”تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے تم کو بڑا پتا ہے spirituality کا اور by the way میں نے صرف دو سگریٹ پیے تھے۔ دو سے مجھے کچھ نہیں ہوتا۔” نیہا نے بھی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اسے جوب دیا اور ساتھ ہی اسے کچھ یاد آیا۔ ”تم نے صوفی کا نخرا دیکھا؟”
مومن گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے بے اختیار ہنسا۔ ”تم صُوفی سے صوفی پر پر آگئیں۔ اتنی جلدی؟”
”بکو مت۔ کیا پہن کے آئی ہوئی تھی وہ اور ظاہر یوں کر رہی تھی جیسے پتا نہیں کون سے سیارے کی ڈیزائنر ہو۔” نیہا کا دماغ واقعی اب اس صوفیانہ کلام سے سیکنڈز میں اس ڈیزائنر پر آگیا تھا جو اس کی حریف تھی۔
”مجھے اس کے ڈریسز پسند ہیں اس کا سینس آف اسٹائل امیزنگ ہے۔” مومن نے جواباً کہا۔ وہ ایسا ہی تھا، نیہا اس کی گرل فرینڈ تھی مگر مومن کو جو چیز اچھی لگتی تھی، وہ اس کے بارے میں کھلے دل سے تبصرہ کرتا تھا۔
”وہ ridiculousلگ رہی تھی ان کپڑوں میں۔ نہ ہونے کے برابر کپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے تاکہ سب مرد اُسے دیکھیں۔ چیپ حرکت۔” نیہا کے لہجے میں عجیب طرح کی مڈل کلاس جیلسی گونجی تھی۔
”اگر یہstrategy تھی تو اس کی strategy بالکل ٹھیک تھی کیوں کہ سب مرد واقعی اسے ہی دیکھ رہے تھے، میں بھی۔ وہ hot لگ رہی تھی۔” مومن نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اسے تپایا۔ وہ جانتا تھا نیہا صوفی کو پسند نہیں کرتی۔
”مومن!” نیہا نے جیسے اسے خبردار کیا۔
”مجھ سے اگلی فلم میں وارڈروب ڈیزائن کرنے کی بات کر رہی تھی۔” مومن نے اس کی للکار کے جواب میں کہا۔ نیہا کو جیسے آگ لگ گئی۔
”اس کی اتنی ہمت۔”
”یار پروفیشنل ہے۔ موقع دیکھ رہی ہے وہ میرے ساتھ کام کر کے۔” مومن نے جیسے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تم اس کے ساتھ کام نہیں کرو گے۔ میں ہی تمہاری اگلی فلم کی وارڈ روب بھی کروں گی۔ سنا تم نے۔” وہ ہنسا۔
”سن لیا یار! کر لینا۔ اب غصہ ختم کرو۔ تم وہ صوفی ہونے اور Spirituality کی باتک ر رہی تھیں۔ وہ بتاوؑ مجھے۔”
”مذاق مت اڑاوؑ میرا۔” نیہا اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ ”وہ سرپرائز کیا تھا جو مجھے دینا چاہتے تھے۔” اسے یک دم یاد آیا۔ مومن نے جواب دینے کے بجائے اپنی گاڑی سڑک کے کنارے سے سڑک پر لاتے ہوئے کہا۔
”میرے اپارٹمنٹ چلو پھر بتاتا ہوں تمہیں۔” نیہا نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ اسے اس ”سرپرائز” کا بے حد انتظار تھا اور توقع بھی لیکن وہ یہ کنفرم کرنا چاہتی تھی، خوشی کے کسی اظہار کے بغیر کہ وہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہو رہی۔
اس نے اپنے پینٹ ہاوؑس کا دروازہ کی کارڈ سے کھولا اور نیہا کو لیے اندر آیا۔ اندر آتے ہی سب سے پہلے اس کی نظر لابی میں دیوار کے ساتھ پڑے کنسول پر رکھے ایک سفید لفافے پر پڑی۔ وہ یقینا شکور نے کوریئر سے وصول کرنے کے بعد ہمیشہ کی طرح وہاں رکھا تھا جہاں اس کی ڈاک وہ رکھتا تھا۔ نیہا اب بھی مسلسل صوفی کے حوالے سے کچھ بولتی جا رہی تھی مگر وہ اس لفافے پر نظر ڈالتے ہوئے چند لمحوں کے لیے اپنے ماحول سے غافل ہوا تھا۔
اس کے ساتھ اندر داخل ہوتے ہوئے نیہا رکے بغیر اندر لاوؑنج میں چلی گئی اور مومن سیدھا اس کنسول کی طرف آیا۔ اس نے لفافے کو اٹھا کر دیکھا۔ موتیوں جیسی تحریر میں لفافے پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ اسی انداز میں جس طرح ہمیشہ لکھا ہوتا تھا۔ اس نے انگلیوں سے جیسے لکھنے والے کے لمس کو اپنے نام پر ہاتھ پھیر کر ڈھونڈا، محسوس کیا، پھر لفافے کو بغیر کھولے اس نے کنسول کا دراز کھول کر اندر رکھ دیا۔ وہ دراز اس جیسے بہت سے ان کھلے لفافوں سے بھرا ہوا تھا اور ان سب پر ایک ہی نام تھا۔ قلبِ مومن۔
نیہا ٹیرس پر میز کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی جب وہ وہاں آیا۔ ٹیرس پر رات کے اس پہر پورے شہر کی عمارتوں کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ دور سمندر میں ڈولتی کچھ بوٹس اور جہازوں کی بھی۔ نیہا کے ہاتھ میں ایک شیمپیئن گلاس تھا جس میں وہ فریج سے کچھ پانی ڈال کر لائی تھی اور اب اس ٹیرس پر میز کے سامنے کرسی پر بیٹھی وہ سمندر کی طرف گردن موڑے اس پانی کو آہستہ آہستہ پینے میں مصروف تھی۔ ہوا اس کے بالوں کو اڑاتی اوپر لے جاتی۔ پھر نیچے لے آتی۔ سمندر کی لہروں کی طرح۔ اور وہ مومن کے انتظار میں کسی خوب صورت پینٹنگ کی اکیلی لڑکی کی طرح ٹیرس پر لگی خوب صورت لائٹس سے نکلتی روشنی میں بیٹھی تھی۔ مومن کے آنے پر اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ پھر مسکرائی اور گلاس واپس میز پر رکھ دیا۔
مومن اس کے مقابل دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اس کے سامنے بورڈ پر فریم کے بغیر ایک پینٹنگ رکھی۔ نیہا بے ساختہ مایوس ہوئی، وہ یہ سرپرائز دیکھنے یہاں نہیں آئی تھی۔ مومن کبھی کبھار پینٹ کیا کرتا تھا اور اکثر اسے پینٹ کرتا تھا اور وہ پینٹنگ بھی اسی کی ہی تھی۔ وہیں ٹیرس پر اسی میز پر اسی طرح ہوا میں اڑتے بالوں اور شیمپیئن گلاس میں پانی پیتے ہوئے۔
”تمہارا فیورٹ پوز اور میری فیورٹ پینٹنگ۔” مومن نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ نیہا کو لگا وہ جیسے اس سے داد چاہتا تھا۔
”It’s beautiful۔” اس نے پینٹنگ پر غور کیے بغیر کہا۔ وہ ہمیشہ یہیں بیٹھتی تھی۔ اسی طرح پانی پیا کرتی تھی اور مومن نے اسے ماڈلنگ کے لیے بٹھائے بغیر اسے اسی طرح پینٹ کیا تھا۔
نیہا نے ایک نظر پینٹنگ پر ڈالتے ہوئے اپنا گلاس دوبارہ اٹھایا اور تب ہی اسے میز پر رکھی اس پینٹنگ میں اپنے ہاتھ کی انگلی میں ایک رنگ جگمگاتی نظر آئی۔ ایک لحظے کے لیے اسے شائبہ ہوا کہ وہ بھی پینٹ کی گئی تھی مگر غور سے دیکھنے پر اسے نظر آیا وہ پینٹنگ نہیں تھی، اصلی تھی۔ اس کے رگ و پے میں جیسے ایک کرنٹ دوڑا۔ اس نے نظر اٹھا کر مومن کو دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا۔
”تم۔” نیہا نے بے حد جوش کے عالم اسے کچھ کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑا اور اس پینٹنگ میں اپنی انگلی کے گرد نظر آنے والی رنگ کو اس جگہ سے نکالنے لگی جہاں وہ دھنسی ہوئی تھی۔
”مومن!” نیہا کی آواز فرطِ جذبات سے بھر آئی تھی۔ وہ اس ڈائمنڈ رِنگ کو اب بے حد جذباتی انداز میں اپنی انگلی اور انگوٹھے کی پوروں کے درمیان پکڑے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ مومن نے اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی لے لی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انگلی میں وہ رِنگ پہنا دی۔
”This is beautiful۔” نیہا نے اپنے ہاتھ میں پہنائی گئی اس رِنگ کو دیکھتے ہوئے خوشی اورexcitement سے کہا۔
”تمہارے ہاتھ سے زیادہ نہیں۔” مومن نے بڑی آہستگی سے اپنے ہاتھ میں پکڑے اس کے ہاتھ کو ہونٹوں سے چھوا اور پھر اسے چھوڑ دیا۔
”I love you۔” نیہا نے کہا۔
”I love you too۔” مومن نے جواباً کہا۔ نیہا اب اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ۔
”تمہارا ٹیسٹ ہر چیز میں لاجواب ہے۔” وہ اُس رِنگ کو دیکھتے ہوئے مومن کو سراہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”یعنی تم indirectly اپنی تعریف کر رہی ہو۔” مومن نے برجستہ کہا اور نیہا نے اس کے جملے پر کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ دوبارہ میز پر دھرے مومن کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔
”میری تعریف کرنے کے لیے تم کافی ہو۔ یقین نہیں آرہا۔ قلبِ مومن! تم مجھے پروپوز کر رہے ہو۔” نیہا اس وقت خود پر ضبط نہیں کر پا رہی تھی۔
”کیا اچھا لگا مجھ میں؟” اس نے عجیب سی ادا کے ساتھ مومن سے پوچھا۔ یوں جیسے اپنی تعریف سننا چاہتی ہو۔ مومن نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر دل کی جگہ پر رکھتے ہوئے کہا۔
”ہمیں تم یہاں اچھی لگ گئیں۔” وہ اس کے جملے پر ہنسی اور پھر اس نے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”دل کو اچھی لگی اور دماغ کو؟”
”میں دماغ سے نہیں سوچتا۔ قلبِ مومن ہوں میں۔ دل ہی فیصلہ کرتا ہے ہر بات کا۔” مومن نے عجیب بے نیازانہ انداز میں اس سے کہا۔
نیہا نے اپنی انگلیوں کے گرد جیسے کچھ لپیٹنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ ”جب تم اس طرح بات کرتے ہو تو تم لڑکیوں کے دلوں کو اپنی انگلیوں کے گرد لپیٹ لیتے ہو قلبِ مومن۔” وہ اس کی بات پر مسکرایا۔
”جانتا ہوں لیکن قلبِ مومن تمہاری مٹھی میں ہے۔” نیہا اس کے اعتراف پر عجیب غرور سے مسکرائی پھر ہنس دی۔ اس کی مسکراہٹ کمال تھی، اس کی ہنسی جمال۔ اس کے کانوں میں لٹکتے موتی ہلکورے لے رہی تھے اور اس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اپنی گہری سیاہ لمبی پلکوں والی آنکھوں کے ساتھ وہ قلب مومن کی آنکھوں اور دل میں بیک وقت کھبی تھی اور اسے کسی کی یاد دلا گئی تھی۔
”تم حسنِ جہاں جیسی ہو۔” اس کے چہرے پر نظریں جمائے وہ جیسے کسی ٹرانس میں بولا تھا۔
وہ ہنسی ”حسنِ جہاں جیسی کیوں؟ حسنِ جہاں کیوں نہیں؟” اس نے عجیب غرور سے اس حوالے کو سمجھے بغیر کہا جو قلبِ مومن کے اندر سے کہیں نکلا تھا۔
”حسن جہاں بس ایک ہی تھی۔ ”قلبِ مومن نے نیہا کے گلاس کے کناروں پر اس کی لپ اسٹک سے بنے ہونٹوں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});