اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

12مارچ
لاہور
ڈیئر مریم!
السلام علیکم!
یہ خط تمہیں گاؤں سے لکھ رہی ہوں۔ پچھلے چار دنوں سے یہیں ہوں اور یوں لگتا ہے۔ جیسے کسی جہنم میں ہوں۔ بس یہ جہنم بہت سرد ہے۔ یہ جسم کو کچھ نہیں کرتی۔ روح کو مار دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے مریم! میں مردہ روح والا ایک زندہ جسم ہوں۔
میں ساری عمر اسی گھر’ اسی حویلی میں رہی ہوں۔ مگر پتا نہیں کیوں مریم! اب مجھے اس گھر سے بہت خوف آتا ہے اور اس خوف کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مریم! مجھے بتاؤ۔ میں ساری عمر ان وسیع دالانوں’ اونچے برآمدوں کے ساتھ کیسے رہوں گی؟ ان دیواروں کے ساتھ بیس سال بعد اکیلے باتیں کر کے زندگی کیسے گزاروں گی مگر … مگر مجھے یہیں رہنا ہے۔
پچھلے چار دنوں سے پورے گاؤں کی عورتیں مجھ سے ملنے آ رہی ہیں۔
انہیں میں بہت خاص ”ہستی” لگتی ہوں۔ سید علی عباس رضوی کی پہلی اولاد جو دینی و دنیاوی دونوں علوم سے آراستہ ہے جسے اس لیے اہمیت حاصل ہے کیونکہ وہ اس خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو اس طرح ڈاکٹر بننے کے لیے گاؤں سے باہر گئی اور جو اپنے باپ کی گدی سنبھالنے کے بعد روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی مسیحائی بھی کرے گی۔ مگر میں نہیں کروں گی۔
مریم! تم دیکھ لینا میں نہیں کروں گی۔ میں اگر اپنا گھر آباد نہیں کر سکتی تو حجرہ آباد کیوں کروں۔ اپنے دل’ اپنی روح کو شفا نہیں دے سکتی تو لوگوں کے جسموں کو شفا کیوں دوں؟
میں اس گاؤں میں کوئی ہاسپٹل کھولوں گی نہ ڈسپنسری ۔ میں اگر اپنے لیے کچھ نہیں کر سکی تو کسی کے لیے بھی کچھ نہیں کروں گی۔ یاد ہے نا بابا نے مجھے اسی لیے ڈاکٹر بننے بھیجا تھا۔ بڑے لمبے چوڑے خواب دیکھے تھے۔ درمکنون لوگوں کی آنکھوں کے کانٹے اور سوئیاں نکال کر اپنی آنکھوں میں گاڑلے۔ نام ہو’ شہرہ ہو’ ہر طرف سیدہ درمکنون علی عباس رضوی کی پاکیزگی’ تقویٰ ‘ خدمت’ بے غرضی کا’ نام ہو۔ سید علی عباس رضوی کے خاندان کا۔ لوگ کہیں یہ ہوتی ہیں سید زادیاں یہ ہوتی ہے آل رسولۖ جو اپنی زندگی خدمت خلق کے لیے تیاگ دیتی ہیں یہ ہوتا ہے ایثار ۔ اس طرح مارتے ہیں نفس کو۔
مگر مریم! اگر میرے خواب اجڑے ہیں اگر مجھے خواہشوں کو نوچ کر پھینکنا پڑا ہے تو میں بھی بابا کے سارے خواب اسی طرح اجاڑوں گی۔ اب مقابلہ تقویٰ کا ہو گا۔ صرف تقویٰ کا۔ خدمت خلق کا نہیں۔ عاشر کا رشتہ ٹھکراتے ہوئے بابا نے مجھ سے کہا تھا۔




”ہم اہل سادات ہیں’ آل رسولۖ ہیں۔ شجرہ نسب سات پشتوں تک دیکھتے ہیں۔ چاول کی کنی جتنا بھی کہیں شبہ ہو جائے تو رشتہ نہیں کرتے۔ تم اس شخص کو اپنے گھر کا رستہ دکھا آئی ہو جس کے خاندان کی سو پشتوں میں بھی کہیں سیدوں کا نام و نشان نہیں۔تمہارے لیے خاندان میں کوئی رشتہ مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ شادی نہیں کروں گا میں تمہاری۔ تم کو میرے بعد میری گدی سنبھالنی ہے۔ اس علاقے میں خاندان کے نام کو قائم رکھنا ہے۔ تمہیں تعلیم اسی لیے دلوائی ہے تاکہ تم اپنے علم سے لوگوں کی خدمت کرو۔ اس لیے نہیں کہ تم اس طرح کے گھٹیا رشتے اپنے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاؤ۔ درمکنون! تم عام لڑکی نہیں ہو۔ سید زادی ہو۔ آل رسولۖ ہو۔ تم آسمان سے اتر کر پاتال میں کیوں جانا چاہتی ہو؟ تم دونوں بہنوں کو میں نے لڑکی نہیں لڑکا سمجھ کر پالا ہے۔ تم دونوں نے اس خاندان کے وقار میں اضافہ کرنا ہے۔ نام کرنا ہے۔ عزت بڑھانی ہے۔ ایسی آلائشوں کو آئندہ اس گھر کی دہلیز مت دکھانا۔”
ہاں مجھے یاد ہے۔ ان کی کہی گئی ہر بات حرف بہ حرف یاد ہے۔ ایک ایک کر کے انہوں نے ساری میخیں بڑی مہارت اور صفائی سے میرے وجود اور دل میں گاڑی تھیں مریم! بعض دفعہ یہ خاص ہونا کتنا عذاب ہوتا ہے۔ گلے میں طوق کی طرح پڑ جاتا ہے۔ پھر اترتا ہی نہیں۔ عورتیں میرے ہاتھ چومتی ہیں۔ اپنے بچوں کو میرے ہاتھوں سے شیرینی کھلاتی ہیں۔ میرے پیروں میں بیٹھنا اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہیں۔ اور میرا دل چاہتا ہے۔ میں ان کے ہاتھ چوموں۔ میں ان سے کہوں میرے سر پر ہاتھ پھیرو۔ میرے لیے دعا کرو۔ ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔ شوہر’ بچے ‘ گھر’ آزادی۔ میرے پاس کیا ہے۔ صرف نام۔ ایک لمبا چوڑا نام۔ جو لوگوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے پھر وہ مجھے اپنے جیسا انسان سمجھتے ہی نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے مریم! میں ان کے سامنے روؤں۔ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ جاہل اور کمی کمینوں کی طرح زمین پر بیٹھ کر بلند آواز میں اپنے سارے دکھڑے روتے ہوئے سناؤں۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولوں۔ گندے چیتھڑے پہنے ہوئے جو دل میں آئے۔ میں کہتی جاؤں۔ کسی دوسرے کو بولنے ہی نہ دوں۔ صرف اپنی کہوں صرف اپنی کہوں۔ مگر مریم! مجھے ایک مجسمے کی طرح اونچے پلنگ پر گاؤ تکیے کے سہارے خاموش بیٹھنا ہوتا ہے۔ صرف سننا ہوتا ہے۔ دوسروںکی تکلیفیں ‘ پریشانیاں’ بیماریاں اور پھر اتنی دھیمی آواز میں بولنا ہوتا ہے جو خود میرے کانوں تک بھی نہ پہنچے۔ بس ان تک پہنچے جنہوں نے سوال کیا ہے۔ جنہوں نے پوچھا ہے۔ مجھے صرف تسلی اور دلاسا دینا ہوتا ہے۔ صبر کی تلقین کرنی ہے’ اچھے وقت کی امید دلانی ہوتی ہے اور پھر دعا کی یقین دہانی کروانی ہوتی ہے۔ مریم! یہ سب کتنا مشکل ہوتا ہے یہ تم نہیں جانتیں۔ صرف میں جانتی ہوں، صرف میں۔ وجود کے اندر اٹھتے طوفانوں کے ساتھ خود کو برف کی سل بنا کر پیش کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ سب کو پتا نہیں۔
آج ایک عورت اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر میرے پاس آئی تھی۔ دعا کروانے۔
”اس بے ہدایتی کے لیے دعا کریں بی بی! یہ گمراہ ہو گئی ہے۔ ہماری مرضی سے شادی نہیں کرتی۔ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ہم نے بچپن سے اس کا رشتہ طے کر رکھا ہے۔ ہم تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس گمراہ کو سمجھائیں بی بی! اس کو عقل دیں’ بتائیں اسے۔ ماں باپ کا کتنا درجہ ہوتا ہے۔ وہ منہ پھیرلیں تو رب بھی ناراض ہو جاتا ہے اور سکھ بھی نہیں ملتا۔”
اس لڑکی کی ماں نے آتے ہی اپنی داستان شروع کر دی تھی۔ میں چپ بیٹھی اس سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی کا چہرہ دیکھتی رہی۔ جو اپنی میلی چادر کے پلو سے باربار آنکھوں کو پونچھ رہی تھی۔ کچھ دیر میں اسے دیکھتی رہی اور پھر میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ میں نے اس لڑکی کو بری طرح لعنت ملامت کی تھی (اگر حاکم کا دل اجڑا ہوا ہے تو رعایا کو کیا حق ہے دل بسانے کا) وہ لڑکی چپ چاپ آنسو بہاتے ہوئے سر جھکائے سب کچھ سنتی رہی تھی۔
جب عاشر نے اپنا رشتہ بھیجا تھا تو میں نے بھی اسی طرح بابا کی باتیں سنی تھیں۔ تب مجھ پر بھی کسی کو ترس نہیں آیا تھا۔ پھر وہ عورت مجھے دعائیں دیتی ہوئی اپنی بیٹی کو لے گئی اور مریم! مجھے … مجھے اسی طرح لوگوں کے دل اجاڑ کر دعائیں لینی ہیں۔ نام رکھنا ہے۔ رتبہ بڑھانا ہے۔ عزت قائم رکھنی ہے۔ آخر سیدہ درمکنون علی عباس رضوی کوئی معمولی لڑکی تو نہیں ہے۔ (اب تو یہ جملہ بھی مجھے ایک زہریلا سانپ لگتا ہے)
تمہارا خط مجھے ابھی نہیں ملا۔ ہو سکتا ہے لاہور پہنچ چکا ہو۔ میری عدم موجودگی میں۔ میں پچھلے خط کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی تمہیں خط لکھ رہی ہوں نہ لکھتی تو آج شاید میرا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا۔ مجھے اپنے اردگرد پھرنے والے لوگ کچھ اتنے ہی برے لگ رہے ہیں۔
تم خوش تو ہونا مریم؟ میری دعا ہے۔ تم بہت بہت خوش رہو۔
خدا حافظ
تمہاری
درمکنون
***
22 اپریل
لاہور
ڈیئر مریم!
السلام علیکم!
میں جانتی تھی مریم! وہ تمہاری کوئی بات’ کوئی نصیحت نہیں سنے گا پھر بھی پتا نہیں کیوں میں نے تمہیں اس سے ملنے کے لیے کہا۔ اسے سمجھانے کے لیے کہا۔ تمہارے خط میں لکھی ہوئی باتوں سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ پتا نہیں اس شخص کو یوں بے مراد رہنے کا کیا شوق ہے؟ اسے تو کوئی مجبوری نہیں پھر وہ اپنی زندگی’ اپنا مستقبل کیوں تباہ کرنا چاہتا ہے؟ یاد ہے نا اس نے اپنا رشتہ ٹھکرائے جانے پر مجھ سے کہا تھا۔
”درمکنون! جب تک تم اس زمین کے اوپر ہو۔ تب تک میں تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ تمہارے خاندان جتنی دولت نہ سہی لیکن بہرحال میرے پاس بھی دولت ہے۔ تمہارے جیسا نام و نسب نہ سہی لیکن کسی عام خاندان سے میں بھی تعلق نہیں رکھتا۔ خوبصورت ہوں’ تعلیم یافتہ ہوں اور تم … تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو پھر میں کیا صرف اس وجہ سے ٹھکرا دیا جاؤں گا کہ سید نہیں ہوں؟ اہل سادات میں سے ہونا میرے بس میں تو نہیں پھر مجھے کس چیز کی سزا ملی؟ درمکنون! میں تمہیں مظلوموں کی فہرست میں شامل نہیں ہونے دوں گا۔
تمہارے باپ نے کہا ہے۔ ہم بیٹیوں کو خاندان سے باہر بیاہنے کے بجائے کنوارا بٹھائے رکھنا بہتر سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں ایسی کسی صلیب پر چڑھنے نہیں دوں گا۔ میں نے پچھلے تین سال سے تمہارے اور اپنے حوالے سے بے شمار خواب دیکھے ہیں اور مجھے اپنی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سجانے کا کوئی شوق نہیں ہے نہ ہی میں تمہیں کسی مزار کی نام نہاد متولی بننے دوں گا۔ یہ تمہاری اپنی زندگی ہے درمکنون! تمہیں اسے اپنے طریقے سے گزارنے کا مکمل حق اور اختیار ہے۔ اپنے گلے میں رسوم و عقائد کا پھندا ڈال کر خودکشی مت کرو۔”
مریم اس نے ایک بار بھی مجھے ملامت نہیں کی تھی۔ ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ جب تم جانتی تھیں کہ تمہارا باپ تمہیں صرف اپنے ہی خاندان کے کسی سید سے بیاہے گا تو پھر تم نے تین سال تک مجھے فریب کیوں دئیے رکھا؟
جب تمہیں معلوم تھا کہ تم نے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی ہے تو پھر تم میرے ساتھ مستقبل کی پلاننگ کیوں کرتی رہیں؟
جب تمہیں پتا تھا کہ تمہارا باپ میرا رشتہ بری طرح ٹھکرائے گا تو تم نے مجھے رشتہ بھیجنے سے کیوں نہیں روکا؟
مریم! اس نے ایک بار بھی مجھ سے یہ سب نہیں کہا۔ میں منتظر تھی کہ وہ کچھ کہے۔ کوئی شکوہ کرے۔ اس طرح کی کوئی بات تو کرے۔ مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔
مریم! محبت واقعی دل کو بہت بڑا کر دیتی ہے۔ تب اس کے لفظ میرے وجود پر موم کے قطروں کی طرح گر رہے تھے۔ کچھ جلن’ کچھ اضطراب کچھ بے چینی ہوتی اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا۔ ہاں مگر اس کے لفظ موم کے ٹھنڈے قطروں کی طرح آج بھی میرے دل سے چمٹے ہوئے ہیں۔
میں جانتی ہوں میں نے اس سے دھوکا کیا۔ اسے فریب دیا مگر فریب تو میں نے اپنے آپ کو بھی دیا تھا۔ دھوکا تو اپنے وجود سے بھی کیا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ہمارے خاندان میں شادیاں باہر نہیں ہوتیں۔ (کسی غیر سید کی تو بات ہی کیا) میں اپنے آپ کو اس خوش فہمی سے بہلاتی رہی کہ میں بابا سے اپنی باقی ساری باتوں کی طرح یہ بات بھی منوالوں گی آخر اس میں مشکل ہی کیا ہے مگر مریم! رسوم و رواج کے سامنے رشتے اور محبت کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہم نے اپنے وجود کو اتنی اونچی اونچی فصیلوں میں قید کر لیا ہے کہ اب چاہیں بھی تو روشنی ہم تک پہنچ نہیں پاتی۔
مریم! کاش میں عاشر عثمان سے کبھی نہ ملی ہوتی کاش میں نے اسے کبھی نہ دیکھا ہوتا۔
وہ میڈیکل کالج میں مجھ سے تین سال سینئر تھا پھر بھی پتا نہیں کیوں پورے کالج میں مجھے وہی ایک ایسا چہرہ نظر آیا تھا۔ جس سے مجھے خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ مجھے بعد میں پتا چلا تھا کہ وہ ہمارے پروفیسر ڈاکٹر عثمان مکرم کا بیٹا تھا۔
تمہیں یاد ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات تمہارے ساتھ ہی سر عثمان مکرم کے گھر ہوئی تھی پھر آہستہ آہستہ اس سے جان پہچان بڑھتی گئی تھی۔ کالج میں اکثر وہ تم سے ملتا کیونکہ تمہارے ابو ڈاکٹر عثمان کے بہت اچھے دوست تھے۔ میں تمہارے ساتھ ہوتی’ اس لیے مجھ سے بھی اس کی بات چیت ہوتی رہتی۔ تب ہی مجھے یوں لگنے لگا جیسے کچھ غلط ہو رہا ہے۔ مجھے لاشعوری طور پر اس کے انتظار کی عادت پڑنے لگی تھی۔ میری نظریں کالج میں ہر وقت اسی ایک چہرے کو ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ اور جس دن مجھے اس بات کا احساس ہوا تو میں بہت دیر تک دم بخود رہی تھی پھر میں نے اس سے نہ ملنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں کالج میں اسے نظر انداز کرنے لگی۔ وہ اگر کہیں نظر آتا تو میں بہت خاموشی سے وہاں سے ادھر اُدھر ہو جاتی اگر کبھی تمہارے پاس آتے ہوئے نظر آتا تو میں کوئی بہانا کر کے تمہارے پاس سے چلی جاتی۔
تم تقریباً ہر ہفتے مجھے لے کر پروفیسر عثمان کے گھر جاتی تھیں۔ میں نے وہاں جانا بھی چھوڑ دیا۔ میں خود کو یہ یقین دلانے میں مصروف تھی کہ مجھے اس سے محبت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔
اسی طرح پورا ایک ماہ گزر گیا۔ پھر اس دن میں کسی کام سے پروفیسر عثمان مکرم کے آفس میں گئی تھی۔ وہ آفس میں نہیں تھے مگر عاشر تھا۔ میں کنفیوز ہو گئی اور اس سے پہلے کہ میں خاموشی سے باہر آ جاتی’ اس نے آواز دے کر مجھے روک لیا۔
”درمکنون! کیا آپ کو میری کوئی بات بُری لگی ہے؟” اس نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔
”نہیں۔ آپ نے یہ کیوں پوچھا ہے؟” میں نے کچھ نروس ہو کر عاشر سے کہا تھا۔
”آپ پورے ایک ماہ سے مجھے نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مریم کے ساتھ ہمارے گھر پر نہیں آتیں۔ اگر کبھی میں مریم کے پاس آؤں تو آپ وہاں سے چلی جاتی ہیں اگر میں کہیں اور نظر آ جاؤں تو آپ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں۔”
”نیتوں کا حال تو صرف خدا جانتا ہے پھر وہ شخص …” میں گونگوں کی طرح کھڑی بس سوچ کر رہ گئی۔
”نہیں۔ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بس میں آج کل بہت مصروف ہوں۔” میں نے اپنی زرد پڑتی رنگت بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہو سکتا ہے’ ایسا ہی ہو۔ اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف ہیں؟” اس نے بڑے آرام سے میری بات مان لی۔
”ہاں۔” میں نے سکون کا سانس لیا۔
”واقعی آپ کے پیپرز بھی تو جلد ہی ہونے والے ہیں۔ دو ماہ ہی تو رہ گئے ہیں۔ آپ کو بہت محنت کرنی پڑ رہی ہو گی۔” ایک کتاب کے صفحے پلٹتے ہوئے اس نے مجھے دیکھے بغیر بڑی نرمی سے کہا۔ میرا دل چاہا۔ میں شرم سے ڈوب مروں۔ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ میرا جھوٹ نبھانے میں میری مدد کر رہا تھا۔
دو ماہ تک اس سے دوبارہ میری ملاقات نہیں ہوئی اور جس دن میں اپنا آخری پیپر دے کر ہاسٹل آئی تو اس نے مجھے وہاں رنگ کیا تھا۔
”درمکنون! اگلے ہفتے میری بہن کی شادی ہے۔ مریم کو تو میرے پاپا انوائیٹ کریں گے ہی لیکن آپ کو میں انوائیٹ کر رہا ہوں۔”
فون پر اس کی آواز نے مجھے جتنا حیران کیا تھا۔ اس کے اس مطالبے نے اس سے زیادہ حیران کیا تھا پھر میں چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر سکی۔ میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا کہ میں عاشر کی دعوت پر وہاں جا رہی ہوں۔ تمہارے سامنے میں نے یہ ہی ظاہر کیا تھا کہ میں تمہارے کہنے پر وہاں جا رہی ہوں۔
اس نے اپنی بہن کی شادی کی تقریبات میں ہی مجھے پرپوز کیا اور میں انکار نہیں کر سکی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اس رشتے کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ میں نے پھر بھی خود کو فریب دئیے رکھا اور اب … اب میں خالی دل اور خالی ہاتھوں سے دعاگو ہوں کہ وہ مجھے بھول جائے۔ اسے زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے پھر مجھ جیسی لڑکی کے ساتھ اس نے عشق کا روگ کیسے پال لیا؟
کاش مریم! کاش مجھے کوئی جادو آتا ہوتا اور میں وہ جادو’ وہ منتر اس پر پڑھ کر پھونک دیتی پھر اسے کبھی درمکنون نام کی کسی لڑکی کا خیال آتا نہ اس کی شبیہہ اس کے ذہن میں یوں نقش ہوتی۔
ہاسپٹل میں سارا دن میں ڈاکٹر عثمان مکرم سے چھپتی پھرتی ہوں۔ عاشر کی طرح انہوں نے بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ بھی میری مجبوری جانتے ہیں۔ پھر بھی مجھے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے کچھ پوچھ نہ بیٹھیں۔ کہیں وہ اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کریں۔
انہوں نے عاشر کا پرپوزل میرے لیے میرے گھر لے جانے سے پہلے تمہارے ذریعے دو بار مجھ سے پوچھا تھا۔ کہیں ہمارے خاندان میں صرف سیدوں میں تو رشتہ نہیں کیا جاتا اور میں مریم! سب کچھ جانتے ہوئے بھی انہیں صاف صاف سب کچھ نہیں بتا سکی تھی۔
میرے دل میں بس کہیں ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید … شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔
شاید بابا کو مجھ پر ترس آ جائے۔
شاید میری قسمت یاوری کر جائے۔
مگر کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ دوٹوک انکار ڈاکٹرعثمان مکرم کے منہ پر مار دیا گیا تھا۔ اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ خاموشی سے پلٹ آئے تھے۔ میں نے بابا کو بہت سی دلیلیں دینے کی کوشش کی تھی۔ اور ہر دلیل میرے خلاف محاذ کو اور مضبوط کرتی گئی تھی۔ میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر رکھ دیا گیا تھا۔ بابا کو لگا تھا’ میں اپنا شجرہ نسب بھول گئی ہوں۔ میں اپنے عقیدے سے پھر گئی ہوں۔ میں نے ان کے اعتبار’ ان کے اعتماد کو خاک میں ملا دیا تھا۔ میں نے ایسا کہاں کیا تھا۔ میں ایسا کیسے کر سکتی تھی۔ میں نے تو صرف وہ بنیادی حق استعمال کرنے کی کوشش کی تھی جو میرے دین نے مجھے دیا تھا۔ جو میرے پیغمبرۖ نے مجھے بخشا تھا اور اسی پیغمبرۖ کی آل نے اس حق کو مجھ سے چھین لیا تھا۔
مجھ پر دوپہرے دار لگا کر بابا سمجھتے ہیں مجھے ”غلط کام” سے روک لیں گے۔ مگر میں تو کوئی غلط کام کرنا ہی نہیں چاہتی۔ اور اگر کرنا چاہوں تو کیا یہ دو نگران روک سکتے ہیں۔ نہیں روک سکتے مگر یہ بات بابا کی سمجھ میں نہیں آتی۔ انہیں تو کبھی بھی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا پھر بھی وہ ایک لبرل آدمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا بیٹی کو صرف تعلیم دلوا دینا لبرل ازم ہے۔ اور حقوق؟ ان کا کیا ہو گا؟ کیا حقوق دینا ناجائز ہے؟ میں حقوق پر کتنی ہی بحث کیوں نہ کر لوں۔ کتنی ہی جنگ کیوں نہ لڑوں’ کچھ حقوق اہل سادات بیٹیوں کو دیتے ہی نہیں۔ کچھ چیزوں سے ہمیں محروم رہنا ہی پڑتا ہے۔ میں تمہیں کیا لکھتی ہوں۔ میں نہیں جانتی۔ بس میں لکھ دیتی ہوں۔ وہ سب جو میرے دل میں ہوتا ہے جو مجھے چبھتا ہے۔ جو اندر سے کاٹتا ہے۔ تمہیں بھی نہ لکھوں تو مر جاؤں اور ہے ہی کون جو میری باتیں سنے۔
درمکنون
***




Loading

Read Previous

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

Read Next

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!