ادھورا پن —- منیر احمد فردوس

اس کی باتیں مجھے پریشانیوں کے دشت میں دھکیل رہی تھیں۔میں اجو کا سناٹوں میں گھرا یہ روپ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
”اجو میرے دوست…بات کیا ہے؟ کیوں اتنے دکھی ہو گئے ہو؟کوئی بوجھ ہے تو مجھے بتائو ۔”
میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ملائمت سے کہا
”بابو صیب…لوگوں نے ہمیشہ ہنستا مسکراتا ہوا اجو دیکھا ہے مگرآج میں آپ کو آگ میں جلتا ہوا اجو دکھائوں گا۔”
اس نے میرے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے جواب دیا اور میں اس کی بات سن کر چونک اٹھا۔
”بابوصیب.. آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا باپ محلے کی مسجد کا پیش امام تھا۔
مجھ سے تین بڑے بھائی دینی تعلیم سے وابستہ تھے مگران کے برعکس میں کھلنڈری طبیعت رکھتا تھا ۔ میں کرکٹ کا ایک اچھا کھلاڑی تصور کیا جاتا اور میرا دل دماغ ہر وقت کرکٹ میں ہی اٹکا رہتا۔جس کی وجہ سے میرا باپ آئے روزمجھے کوستا رہتا۔
وہ مجھے نکّما اور ناکارہ سمجھتا اور گھر پر ایک بوجھ تصور کرتا تھا۔ میرا باپ اکثر کہا کرتا کہ یہ اجمل کسی روز میری ناک کٹوا کے رہے گا۔
ایک روز میچ کی وجہ سے رات گئے گھر آنے پر میری شامت آئی ہوئی تھی اور میرا باپ مجھے شدید ڈانٹ ڈپٹ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ کچھ لوگ میرے باپ کے پاس آئے اوروہ بوکھلائی ہوئی حالت میں فوراً ان کے ساتھ چلا گیا۔





میں نے باپ کے چہرے پر شدید غصہ اور نفرت دیکھی تھی۔تھوڑی ہی دیر میں مسجد کے سپیکروں سے میرے باپ کی آواز گونج رہی تھی۔
”تمام غیرت مند مسلمان ایک ضروری اعلان سنیں…ابھی ابھی معلوم ہواہے کہ سبزی منڈی کے ساتھ والی کالونی جہاں کافر اور مشرک بستے ہیں۔ وہاں کسی نے ہمارے مذہب کی کھلم کھلا توہین کی ہے اوراس پر ہم کسی صورت چپ نہیں بیٹھ سکتے۔
جس کسی غیرت مند مسلمان کے دل میں اسلام کی تھوڑی سی محبت بھی زندہ ہے تو وہ فوری طور پر کافروں کی کالونی پہنچے اور توہین کا بدلہ لے۔”
میرے باپ کا چہرہ غیض وغضب سے سرخ ہو رہا تھا۔وہ میرے تینوں بھائیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہونے لگا تو میںنے اس کے پائوں پکڑ لئے ۔
”بابا! خدا کے لئے رُک جائیں ۔ یہ ظلم مت کریں، لوگوں کو روک لیں۔”
مگر اس نے میری ایک نہ سنی ۔ مجھے پائوں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دور ہٹایا اور غصے کی حالت میں باہر نکل گیا۔
میں فوری طور پر اپنے دوستوں کی طرف بھاگا اور انہیں ساتھ لے کر جوزف کالونی پہنچ گیا، کیوں کہ وہاں کے کچھ لڑکے میرے دوست تھے اور میری ٹیم میں کھیلتے تھے۔
وہاں آدھا شہر پلٹا ہوا تھا اورکچھ گھردھوئیں کے بادلوں میں گھرے آگ میں جل رہے تھے۔ اور پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ مشتعل لوگ ایک نوجوان کوبالوں سے پکڑ کر ایک گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئے۔
خوف اس کے چہرے کو نوچ رہا تھا ۔ وہ نوجوان تڑپتاہوا بار بار ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ ان کے پائوں پکڑ کر ان کے سامنے گڑگڑا رہا تھا: اور بار بار کہہ رہا تھا:
”میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں کسی کے مذہب کی توہین کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔خدا کے لئے میری پوری بات سُن لیں۔”
مگر بھرے مجمعے میں اس کی ایک نہ سنی گئی۔ لوگ مشتعل ہو کر اس پر چڑھ دوڑے اور اس پر ڈنڈوں، ٹھڈوں، تھپڑوں اور مُکّوں کی بارش کر دی۔
وہ مسلسل تڑپتا چیختا رہا اور معافیاں مانگتا رہا مگر بے سود اور اس دوران کسی نے اس پر پٹرول چھڑک دیا۔
میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کو بچانے کے لئے آگے بڑھا اور مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو ہم پر بھی ڈنڈے برسا دیئے گئے اور لوگ ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی جلانے کے درپے ہوگئے۔
بڑی مشکل سے میرے باپ نے مشتعل لوگوں کے چنگل سے مجھے نکالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس تڑپتے ہوئے نوجوان کو آگ لگا دی گئی۔
اس کا جلتا ہوا وجود چیختا چلاتا سڑک پر دوڑتا رہا ۔ وہ لوگوں کی طرف رحم کی بھیک کے لئے بڑھتا تو غصے میں بپھرے ہوئے لوگ اس پر پٹرول چھڑک دیتے ، جس سے آگ کے شعلے اور اس کی چیخیں اور بھی بلند ہو جاتیں۔
بابو صیب…میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ جلتا ہوا لمحہ آج بھی میرے اندر جل رہا ہے۔





لوگ اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک وہ زندہ وجود کوئلے میں تبدیل نہیں ہو گیا۔ اس دن میں بھی اندر سے جل کر کوئلہ بن گیا۔
اس کے بعد میرے باپ نے مجھے راکھ سمجھ کر گھر سے باہر پھینک دیا۔بس اب میں ہوں، یہ ظالم دنیا ہے اور میری آوارہ گردی ہے۔”
اجو کے لہجے میں دکھوں کی آگ جل رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں نمی واضح تھی۔ میں حیران و پریشان اسے دیکھے جا رہا تھا۔
واقعی میرے سامنے ایک ایسا اجو بیٹھا ہوا تھا جو آگ میں جل رہا تھا۔
”بابو صیب…لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک وجود کوزندہ جلا کر کوئی عقیدہ جلایا جاسکتا ہے؟”
اجو نے بڑے معصوم لہجے میں سوال کیا۔مگر میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں تھااور میں نے وہی خاموشی اس کے ہونٹوں پر باندھ دی۔
شادی کے ہنگامے ختم ہوتے ہی شہر پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ شہر کی ایک مشہور عبادت گاہ میں دھماکہ ہو گیا ، جس میںکئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف خوف کی زہریلی ہوائیں چل پڑیں اور دہشت گردی کی چنگاری سلگ کرشعلوں میں تبدیل ہو گئی۔
دن دہاڑے شہر کے مختلف علاقوں میں چار پانچ قتل اور پھر دستی بموں کے حملوں نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور چاروں طرف نفرت کے الائو جل اٹھے۔
ہر چہرے پر سیاہ رات چھا گئی اور دلوں میں خوف بھر گیا۔ جب یہ بے رحم آگ کئی گھروں کو جلا کر اپنا دائرہ وسیع کرنے لگی تو شہر بھر میں کرفیولگا دیاگیا۔
دہشت گردی کے راج کے بعد چند دنوں تک کرفیو کا راج رہا۔ کشیدگی کم ہوئی تو کرفیو ختم کر دیا گیا اور
لوگ سہمے سہمے گھروں سے باہر نکلے۔ خوف و ہراس ابھی تک چاروں طرف سانس لے رہا تھااور لوگ آنے جانے میں بہت محتاط تھے۔
ایک ہفتے کی غیر حاضری کے بعد آج شام کو میں ستار ہوٹل جا پہنچا مگر وہ اب بھی اجڑا اجڑا سا لگا۔
دہشت کے اژدہے نے ہوٹل کی رونقوں کو بھی نگل ڈالا تھااور وہ پوری طرح سے آباد نہیں ہوپایاتھا۔ زیادہ تر وہی لوگ تھے جن کا ہوٹل کے ساتھ گھر جیسا تعلق تھا۔
مگر ہوٹل زیادہ دیر تک ویرانی کا عذاب نہ سہ سکا ۔ لوگوں کی چہل پہل پھر سے شروع ہوگئی اور وہ آباد ہونے لگا۔
مگر اجّو کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سارا منظر وہی تھا اور اجّو اس منظر سے یوں غائب تھا، جیسے بغیر چاند کے تاروں بھراآسمان۔
اس کے بغیر ہوٹل اجڑا اجڑا اور ماحول پھیکا پھیکا لگ رہا تھا۔ وہ ہر آنکھ کی ضرورت تھا اوراسے نہ پا کر سب کو ادھورے پن کی دیمک چاٹنے لگی۔
میں بے چینی سے روزاس کی راہ تکتا کہ اجّو ابھی سامنے سے قہقہے لگاتا آتا ہی ہو گا۔
انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھک جاتیںمگر اجو کادور دور تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ شاید ہوٹل کو کسی کی نظر لگ گئی تھی اور کوئی وہاں سے اجو کے گونجتے قہقہے لپیٹ کر لے گیا تھا۔
مگر آج ہوٹل پر اجو کی موت کی بھیانک خبر گردش کرتی ہوئی ہر چہرے کو نچوڑ رہی تھی۔
شہر کے ایک سنسان علاقے سے اجو کی جگہ جگہ سے کٹی پھٹی برہنہ لاش ملی تھی، جسے بے پناہ تشدد کے بعد گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔
اخبار میں اس کی تصویر بھی چھپی تھی۔ اس کے ماتھے پر گولی کا سوراخ تھا اور بھنچے ہوئے منہ کے ساتھ اس کی کھلی آنکھیں میرے چہرے پر گڑی تھیں۔ جیسے وہ مجھ سے آج بھی پوچھ رہا ہو:
” بابو صیب…کیا کسی وجود کو زندہ جلاکر کسی کا عقیدہ جلایا جا سکتا ہے؟”
آج بھی میرے پاس اس کے جلتے ہوئے سوال کاکوئی جواب نہیں تھااور میں نے آج بھی اس کے ہونٹوں پر خاموشی باندھ دی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جادو کا آئینہ

Read Next

کچی کاگر — افشاں علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!