اخوّت و احساس — عمارہ کامران

’’یہ بے بی، اُف! یہ تو بہت چھوٹا ہے، بالکل ننھا منا سا، دیکھنے میں تو عادل ماموں کے بیٹے جتنا لگتا ہے جسے میں ممی کے ساتھ دیکھنے گئی تھی۔ آنٹی بتا رہی تھیں نا رات میں کوئی پری اسے ان کو دے گئی تھی کتنا پیارا تھا وہ۔ یہ گولو مولو بھی بہت پیارا ہے لیکن کسی نے اس کو اچھے کپڑے پہنائے اور نا ہی اس کا منہ صاف کیا ہے۔ یہ اکیلا کیوں ہے؟ اس کے امی ابو کہاں ہیں؟ شاید مر گئے۔ اُف کتنے گندے لوگ ہیں جو ان کے امی ابو کو مار رہے ہیں ۔ اماں جی تو کہتی ہیں یہ دنیا اللہ تعالی نے بنائی ہے سب انسانوں کے لیے تو پھر کوئی ان سے ان کے گھر کیوں چھین رہا ہے؟
اگر کوئی مجھ سے میرا گھر چھین لیتا تو میں کہاں جاتی؟ میری ساری چیزیں، کپڑے، کتابیں اور چاکلیٹس بھی تو گھر پر ہی ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ان کے پاس اب کپڑے اور کھلونے بھی نہیں ہوں گے۔
ابو کہہ رہے تھے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ میں عید پرکپڑے اور کیک نہ لوں اور دوستوں کو نہ بلائوں تو بابا وہ سارے پیسے اس اخبار والی بچی اور بے بی کو دے سکتے ہیں نا اورمیں جو دوستوں اور کلاس فیلوز کے لیے گفٹ لوں وہ بھی تو ان کو دے سکتی ہوں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گی۔‘‘ اس نے سوچا اور پھر اپنی کپڑوں کی الماری کھولنے لگی۔
’’ماہا بیٹا کہاں ہو؟ چلو بیٹا شاپنگ کے لیے نہیں جانا پھر واپسی پر دیر ہو جائے گی۔‘‘ اندر آتے ہوئے اس کی مما نے آواز دی لیکن پھر دروازے پر ہی ٹھٹک کر رک گئیں۔
ماہا نے بیڈ اور فرش پر کپڑوں اور کھلونوں کا ڈھیر لگایا ہوا تھا اور وہ ان کے بیچوں بیچ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ماہا! یہ سب کیا ہے؟ کل ہی میں نے ساری الماریاں سیٹ کی تھیں، آپ نے پھر سب اُلٹ دیا۔ کچھ چاہیے تھا تو مما کو بتاتیں۔ ایسے کرتی ہیں اچھی بچیاں ؟‘‘ نگینہ سر پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
’’بانو! بانو کہاں ہو؟ جلدی ادھر آئو اور سمیٹو یہ سب۔‘‘ انہوں نے زور زور سے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کو پکارا۔
’’نہیں مما یہ واپس نہیں رکھنے۔ یہ سب میں نہیں پہنتی دیکھیں یہ مجھے دینے ہیں۔ دادی امی کہہ رہی تھیں نا کہ کاش ہم کچھ کر سکتے تو مما دیکھیں نا یہ اتنے سارے کپڑے اور کھلونے یہ میں ان کو دے دوں گی پھر ان سب کے پاس بھی اچھے کپڑے ہوں گے اور مما مجھے اس بار عید پارٹی بھی نہیں کرنی۔ آپ اور بابا بھی کسی کو نا بلائیں بلکہ یہ سارے پیسے ان کو دے دیں۔ پلیز مما اماں جی کہتی ہیں نا یہ بھی ہمارے بہن بھائی ہیں۔‘‘ وہ روہانسی ہو گئی اور تیزی سے آگے بڑھ کر کپڑے سمیٹتی ملازمہ سے کپڑے واپس پکڑ لیے۔
’’کیا ہوا ہے ماہا؟ ایسے کیوں مما کو پریشان کر رہی ہو؟ کسے دینے ہیں کپڑے؟ اور کیوں نہیں کرنی عید پارٹی؟ کسی نے کچھ کہا ہے آپ کو جھگڑا ہوا ہے کسی دوست سے؟ کیوں رو رہی ہو؟‘‘ وہ بانو کو روکتے ہوئے اس کی طرف آئیں۔
’’ممی بس آپ یہ سب ان کو دے دیں۔ ان کا گھر بھی ٹوٹ گیا ہے، مما بابا بھی کھو گئے ہیں۔ مما وہ اکیلے ہیں روتے ہوں گے اتنی گرمی ہے اور بارش میں کہاں جائیں گے آپ تو مجھے بارش میں کھیلنے نہیں دیتیں، انہیں بارش میں سردی لگی تو وہ کہاں جائیں گے؟ ممی ان کو کپڑوں کی ضرورت ہوگی نا۔‘‘
ماہا اب بلند آواز میں رو رہی تھی۔ اس کے رونے کی آواز سن کر اس کے ابو اور دادی امی بھی وہاں آگئے اور سب بکھری چیزوں اور اسے روتا دیکھ کر پریشان ہو گئے۔احمر نے آگے بڑھ کر ماہا کو گود میں اٹھا لیا۔
’’کیا ہوا میری گڑیا کو؟ بھئی میری شہزادی تو اتنی پیاری ہے نگینہ آپ نے ڈانٹا میری ننھی پری کو؟‘‘اسے پیار کرتے ہوئے احمر نے نگینہ سے پوچھا۔
’’مما نے کچھ نہیں کہا بابا۔‘‘ باپ کے پیار پر سکون سے اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے ماہا نے سرگوشی کی۔
’’تو پھر آپ کیوں رو رہی ہو اور یہ سارے کپڑے اور کھلونے کیوں نکالے آپ نے؟‘‘ اماں اور نگینہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے اسے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے وہ بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے۔ساتھ ہی چیزیں ہٹاتے ہوئے ماں کے بیٹھنے کے لیے بھی جگہ بنائی۔ دادی امی بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں اورپیار سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ اس نے پاس پڑا ہوا اخبار اٹھا کر اپنے ابو کی طرف بڑھایا۔
’’ ابو جی یہ لڑکی اور ٹی وی والے سارے بچے میرے بہن بھائی ہیں نا؟‘‘اس نے سوال کیا تو احمر نے اخبار پکڑ لیا۔
’’ہاں بیٹا! یہ سب بھی مسلمان ہیں اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘ وہ اخبار میں چھپی شامی بچی اور بچے کی تصویریں دیکھنے لگا۔ نیچے بہت سے روہنگیا کے بچوں اور بوڑھوں کی گروپ فوٹو بھی تھی۔
’’بابا میں اپنی چیزیں انہیں دوں گی اور کیک بھی اور میری دوستوں کے لیے جو گفٹ لینے ہیں وہ بھی اور ساری کلاس فیلوز کے لیے جو گفٹ لینے ہیں وہ بھی۔ کیا آپ ان کو یہ سب دے دیں گے پلیز؟‘‘ بات کے آخر میں اس نے پیار بھری درخواست اور امید سے باپ کو دیکھا۔
’’کیوں نہیں میری گڑیا، یہ سب تحفے میں آپ کی طرف سے بھیجوں گا اور یہی نہیں بابا اور ممی کے سب دوست اور ان کے خاندان والے بھی کچھ نہ کچھ ضرور بھیجیں گے یہ آپ کے بابا کا وعدہ ہے۔‘‘
’’سچ بابا؟ بابا آپ بہت اچھے بابا ہیں۔ سب کے بابا سے اچھے والے بابا۔‘‘ اس نے فرحت بھرے انداز میں بابا کے گلے میں بانہیں ڈال کر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
ماہا کی اس ادا پر احمر نے خوشی سے اسے اپنی بانہوں میں چھپا لیا۔
’’آپ بابا کی جان ، سب سے اچھی والی بیٹی ہو۔‘‘ اس نے ماہا کے کان میں سرگوشی کی۔
احمر اور نگینہ اپنی بیٹی کے خلوص پر حیران تھے کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی وہ کیسے اتنی سمجھ دار اور حساس تھی۔ اماں جی بھی دل ہی دل میں مسکرا دیں، ہر روز پیار بھری چھوٹی چھوٹی باتوں سے جو محبت کے بیج وہ اپنی پوتی کے دل میں اگاتی تھیں، آج ان پر ننھے ننھے پھول کھلنے لگے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اب وہ وقت دور نہیں جب سب مسلمان ایک دوسرے سے اپنی خوشیاں اور ان کے غم بانٹیں گے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

روٹی — علیشبہ انعم

Read Next

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!