وہ بھاگتا جا رہا تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ، کھیتوں میں لہلاتی ہوئی سبز فصل کے بیچوں بیچ اس پگڈنڈی پر جو اس جنگل کی طرف مڑ رہی تھی۔ اس کی سائیکل کا ٹائر پنکچر تھا اور مومن کل تک انتظار نہیں کر سکتا تھا۔
سارے دیو، جن، بھوت، چڑیلیں اسے سب بھول چکی تھیں جو اس جنگل میں کہیں نہ کہیں بستے تھے اور جن سے پورا قصبہ بچوں کو ڈراتا تھا۔ یاد تھا تو بس اسے وہ لیٹرباکس یاد تھا جس میں ڈالے ہوئے خط اللہ تک پہنچ گئے تھے اور وہ اب تصدیق چاہتا تھا کہ یہ سب جھوٹ نہیں تھا۔ اس کی ماں کی کوئی طفل تسلی بھی نہیں تھی۔
لیٹرباکس وہیں پڑا تھا جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس سوکھے ہوئے درخت کے گرے ہوئے تنے پر جو مسلسل ہونے والی بارشوں میں اسی تنے کی طرح نم تھا۔ مومن چلتے ہوئے تنے کے پاس آیا اور اس نے بے تابی سے لیٹرباکس کو درخت کے تنے پر لٹایا اور اس کا نیچے والا وہ حصہ کھولا جس کو کھول کر خط نکالے جاتے تھے۔ لیٹرباکس بالکل خالی تھا۔ اس کے تیس کے تیس خط اللہ تک پہنچ چکے تھے۔ مومن کا دل چاہا وہ بے اختیار اچھلے، چیخے اور چلائے یا پھر تھوڑا سا ڈانس کر لے تو جو جواب اس کے پاس آیا وہ اللہ کی طرف سے آیا تھا۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر جیسے اپنے کھلے ہوئے ہونٹوں اور کھِلی کھِلی پڑتی مسکراہٹ کو بیک وقت چھپایا۔ لیٹرباکس کا نچلا حصہ بند کیا اسے سیدھا کر کے تنے پر رکھا۔ ایک بار پھر مسکرایا، پلٹا اور برق رفتاری سے دوبارہ بھاگنے لگا۔ پیروں کے نیچے آنے والے درختوں کے خشک اور سبز پتوں نے اس بار کوئی چرمراہٹ نہیں کی کیونکہ وہ سب بارش کے پانی میں بھیگے ہوئے تھے البتہ جہاں جہاں بھاگتے ہوئے مومن کے قدم پڑ رہے تھے وہاں وہاں پیروں کے نشان گڑھوں کی شکل میں پڑ رہے تھے۔ کچھ چھینٹے اُڑ کر اس کی پتلون پر بھی لگے۔ پر قلبِ مومن کو اس وقت کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ نہ کیچڑ کی، نہ جنگل کے ویرانے کی، نہ ہی اس بات کی کہ اسے وہاں سے بھاگتے ہوئے ایک لمبا فاصلہ طے کر کے واپس گھر پہنچنا تھا۔ اپنی ماں کے پاس حسنِ جہاں کے پاس۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جیولری کے اس کھلے ڈبے کے اندر کچھ بھی نہیں تھا۔ جو کچھ تھا، اس ڈبے کے گرد ڈریسنگ ٹیبل پر بکھرا پڑا تھا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے حسن جہاں بیٹھی آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ سر پر جوڑے کی شکل میں لپیٹے ہوئے بالوں کو اس نے ہیئرپن نکالتے ہوئے کھولا۔ وہ سر سے کندھوں تک آئے پھر کندھوں سے نیچے اس کی کمر سے لپٹتے ہوئے گرتے چلے گئے۔
بستر پر لیٹا ہوا قلبِ مومن کروٹ لیے کھلی آنکھوں سے حسنِ جہاں کو دیکھتا گیا۔ اس کی ماں بے پناہ خوب صورت تھی۔ اس نے بہت لوگوں سے سنا تھا اور ان لوگوں میں اس کا اپنا باپ بھی تھا اور اب ایک بار پھر وہ اپنی ماں کو اسی طرح اس آئینے کے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا جس طرح وہ اس کے باپ کے جانے سے پہلے کبھی کبھار بیٹھ کر تیار ہوا کرتی تھی۔ سنگھار کرتی تھی، زیور پہنتی تھی اور ”حسنِ جہاں” بن جاتی تھی پھر اس کی ماں نہیں رہتی تھی کیوں کہ اس پر کسی کی نظر ٹھہرتی ہی نہیں تھی مگر ایسا کبھی کبھار ہوتا تھا۔ کسی تہوار پر کسی خاص دن یا اس وقت جب وہ یا اس کا باپ کسی بات پر بہت خوش ہوتے۔
اپنے باپ کے جانے کے بعد مومن نے کبھی اسے سنگھار کرتے نہیں دیکھا تھا۔ زیور پہننا تو دور کی بات اس نے کبھی اپنی ماں کو اس آئینے کے سامنے بیٹھا بھی نہیں دیکھا جس کے سامنے وہ رات کے اس پہر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ رات کے اس پہر اس کی اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر روتے اور سسکتے ہوئے وہ خط لکھا کرتی جسے وہ اس الماری والے ڈبے میں ڈال دیتی تھی۔ مومن کو یہ نہیں پتا تھا کہ وہ ان خطوں میں کیا لکھتی ہیں مگر یہ ضرور پتا تھا کہ وہ یہ خط کس کو لکھتی ہیں۔ اس کے باپ طہٰ عبدالعلی کو۔
”ممی! آپ کے پاس کتنے زیادہ زیور ہیں!” وہ بہت دیر بستر پر خاموش لیٹا نہیں رہ سکا۔ اٹھ کر حسن جہاں کے پاس چلا آیا اور ڈریسنگ ٹیبل پر بکھرے ہوئے زیورات میں سے ایک ہار اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔ حسن جہاں اپنے کانوں میں جھمکے پہن رہی تھی، اس کی بات پر ایک لمحہ کے لیے جیسے وہ ٹھٹکی پھر بے اختیار مسکرائی۔
”سب نقلی ہیں۔” اس نے جیسے مومن کو بتایا مگر اس نے اس کی بات پر غور نہیں کیا وہ اس وقت اس خوب صورتimitation jewelry کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا۔
”آپ ہمیشہ ایسے رہا کریں۔” ایک جھومر اس کے ماتھے کے اوپر بالوں میں لٹکاتے ہوئے اس نے ماں سے یک دم فرمائش کی۔
”کیسے؟” وہ ہنسی۔
”ایسے خوب صورت اور خوش۔” مومن کو جتنے آسان الفاظ میں اسے سمجھانا آیا اس نے سمجھا دیا۔
اس کی ماں نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا، یوں جیسے حیران ہوئی ہو کہ وہ کیسے جانتا تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ ماوؑں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ صرف وہی اولاد کا چہرہ پڑھ سکتی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا، ان کی اولاد بھی ان کا چہرہ ویسے ہی پڑھ سکتی ہے۔
”تمہارے بابا آرہے ہیں۔ اب ہمیشہ خوش اور خوب صورت رہوں گی۔” اس نے مومن کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
”میں نے بلایا ہے، اس لیے آرہے ہیں۔” مومن جتائے بغیر نہیں رہ سکا۔
”ہاں، جانتی ہوں تمہارے بلانے پر ہی آرہے ہیں۔ میرے بلانے پر تو کبھی نہ آتے۔” وہ بچہ تھا پھر بھی ماں کے لہجے میں چھلکتی اداسی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا۔
”بابا گئے کیوں تھے؟” وہ سوال قلبِ مومن نے پہلی بار نہیں کیا تھا۔ ہر روز کرتا تھا۔
”مجھ سے ایک غلطی ہو گئی تھی۔” جواب وہی آیا جو ڈیڑھ سال سے آرہا تھا۔
”تو آپ معافی مانگ لیتیں۔” وہ حل بھی مومن ڈیڑھ سال سے اس کے سامنے رکھ رہا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ معافی ایک بات تھی معافی ملنا دوسری۔
”مانگی تھی۔” اس کی آواز بھر آئی اور اس نے مومن سے نظریں چرا لیں۔
مومن ماں کا لہجہ ”بریل” کی طرح پڑھتا تھا۔
”میں بابا سے کہوں گا، آپ کو معاف کر دیں۔” یہ وعدہ بھی پرانا تھا اور مرہم بھی۔ وہ حسنِ جہاں کے بالوں کو اب اپنی انگلیوں کے گرد لپیٹ رہا تھا مسحور مدہوش انداز میں جیسے جادو ٹونا کر رہا ہو۔
”بابا آئیں گے تو آپ سفید گلاب لگائیں گی نا؟” اس نے جیسے ماں کو یاد دلایا۔
”سفید گلاب تو تمہارے بابا لاتے تھے میرے لیے۔ وہ لائیں گے تو لگا لوں گی۔” حسنِ جہاں کو پتا نہیں کیا یاد آیا۔
”میں لا دوں گا آپ کو۔” اس نے بے حد پرجوش انداز میں ماں کو اپنی خدمات پیش کیں۔
”تم کہاں سے لاوؑ گے؟” وہ ہنسی۔
”کہیں سے بھی توڑ کر۔” وہ سوچ میں پڑا۔
”یہ گلاب کا موسم نہیں ہے۔” حسن جہاں نے اسے یاد دلایا۔
”میں آپ کے لیے کہیں سے بھی لے آؤں گا۔”
وہ ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔ ایسا وعدہ تو کبھی طہٰ نے بھی نہیں کیا تھا۔ اس کی ہنسی اس کے آنسو ساتھ لے کر آئی تھی۔ پرانی سہیلی کی طرح۔ مومن نے ماں کی خوب صورت آنکھوں کو ہمیشہ کی طرح پانی سے بھرتے دیکھا۔
”ممی! مجھے آپ روتے ہوئے اچھی نہیں لگتیں۔” اس نے جیسے بے قرار ہو کر ماں سے کہا۔ طہٰ بھی یہی کہتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہر بات میں اسے طہٰ کی یاد دلاتا تھا۔ حسن جہاں نے الٹے ہاتھ سے آنسو رگڑے۔ آنکھیں خشک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پھر اسے دیکھ کر مسکرائی یوں جیسے اسے خوش کرنا چاہتی ہو۔
”آپ مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں یا بابا سے؟” قلبِ مومن نے اس سے سوال کیا۔
وہ طہٰ کے سامنے بھی اس سے یہی پوچھا کرتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد آج پہلی بار اس سے دوبارہ پوچھ رہا تھا۔
”تم سے زیادہ بابا سے اور بابا سے زیادہ تم سے۔” وہ بے اختیار ہنسی۔ مومن نے برا مانا۔
”یعنی زیادہ کس سے؟” اس کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔
”جو مجھ سے زیادہ پیار کرتا ہے اس سے۔” حسنِ جہاں نے بے ساختہ کہا۔
”وہ تو میں کرتا ہوں۔” حسنِ جہاں نے قلبِ مومن کی آنکھیں دیکھیں۔ کیا آنکھیں تھیں، کیا معصومیت تھی۔ کیا سچ تھا اور کیا اعتراف تھا۔ محبوب کا اظہار محبت عورت دل پر لکھتی ہے۔ اولاد کا اظہار محبت روح پر۔ پہلا قبر تک جاتا ہے، دوسرا آسمانوں تک ساتھ لے کر جاتی ہے۔
”ممی! مجھے نیند آرہی ہے۔” اس نے ماں کے بالوں کو اپنی انگلیوں کے گرد سے کھولتے ہوئے یک دم جمائی لی۔
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اگر وہ نہ ہوتا تو اس کی زندگی میں کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ وہ قلبِ مومن کو بستر پر جا کر لیٹتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ ان سارے نقلی زیورات میں جو وہ اپنے اردگرد پھیلائے بیٹھی تھی۔ صرف ایک اصلی تھا اس کے پاس۔ قلبِ مومن۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});