”ابھی ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نے کچھ اور ٹیسٹ دیے ہیں۔” سلطان نے کچھ کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ مومنہ نے کچھ کہے بغیر وہ کاغذ لے لیے۔ سلطان اندر چلا گیا۔ مومنہ وہیں کوریڈور میں پڑی ایک بنچ پر ایک بوڑھی عورت کے برابر بیٹھ گئی جو تسبیح پڑھ رہی تھی۔
”ڈائیلاسس ہے کسی کا؟” مومنہ کے بیٹھتے ہی اس نے پوچھا۔
”ہاں۔” مومنہ نے مدھم آواز میں کہا۔ ان کاغذات پر لکھے ٹیسٹوں کا مطلب تھا مزید قرض اور مومنہ کو سوچنا تھا کہ فوری قرض وہ اب اور کس سے لے سکتی تھی۔
”کس کا؟”عورت نے اس کی عدم دلچسپی کی پروا کیے بغیر اس سے پوچھا۔
”بھائی کا۔” اس نے پھر مختصر جواب دیا۔
”جوان ہے؟” عورت نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔” اس بار چند لمحے خاموشی رہی۔ مومنہ نے سکون کا سانس لیا۔ ان سوالوں کے رکنے پر۔
”میرا بھی بیٹا ہے ڈائیلاسس پر۔ پہلے بڑے والے کا گردہ فیل ہوا پچھلے سال۔ اب چھوٹے والے کا۔”
مومنہ نے بے اختیار سر اٹھا کر اس عورت کو دیکھا۔ جہاں وہ بیٹھے تھے وہاں سب کی ایسی ہی کہانیاں تھیں لیکن وہ پھر بھی اس عورت کے لیے دکھی ہوئی تھی۔
”تو بڑا والا؟” مومنہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا سوال کرے اس کے بڑے بیٹے کے بارے میں۔ لیکن اس عورت نے جیسے اس کا سوال بھانپ لیا۔
”اسی کے لیے تسبیح کر رہی ہوں۔ آج برسی ہے اس کی۔ بس اب دعا کرنا کہ چھوٹا والا بچ جائے۔ ایک ہی رہ گیا ہے ناں۔” کسی نے جیسے مومنہ کی پسلی میں کچھ دے مارا۔ سانس ہی نہیں لی گئی اس سے۔ اس کا بھی تو ایک ہی بھائی تھا اور وہ اس کے لیے اس عورت کی طرح تسبیحات نہیں پڑھنا چاہتی تھی۔ کاغذ پر لکھے ہوئے سارے ٹیسٹ کے الفاظ اب آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے تھے۔ دن میں کہی ہوئی اقصیٰ کی بات اسے ایک بار پھر یاد آئی۔
”کیسا موقع گنوایا تم نے مومنہ! زندگی بھر پچھتاوؑ گی تم۔” اس کا دل چاہا، وہ وہاں سے اٹھے اور بھاگنا شروع کر دے۔ بھاگتی جائے، یہاں تک کہ سب کچھ کہیں بہت پیچھے رہ جائے۔
”تم کہاں جا رہی ہو بیٹا؟” اس بوڑھی عورت نے یک دم پوچھا۔ اس نے ہاتھ سے دور سلطان کی طرف اشارہ کیا۔
”ابا آرہے ہیں شاید میرے بھائی کا ڈائیلاسس ختم ہو گیا۔” سلطان کی چال میں لنگڑاہٹ اس ہاسپٹل میں آکر ہمیشہ بڑھ جاتی تھی۔ پاوؑں میں پائے جانے والے جس نقص کو اس نے زندگی میں کبھی گردانانہیں تھا۔ وہ عمر کے اس حصے میں آکر خواہ مخواہ ہی اسے لنگڑے کا لیبل دے رہا تھا حالاں کہ یہ اس کی ٹانگ کالنگ نہیں تھا، اس کے بیٹے کی بیماری کا بوجھ تھا جو اسے دو پیروں پر متوازن ہو کر چلنے نہیں دیتا تھا پر اس نقص کے ساتھ اس عمر میں بھی وہ جہانگیر کے ساتھ ہسپتالوں میں دوڑا دوڑا پھرتا تھا۔
مومنہ کھڑی باپ کو دیکھتی رہی جو اس کے قریب پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے سارے آنسو پونچھ لینا چاہتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اور مومنہ۔ وہ رونا چاہتی ہی نہیں تھی۔ اسے لڑنا تھا۔ جہانگیر کی زندگی کے لیے۔
٭…٭…٭
ایک بہت بڑے کینوس پر ایک بوڑھا ہاتھ ایک آیت لکھ رہا تھا اسی دودھیا روشنی میں۔
فلا تغرنکم الحیوة الدنیا
(سورة فاطر٥)
فضا میں اس آیت کو کوئی بے حد خوش الحانی سے پڑھ رہا ہے۔ وہ بوڑھا ہاتھ اس آیت کو مکمل کر لیتا ہے تو یک دم وہ خوب صورت، خوش لحن مردانہ آواز بھی بند ہو جاتی ہے جو اس آیت کی تلاوت کر رہی ہے۔ آسمان سے پڑنے والی روشنی اب اس کینوس کے پار سفید لباس میں ملبوس ایک عورت کو رقصاں درویش کی طرح گول چکر کاٹتے ہوئے رقص کرتی ایک عورت پر پڑتی ہے جو ایک نقطے کے برابر نظر آرہی ہے۔ تیز گھومتا ایک نقطہ اور پھر اس نقطے کا سائز بڑھتا بڑھتا ایک عورت کے وجود میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ وہ اب اتنی تیز رفتاری سے گول چکر کاٹ رہی ہے کہ اس پر نظر جمانا مشکل ہو گیا ہے اور پھر وہ رقص کرتا وجود آگ کے شعلے میں تبدیل ہو جاتا ہے یوں جیسے جل اٹھا ہو اور پھر یک دم تاریکی چھا جاتی ہے۔
٭…٭…٭
مومن اپنے بستر سے ہڑبڑا کر اٹھا۔ کمرہ نیم تاریک تھا اور اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ ناہموار سانسوں اور کانپتے ہاتھوں سے اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا۔ وہ خواب بڑے عرصے بعد اس نے دیکھا تھا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اس خواب کو دیکھنے کے بعد وہ کانپتے ہوئے عجیب سی ہیبت کے عالم میں جاگا تھا۔ نہ وہ اس بوڑھے ہاتھ کو پہچان پا رہا تھا نہ اس جگہ کو، نہ ان آیات اور ان کے مفہوم کو اور نہ ہی اس درویشوں کے لباس میں رقص کرتی ہوئی عورت کو مگر اس کے باوجود وہ خواب بچپن سے جیسے اس کے تعاقب میں رہتا تھا۔ ہر بار کینوس کی آیات بدلتی تھیں۔ پر وہ بوڑھا ہاتھ وہی رہتا تھا۔ ہر بار خواب میں رقص کرنے والا بدلتا تھا۔ کبھی وہ ایک مرد ہوتا تھا۔ کبھی وہ ایک عورت اور قلب مومن دونوں کے چہرے پہچاننے کی جستجو میں انہیں شعلوں میں تبدیل ہوتا غائب ہوتا دیکھتا رہتا تھا۔ مگر ہر بار کچھ بھی نہ پہچاننے کے باوجود وہ جیسے یہ جان جاتا تھا کہ اس نے اس خواب میں کس کو دیکھا تھا۔ جیسے وہ اس رات جان گیا تھا۔
اس کا سر اس وقت شدید درد سے پھٹ رہا تھا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کر واش روم میں گیا تھا۔ چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے اس نے جیسے اس درد سے لڑنے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ واپس کمرے میں آکر اس نے گلاس میں پانی ڈالا اور پھر سردرد کی دو گولیاں پھانکیں۔ جب تک اس کا درد کم نہیں ہوتا، وہ دوبارہ سو نہیں سکتا تھا۔ رات کا پچھلا پہر تھا اور اس کے کمرے کی شیشوں کی دیواروں سے کراچی کی روشنیاں رات کے اس پہر بھی نظر آرہی تھیں۔ وہ کچھ دیر گلاس وال کے سامنے کھڑا پچھلی رات کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے شہر کو دیکھتا رہا پھر اس نے پلٹ کر اپنے کمرے کی الماری میں سے ایک پرانی البم نکالی اور البم لے کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
پہلا صفحہ پلٹتے ہی ایک بے حد خوب صورت لڑکی ایک چھ ماہ کے بچے کو گود میں لیے ہوئے تھی۔ اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں بھی اس لڑکی کے تیکھے نقوش اور خوب صورت آنکھیں کسی کی نظر کو بھی الجھا سکتی تھیں۔ قلبِ مومن کی آنکھوں میں جیسے نمی آئی۔ اس نے اگلا صفحہ پلٹا پھر اگلا۔ ہر تصویر میں وہ لڑکی اسی بچے کے ساتھ تھی پر اب وہ بچہ چھ ماہ کا نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بڑا ہو رہا تھا اور پھر کئی صفحوں بعد وہ پہلی تصویر آئی۔ جو ایک بے حد خوبرو مرد کی تھی۔ کوئی قلبِ مومن کو دیکھتا اور اس تصویر کو تو کوئی رشتہ جوڑے بغیر نہ رہ پاتا۔
قلبِ مومن نے اگلا صفحہ پلٹا۔ وہ اس البم کا آخری صفحہ تھا۔ جس پر اسی لڑکی مرد اور بچے کی تصویر تھی۔ جس میں اس مرد اور عورت کے درمیان وہ سات سال کا بچہ کھڑا تھا۔ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے یوں جیسے زنجیر ہو مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا طلحہ عبدالعلی اور حسنِ جہاں کی اس خوب صورت داستان کا خاتمہ اس کڑی سے ہوا تھا جو ان دونوں کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ وہ قلبِ مومن تھا۔ طلحہ عبدالعلی اور حسنِ جہاں کی اکلوتی اولاد۔
٭…٭…٭
”ندیم صاحب نے تو جہانگیر کو دیکھتے ہی کہا تھا کہ میں اس میں، ایک اور وحید مراد دیکھ رہا ہوں، یہ بچہ بڑا ہو کر ایک اور چاکلیٹ ہیرو بنے گا۔”
”مانتے ہی نہیں تھے کہ میرا بیٹا ہے۔ مذاق کرتے تھے کہ کہاں سے اٹھا لائے ہو تم لوگ یہ نواب کی اولاد۔”
سلطان اپنی بات کہہ کر خود ہنسا اور اس کے ہنسنے پر ثریا اور جہانگیر بھی۔ مومنہ اپنے لیے ٹرے میں کھانا لے کر اندر آئی اور ہزاروں بار سنے ہوئے وہ جملے اس نے ایک بار پھر سنے۔ وہ ساری گفتگو ہر اس رات ہوتی جب جہانگیر کا ڈائیلاسس ہوتا تھا۔ پتا نہیں ثریا اور سلطان جہانگیر کا حوصلہ بحال کرنا چاہتے تھے یا اپنا۔ وہ ان کی باتیں سنتے ہوئے کھانا لے کر کمرے میں آکر بیٹھ گئی۔
اس کمرے کی دیواروں پر سستی لکڑی کے لگے ریکس جہانگیر کے ایوارڈز، شیلڈز اور ٹرافیز سے بھرے پڑے تھے اور ان میں کہیں وہ سونے کا پانی چڑھے ہوئے تاج بھی تھے جو وقتاً فوقتاً چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اس کی رسم تاج پوشی کے دوران مختلف پریس کلبز اور ادبی تنظیمیں کیا کرتی تھیں۔ جہاں جہانگیر کے بچپن میں ثریا اور سلطان بڑے شوق سے جایا کرتے تھے اور وہ بھی۔ اسے تالیاں بجانے کا بے انتہا شوق تھا جہانگیر کے لیے اور سیٹیاں بھی جو بجانا اس نے سلطان سے سیکھا تھا اور پھر ہر تقریب کے بعد سب انعام یافتہ افراد کا گروپ فوٹو اور پھر جہانگیر اور اماں ابا کے ساتھ اس کا فیملی فوٹو جسے فوٹوگرافرز اس وقت سلطان اور ثریا کے اصرار پر کھینچتے تھے مگر بعد میں اخبار میں تصویر صرف جہانگیر ہی کی لگتی۔ وہ تینوں اس میں سے حذف کر دیے جاتے۔ وہ پاکستان کا سب سے مہنگا چائلڈ آرٹسٹ رہا تھا۔ مہنگا اور ٹیلنٹڈ۔
مومنہ اس کے کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ دیواروں پر لگی ان تصویروں کو دیکھتی رہتی جو ان سپراسٹارز کے ساتھ جہانگیر کی تھیں جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے زمانہ ترستا تھا۔
”اماں! جب میں ٹھیک ہو جاوؑں گا تو پھر ایکٹنگ کروں گا۔” اس نے جہانگیر کو کہتے سنا اور وہ نوالہ لینا بھول گئی۔
”ہاں۔ ان شاء اللہ۔ اور اس بار تو بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ لینا ہے میرے بیٹے نے۔” ثریا نے جیسے اس کے خواب کی پینگ بڑھائی۔ جہانگیر اور مومنہ کی نظریں ملیں۔ وہ مسکرا دی۔
”آپا کو تو جس دن سے فلم نہیں ملی، موڈ ہی آف ہو گیا ہے ان کا۔” اس نے مومنہ کو چھیڑا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ چاہتا تھا وہ کچھ بولے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});