے ڈیلیٹ کر دیا۔ یہ کام اس نے داوؑد کے ذمہ لگایا تھا مگر داوؑد شاید دانستہ طور پر اسے یہی موازنہ اور مقابلہ دکھانا چاہتا تھا جو وہ اس وقت ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کر رہا تھا مگر اس کے باوجود مومنہ کے لیے اس کی فلم میں کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
گہری نیند میں مومنہ کو یوں لگا تھا جیسے اس کی آنکھ کسی کھٹکے سے کھلی تھی۔ اس نے غنودگی کے عالم میں آنکھیں کھولے کمرے کو دیکھا۔ کمرے میں ثریا سو رہی تھی برابر کے بستر پر۔ وہ اپنی چادر اتارتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے جہانگیر کے کمرے سے کچھ آوازیں آئی تھیں۔
اپنے کمرے سے نکل کر اس نے صحن میں چارپائی پر گہری نیند سوئے سلطان کو دیکھا پھر وہ جہانگیر کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ جاگا ہوا اپنے بستر پر بیٹھا تھا اور اس کا بستر اس کے ایوارڈز سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر مومنہ کو دیکھا۔ وہ بھی اسے دیکھتی رہی پھر پاس چلی آئی۔
”کیوں جاگ رہے ہو جہانگیر! کچھ چاہیے؟” وہ کرسی پر اس کے پاس بیٹھ گئی۔
”آپا! تم مجھے مرنے نہ دینا۔” عجیب بے بسی کی کیفیت میں اس نے مومنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب خوف تھا۔ ”تم مجھے بچا لینا۔” وہ اس کے ہاتھ بھینچے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے جہانگیر کو لپٹا لیا۔
”نہیں مرنے دوں گی۔” اس نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے ہوئے سسک رہا تھا اور اس کے بستر پر ہر طرف اس کا ”عروج” پڑا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
”میں تمہیں سمجھ نہیں پائی مومنہ!” اقصیٰ نے اسے ہونق ہو کر دیکھا۔ وہ صبح سویرے اس کے گھر پر تھی ا ور اس کی درخواست سن کر اقصیٰ کو لگا تھا، وہ پاگل ہو گئی ہے۔
”میں خود بھی اپنے آپ کو سمجھ نہیں پاتی۔” وہ چائے کا کپ گود میں رکھے اس کے بستر پر بیٹھی بڑبڑائی تھی۔
”تم مومن کو سمجھتی کیا ہو آخر؟ تم جاوؑ گی اس کے پاس اور وہ تمہاری معذرت قبول کر کے رول دے دے گا تمہیں۔ all good۔” اقصیٰ نے جھنجھلاتے ہوئے اس سے کہا۔
”ایک کوشش کر لینے میں کوئی حرج تو نہیں؟” مومنہ اپنی بات پر مصر تھی۔
”وہ تمہیں رول نہیں دے گا۔ میں تمہارے سامنے وہ باتیں دہرانا نہیں چاہتی جو اس نے تمہارے بارے میں داوؑد سے کی تھیں۔ تم کیوں بے عزت ہونا چاہتی ہو؟”
”مجھے اس وقت شہرت اور پیسے کی ضرورت ہے اقصیٰ! عزت اب ترجیح نہیں رہی میری۔ تم ایک دفعہ داوؑد سے کہو، مومن سے میری ملاقات کروا دے، ایک بار۔” وہ منت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی اور اقصیٰ اس کے اس لہجے کے سامنے ٹکی نہیں رہ سکتی تھی۔
”تم چاہتی ہو، داوؑد بے روزگار ہو جائے اور ہماری شادی پھر لٹک جائے تو ٹھیک ہے۔ دوستی کے نام پر یہ بھی سہی۔” اس نے تن فن کرتے ہوئے فون اٹھا کر داوؑد کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔ مومنہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
قلبِ مومن کا پینٹ ہاوؑس میوزک کی تیز آواز سے گونجتے ہوئے ٹیرس پر بنے ڈانس فلور پر تھرکتی اسپاٹ لائٹس کی رنگین روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ وہ ویسی ہی معمول کی ایک پارٹی تھی جس کے لیے وہ پینٹ ہاوؑس مشہور تھا۔ ز ہارڈ اور سوفٹ ڈرنکس سرو کرتے ہوئے ٹیرس پر بنے اس بار میں آجا رہے تھے جو بوقت ضرورت اور باربی کیو ایریا کے طور پر بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ ایک ڈی جے مختلف انواع کا میوزک بجاتے ہوئے ماحول کو گرمائے ہوئے تھا اور ہر بدلتے میوزک کی بیٹ پر ڈانس فلور پر جوڑے تھرک رہے تھے۔ مہمانوں کی آمدورفت جاری تھی اور وہاں موجود کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو ایک دوسرے سے واقف نہ ہو۔
پاکستانی ٹی وی، ماڈلنگ اور فلم انڈسٹری سے منسلک اپنی اپنی فیلڈ کے بہترین ناموں میں سے تھے اور وہ سب وہاں قلبِ مومن کی فلم کی کامیابی اور اس کے ایوارڈ کو سلیبریٹ کرنے آئے ہوئے تھے۔ شوبز کی فیلڈ سے منسلک کوئی ایسا بڑا اسٹار نہیں تھا جو اس وقت وہاں نہ تھا۔ قلبِ مومن کے دعوت نامے کو کوئی رد کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور اس کی نظروں اور گڈبک میں رہنا اس وقت ہر ایکٹر اور ایکٹریس کی ضرورت تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اپنی کسی فلم میں مین لیڈ کو دوبارہ کاسٹ نہیں کرتا۔ وہ بہت سے بڑے برانڈز کی کمرشل فلمز بھی شوٹ کرتا تھا اور قلبِ مومن ان کمرشلز میں صرف ان ہی کو لیتا تھا جن کو وہ چاہتا تھا۔ برانڈاز کے مطالبات کو وہ اکثر نظر انداز کرنے کا عادی تھا اور اس کا ہر کمرشل ٹی وی اور ڈیجیٹل اسکرین پر دھوم مچانے کی تاریخ رکھتا تھا تو قلبِ مومن کے نخرے اگر برانڈز نہ اٹھاتے تو کیا کرتے اور ایکٹرز اس کے آگے پیچھے نہ پھرتے تو کیا کرتے۔
قلبِ مومن اس وقت داخلی دروازے کے قریب مہمانوں کے استقبال کے لیے نیہا کے ساتھ موجود تھا۔ نیہا وہاں پر بالکل ایک میزبان کا کردار ادا کر رہی تھی۔ قلب ِمومن کی گرل فرینڈ کے طور پر وہ شوبز کے حلقوں میں اب بڑی اچھی طرح متعارف ہو چکی تھی اور قلبِ مومن کی گرل فرینڈ کے لیبل کو اس نے ایک ڈیزائنر کے طور پر اپنے بزنس کو پھیلانے اور کلائنٹس کو بڑھانے کے لیے بہترین طریقہ سے استعمال کیا تھا۔ اس کے پاس آنے والوں میں اب انڈسٹری کی ہر بڑی ایکٹریس اور ماڈل شامل تھی جو اس کے ذریعہ قلبِ مومن تک رسائی پانے کے متمنی تھے۔ نیہا بڑی چالاکی اور ذہانت سے ان کی اس خواہش کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ شوبز جیسا بزنس کوئی اور نہیں ہوتا۔
اس سارے ہنگامے میں لاوؑنج میں لگی ہوئی وہ خطاطی کسی عینی شاہد کی طرح اس دیوار پر اشارہ تھی جس کے نیچے پڑے صوفوں پر نیم برہنہ ماڈلز اور ایکٹریسز مشروب کے گلاسز ہاتھ میں لیے مخمور بیٹھی ہوئی تھیں یا پھر چل پھر رہی تھیں۔
”مومن! یہ ضوفی ہے میں نے اسے انوائٹ کیا تھا، تم سے ملوانے کے لیے۔” وہ لمبے قد کا کسرتی جسم رکھنے والا مناسب شکل و صورت کا ایک نوجوان لڑکا تھا جسے نیہا نے قلبِ مومن سے ملوایا تھا۔ قلبِ مومن نے کسی ردعمل کے بغیر اس کا استقبال کرتے ہوئے خوش دلی سے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”آپ سے پہلی بار ملاقات ہو رہی ہے۔” ضوفی نے جواباً بے حد نروس انداز میں مومن سے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۱

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!