ادھورا کردار

اس واقعہ کے بعد اتی نے دارالامان کی دیواروں کا سہارا لینا چھوڑ دیا اور نا معلوم یا پھر نا ممکن منزل کے حصول کی طرف روانہ ہوا۔ لمحہ لمحہ اس نے وقت کی گردش میں لپٹے لوگوں کی چیخ و پکار کا مشاہدہ کیا، اس کی خواہشات کو مزید تقویت ملی، وہ زندگی کے بت کو ڈھونڈ کر اس کے چہرے پر سنسناتا ہوا طمانچا مار دینا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ قسمت کے بدن پر اپنے خیالات کی چوٹ مار دینے کا حق محفوظ رکھے ہوئے تھا۔ اسے ہر لمحہ زندگی کی عکاسی کرتا ہوا نظر آنے لگا جیسے عاشق کے لئے ہر طرف محبوب کی عکاسی ہوا کرتی ہے مگر جس کے نصیب میں ہی نہ ہو ساری دنیا بھی مراد کرے تو کچھ نہیں پا سکتااور اسی لمحہ وہ منحرف ہو گیا کہ یہ زندگی نہیں، یہ فریب ہے۔۔۔۔ زندگی کہیں اور ہے۔۔۔۔ میں ڈھونڈ سکتا ہوں۔۔۔۔ ُٓ میں اسے کھوج نکالوں گا۔ شائید بہت پیاس اور گرمے کی شدت نے پیاسے مسافر کو کنویں سے نکلتے ہوئے پانی کو زہر سمجھنے پر مجبور کر دیا۔
اتی بھٹکا اور بھٹکتا ہی چلا گےا ۔۔۔۔ زندگی کی تلاش مےں ۔۔۔۔ اس نے زندگی کو سوچا تو اسے احساس ہوا کہ اےسے خوشبو سے رنگ ملتے ہےں، اےسے صحرا مےں شمع جلتی ہے، اےسے موت کے بعد دےوانے ملتے ہےں، اےسے اۤنسووئں سے موتی نکلتے ہےں ، اسی طرح زندگی بھی کسی انوکھے امر کا نام ہے۔۔۔۔ انتظار کا نام ہے۔۔۔۔ امتحان کا نام ہے۔

اتی بھٹکا اور بھٹکتا ہی چلا گیا۔۔۔۔ زندگی کی تلاش میں۔۔۔۔ اس نے زندگی کو سوچا تو اسے احساس ہوا کہ ایسے خوشبو سے رنگ ملتے ہیں، ایسے صحرا میں شمع جلتی ہے، ایسے موت کے بعد دیوانے ملتے ہیں، ایسے آنسوؤں سے موتی نکلتے ہیں، اسی طرح زندگی بھی کسی انوکھے امر کا نام ہے۔۔۔۔ انتظار کا نام ہے۔۔۔۔ امتحان کا نام ہے۔
اتی نے زندگی کے صنم کی تلاش جاری رکھی، کبھی خود تراش کر دیکھا اور کبھی دوسروں سے ترشوایا، شکل کبھی معصوم بنتی اور کبھی بھیانک، سوائے بے چینی کے ادھر بھی کچھ نہ ملا۔۔۔۔ مگر اتی بہادر نوجوان تھا، بلند حوصلہ اور ثابت قدم۔ اس نے زندگی کی پتھریلی راہوں پر اکیلے سفر کیا، وہ اپنی خواہشات کی دھول میں کھیل کر بڑا ہوا۔ اتی بے خوف نوجوان کسی سے بھی کسی طرح سے بھی خائف نہ تھا۔ مگر ایک چیز سے اسے وحشت تھی وہ تھی ذاتِ انسانی کے اندر چھپی بد ذات، وہ زندگی کو اس روپ میں دیکھتا تو زندگی اس کو داروغہ کی صورت میں نظر آتی۔۔۔۔ آج انسانوں کو کچل دینے والے تو سب نے دیکھے ہوں گے، انسانوں کا قتل کرنے والے، زندہ آگ میں جلانے والے، انسانوں کو کتوں کی طرح گھسیٹتے تو سب نے دیکھا ہو گا۔۔۔۔ مگر اتی تو جان چکا تھا ان لوگوں کو جو موت کو خوشیوں کے بدلے امر کرتے ہیں، جو جذبات کو سرد کرتے ہیں، جو پھولوں کا قتل کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر تماشائی بنتے ہیں اور زوردار قہقہہ لگا دیتے ہیں۔ کیا ہی عجیب حقیقت اتی نے دیکھی، اس انہونے مذاق کے پیچھے بھی تو زندگی کی کارستانی ہے۔۔۔۔ کیا ہی عجیب بد ذات ہے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی ذات یہی ہے جو انسانی چہروں کے اندر کہیں شرافت اور کہیں انتقام کی ہوس بھر دیتی ہے۔
اب اتی بھاگ جانا چاہتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا سے تنگ آ چکا اور زندگی کا معمہ اس سے حل نہ ہو سکا، قسمت کے دھکوں کا جواب وہ نہ دے سکا۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے زندگی کی اصلیت کو پہچان لیا ہو اور وہ جان بوجھ کر اس الجھن سے بھاگ جانا چاہتا ہو۔۔۔۔مگر اتی قسمت کو شکست دینے کی بجائے قسمت سے ہی شکست کھا گیا۔۔۔۔ بن والدین اور کھلونوں سے گزرا بچپن، خواہشوں اور ارمانوں میں لدی جوانی اور زندگی کی اصلیت کو جان لینے کا کھوکھلا جذبہ۔۔۔۔ اب سب اس کے لئے افسانوی ہو گیا۔

سنا تھا دعائیں مانگنے سے قبول ہوتی ہیں مگر اتی کا مقابلہ چوں کہ قسمت سے تھا اس لئے یہ سلسلہ بھی نہ نکل سکا۔ اتی نے ایسی زندگی کی تلاش کی جس سے لوگ محبت کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ ڈھونڈتا رہا۔۔۔۔ اس نے تلاش جاری رکھی۔۔۔۔ مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔۔۔۔ شاید سمجھتا ہو گا کہ پتھر کا ہو جاؤں گا۔ مگر اب معلوم ہوتاہے کہ اس کے ہر کام کو زندگی کا درجہ مل گیا، اس کی جستجو جو وہ زندگی کی تلاش میں کرتا رہا زندگی نکلی، اس کے آنسو، اس کی پکار، اس کی تکالیف سب زندگی کا جزو بن گئیں اور وہ سمندر میں کھڑا آسمان کے سرے کو تلاش کرتا رہا۔
کرتے کرتے اتی کا سن بتیس کو آن پہنچا ایک شام باغ میں ٹہلتا زندگی کے تار سلجھا رہا تھا۔۔۔۔ بدن میں قوت نہ رہی۔۔۔۔ گر پڑا۔۔۔۔ بے بس ہو کر پکارا۔۔۔۔ اے خدا! موت سے نواز دے قسمت کو حکم دے کہ وہ میری کوششوں کے بدلے مجھ سے بھرپور انتقام لے۔۔۔۔ میں مر جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اچانک آسمان گرج اٹھا۔۔۔۔ بادل گھبرا گئے، بجلیوں کی چیخیں نکل گئیں، درختوں کی لکڑیا ں کڑ کڑ کڑ ٹوٹنے لگیں۔۔۔۔ قسمت کا اپنی فتح کی خوشی میں رال ٹپکنے لگا۔۔۔۔ اتی کا دل خواہشات سے ویران ہو گیا۔۔۔۔ آخری خواہش پوری کر دی گئی۔۔۔۔ قسمت نے اس کا گلہ گھونٹ دیا۔۔۔ اتی مر گیا۔
اتی نے قسمت سے لڑائی کی۔۔۔۔ جاتے جاتے حقیقت سمجھ گیا۔۔۔۔ زندگی قسمت سے ہے اور قسمت زندگی سے۔۔۔۔ اتی نے بھرپور لڑائی کی۔۔۔۔ انجام۔۔۔۔ وہ سو گیا ۔۔۔۔ مر گیا۔
مگر وہ مردہ نہیں جو مست ہاتھی سے لڑے۔

٭٭٭٭

٭

Loading

Read Previous

شکستہ خواب

Read Next

ایک لمحہ کمزور

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!