خالدہ سعید نے انہیں تسلی دی۔
”بیرون ملک سفر کے دوران اکثر ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں۔ مشتاق صاحب نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ کسی طرح بات بن جائے مگر ایئر پورٹ سٹاف کی بھی مجبوری تھی۔ ٹریول ایجنسی والوں نے ذمہ داری اٹھائی ہے کہ عمران صاحب کو کل پرسوں تک ترکی روانہ کردیں گے۔ جو کچھ بھی ہوا اس میں کسی کا قصور نہیں تھا۔ تم پریشان نہ ہو سفر کرتے ہوئے انسان کو اپنا دل مضبوط رکھنا پڑتا ہے۔”
خالدہ سعید نے دھیرے سے سمجھایا۔
وہ رشتے میں یاسمین مشتاق کی پھپھو بھی لگتی تھیں۔
میں چونکہ کلب میں نئی تھی اس لئے مجھے زیادہ لوگوں کے بارے میں علم نہیں تھا اور پھر مجھے تو کسی کو تسلی اور دلاسہ دینا آتا ہی نہیں تھا۔
کچھ دیر ہم یونہی بیٹھے رہے۔ جہاز نے ٹیک آف کرلیا اور اب ہوا کے دوش پر رواں دواں تھا۔
کچھ دیر بعد خالدہ سعید نے اپنے بارے میں بتایا۔
”میرے میاں میجر یسٹریٹ ریٹائر ہوئے تھے اور میں بھی کچھ خواتین کے ساتھ مل کر ایک چیریٹی کلب چلاتی ہوں۔ مشہور مصنفہ رضیہ بٹ بھی ہمارے کلب کی ممبر تھیں۔ میں اس سے پہلے بھی ترکی جاچکی ہوں۔ میری بیٹی ڈاکٹر ہے اور امریکہ میں رہتی ہے۔ اکثر میں اس کے پاس جاتی رہتی ہوں۔ زیادہ تر میں بزنس کلاس میں سفر کرتی ہوں۔ یہ تو اکانومی کلاس ہے اور مجھے اکانومی کلاس میں سفر کرنے کا زیادہ تجربہ بھی نہیںہے۔”
خالدہ سعید نے کہا۔
”بزنس کلاس کہاں ہے؟”
میں نے ہونقوں کی طرح پوچھا۔
”جہاز میں سب سے آگے بزنس کلاس ہوتی ہے اور سب سے پیچھے اکانومی کلاس والے لوگ بیٹھتے ہیں۔”
انہوں نے جواباً کہا۔
”کیا ہم بزنس کلاس جاکر دیکھ سکتے ہیں؟”
میں نے بے ساختہ پوچھا۔
”اب جہاز میں کون چلتا پھرتا اور چہل قدمی کرتا رہے۔ ایئر ہوسٹس نے کہنا ہے کہ یہ جہاز ہے تفریحی پارک یا سڑک نہیں ہے۔ آرام سے اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور سیٹ بیلٹ باندھ کر رکھیں۔”
وہ ہولے سے ہنس کر بولیں۔
یاسمین مشتاق بھی خود کو سنبھال چکی تھیں اور سنجیدہ انداز میں بیٹھی تھیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے بارے میں بتایا۔
”میرے تین بیٹے، ایک بیٹی اور دو بہوئیں ہیں اور یہ اگلی سیٹ پر جو لڑکیاں بیٹھی ہیں ان میں ایک میری بیٹی رمشہ ہے اور دوسری اس کی سہیلی اسمارہ ہے۔ یہ دونوں میڈیکل کالج کی طالبات ہیں، اور بائیں طرف جو لیمن کلر کے کپڑوں والی خاتون بیٹھی ہیں وہ میری چھوٹی بہن رفعت ہے میرے بچے پیار سے اسے بے بی آنٹی کہتے ہیں۔ ساتھ اس کے میاں عبدالستار بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ فیصل آباد سے آئے ہیں۔ چیئرمین کی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔مجھے ان لوگوں کی فکر تھی جنہوں نے دوسرے شہروں سے لاہور ایئرپورٹ پر آنا تھا۔ اس سے پہلے ہم بہت سے لوگوں کا ٹرپ لے کر مصر گئے تھے اور وہ بھی ایک یادگار ٹرپ تھا۔ اس بار سب کے اصرار پر ہم نے ترکی جانے کا پلان بنایا۔
استنبول خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ ترکی کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار ٹؤر زم پر ہے۔ ہر سال پاکستان سے بے شمار لوگ سیاحت کی غرض سے ترکی جاتے ہیں تو ہم نے بھی سوچا کہ اس سال ترکی کی سیر کا پروگرام بناتے ہیں۔” انہی باتوں کے دوران سفر گزرتا رہا۔
کچھ مسافر سوگئے، کچھ باتوں میں مصروف ہوگئے۔ مجھے سفر کے دوران نیند نہیں آتی، میں اپنے ساتھ بیٹھی خواتین سے باتوں میں مصروف ہوگئی۔
کچھ دیر بعد خوبصورت ایئرہوسٹس نے سلیقہ مندی سے قرینے کے ساتھ سب کو کھانا سرو کیا جہاز میں سفر کرتے ہوئے آپ کو ایک خاص طرح کا ڈسپلن نظر آتا ہے۔ کھانے کی سجاوٹ دلکش اور ذائقہ لذیذ تھا۔ چاول، چکن کا سالن، دہی، سلاد، مکھن، بن اور چاکلیٹ کیک، پانی کے ساتھ جوس بھی سرو کئے گئے۔
سب مسافر کھانے میں مصروف ہوگئے اور ماحول میں یکدم رونق سی محسوس ہونے لگی۔
پانچ گھنٹوں کا سفر تھا۔ ہماری فلائٹ کا ٹرانیٹ جدہ میں تھا۔ ہم نے کچھ گھنٹے جدہ میں رکنا تھا پھر صبح جدہ سے استنبول روانہ ہونا تھا۔
رات کے کسی پہر ہم جدہ ایئر پورٹ پہنچے۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے اور ڈیوٹی فری شاپ پار کرکے ہم مسافروں کے ہال میں پہنچے جہاں لوگوں کا بے حد رش تھا۔
جدہ ایئرپورٹ بے حد مصروف ایئرپورٹ ہے جہاں مختلف پروازیں رکتی ہیں۔ مدینہ سے عمرہ زائرین بھی وہیں آتے ہیں۔ وہاں مختلف ملکوں سے آئے مسافر بیٹھے تھے۔
وہاں ہم نے پانی بھی خرید کرپیا۔ اب پاکستان کی یاد آئی۔
ہم کونے میں بنے منی ایکسچینج کی طرف آگئے جہاں کھڑکی کے پیچھے شیخ بیٹھا تھا۔
میں نے چند ڈالرز دے کر ریال لئے۔
خالدہ سعید نے چند پاکستانی نوٹ دیئے جو اس شیخ نے واپس کردیئے۔ خالدہ سعید نے اصرار کیا تو شیخ نے عربی میں کچھ کہہ کر تالی بجائی ۔ میں یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئی کہ مجھے یہ انداز بہت عجیب لگا۔
”شیخ تالی کیوں بجارہا ہے؟”
میں نے حیرت سے پوچھا۔
”یہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہہ رہا ہے خلاص، مطلب کہ اب جائو۔ یہ پاکستانی کرنسی نہیں لیتے صرف ڈالر لیتے ہیں۔”
خالدہ نے ذرا خفا ہوکر تشریح کی۔
”شکر ہے میں نے احتیاطاً مختلف کرنسی ساتھ رکھ لی تھی، ڈالر، روپے اور ریال اور ٹرکش لیرا۔ سوچا کیا پتا پردیس میں کب کون سی کرنسی کی ضرورت پڑجائے۔ ہر جگہ منی ایکسچینج بھی نہیں ہوتا۔”
ہم نے اپنی عقلمندی کو سراہا۔
وہاں سے ہم Prayer Room (نماز پڑھنے والے کمرے) میں آگئے۔
وہاں کچھ خواتین سو رہی تھیں۔
میں نے ہینڈ کیری سے شال نکال کراوڑھی ، دوپٹے کو فولڈ کرکے تکیہ بنایا اور کچھ دیر کے لئے سونے لیٹ گئی۔ میں رات کو دیر تک نہیں جاگ سکتی تھی اگر نیند پوری نہ ہو تو طبیعت بوجھل رہتی تھی۔
سفر کی تکان بھی تھی۔ ہمارے گروپ کے بہت سے لوگ یہاں موجود تھے۔
یوں سونے کی کوشش کرتے ہوئے ہم نے اپنے گھر کو بہت یاد کیا۔ ہمیں احساس ہوا کہ جب انسان پردیس میں ہوتا ہے تو اسے کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور اپنا گھر کس شدت سے یاد آتا ہے۔
ہم نے چند گھنٹے نیند پوری کی۔
صبح سویرے میری آنکھ کھلی۔ منہ ہاتھ دھوکر باہر آئے۔ تو تازہ چائے بن رہی تھی۔ لوگ ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔ ہمیں بھی صبح صبح چائے پینے کی عادت تھی۔ مگر ہم نے سوچا جہاز میں ہی ناشتہ کرلیں گے۔ کچھ ریال بچا لیتے ہیں۔ بیرون ملک کے سفر نے ہمیں کفایت شعاری بھی سکھادی ۔
کچھ دیر بعد ہم جدہ سے استنبول کے لئے روانہ ہوئے۔ جہاز میں ہی ناشتہ کیا۔ تین گھنٹے بعد ہم صبیحہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ استنبول پہنچے تو دنیا کا طویل ترین ایئرپورٹ ہے کہ ہم ہینڈ کیری گھسیٹتے ہوئے چل چل کر تھک گئے۔
روشنیوں میں چمکتا دمکتا ہوا ایئرپورٹ جہاں طویل شاہراہوں جیسے راستے تھے۔
وہاں مختلف شاپنگ سینٹرز، دکانیں، کافی شاپ اور ریسٹورنٹ بھی تھے۔
نِک سِک سے تیار خوبصورت اور اسٹائلش لوگ بے فکری اور لاپرواہی سے چل پھر رہے تھے۔
استنبول آکر جس چیز کا اثر سب سے زیادہ نظر آتا ہے وہ ترکوں کی خودمختاری اور اعتماد ہے۔کسی دور میں ترک جنگجو قوم ہوا کرتے تھے اور اس بہادری، اعتماد اور نڈر انداز کا اثر آج بھی ان کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔
یہ استنبول تھا۔
ترکی کا خوبصورت اور تاریخی شہر۔
وہ استنبول ، جس کے بارے میں ہم کتابوں اور کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے، جسے دیکھنے کی خواہش دور بیٹھی اس پاکستانی لڑکی کے دل میں ستارے کی طرح چمکتی تھی۔
”کیا میں واقعی استنبول میں ہوں؟”
میں نے اردگرد کے اجلے منظر دیکھتے ہوئے خوشی اور ایکسائیٹڈ انداز میں کہا۔
کل تک میں لاہور میں بیٹھی تھی اور اپنے کپڑے استری کروا رہی تھی۔سوٹ کیس میں چیزیں رکھ رہی تھی اور سوچتی تھی کہ استنبول کیسا ہوگا۔ بچپن میں مجھے سکول کے زمانے میں پڑھا گیا اردو کا مضمون اتاترک یاد آگیا جو مصطفی کمال پاشا کے متعلق تھا۔ وہ مضمون ترکی سے ہمارا تعارف تھا۔ اس مضمون میں ہم نے استنبول اور انقرہ کے بارے میں پڑھا تھا۔ ہم نے بچپن میں اردو کی درسی کتابوں میں بے شمار مضامین پڑھے مگر نجانے کیوں وہ مضمون میرے ذہن کے کسی گوشے میں آباد رہا۔ کچھ عرصہ قبل میں ترکی کے ڈرامے ذوق و شوق سے دیکھا کرتی تھی۔ مجھے استنبول کا نیلا سمندر، ساحل، خلافت عثمانیہ کے دور میں تعمیرکردہ عمارات ، محلات، مساجد بہت پسند تھیں۔ مگر میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک دن استنبول کی زمین پر قدم رکھوں گی اور اس خوبصورت شہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی۔
میں ایک ٹرانس کے عالم میں چل رہی تھی۔
”جب انسان پہلی بار باہر جاتا ہے تو ایسی ہی ایکسائٹمنٹ محسوس کرتا ہے۔”
کسی نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ میں کسی خیال سے چونکی۔
”میرا خیال ہے کہ خوشی اور ایکسائٹمنٹ کا تعلق پہلی یا دوسری بار سے نہیں ہوتا۔ میری جب بھی کوئی دیرینہ خواہش پوری ہوتی ہے تو میں خوش اور ایکسائیٹڈ ہوتی ہوں۔ خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ دل خوش ہوتو ساری دنیا خوبصورت لگتی ہے۔”
میں نے مسکرا کر کہا۔
”آپ کوئی فلاسفر لگتی ہیں!”
میرے ساتھ چلتی ہوئی خوش مزاج سی خاتون نے خوشدلی سے کہا۔
”فلاسفر تو نہیں البتہ میں ایک رائٹر ہوں۔ کتابیں، کہانیاں، سفر نامے اور ٹی وی ڈرامے لکھتی ہوں۔ مگر سیانے کہتے ہیں کہ رائٹرز کی باتوں میں فلاسفی ہوتی ہے۔”
میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”خوب، ادبی لوگوں کا ذوق لاجواب ہوتاہے۔ ان کی گفتگو انٹلیکچوئیل ہوتی ہے۔ جو لوگ خوبصورت جملے لکھ سکتے ہیں۔ وہ خوبصورت ذہن اور تخیل کے حامل ہوتے ہیں۔ میرا نام نگہت خاور ہے اور یہ میری دوست شاہین نجم ہیں۔ ہم لوگ لاہور سے آئے ہیں۔”
ساتھ چلنے والی خاتون مسکرا کر بولیں۔
”خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔”
میں نے اخلاق نبھاتے ہوئے کہا۔
”سفر انسان کو بہت کچھ سکھاتاہے۔ ہم سفر اچھے ہوں تو سفر کا مزہ بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔ میں اس سے پہلے بھی ترکی آچکی ہوں۔ مگر ترکی ایسی جگہ ہے جہاں انسان بار بار آنا چاہتا ہے۔ شاہین نجم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میری طرح ان کے پاس بھی ایک ہینڈ کیری تھا۔ طویل شاہراہ جیسے ایئرپورٹ پر ہینڈ کیری کے ساتھ چلنا مشکل کام تھا۔ ساتھ چلتے ہوئے ہم باتیں بھی کرتے رہے پھر ہم اپنا سامان لینے پہنچے تو سامان والی پٹی چل رہی تھی۔ جس پر مختلف رنگوں کے سوٹ کیس اور بیگز رکھے تھے۔ میرا سوٹ کیس فیروزی رنگ کا تھا جو میں نے بہت تلاش بسیار کے بعد چھان پھٹک کر ہائپر سٹار سے لیا تھا۔ اب ہم مشکل میں پڑگئے کہ وہاں نیلے اور فیروزی رنگ کے اور بھی سوٹ کیس نظر آرہے تھے۔ ان میں کون سا سوٹ کیس میرا تھایہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
”میرے سوٹ کیس پر گلابی رنگ کا ربن لگا ہوا ہے۔”
ایک خاتون نے بآواز کہا اور فوراً ہی اپنا سامان پہچان کر سوٹ کیس اتارا اور یہ جاوہ جا۔ ہم کھڑے سوچتے ہی رہ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنے سامان پر مارکر سے جعلی حروف میں اپنے نام لکھے ہوئے تھے۔
وہاں مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ لوگ جب بھی بیرون ملک جائیں تو اپنے سامان پر کوئی نشانی ضرور رکھیں ورنہ بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ لوگ اپنا اپنا سامان لے کر باہر کی طرف جارہے تھے۔ میں سامان والی پٹی کے کنارے رفتاں و خیزاں انداز میں کھڑی تھی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ رش کم ہونے لگا۔ یکدم ایک کھلتے فیروزی رنگ کے سوٹ کیس کو آتا دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ ضرور یہی میرا سوٹ کیس ہے۔ میں نے فوراً وہ سوٹ کیس اتار لیا۔ تالا چیک کیا، وہی سنہری تالا تھا۔ ٹیگ کے ساتھ نمبر ملائے، شکر پڑھا کہ یہی میرا سامان تھا۔ ہم بھی دیگر لوگوں کی تقلید میں باہر کی سمت چل دیئے۔ یہاں کوئی قلی اور سامان اٹھانے والا نہیں تھا۔ ہمیں سامان اٹھانے کی عادت نہ تھی مگر پھر سوچا کہ یہ ناز نخرے پاکستان ہی چھوڑ آنے چاہیے۔ وہاں ہمیں ترکی کا گائیڈ لینے آیا ہوا تھا۔ اس نے ہمیں مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ ساتھ ایک دراز قد اجنبی شخص بھی تھا۔
”یہ کون ہے؟”
ہم نے اپنی ٹؤ ر آپریٹر عائشہ سے پوچھا۔
”یہ ہماری ٹریول کمپنی کے باس عون صاحب ہیں۔ باکو سے آئے ہیں۔”
اس نے جواباً کہا۔
”اچھا۔”
ہم نے سرہلادیا۔
رش میں دو خواتین نگہت اور شاہین گروپ سے بچھڑ گئیں۔ ہم لوگوں نے انہیں ڈھونڈنے کی کافی کوشش کی مگر اتنے وسیع ایئرپورٹ پر کسی کو تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔ سب مسافر پہلے ہی تھکے ہوئے تھے۔ عائشہ، عون اور مشتاق صاحب ان خواتین کو ڈھونڈنے ایئرپورٹ پر ہی رک گئے۔ پردیس کا معاملہ تھا، پریشانی الگ تھی باقی لوگ گائیڈ کے ہمراہ بس میں سوار ہوگئے۔ اب ہم بھی کب تک ایئرپورٹ پر بیٹھے رہتے۔ ہم نے سامان لوڈ کروایا اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ گائیڈ ہمیں دوپہر کے کھانے کے لئے ایک ریسٹورنٹ میں لے آیا جو ایک شاپنگ مال میں واقع تھا۔
ہم اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔ ہر جگہ صفائی کا خیال رکھا گیا تھا۔ یہاں کے لوگوں کے ہر انداز میں سلیقہ مندی تھی۔ ویٹرز، منیجر، سب انتہائی خوبصورت، خوش شکل اور خوش مزاج تھے۔ ویٹرز مستعدی سے سب کی میزوں پر کھانا سرو کررہا تھا۔ کھانے میں دال کا سوپ، بن، سلاد اور ٹرکش ڈشز تھیں۔