الف — قسط نمبر ۰۲

”تمہارے بابا آگئے تو پھر تم کیا کرو گے؟”
اسکول میں اس کے سب سے قریبی دوست نے لنچ بریک میں اس سے پوچھا۔ قلبِ مومن کے باپ کے واپس آنے کی خبر اس کی پوری کلاس میں گردش کر رہی تھی۔ اس خبر کے ساتھ کہ قلبِ مومن نے اللہ کو خط لکھ کر اپنے بابا کو بلوایا تھا۔ وہ دنوں میں جیسے وہاں ”اسٹار” بن گیا تھا۔
”پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے، ممی کہتی ہیں۔” اس نے اطمینان سے اپنے دوست کو بتایا۔
”اور کہاں جاؤ گے تم لوگ؟” اس کے دوست نے کریدا۔
”یہ تو نہیں بتایا ممی نے۔” قلبِ مومن نے سرکھجا کر کہا۔
”تم نے اللہ سے اور کیا کیا مانگا ہے قلبِ مومن؟” اس کے دوست نے چند لمحے بعد اپنے لنچ کا سینڈوچ کھاتے ہوئے بالآخر اس سے وہ سوال پوچھا جس کا اسے تجسس تھا۔ قلبِ مومن نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ ایک بات بتا چکا تھا، ساری باتیں نہیں بتا سکتا تھا۔
اس دن وہ گھر آتے ہوئے بے حد خوش تھا۔ کیونکہ گھر میں بہت کچھ بن رہا تھا۔ اس کے بابا کا فیورٹ کیک اور فیورٹ ڈش اور مومن کا فیورٹ ڈونر کباب۔ اس کی ماں اس دن اس اسٹور میں کام پر نہیں گئی جہاں وہ اسٹور کیپر تھی۔ وہ صبح سے اس کے بابا کے استقبال کی تیاری میں مصروف تھی۔
مومن کا خیال تھا، وہ گھر پہنچے گا تو بابا وہاں آچکے ہوں گے، مگر ایسا نہیں تھا۔ بابا ابھی بھی نہیں آئے تھے اور اس کی ماں ایک بہترین لباس پہنے ہوئے تھی۔
”ممی۔” ماں نے دروازہ کھولا اور قلبِ مومن اسے دیکھ کر اپنا سوال بھول گیا۔ حسنِ جہاں کو جیسے اندازہ ہوا کہ وہ کیا پوچھنا چاہتا تھا۔
”بس۔ وہ آنے ہی والے ہوں گے مومن! تم جلدی سے کپڑے تبدیل کر لو۔ میں کھانا بنا رہی ہوں۔” وہ کہتے ہوئے وہاں رکے بغیر اندر گئی اور اسی رفتار سے مومن بھی اندر گیا۔
کپڑے تبدیل کرتے ہوئے اسے کچھ خیال آیا اور وہ ماں کے پیچھے باورچی خانہ میں آگیا۔
”ممی! وہ جو آدمی ہمارے گھر آیا تھا، اس کا کیا نام تھا؟” کام کرتے ہوئے حسنِ جہاں نے اس کے سوال کو دھیان سے نہیں سنا۔
”کون سا آدمی؟” اس نے مومن کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
”جس کی وجہ سے بابا خفا ہو کر گئے تھے۔” حسنِ جہاں ساکت ہو گئی۔ ساکت شاید چھوٹا لفظ تھا، وہ برف ہوئی تھی۔ پلٹ کر اس نے قلب مومن کو دیکھا۔ وہ ڈیڑھ سال بعد بھی اس شخص کو یاد کر رہا تھا جس کی وجہ سے طہٰ۔ وہ سوچ نہیں سکی۔ مومن اسے دیکھ رہا تھا جیسے عدالت کے سامنے کٹہرے میں کھڑے مجرم کو جج دیکھتا ہے۔
”تمہیں سب یاد ہے؟” وہ اس سے یہ سوال نہیں کرنا چاہتی تھی جو کر رہی تھی۔ مومن نے سرہلایا۔ وہ آگے بڑھ آئی۔ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی۔ اسے دونوں کندھوں سے پکڑا اور کہا۔
”وہ کوئی آدمی نہیں ہے۔ تم سب کچھ بھول جاؤ۔” وہ اس سے عجیب منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی۔ مومن نے سر اثبات میں ہلایا پھر اس سے پوچھا۔
”وہ دوبارہ تو نہیں آئے گا نا؟” اس کے انداز میں ایک عجیب سا خوف تھا جیسے وہ ہر اس چیز کو وہاں آنے سے روک دینا چاہتا ہو جو اس کے باپ کو خفا کر سکتی تھی۔
”کبھی نہیں۔” حسن جہاں نے بے اختیار کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، بیرونی دروازے کی بیل بجی۔ مومن نے یک دم ماں سے اپنے آپ کو چھڑایا۔
”بابا آگئے۔” وہ بھاگا تھا، بیرونی دروازے کی طرف اور حسنِ جہاں بھی اسی طرح باہر لپکی۔ ڈیڑھ سال بعد وہ اس سے ملنے، اسے دیکھنے جا رہی تھی جو اس کا محبوب تھا اور اس سے خفا تھا اور اب لوٹ آیا تھا تو وہ عجیب سرشاری اور بے خودی کے عالم میں تھی۔
مومن نے دروازہ کھولا اور دروازے کے سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ ساکت ہوا۔ ایسا ہی سکتہ اس کے پیچھے آتی حسنِ جہاں کو ہوا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہی چلی گئی۔ چہرے پر کچھ تھا ہی نہیں جو اسے صاف کرنا ہو مگر پھر بھی آنکھیں بند کیے یوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں لیے پانی کو منہ پر مارنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ شاید پانی اس کی شرم ساری دھو ڈالتا جو اس نے اس دن محسوس کی تھی اور اس ذلت کو بھی جو اس وقت اسے اپنے ماتھے پر چبھ رہی تھی۔
”کچھ تو عقل کرتی مومنہ! سیدھا انکار کر کے ہی آگئی۔” اس نے اپنے عقب میں ثریا کی آواز سنی جو اسے تولیہ پکڑانے آئی تھی۔
”تو اور کیا کرتی منی اسکرٹ پہن کر دکھا دیتی۔” وہ تلخ ہونا نہیں چاہتی تھی لیکن ہو گئی۔ تولیہ سے گیلے چہرے کو رگڑتے ہوئے اس نے جیسے اپنی ہزیمت بھی چھپائی۔
”تو انہیں دو تین سین کر کے دکھائی۔ وہ ایکٹنگ دیکھتے تو خود رول دیتے تجھے۔” اس نے تولیہ ہٹا کر ماں کو دیکھا۔ ان کی سادگی پر اسے ہنسی آئی حالاں کہ اسے رونا آرہا تھا۔
”اماں! یہاں کسی کو ایکٹنگ، ایکسپریشنز پرفارمنس نہیں دیکھنی۔ یہاں سب کو ایکٹریس کا صرف جسم دیکھنا اور دکھانا ہوتا ہے۔” اس نے اندر جاتے ہوئے کہا۔ ثریا کو بے اختیار جھجک محسوس ہوئی۔ مومنہ کبھی ایسی باتیں تو نہیں کرتی تھی۔
”ایسا بھی کلیوگ نہیں ہے۔” ثریا نے بے اختیار اس انڈسٹری کا دفاع کرنے کی کوشش کی جس کا وہ کبھی حصہ رہی تھی۔
”کلیوگ ہی ہے اماں۔ آپ کا زمانہ نہیں ہے یہ۔ اب سینما میں سب شریف اور خاندانی لوگ جاتے ہیں۔ اپنے اپنے خاندان کے ستھ مگر دیکھنے وہ بھی آئٹم نمبر ہی جاتے ہیں۔” اس نے پلٹ کر ماں کو جیسے اکیسویں صدی میں لانے کی کوشش کی۔
”پر ایک چیز پرفارمنس بھی تو ہوتی ہے۔ ایکٹنگ بھی تو ہوتی ہے۔” ثریا نے اپنے زمانے سے چپکے رہنے کی آخری کوشش کی۔
”وہ آپ کے زمانے میں ہوتی ہو گی اور اس کی قدر بھی آپ کے زمانے میں ہی ہوتی ہو گی۔ میں جس زمانے میں ہوں اماں! اس مںی صرف گلیمر بکتا ہے۔ قیمت ہوتی ہے ہر چیز کی، ”قدر” نہیں۔” وہ ماں سے اب مدھم لہجے میں بات کر رہی تھی۔ جو کچھ اس کے ساتھ آج ہوا تھا، وہ ان کا قصور نہیں تھا۔
”اتنا پرانا زمانہ تو نہیں تھا میرا۔” ثریا کے جیسے کلیجے پر ہاتھ پڑا۔
”بس یہی کوئی پندرہ بیس سال پہلے ہی کی تو بات ہے۔” وہ پھر بڑبڑائی۔
”پندرہ بیس سال دو دہائیوں کو کہتے ہیں اماں۔”
وہ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ ثریا نے جیسے ہتھیار ڈال دیے۔ اس انڈسٹری کا دفاع نہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے وہ اب پرانی اور آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکی تھی۔
”یہ فلم مل جاتی تو جہانگیر کا گردہ ٹرانسپلانٹ ہو جاتا۔ مومن کی ہر فلم ہٹ ہوتی ہے۔ یہ فلم بھی ہٹ ہو جاتی تو تم اسٹار بن جاتیں۔ کام ہی کام ہوتا تمہارے پاس۔ اس کے بعد کوئی فلم نہ بھی ملتی تو بھی ٹی وی پر کام ہی مل جاتا۔ جہانگیر کا علاج۔”
ثریا خودکلامی کر رہی تھی۔ یوں جیسے اسے اس خیالی محل کو توڑتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہو جو وہ کل سے مومن کی فلم میں اسے کام مل جانے کے تصور پر ہی کھڑا کر کے بیٹھ گئی تھی۔ جملے کے آخر تک جاتے جاتے اس نے مومنہ کا چہرہ دیکھا اور اس کے چہرے کی ندامت نے جیسے کچھ دیر کے لیے ثریا کی آواز چھینی۔ مومنہ اب ماں کا چہرہ کسی مجرم کی طرح دیکھ رہی تھی جس کا جرم ثابت ہو گیا تھا، اب سزا کا اعلان باقی تھا۔
”کھانا۔ کھانے کا تو پوچھا ہی نہیں میں نے۔” ثریا کو یک دم خیال آیا۔ اس کے پاس اب بھی ایک چیز ایسی تھی جس کا ذکر کر کے وہ اس صورت حال سے مومنہ اور خود کو بچا سکتی تھی۔
”نہیں۔ بھوک نہیں ہے اماں۔” مومنہ اندر کمرے میں جانے کے لیے پلٹی۔
”شوٹ پر کچھ کھا لیا تھا نا؟” ثریا پیچھے آئی یوں جیسے اپنا احساس جرم کم کرنا چاہتی ہو۔
”ہاں۔ کھا لیا۔” اس نے آج کچھ بھی نہیں کھایا تھا لیکن اس کے باوجود اسے بھوک بھی نہیں تھی۔ کچھ دن ہوتے ہیں
اچھے اور کچھ دن ہوتے ہیں برے۔ مگر مومنہ سلطان کے دن کم برے اور زیادہ برے کیcategories میں بٹے ہوئے تھے۔ اندر کمرے میں نیم تاریکی تھی اور ٹھنڈک مگر وہاں جہانگیر بھی تھا۔ اس کے انتظار میں بیٹھا۔ دونوں کی نظریں ملیں اور جہانگیر نے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ اس کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ مگر شاید اس نے صحن میں ہونے والی ساری گفتگو سن لی تھی۔ بہن کے لیے اس کے پاس سوال نہیں تھے مگر اس کی نگاہ میں ہمدردی تھی۔
وہ جس آگ کے دریا سے روز گزر کر آتی تھی وہ دریا اس کی وجہ سے مومنہ کی زندگی میں آیا تھا اور جہانگیر کو اس پر ندامت تھی، رنج تھا مگر وہ بے بس تھا۔ بالکل اس گھر کے باقی تینوں افراد کی طرح۔ وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ کہہ بھی دیتا تو بھی وہ نہ چھوڑتے، کبھی ان سب نے بہت اچھا وقت بھی دیکھا تھا، پہلے تب جب سلطان فلم انڈسٹری میں کام کر رہا تھا پھر تب جب جہانگیر کو چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام ملنا شروع ہو گیا تھا، مگر وہ سارا وقت اب صرف یادوں اور خواب کی شکل میں تھا۔ زندگی وہ تھی جو ان کے سامنے کھڑی تھی۔
”تم ایک دن بہت بڑی اسٹار۔” لمبی خاموشی کے بعد جہانگیر نے اس کے لیے جو جملہ ڈھونڈا مومنہ نے اسے بیچ میں ہی کاٹ دیا۔
”میں خواب نہیں دیکھتی جہانگیر۔ نہ خیالی پلاؤ پکاتی ہوں اور تم مجھے تسلی مت دو۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میں ٹھیک ہوں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۱

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!