ماہا آج بہت خوش تھی کیوں کہ چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس بار تو عید بھی چھٹیوں میں آنی تھی۔ بڑی عید بھی آنے والی تھی اور اس بار تو وہ دو تین مہینے پہلے ہی قربانی کے لیے بکرا لانے والی تھی۔ اس کے بابا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگلی گرمیاں شروع ہوتے ہی اسے اس کی پسند کا بکرا لے دیں گے۔ ہر سال دونوں عیدیں خوب دھوم دھام سے منائی جاتیں اور اس بار تو وہ اپنی دوستوں اور کلاس فیلوز کو بھی بلانے والی تھی۔
آج اتوار کا دن تھا۔ اس کے بابا جانی کی آج آفس سے چھٹی تھی جس کا صاف مطلب تھا کہ آج وہ اسے بکرا لے کر دینے والے ہیں، پھر مما کے ساتھ ڈھیروں شاپنگ اور من پسند کھلونے، آج تو اسے خوب مزا آنے والا تھا۔
صبح سے ہی ماہا ادھر ادھر ہنستی مسکراتی اچھلتی کودتی پھر رہی تھی۔ کبھی بابا کو یاد دہانی کرواتی کہ آج اسے کلرز، گلیٹرز اور اسٹیکرز وغیرہ لینے ہیں تاکہ وہ اپنی دوستوں کے لیے دعوتی کارڈز بنا سکے تو کبھی مما کو بتاتی کہ اسے اپنی دوستوں کے لیے گفٹ بھی لینے ہیں۔ ایک لمبی لسٹ تھی اس کے پاس فرمائشوں کی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ چاہتی تھی کہ سب کو بڑی عید کے لیے دعوت دے۔
اچانک ماہا کا دھیان دادی امی کی طرف گیا۔ آج اماں جی کمرے سے باہر آئیں اور نہ اس کے ساتھ باغ میں ہی گئیں۔ اس نے تو انہیں ناشتا کی ٹیبل پر بھی نہیں دیکھا۔ ویسے تو وہ ہمیشہ صبح کا ناشتا اپنے کمرے میں ہی کرتیں لیکن اتوار کو وہ بابا اور اس کے گھر پر ہونے کی وجہ سے ان سب کے ساتھ ناشتا کرتیں تو پھر آج وہ کیوں نہیں آئیں اس نے سوچا کہیں دادی امی بیمار تو نہیں۔
مما! اماں جی نے ناشتا کر لیا؟‘‘ اس نے اُبلا ہوا انڈا کھاتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں! ابھی نہیں کیا۔ کہہ رہی ہیں ان کا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ اس کی بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے مما نے جواب دیا۔
’’کیوں نہیں دل چاہ رہا؟ کہیں وہ بیمار تو نہیں؟‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ اسے یاد تھا پچھلی بار جب اس کی دادی امی بیمار ہوئی تھیں تو انہیں ہاسپٹل لے جایا گیا تھا۔ اسے ہسپتال بالکل اچھے نہیں لگتے تھے۔ کتنے بڑے بڑے انجیکشن اور ڈرپس لگائی تھیں ہسپتال والوں نے دادی امی کو، انہیں کتنا درد ہوا ہو گا۔ اس نے سوچ کر جھرجھری لی۔
’’ارے نہیں چندا !تمہاری اماں جی بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ تم فکر نہ کرو اور چلو جلدی سے ناشتا مکمل کرو پھر آپ نے شاپنگ کرنے بھی تو جانا ہے نا۔‘‘ اس کی مما نے پیار سے پچکارتے ہوئے اسے تسلی دی۔
اس نے جلدی جلدی اُبلا ہوا انڈا نگلا اور دودھ کے دو تین بڑے بڑے گھونٹ بھر کر ٹیبل سے اٹھ گئی:
’’کر لیا ممی بس اور نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہی وہ وہاں سے بھاگ گئی۔ اسے پتا تھا ممی نے پھر سے پکڑ کر اسے زبردستی کھانے کے لیے بٹھا لینا ہے۔
دادی امی کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوئی۔ ’’اماں جی! السلام علیکم‘‘ وہیں کھڑے کھڑے اس نے اماں جی کو جاسوسوں والے انداز میں دیکھا۔
’’وعلیکم السلام میری چندا! جیتی رہ میری جان۔ آ ادھر آ جا میرے پاس۔‘‘ دادی نے اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اپنی بانہیں پھیلا دیں۔
وہ دوڑ کر اماں جی کے بیڈ پر چڑھ کر ان کی کھلی بانہوں میں چھپ گئی۔
’’اماں جی آپ نے ناشتا کیوں نہیں کیا؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’دل نہیں چاہ رہا تھا، بعد میں کر لوں گی آپ نے کر لیا ناشتا؟‘‘انہوں نے جواباً اس سے پوچھا۔
’’جی کر لیا لیکن مزہ نہیں آیا آپ کے بغیر۔‘‘ اس نے کہا اور مزید تفتیش جاری رکھی۔
’’آپ صبح لان میں کیوں نہیں آئیں؟ وہاں گلاب کے پودے پر جو کلیاں ہیں وہ ساری آج پھول بن گئی ہیں۔ اتنے بڑے بڑے پھول کھلے ہیں اور موتیا کے کئی پھول نیچے گرے ہوئے تھے۔ میں نے سنبھال لیے، آپ میرے لیے گجرا بنا دیں گی نا۔‘‘ اس نے لاڈ دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’بالکل بنا دوں گی اور آپ کی پونی میں لگا بھی دوں گی۔‘‘انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔
ماہا نے اپنی آنکھیں سکیڑ کر انہیں دیکھا ۔’’ گھٹنے میں درد ہے کیا؟‘‘
اپنی ننھی جاسوس کے سوال پر وہ مسکرائیں۔ وہ جانتی تھیں جب تک اس کو وجہ نہیں بتائیں گی وہ یوں ہی ان کے پاس بیٹھی سوال پر سوال کرتی رہے گی۔
’’نہیں! گھٹنے میں درد نہیں ہے۔ بس صبح صبح اخبار پڑھا تو پھر کچھ کرنے کو دل نہیں کیا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ اس نے اچھا کو لمبا کیا۔ ابھی وہ اتنی بڑی نہیں ہوئی تھی کہ خبروں میں دل چسپی لیتی لیکن جب دادی یا بابا خبریں سنتے تو وہ بھی چپ چاپ بیٹھی ٹی وی پر نظر آتی تصویروں سے کہانیاں بناتی رہتی۔
اماں جی نے محسوس کیا کہ وہ باہر جانے کو بے چین ہے اس لیے اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔’’ چلو باہر چلتے ہیں دیکھوں احمر اور بہو کیا کر رہے ہیں اور تم وہ پھول بھی لے آئو میں مالا میں پرو دوں۔‘‘ اماں جی کی بات سن کر وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔
’’احمر بیٹا فارغ ہو؟ ایک بات کہنی تھی تم سے۔‘‘ اماں جی کچھ بات کرنے لگی تھیں کہ اچانک خبروں پر دھیان گیا۔ ٹی وی پر مختلف مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ برما اور شام میں ہوتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا ذکر، ٹوٹے پھوٹے گرتے تباہ شدہ مکان اور سیمنٹ اور گرد سے اٹے بے بس اور معصوم بچوں کے چہرے۔ اماں جی نے عینک کے شیشے صاف کیے اور چادر کے پلو سے اپنی آنکھیں بھی پونچھیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ یہ خبریں دیکھتے ہوئے رو رہی تھیں اور ساتھ ہی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے۔
’’اے اللہ! اے میرے مالک! مسلمانوں کی مدد فرما، انہیں اس ظلم سے بچا، ان کی حفاظت کے لیے درد دل رکھنے والے اپنے بندوں کی مدد بھیج دے اے اللہ!‘‘
ماہا نے اپنی امی اورابو کو بھی دادی کی دعا پر آمین کہتے ہوئے سنا۔
اس کے ابو کہہ رہے تھے کہ یہ تو روز کا معمول بن گیا ہے۔ ہر جگہ مسلمان تکلیف اور آزمائش کا شکار ہیں۔ اس کے جواب میں ماہا کی ممی بولیں برما کے حالات تو بہت برے ہیں، روہنگیا کے مسلمانوں سے تو رہنے کی جگہ بھی چھین لی۔ دنیا میں زمین کا کوئی ٹکڑا نہیں جسے وہ لوگ اپنا ملک کہہ سکیں۔
اس کے ابو اب اماں جی کی بات سن رہے تھے لیکن اس کا ننھا سا ذہن ان سب کی باتوں میں اُلجھا ہوا تھا۔
وہ چپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے ہاتھ میں اخبار تھا جسے وہ پڑھ تو نہیں سکتی تھی لیکن اس میں پٹیوں میں لپٹی بچی اسے بالکل اپنے جیسی لگی اس کی طرح چھوٹی سی، بکھرے بکھرے بالوں والی۔ وہ شاید رو رہی تھی لیکن اس کے منہ پر اتنی گرد لگی تھی تو پتا کیسے چلتا۔