”کتنا بڑا موقع تھا مومنہ سلطان! جو تم نے ضائع کیا ے۔” مومنہ نے ڈھیٹوں کی طرح اس کی لعنت و ملامت سنی۔ وہ سیٹ پر اقصیٰ کو اس سوپ کے لیے میک اپ کرتے دیکھ رہی تھی۔ وہ تیزی سے ہاتھ چلا رہی تھی۔ کیونکہ اس کا سین شروع ہونے والا تھا اور مومنہ چپ چاپ بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔
”اب بولو بھی۔ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر کیوں بیٹھ گئی ہو۔” اس نے بلش آن لگاتے لگاتے مومنہ کو مزید گھرکا۔
”میں کریکٹر کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر سکتی تھی نہ ہی ڈائریکٹر کی۔” اس نے بالآخر کہا۔ اقصیٰ نے ہاتھ میں پکڑا برش تقریباً پٹختے ہوئے اس سے کہا۔
”اس لیے ساری عمر بہنوں اور سہیلیوں کے رول کرو گی اور پھر خالہ اور چچیوں کے۔ نام بنانے کے لیے ”سب” کرنا پڑتا ہے مومنہ سلطان! اور ”سب” ہی کر رہی ہیں۔ سنا تم نے۔”
”سن لیا۔” اس نے بحث ختم کرنے کی کوشش کی۔
”سن لیا مگر سمجھنا مت۔ سیکھنا مت۔ کتنی منتیں کر کر کے میں نے داوؑد سے تمہارا آڈیشن کروایا تھا اور تم وہاں لڑ کر آگئیں۔ وہ بھی قلبِ مومن سے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی ایسا نہ کرتا اور تم تو مجبور اور ضرورت مند تھیں مومنہ۔”
وہ جیسے اسے یاد دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مومنہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ یہ جملے تو اب اس کے ماتھے پر لٹک رہے تھے لیبل کی طرح۔ کوئی اسے نہ بھی یاد کرواتا پھر بھی نظر آتا۔
”بدتمیزی اس نے کی تھی مجھ سے۔ میں نے کیا کیا۔” اس نے جیسے خود اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”وہ کر سکتا ہے۔ ڈائریکٹر ہے۔ سکہ چلتا ہے اس وقت انڈسٹری میں اُس کا، اس کی فلم میں کاسٹ ہونے کے لیے ہیروئنز طواف کرتی ہیں اس کا۔ وہ سیٹ پر گالیاں بھی دے تو بھی کوئی اُف نہیں کرتا اور تم اسے کہہ کر آئی ہو cheap۔” اقصیٰ نے آخری لفظ یوں کہا جیسے وہ گناہ تھا جو مومنہ سے سرزد ہو گیا تھا۔
”دماغ خراب ہو گیا تھا میرا۔” مومنہ پچھتائی نہیں لیکن بڑبڑائی۔ اقصیٰ کو وہ صرف اسی طرح خاموش کر سکتی تھی لیکن اس کی یہ حکمت عملی بھی غلط ثابت ہوئی تھی۔
”اب پچھتانے کا فائدہ۔” اس نے فوراً کہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”پچھتا نہیں رہی۔ مجھے اس کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ آئی ایم سوری۔” اس نے اپنی عزت اور انا کو تو کب کا مار دیا تھا مگر خودداری تھی جو پتا نہیں کیوں اب بھی زندہ رہ گئی تھی۔
”تمہاری وجہ سے اس نے داوؑد کو کتنا ذلیل کیا کہ کہاں سے اٹھا لائے ہو لڑکیاں آڈیشن کے لیے جن کا نہ کوئی خاندان ہے نہ کلاس نہ گرومنگ۔” اقصیٰ کو داوؑد کی بے عزتی کا صدمہ نہیں بھول رہا تھا۔
”جس کا خاندان اور کلاس ہے، وہ کیا کر رہا ہے۔” مومنہ اس کے جملے پر تپ گئی۔ اقصیٰ نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا۔
”گھنٹے سے سر کھپا رہی ہوں اور پھر وہی بات۔ ٹھیک کہہ رہی تھیں تم کہ۔ تمہیں اس کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ داوؑد نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ فلم ہے۔ فلم۔ سوپ او رسیریل سمجھ کر مت آنا اس میں کام کرنے۔” اقصیٰ کا میک اپ اب ختم ہو چکا تھا اور وہ تیار تھی۔
”میرا مسئلہ اس وقت صرف پیسہ ہے۔ مومن کی فلم بھی صرف پیسے کے لیے ہی کرنا چاہتی تھی ورنہ متاثر نہیں ہوں اس سے میں۔” وہ کہے بغیر رہ نہیں سکی۔
”پیسہ چاہیے تھا جہانگیر کے لیے اسی لیے داوؑد اور میں نے کوشش کی تھی کہ یہ فلم مل جائے تمہیں مگر تم نے، کل کو پچھتاوؑ گی کہ موقع ملا تھا اور تم نے ضائع کر دیا۔” مومنہ اس کے جملے پر جھاگ کی طرح بیٹھی تھی۔
”کیا کروں، معافی مانگ لوں؟” وہ بے اختیار الجھی اور اقصیٰ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”وہ ”مومن” ہے،کینہ رکھتا ہے۔ بدلہ لیتا ہے معاف نہیں کرتا۔ اور وہ بھی اب۔”
”مجھے جانا ہے اقصیٰ! ابا انتظار کر رہے ہیں ہاسپٹل میں۔ جہانگیر کا ڈائیلاسس ہے آج۔ تم سے کچھ پیسے چاہئیں تھے۔” اس نے اقصیٰ کی بات کاٹی اور اس سے اپنا مسئلہ کہا۔ آخری جملہ ہمیشہ کی طرح نظریں ملائے بغیر۔ قرض مانگنے والا کیا نظر ملاتا، کیا نظر اٹھاتا۔
”گھنٹہ بک بک سنی میری۔ سیدھا نہیں کہہ سکتی تھیں پہلے ہی۔” اقصیٰ نے اپنا پرس کھولتے ہوئے اسے ڈانٹا۔ وہ اس کی ہر ڈانٹ ہر جھڑکی سن سکتی تھی۔چینی کی طرح وہ اس بھری دنیا میں خاندان کے باہر اس کا خاندان تھی۔ جس سے وہ سب کہہ لیتی تھی، سب مانگ لیتی تھی اور جس کے سامنے وہ ”رو” لیتی تھی۔ پتہ نہیں ادھار کا وہ کون سا کھاتہ تھا جو دوستی کے کاروبار میں چلتا ہے۔ ہندسوں میں کوئی لین دین رکھا ہی نہیں جاتا اس میں۔ سب احسان کی زبان میں درج ہوتا ہے۔ قدر کی زبان میں وصول ہوتا ہے۔
اقصیٰ مومنہ سلطان کی غم گسار، غم خوار تھی اس پر جان چھڑکنے والی دوست اور وہ مومنہ سلطان حیران ہوتی تھی کہ وہ کس صلے کی توقع میں اس کے ساتھ تھی۔ وہ بھی اس کی طرح سائیڈ رولز کرتی تھی۔ کالج میں اس کی کلاس فیلو بھی رہی تھی۔ اس کی زندگی کے مسائل مومنہ سلطان جیسے نہیں تھے۔ کم تھے اور اس کی زندگی میں ایک داوؑد بھی تھا جو مومنہ سلطان کی زندگی میں نہیں تھا۔
وہ دونوں انگیجڈ تھے اور دونوں اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ داوؑد قلبِ مومن کا اسسٹنٹ تھا اور کالج میں ان کو چوکور کا تیسرا کونا۔ اقصیٰ سکول کے زمانے سے ایکٹنگ کر رہی تھی کیوں کہ اسے اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنے تین چھوٹے بھائیوں کو پڑھانا اور ماں کا سہارا بننا تھا اور داوؑد اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں بچپن سے اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد سے رہتا تھا اور ان کے ساتھ تیسری مومنہ سلطان تھی جسے اس دوستی کے آغاز میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
وہ انٹر میں آرٹس پڑھنے آئی تھی۔ جہانگیر چائلڈ اسٹار کے طور پر بہت اچھا کما رہا تھا اور سلطان اور ثریا کو بھی تھوڑا بہت کام ملتا رہتا تھا۔ زندگی تب مومنہ سلطان کے لیے اچھی تھی اور زیادہ اچھی چوکور کے اس چوتھے کونے کی وجہ سے ہوئی تھی جس کا نام فیصل تھا۔ مگر پھر سب کچھ بدل گیا تھا اور جو کچھ بھی بدلا، وہ صرف مومنہ سلطان کے لیے بدلا تھا۔ اقصیٰ اور داوؑد کی زندگی کے مسئلے تو شروع ہی سے ویسے ہی تھے۔ وہ نہ بڑھتے تھے نہ کم ہوتے تھے لیکن مومنہ کی زندگی میں جہانگیر کی بیماری تباہی کی طرح آئی تھی اور فیصل اس کی زندگی کا وہ نخلستان تھا جہاں بسنے کے خواب مومنہ دیکھتی رہی تھی۔ نخلستان نخلستان ہی رہا تھا لیکن بس اس کے لیے صحرا میں سراب کی طرح ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
اس نے برآمدے میں کھڑے سلطان کو دور ہی سے دیکھ لیا۔ سلطان نے بھی بالکل اسی وقت اسے دیکھا۔ مومنہ کو وہ کچھ مضطرب سا لگا۔ لنگڑاتا ہوا وہ مومنہ کی طرف بڑھا اور اس نے کہا۔
”کب سے انتظار کر رہا ہوں تمہارا مومنہ۔ ڈاکٹر بھی چلا گیا۔” سلطان نے اس کے قریب آتے ہی کہا۔
”چلا گیا لیکن آپ نے تو بات کرنی تھی گردہ لینے کی۔” مومنہ نے کہا۔
”ہاں کی ہے میں نے بات۔ وہ کہہ رہا تھا، پیسے لے آوؑ تو مل جائے گا گردہ، میچنگ بھی ہو جائے گی پر بغیر پیسوں کے بار بار گردہ لینے کی بات نہ کروں میں۔”
مومنہ کو پتا تھا، ڈاکٹر کے انداز میں کیسی بے زاری ہو گی۔ وہ ہر بار جہانگیر کا ڈائیلاسس کروانے آتے تو اسی طرح کی گفتگو ہوتی تھی ان کے درمیان۔
”کتنے پیسے لگیں گے گردہ ٹرانسپلانٹ ہونے پر؟”
(یوں جیسے وہ گولڈ کا ریٹ تھا جو ہر ہفتے بدل جاتا تھا۔)
”پانچ، چھے لاکھ۔” وہ ڈاکٹر رٹے رٹائے انداز میں جواب دیتا۔
”میچ تو ہو جائے گا نا۔” سلطان پوچھتا۔
(یوں جیسے وہ کپڑے کا وہ تھان کھلوا کر دیکھ رہا ہو جسے خریدنے کی ہمت نہ ہو رہی ہو۔)
”پیسے ہوں تو سب میچ ہو جاتا ہے یہاں خالی خولی باتوں کا کیا فائدہ۔” ڈاکٹر جواباً ان سے کہتا۔
”کوئی نقصان تو نہیں ہو گا جہانگیر کو نئے گردے سے۔” سلطان کو تشویش ہوتی۔
(یوں جیسے پہلے پرانے گردے کے ساتھ جہانگیر جنت میں جی رہا تھا۔)
”اس کا نصیب۔” ڈاکٹر جواب دیتا اور سلطان کے سارے سوال ختم ہو جاتے اور اس ساری گفتگو کے دوران مومنہ خاموش تماشائی کی طرح کھڑی رہتی۔ ڈاکٹر اس سے کچھ بے تکلفی دکھاتا۔ کچھ فلرٹ کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ جانتا تھا وہ اداکارہ تھی جس کا مطلب معاشرے کے ہر شخص کی طرح وہ بھی یہی لیتا تھا کہ وہ آسانی سے ”دستیاب” تھی اور کردار پر سوالیہ نشان بھی لیے ہوئے تھی۔
مومنہ ڈاکٹر کی ”ان” نظروں کو نظر انداز کرتی۔ مسکراتے ہوئے اس کی ذومعنی باتوں کو سنی ان سنی کرتی ڈھٹائی سے ہنستی اور ڈاکٹر کے اس خیال کی تصدیق کرتی کہ ہر اداکارہ characterlessہوتی ہے۔ آسانی دستیاب ہونے والی بدکردار عورتیں۔
اور مومنہ سلطان اسharrassment کو نظرانداز کرنے پر مجبور تھی اور اس کے ساتھ ساتھ سلطان بھی۔ اس ہاسپٹل میں اس ڈاکٹر کے طفیل جہانگیر کو زندگی کی بوندیں مل رہی تھیں۔ قطرہ قطرہ تو اس کے سامنے مومنہ سلطان حیا اور شرافت کا ڈھنڈورا کیا پیٹتی۔ وہ اس کے بھائی کا مسیحا تھا اس کی جان بھی لے لیتا تو وہ دے دیتی۔ یہ تو معمولی سی ذلت تھی جو وہ کسی بس اسٹاپ پر کھڑے کسی لوفر لفنگے کے ہاتھوں بھی برداشت کر لیتی تھی۔ یہ تو پھر اس کے بھائی کا علاج کرنے والا ”qualified” ڈاکٹر تھا۔
”جہانگیر کا ڈائیلاسس ہو گیا؟” اس نے سلطان کے چہرے پر جیسے کوئی اچھی خبر ڈھونڈنا چاہی۔