اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

30 دسمبر
لاہور
ڈیئر مریم!
السلام علیکم!
خدا سے دعا ہے۔ وہ تمہیں ہر تکلیف سے بچائے۔ تمہیں ہر وہ چیز دے جس کی تمہیں کبھی خواہش ہو۔
تمہارا خط مجھے دو دن پہلے ملا ہے حسب معمول تم نے مجھے بہت سے مشورے’ بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ مریم! اب مجھے کسی مشورے کسی نصیحت کی ضرورت نہیں رہی۔ مجھے دلدل سے باہر نکلنے کا طریقہ آ گیا ہے۔ مجھے بھول بھلیوں سے باہر نکلنے کا راستہ نظر آ گیا ہے۔ لیکن مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ میں تمہیں اس راستے کے بارے میں کچھ بتاؤں۔ میں اپنی ذات کے بارے میں بنائے گئے تمہارے تاج محل کو تاش کے پتوں کی طرح گرنے نہیں دینا چاہتی۔
آج میں اپنی الماری میں رکھی ہوئی کتابوں کو دیکھ رہی تھی۔ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو میں نے خرید کر لانے کے باوجود نہیں پڑھیں۔ اور بہت سی ایسی ہیں جو آدھی پڑھ کر رکھ دیں۔ مجھے خیال آیا تھا کہ ہم کتابیں کیوں پڑھتے ہیں؟ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے ہے نا اور یہ علم کیا دیتا ہے آگہی اور یہی آگہی پورے وجود کو اندر سے لہولہان کرتی رہتی ہے۔ جتنا علم ہمیں زندگی دیتی ہے۔ کیا وہ کافی نہیں ہے۔ ہم کیوں کتابیں خرید خرید کر آگہی کے اس عذاب میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ کتابیں چیزوں تک پہنچنے کا رستہ دکھاتی ہیں۔ منزل تک نہیں پہنچاتیں۔ یاد ہے ناں تم مجھے تحفے کے طور پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ہی دیتی تھیں۔ آج میں نے وہ ساری کتابیں نکال کر دیکھی ہیں’ وہ ساری باتیں پڑھی ہیں جو تم نے ان پر میرے لیے لکھی تھیں۔
مریم! تم جانتی ہو میں نے عاشر عثمان کے علاوہ کسی سے محبت نہیں کی۔ میں تو کسی دوسرے سے محبت کے قابل ہی نہیں رہی۔ لوگ جس سے محبت کرتے ہیں۔ اس پر اپنی جان تک نچھاور کر دیتے ہیں۔ میں نے جس سے محبت کی ہے’ اسے سولی پر لٹکا دیا ہے۔ نہ وہ زندہ رہے نہ وہ مرے۔ سب سے زیادہ تکلیف ‘ نا امیدی نہیں دیتی بلکہ امید اور ناامیدی کے درمیان والی حالت دیتی ہے اور میں نے پچھلے ڈیڑھ سال سے عاشر عثمان کو اسی حالت میں رکھا ہوا ہے۔
پھر سبط علی ہے۔ سید سبط علی گیلانی جس سے مجھے محبت ہے نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ جسے مجھ سے محبت ہے نہ کبھی ہو سکتی ہے۔ مگر پھر بھی … پھر بھی اگلے ماہ آج سے پورے چھبیس دن بعد اس سے میری شادی طے کر دی گئی ہے۔
شادی کر لوں تو درنجف اجڑ جائے گی۔ سبط علی برباد ہو جائے گا۔ عاشر عثمان کا ہمیشہ کے لیے عورت کے وجود سے اعتبار اٹھ جائے گا اور خود میں سیدہ درمکنون ساری عمر آوازوں اور چہروں کے جنگل میں سرپٹختی پھروں گی۔
اور اگر میں سبط علی سے شادی نہ کروں تو عاشر عثمان اپنی ساری زندگی امید اور ناامیدی کی اسی صلیب پر لٹکتے ہوئے گزار دے گا۔ اور میں ساری عمر اسی حویلی کے ویران دالانوں اور برآمدوں میں کسی بدروح کی طرح چکراتی پھروں گی۔ مجھے بڑھاپے سے خوف نہیں آتا مریم! مگر تنہائی سے آتا ہے۔ سناٹا اور ویرانہ میرے وجود کو مٹی کا ایک بھر بھرا ڈھیلا بنا دیں گے۔




میں اپنی پھوپھو کی طرح لمبے سفید چوغے والی بد روح بننا نہیں چاہتی۔ جو سارا دن کسی رئیس کی طرح لوگوں کو تسلیاں اور دلاسے بانٹتی ہے۔ اور رات کو کسی فقیر کی طرح آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ان ہی دونوں چیزوں کی بھیک مانگتی ہے۔ مگر ہر بار آئینہ اسے ایک نیا سفید بال اور چہرے پر پڑی ہوئی ایک نئی جھری کچھ اور سناٹے کے ساتھ بخش جاتا ہے۔ پھر وہ دوپٹے سے بے نیاز کسی پاگل کی طرح کمرے کے چکر کاٹ کاٹ کر وظیفے پڑھتی جاتی ہے۔
شاید وہ وظیفے انہیں سکون بخشتے ہوں گے۔ انہیں کوئی امید دلاتے ہوں گے مگر مجھے کوئی وظیفہ سکون دے سکتاہے نہ امید۔ ان کی زندگی میں کبھی کوئی عاشر عثمان نہیں رہا اور میری زندگی میں عاشر عثمان ہی تو ہے۔
مریم! تم نے لکھا ہے کہ اگر میں عاشر عثمان کے بغیر نہیں رہ سکتی تو پھر اس سے شادی کر لوں۔ ماں باپ کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر’ ان کی رضامندی حاصل کیے بغیر۔
مریم! میں یہ بھی نہیں کر سکتی۔ آئندہ آنے والی نسلوںتک میرے ماں باپ اور میں خاندان کی لعنت و ملامت کاشکار رہیں گے۔ مجھے ماں باپ کی بددعاؤں سے بڑا خوف آتا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں اپنے باپ کے کندھے پر رکھی چادر کو چھین کر دور پھینک دوں۔
اس خاندان میں دوبارہ کبھی کسی لڑکی کو سکول کی شکل دیکھنے نہیں دی جائے گی۔ میں برداشت نہیں کر سکتی۔ کوئی میرے بابا کو بیٹی کا طعنہ دے۔ کوئی یہ کہے کہ ”دیکھ لیا تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکالنے کا نتیجہ اب بھگتو۔”
میں ہنس رہی ہوں مریم! میں بہت ہنس رہی ہوں۔ کل تک میں سوچ رہی تھی کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ ساری عمر کے لیے کنوارا رہنا’ عاشر کے ساتھ پسند کی شادی یا سبط علی کے ساتھ شادی کے علاوہ میرے پاس کوئی چوتھا رستہ ہے ہی نہیں۔ مگر چوتھا رستہ بھی تھا اور ہے بعض دفعہ ہمیں بہت سامنے کی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اگر چوتھا رستہ پہلے نظر آ جاتا۔ تو یہ پچھلے ڈیڑھ سال کی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑتا نہ تمہیں ہر ماہ میرا خط پڑھ کر اس طرح آنسو بہانے پڑتے جس طرح تم نے پچھلے ماہ فون پر بہائے تھے۔
مریم! میں نے تم سے بہت محبت کی ہے مریم! میں نے تو کبھی بھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ حتیٰ کہ بابا سے بھی نہیں۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں عاشر عثمان کے علاوہ کسی اور کے دل میں میرے لیے رحم کیوں نہیں ہے۔ بابا کو تو سوچنا چاہیے تھا۔ صرف تعلیم کی آزادی تو آزادی نہیں ہے۔ یہ تو پیاسے کو سراب دکھانے کے مترادف ہے۔ تعلیم دیتے ہیں۔ حق نہیں دیتے۔ پانی دکھاتے ہیں پلاتے نہیں۔ اہل سادات بیٹیوں کو عزت دیتے ہیں۔ محبت دیتے ہیں۔ مگر گھر بسانے نہیں دیتے۔ جس پیغمبر کی ہم آل ہونے کے دعوے دار ہیں انہوں نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوںۖ نے تو عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں رکھا تھا۔ پھر آل رسولۖ نے یہ چھوت چھات اپنی بیٹیوں کا مقدر کیوں بنا دی؟ میں سیدہ درمکنون علی عباس رضوی ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے؟ وہ صرف عاشر عثمان ہے۔ تو اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ اسے اسی خدا نے بنایا ہے۔ جس نے محمدۖ کو رسول بنایا۔
بائیس سال تک میں بھی نام و نسب اور مرتبہ کے اسی فخر میں مبتلا رہی پھر ہاں پھر میری زندگی میں عاشر عثمان آ گیا۔ اور وہ فخر ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گیا۔ پتا ہے مریم! آج مجھے اپنا وجود کیکٹس کا پودا لگ رہا ہے۔ جس نے دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے لیے’ ان کے ہاتھ زخمی کرنے کے لیے کیسے کیسے کانٹے اگائے ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی تو ایسے ہی کانٹے اپنے وجود پر اگا رکھے ہیں۔ کوئی نام و نسب کا کانٹا۔ کوئی مال و جاہ کاکانٹا۔ کوئی حسن و خوبصورتی کا کانٹا اور ہر کانٹا ہاتھ کو نہیں روح کو چھید کر رکھ دیتا ہے۔
مریم! میری ہر غلطی کو معاف کر دینا۔ تم تو ہمیشہ ہی معاف کر دیتی ہو اور مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ میں خدا سے ایک بار پھر دعاگو ہوں کہ وہ تمہیں بہت سی خوشیاں دے۔ تمہیں ہمیشہ بہت پُرسکون رکھے۔ میری طرف سے بلال کو ڈھیروں پیار کرنا۔
خداحافظ
تمہاری دوست
سیدہ درمکنون علی عباس رضوی
****
31دسمبر
لاہور (نمائندہ خصوصی) کل ایک مقامی سرکاری ہاسپٹل میں ہاؤس جاب کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر پراسرار حالت میں مردہ پائی گئی۔ متوفیہ کا نام سیدہ درمکنون علی عباس رضوی بتایا جاتا ہے۔ ہمارے نمائندہ کی اطلاع کے مطابق متوفیہ جنوبی پنجاب کے ایک بہت معزز مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق متوفیہ 29 دسمبر کی رات کو نائٹ شفٹ کے بعد حسب معمول واپس ہاسٹل آئی اور صبح نو بجے کے قریب چوکیدار کو ایک خط پوسٹ کرنے کے لیے دے کر میٹرن کو یہ کہہ کر واپس کمرے میں چلی گئی کہ اس کی طبیعت خراب ہے۔ اور وہ آرام کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے اسے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ لیکن جب شام دیر تک وہ دوبارہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی تو میٹرن نے بار بار دروازہ بجایا اور دروازہ نہ کھولنے پر جب چوکیدار اور کچھ دوسرے ملازموں کے ذریعے دروازہ توڑا تو اندر متوفیہ کی لاش پڑی تھی۔ گھر والوں کو اطلاع دی گئی تو وہ زبردستی لاش لے گئے اور پوسٹ مارٹم نہیں کرنے دیا۔
متوفیہ کے سامان اور کمرے کی تلاشی لینے پر پولیس کو کچھ ڈائریز اور ایسے ثبوت ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متوفیہ اپنی مرضی سے کہیں شادی کرنا چاہتی تھی اور اس معاملے پر والدین سے اس کے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے تھے۔
پولیس نے اس سلسلے میں جب متوفیہ کے خاندان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔
متوفیہ کے کمرے کی ایک کھڑکی کے شیشے پر یہ عبارت تحریر تھی۔ ”زندگی گندی ہے” پولیس نے خود کشی کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
٭…٭
”بس یار! یہ پڑھی لکھی لڑکیوں کے بڑے چکر ہوتے ہیں بندہ پوچھے تمہیں ماں باپ نے پڑھنے بھیجا ہے پڑھو۔ پڑھائی چھوڑ کر آوارہ قسم کے لڑکوں کے ساتھ چکر شروع کر دیتی ہیں۔ پھر ماں باپ انہیں کے فائدے اور بھلے کی خاطر آوارہ قسم کے لڑکوں سے شادی کرنے نہیں دیتے اور یہ اس طرح خاندان کا نام بدنام کرتی پھرتی ہیں۔ اب ذرا سوچو کتنا روپیہ لگایا حکومت نے اس لڑکی کو ڈاکٹر بنانے پر اور اس نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اسے دوسروں کے علاج سے زیادہ اپنی شادی کی پڑ گئی تھی۔”
لائبریری میں لڑکیاں بلند آواز سے اسی ایک خبر پر تبصرے کر رہی تھیں اور سیدہ حنا مغیث ہاشمی زرد چہرے کے ساتھ اخبار ہاتھ میں لیے ایک ٹک اس لائن کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”زندگی گندی ہے۔”
لائبریری میں آوازیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اس کے دماغ میں سناٹا پھیلتا جا رہا تھا۔
٭…٭٭…٭٭…٭٭…٭




Loading

Read Previous

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

Read Next

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!