اس نے جہانگیر سے کہا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر اور اپنی بات کے آخر تک وہ عجیب انداز میں کمزور پڑی تھی۔ وہ سیاہ حلقے، بجھتی ہوئی آنکھیں، گھلتا ہوا وجود مومنہ سلطان کے ہر حوصلے کو مٹی کر دیتا۔ ہرسوچ کو ردی، ہر خواہش کو پانی۔ وہ اس کے سامنے یہ تک نہیں کہہ پائی کہ اگر دنیا میں کوئی چیز اس کے قدموں کے نیچے سے ریت بن کر سرکتی ہے تو وہ جہانگیر کی بیماری کا خیال تھا، باقی کسی چیز کو وہ کچھ نہیں گردانتی تھی۔
”میں جانتا ہوں، آپ خطاط بننا چاہتی تھیں۔ آرٹ پڑھنا چاہتی تھیں، میں آڑے آگیا۔” جہانگیر نے سرجھکا کر کہا۔ وہ غلط وقت پر اسے یہ سب یاد دلا رہا تھا۔
”خطاطی میں آج بھی کرتی ہوں، آرٹ میں کبھی بھی پڑھ لوں گی۔”
وہ اگلا جملہ جو کہنا چاہتی تھی اسے کہہ نہیں پائی، ”لیکن تمہاری زندگی کو میں کسی ٹائم مشین پر نہیں ڈال سکتی کہ آگے لے جاوؑں۔”وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے قلبِ مومن سے اس لمحہ شدید نفرت محسوس ہوئی، اس کے سارے جملے اس کے کانوں میں اب بھی گونج رہے تھے۔
بستر پر لیٹ کر اپنی چادر تاننے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر جیسے اپنی اس دنیا جانے کی کوشش کی اور وہ ناکام رہی۔ اس کے اوپر تنی چادر کی کینوپی کے اندر قلب مومن کا چہرہ دکھنے لگا تھا۔ بالکل ایسے جیسے کسی پروجیکٹر کی اسکرین پر۔ اس کی نظریں۔ ان آنکھوں میں اس کے لیے جھلکنے والی حقارت، وہ رعونت جس سے اس نے مومنہ کا بازو پکڑا تھا اور وہ جملے۔ وہ سب کچھ جیسے پروجیکٹر کے اوپر چلنے والی کسی فلم کی طرح دیکھ رہی تھی۔
چادر کو اس نے یک دم اپنے سر سے اتارا اور سانس لینے کی کوشش کی۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ قلبِ مومن کا تکبر کسی آکٹوپس کی طرح اس کی سوچوں کو اپنے شکنجے میں لیے بیٹھا تھا۔ وہ جس انڈسٹری میں تھی وہاں ہتک اور توہین اس کے لیے ان چکھا پھل نہیں تھے، نہ غرور اور تکبر وہ پرندہ جسے اس نے کبھی دیکھا ہی نہ ہو، مگر پہلی بار کسی نے اس کی اس طرح بے عزتی کی تھی، کام مانگنے پر۔ ورنہ کوئی بھی سامنے کچھ برا نہیں کہتا تھا۔ کہنا بھی ہوتا تو پیٹھ پیچھے کہتا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے صرف کام مانگنے پر اسے یہ سب کہا۔ اس نے قلبِ مومن کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ اسے دوبارہ کبھی زندگی میں اس کا سامنا کرنا ہی نہیں تھا۔
اور زندگی۔ ”زندگی میں تو ایسا بہت کچھ ہو جاتا ہے۔” اس نے جیسے خود کو بہلانے کی کوشش کی تھی۔ ”زندگی میں تو ایک فیصل بھی ہوتا ہے جو نہیں ملتا اور یہ تو صرف ایک فلم تھی۔”
اسے اپنی تسلی اور بہلاوے پر یک دم ہنسی آئی۔ اس کا دماغ فیصل کو کہاں سے لے آیا تھا یا پھر دل تھا جو اس کو اس وقت لایا جب اسے مرہم کی ضرورت تھی۔ آنکھیں بند کیے اس نے بے بسی سے اپنا ماتھا چھوا۔ پہلے وہ قلبِ مومن کو اپنے ذہن سے نکالنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ اب اسے فیصل کو بھی نکالنا تھا۔ نیند آج اس کے مقدر میں ہی نہیں تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کوئی رنگ کالا … کوئی پیلا
کوئی لال گلابی کردا …
بلھے شاہ رنگ مرشد والا
کسے کسے نوں چڑھدا …
وہاں بیٹھا پورا مجمع اس کے ان جملوں میں بے اختیار ہاتھ اور بازو اٹھا اٹھا کر داد دے اٹھا تھا اور داد دینے والوں میں نیہا بھی تھی جو اس کے برابر فرشی نشست پر بالکل پہلی قطار میں تھی۔ گلوکار منجھا ہوا تھا اور پکے سُر کے ساتھ گا رہا تھا اور بار بار ان جملوں کو دہرا رہا تھا جس پر اسے داد مل رہی تھی۔ چالیس، پچاس لوگوں کا وہ مجمع جیسے جھوم رہا تھا۔ کچھ کے ہاتھوں میں مشروب کے گلاسز تھے اور کچھ اس سونف اور چھالیہ کو بار بار لے کر منہ میں ڈال رہے تھے۔ جس کی ٹرے لیے ویٹر بار بار چکر لگا رہا تھا اور کچھ فرشی نشست پر تقریباً نیم دراز آنکھیں بند کیے سرور کے کسی عالم میں پہنچے ہوئے تھے۔
گلوکار نے بلاشبہ سماں باندھ دیا تھا۔ اس مجمع میں صرف چند لوگ تھے جو گلوکار کو کسی داد و تحسین کے بلندوبانگ اظہار کے بغیر سن رہے تھے اور ان میں سے ایک قلبِ مومن بھی تھا۔ وہ گلوکار پر بغور نظریں جمائے ہوئے تھا مگر اس کے کہنے پر لہک نہیں رہا تھا نہ دوسروں کے کہنے پر بہک رہا تھا۔ نہ ہاتھ پاؤں اور سر کو گلوکار کی تانوں اور اس کے میوزک پر ہی ہلا رہا تھا۔ وہ بس سن رہا تھا۔ کسی جملے پر وہ محظوظ ہوتا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی اور سر کی ہلکی سی جنبش پر وہ داد دیتا لیکن ایسا شاید اس ڈیڑھ گھنٹہ کی محفل میں دو یا تین بار ہی ہوا تھا۔ وہ وہاں نیہا کے اصرار پر آیا تھا ورنہ اسے صوفی کلام کی محفلوں میں آنے اور وقت گزارنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ یہ اس کے مزاج کی موسیقی نہیں تھی مگر نیہا کو وہ انکار نہیں کر سکتا تھا۔
”Uff… so spiritual”نیہا نے اس کے برابر بیٹھے ہوئے گلوکار کی کسی لائن پر جھومتے قلبِ مومن کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔
Spiritualکیا تھا اس گانے اور اس کے کلام میں یہ مومن جان نہیں پا رہا تھا۔ آواز کمال تھی طبلہ اور ہارمونیم بجانے والے اپنے کام کے باہر تھے۔ لیکن بس اس کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں تھا جس پر وہاں موجود لوگ "Spiritual” ہو رہے تھے۔
کئی جاگن کئی جاگ نہ جانن
کئی جاگدیاں وی سُتے ہو
(کئی لوگ جاگتے جاگتے لٹ گئے اور کئی سونے کی حالت میں بھی پا گئے۔)
کیاں نوں رب ستیاں ملیا
کئی جاگدے وی گئے مٹھے ہو
گلوکار نے اگلا کلام شروع کیا اور قلبِ مومن نے نیہا کے کان میں سرگوشی کی۔ ”چلیں؟”
اس نے حیرانی سے مومن کو دیکھا اور کہا۔ ”کہاں؟”
”تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے نیہا کے کان میں ایک اور سرگوشی کی۔ اس نے جواباً بے حد تجسس کے عالم میں مومن کا چہرہ دیکھا جس پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ مزید کچھ کہے بغیر نیہا وہاں سے اٹھ کر اس کے ساتھ باہر تو آگئی لیکن وہ اب بھی ایک عجیب سی کیفیت میں تھی۔ ان کی گاڑی گاڑیوں کی لمبی قطار کے تقریباً آخری سرے پر تھی جو اس گھر کے باہر سڑک کے کنارے کھڑی تھیں۔ جہاں وہ یہ محفل موسیقی اٹینڈ کرنے آئے تھے۔
”کمال ہی کر دیا۔ مجھے لگ رہا ہے میں صوفی ہو گئی ہوں۔” اس کے ساتھ چلتے ہوئے نیہا نے اپنے عریاں بازوؤں کو عجیب سرمستی کے عالم میں سر سے اوپر بلند کرتے ہوئے ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت ایک سلیولیس بلاوؑز اور لانگ اسکرٹ میں ملبوس تھی۔ وہ مختصر بلاوؑز اس کی کمر اور پیٹ کا تھوڑا سا حصہ دکھا رہا تھا۔ اس سفید سلک کے بلاوؑز اور سیاہ اسکرٹ میں وہ گلے میں بہت ساری لمبی اور چھوٹی زنجیریں اور پتھر پہنے ہوئے تھی۔ جنہوں نے اس کے سینے کو تقریباً ڈھک دیا تھا۔ باہر چلتی تیز ہوا اس کے کٹے ہوئے بالوں اور لٹکے ہوئے اسکرٹ کو بار بار اٹھا رہی تھی اور نیہا دونوں سے بے پروا تھی۔ نہ وہ بالوں کو اُڑ کر اپنے چہرے اور ماتھے پر آجانے سے روک رہی تھی نہ اپنی لمبی خوب صورت ٹانگوں سے بار بار ہوا سے اٹھنے والے اسکرٹ کو۔ انگلیوں میں دبے سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے اس نے گلوکار کے بول گنگناتے ہوئے سگریٹ پھینکا۔
”مومن! میں صوفی ہو گئی ہوں۔” اس کے ساتھ چلتے ہوئے مومن نے اس کے پہلے جملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نیہا نے جیسے اس کی توجہ کے لیے دوبارہ وہ جملہ دہرایا۔
”وہ تو تم ہر بار ایسی کسی محفل کو اٹینڈ کرنے کے بعد چند گھنٹوں کے لیے ہو جاتی ہو۔ اس لیے پریشان مت ہو۔ چند گھنٹوں کے بعد ٹھیک ہو جاوؑ گی تم۔” ساتھ چلتے ہوئے مومن نے اپنے ٹراوؑزر کی جیب سے گاڑی کی چابی نکالتے ہوئے اسے جیسے تسلی دی۔
”نہیں یار۔ آج کچھ اور ہی کیفیت ہو گئی ہے میری۔” نیہا نے جیسے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔ وہ متاثر نہیں ہوا۔
”اچھا ،good for you۔” اس نے ساتھ چلتے ہوئے اسی انداز میں اس کو کہا۔
”تم یہ قوالی اپنی فلم میں ڈلوانا۔” نیہا نے یک دم گلوکار کی سب سے پہلی قوالی کے بول دہراتے ہوئے مومن سے کہا۔
وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”میری فلم میں قوالی کا کیا کام؟”
”یار Spirituality آئے گی۔” نیہا نے جیسے دلیل دی۔
”یعنی میری فلم کا شو دیکھتے ہی آڈینس سینما میں مسجد ڈھونڈنا شروع کر دے گی۔” اس نے مذق اڑانے والے انداز میں نیہا سے کہا۔
”تم سے باتوں میں نہیں جیت سکتی میں۔suggestionدے رہی تھی میں۔ بالی ووڈ کی فلمز میں نہیں دیکھا۔ ہر فلم میں قوالی ڈالتا ہے سلمان خان اور ہر فلم سپرہٹ۔
نیہا نے جیسے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ وہ سڑک پر اب بھی وہی بول گانے اور لہرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بازو پھیلا پھیلا کر۔ وہاں کھڑی گاڑیوں کے ڈرائیورز کی خود پر مرکوز تعاقب کرتی ہوئی نظروں سے بے خبر۔
”قوالی کے بغیر بھی سپرہٹ ہوتی ہے میری فلم۔” مومن کو اس وقت سلمان خان کا حوالہ برا لگا۔
”اس کی فلم سو کروڑ کرتی ہے۔” نیہا واقعی کسی اور کیفیت میں تھی ورنہ سلمان خان کے لیے اس کے ساتھ بحث نہ کرتی جو مومن کا ناپسندیدہ ترین اداکار تھا۔
”وہ Spirituality اور قوالی سے سو کروڑ نہیں بناتا۔ آئٹم نمبر سے بناتا ہے۔” اپنی گاڑی کا لاک دور سے ہی کھولتے ہوئے اس نے نیہا کو جواب دیا۔ اس کی گاڑی نے دور ہی سے لائٹس جھپکا کر جیسے اس کا استقبال کیا تھا۔
”جو بھی ہے لیکن تم میری حالت نہیں دیکھ رہے۔ کبھی اس حالت میں دیکھا ہے تم نے مجھے۔ یہ spirituality نہیں تو کیا ہے۔” نیہا نے اس کی بات کا بُرا مانا۔
”یہ ان چرس والے سگریٹوں کا اثر ہے جو تم بار بار ٹیرس پر جا کر پی کر آرہی تھیں۔ spirituality نہیں ہے یہ۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});