آشنا ۔ افسانہ

سمندر کنارے بےٹھے پچھلی رات جو اس نے فیصلہ کےا تھا۔ وہ اس کے لےے بہت اہم تھا۔ رات سکون سے گزارنے اور صبح تازہ دم ہونے کے بعد وہ ہاشم سے اس بارے مےں بات کرنے چلا گےا۔ ہاشم سے اپنی بات شےئر کرنے کے بعد وہ دونوں ممی بابا کے کمرے مےں چلے گئے ۔ بابا اےزی چےئر پر بےٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب کہ ممی وارڈروب مےں کپڑے رکھ رہی تھےں۔ حسّان کے مخاطب کرنے پر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
”مجھے آپ دونوں سے اےک ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ دونوں بابا کے سامنے تحمل سے بےٹھ گئے۔ ممی بھی قرےب ہی صوفے پر آگئےں تھےں۔
”مےں افق سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ ممی بابا کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔ حسّان نے اےک بار پھر اپنی بات دُہرائی تھی۔
”کےا تم اس سے محبت کرتے ہو؟“ممی کے منہ سے بے ساختہ ہی نکلا تو حسّان نے چونک کر انھےں دےکھا۔
”کےا ضروری ہے کہ شادی کے لےے مجھے اس سے محبت ہونی چاہیے؟“ حسّان کا لہجہ سپاٹ تھا، بالکل اس کے چہرے کے تاثرات کی طرح۔
”خاندان بھر مےں ہر کوئی باتےں بنائے گا۔ تم جانتے ہو نا کہ وہ….“سلمیٰ نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”مجھے کوئی فرق نہےںپڑتا ، خاندان والے کچھ بھی کہتے رہےں۔ ےہ خاندان والے تب کہاں تھے جب فےضان سے جواب لےنا چاہیے تھا۔ خےر جو ہوچکا اس سب مےں افق کی کوئی غلطی نہیں ہے۔“
”مجھے پتا ہے تم ےہ سب جذبات مےں آکر کہہ رہے ہو۔ ہم اس کے لےے اچھا رشتہ ڈھونڈےں گے تم اتنے جذباتی فےصلے مت کرو۔“ سلمیٰ عبےد جو ہر رشتے کی طرف سے انکار کے بعد لوگوں کی چھوٹی سوچ کو کوستی تھےں، آج خود بھی اسی چھوٹی سوچ کا شکار ہوگئےں تھیں۔ اےسا ہی ہوتا ہے بعض مرتبہ دوسروں کے کسی فعل کو غلط کہتے کہتے ہم خود اسی فعل مےں مبتلا ہوجاتے ہےں۔
”ممی آپ بھی اس Hypocrite Society کا حصّہ بن گئی ہیں، جو مرد اور عورت کے لےے الگ الگ اصول اور مختلف نظریات رکھتے ہےں۔ آپ طلاق ےافتہ لڑکی کو بےٹی بنا کر رکھ سکتی ہےں تو بہو کےوں نہےں بنا سکتےں۔ نرالی منطق ہے اس سماج کی بھی۔ طلاق تو مرد عورت دونوں کو ہوتی ہے ،طلاق ےافتہ کا لےبل بھی دونوں پر لگتا ہے، تو پھر وہ لےبل، ٹےکے کی طرح صرف عورت کے ماتھے پر ہی کےوں نظر آتا ہے۔ جواب دہ بھی صرف اےک ہوتا ہے۔ قصوروار بھی اےک اور سزا وار بھی صرف اےک…. اور وہ اےک ہر بار عورت ہی کےوں ہوتی ہے۔ مرد کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہےں جو معاشرہ اس سے کچھ پوچھتا ہی نہیں۔“ حسّان خاموش ہوا تو کمرے مےں سکوت طاری ہوگےا۔ ممی بابا اےک دوسرے کا چہرادےکھنے لگے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد حسّان نے اپنا فےصلہ سنادےا۔
”مےرا فےصلہ حتمی ہے۔ مےں افق سے ہی شادی کروں گا۔“ وہ کمرے سے نکلنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ سامنے افق کو کھڑا پاےا ۔ وہ ساری باتےں سن چکی تھی۔ وہ خاموشی سے پلٹی اور اپنے کمرے مےں چلی گئی۔ کچھ دےر بعد ہاشم اس کے کمرے مےں آےا، تو وہ اپنا سامان پےک کر رہی تھی۔ ہاشم عجلت مےں بےڈ پر پڑے سوٹ کےس کے پاس آگےا۔
”ےہ کےا ہے افق، کہاں جارہی ہو؟“ اس نے ہاشم کو کہتے سنا تو جھکا ہوا سر اٹھا کر اےک نظر سامنے کھڑے ہاشم کو دےکھااور پھر سے کپڑے سوٹ کےس مےں رکھنے لگی۔ ہاشم کو اس کا چہرہ دےکھ کر بہت دکھ ہوا۔ چہرہ بھےگا ہوا اور آنکھےں سرخ….
”تم رو رہی ہو؟“
”مجھے آپ پھوپھو ےا پھر فاخرہ باجی کے گھر بھےج دےں ۔ مےں آپ سب پر بوجھ بن گئی ہوں نا۔“وہ بھراّئی ہوئی آواز مےں کہہ رہی تھی۔
”تمہیں اےسا لگتا ہے؟“ ہاشم تاسف سے اسے دےکھ رہا تھا۔دل مےں دبا غموں کا غبار افق کی آنکھوں سے شعلوں کی صورت نکل آےا۔
”اگر اےسا نہےں ہے تو پھر ہر کوئی مجھ پر ترس کےوں کھا رہا ہے۔مےں مانتی ہوں شادی زندگی کا لازمی جز ہے،مگر کےا ےہ ضروری ہے کہ اےک ناکام شادی کے بعد دوسری بھی کی جائے، کےا گارنٹی ہے کہ دوسری شادی کامےاب ہوگی؟ “
”گارنٹی تو پہلی شادی کی بھی نہےں ہوتی، تو وہ بھی تو کرتے ہےں نا۔“
”مےں اتنی کمزور نہےں ہوں کہ اکےلی نہ رہ سکوں۔“
”زندگی اکےلے نہےں گزاری جاسکتی، زندگی کے آخری لمحات مےں جب سب رشتے چلے جاتے ہےں ، تو اےک شرےکِ حےات ہی ہوتا ہے جو ہمارا ساتھ دےتا ہے۔ بڑھاپے مےں ہمےں چلنے کے لےے چھڑی کی نہےںاپنے جےون ساتھی کے ہاتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ہاتھ جو زندگی کے اتار چڑھاﺅ مےں ہمےشہ ہمےں تھامے رکھتا ہے۔ مےں جانتا ہوں تم کمزور نہےں ہو، مگر بہادر تو وہ ہوتے ہےں جو کسی کو اپنی زندگی مےں شامل کرنے کا حوصلہ رکھتے ہےں۔“ افق کی پلکوں سے موتی ٹوٹ کر گود مےں رکھے ہاتھ پر گر رہے تھے۔ ہاشم نے پانی کا گلاس افق کی طرف بڑھادےا۔
”حسّان مےرا چھوٹا بھائی ہے، مےں جانتا ہوں وہ کوئی بھی فیصلہ جلد بازی مےں نہےں کرتا۔ تم سے شادی کا فےصلہ بھی اس نے بہت سوچ سمجھ کر کےا ہوگا وہ تم پر ترس نہےں کھا رہا، وہ بہت کےئر کرتا ہے تمہاری۔ محبت کرنے والے بہت مل جاتے ہےں، مگر عزّت کرنے والے لاکھوں مےں چند ملتے ہےں۔ آخری فےصلہ تمہارا ہوگا اور مےں چاہوں گاتم ےہ فےصلہ اپنے حق مےں کرو۔“ افق غم ناک نظروں سے اسے دےکھتی رہی اور وہ اپنی بات مکمل کر کے وہاں سے جاچکا تھا۔
٭….٭….٭
وہ بالکونی مےں گھٹنوں کے گرد بازو لپےٹے بےٹھی تھی۔ کتنے ہی لمحے خاموشی سے سرک گئے ۔ وہ سوچوںکے جنگل مےں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھی۔ سوچ کے سلسلے کو ساتھ والی بالکونی کے سلائیڈنگ ڈور کی آواز نے توڑا تھا۔ ساتھ والا کمرا حسّان کا تھا، وہ بھی کمرے سے نکل کر بالکونی مےں آگےا۔ کچھ بکھرا بکھرا سا حلےہ لےے وہ رےلنگ پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ جب لاشعوری طور پر اس کی نظر ساتھ والی بالکونی مےں بےٹھی افق پر پڑی تھی۔ اس نے واپس اپنی نظرےں سامنے آسمان مےں ڈوبتے سورج پر جما دےں۔ جہاں ارغوانی، آتشی اور نےلا رنگ اےک دوسرے مےں ملے ہونے کے باوجود بھی اےک دوسرے سے جدا تھے۔
”مجھے نہےں پتاکہ تمہےں اےسا کےوں لگتا ہے کہ مےں تم پر ترس کھا رہا ہوں اور مےں تمہیں کسی طرح کی صفائی پےش نہےں کروں گا۔ سچے جذبوں کی ےہی خاصےت ہوتی ہے، ان کی وضاحت نہےں کرنی پڑتی ، وہ خود ہی آشکار ہونے کی طاقت رکھتے ہےں۔“ وہ خود کلامی کے انداز مےں بول رہا تھا اور وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔
”پر مےں صرف ےہ جاننا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں پر خزاں کی اداس شامےں چھا جائےںوہ بہار کی آمد سے خوف زدہ کےوں ہوتے ہےں؟ بہار اپنے ساتھ خوشےوں کے نئے رنگ لاتی ہے، ان کا مسکرا کراستقبال کرنا چاہیے ورنہ ےہ در بند دےکھ کر پلٹ جاتی ہےں۔“
”کبھی کبھی ہمےں خود کو دوسرا موقع دےنا چاہیے، دوسروں کے لےے نہےں اپنے لےے۔ دوسروں کی غلطےوں کی سزا خود کو دےنا اپنی ذات کے ساتھ نا انصافی ہے۔“ حسّان کا اےک اےک لفظ اس کی سماعتوں سے ٹکرارہا تھا، پر وہ ہنوز اس کی طرف پشت کےے بےٹھی رہی۔ وہ کچھ دےر وہاں کھڑا رہا پر جب افق کی طرف سے کوئی جواب نہ آےا تو وہ کمرے مےں جانے کے لےے پلٹا پر افق کی آواز پر اس کے قدم رک گئے۔
”حسّان…. تم مجھ سے شادی کےوں کرنا چاہتے ہو؟ تم جانتے ہو کہ سب….“حسّان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اپنے لےے…. ہر انسان اپنے لےے اےک اچھا ہم سفر تلاش کرتا ہے اور مجھے تم مےں اےک بہترےن ہم سفر ملے گا، ےہ مےرا ےقےن ہے۔“
اب کی بار افق نے پلٹ کر اسے دےکھا تو ےک ٹک دےکھتی ہی رہ گئی۔ وہ نرمی سے مُسکراےا تھا، اسے افق کی آنکھوں مےں اےک مدّت بعد زندگی کی رمق دےکھائی دی تھی۔ افق نے حسّان کے چہرے سے نظرےں ہٹا کر آسمان کی طرف دےکھا جہاں پرندے کھلی فضا مےں پنکھ پھےلائے واپسی کا سفر طے کر رہے تھے۔ تو آخر غموں کا سفر ختم ہوا۔ زندگی خوشےوں کی راہوں پر چلنے کے لےے تےا رہے تو افق نے اپنے حق مےں فےصلہ لے ہی لےا۔ اس نے بہار کے ساتھ آئے خوشےوں کے رنگوں سے اپنی زندگی کی تصوےر حسّان کے ساتھ رنگنے کا فےصلہ کرلےا۔ عبےد حےدر کو ہاشم نے منالےا تھا، مگر سلمیٰ کچھ زےادہ خوش نہےں تھےں۔ شادی کے بعد حسّان افق کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے آےا۔ وہ افق کے لےے اےک اچھا شوہر ثابت ہوا، وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کا خےال رکھتا۔ اس کے خےالات کا احترام کرتا۔اس کے جذبات کی قدر کرتااور ان سب سے بڑھ کر وہ اس کی عزّت کرتا تھا۔ وہ اکثر شام مےں جلدی گھر آجاتااور پھر اس کے ساتھ واک پر چلا جاتا۔
وہ شام کی واک کے لےے کسی پارک مےں آئے تھے جب حسّان کو کسی کا فون آےا، تو وہ کچھ فاصلے پر چلا گےا۔
”کس کا فون تھا؟“ افق نے پوچھا۔
”مےری گرل فرےنڈ کا۔“ وہ شرارتاً مسکرارہا تھا۔
”اچھا ، مےرا سلام کہنا تھا۔“ وہ بھی مذاق کے موڈ مےں تھی۔
”تمہارے لےے کچھ آرڈر کےا ہے، تمھےں اچھا لگے گا گفٹ۔“
”کتنے فضول خرچ ہوگئے ہو نا تم۔“
”مجھے لگتا ہے تم کہنا چاہ رہی ہو کہ کتنے کےئرنگ ہونا تم ۔“ وہ دونوں ہاتھ سےنے پر باندھے اس کے سامنے کھڑا ہوگےا۔
”بالکل بھی نہےں۔“ افق کے کھنکتے قہقہے پر وہ بھی کھلکھلاےا تھا۔
کچھ لوگ تہجد مےں مانگی گئی دعا کی طرح ہوتے ہےں کھرے، مخلص اورد ل کے بہت قرےب حسّان اےسا ہی تو تھا، وہ افق کو کسی خوبصورت دعا کی طرح ملا تھا۔
”کوئی مجھ سے پوچھے کہ مجھے تم سے محبت ہے تو مےں کہوں گی کہ ہمارے درمےان محبت سے بھی بڑا رشتہ ہے اعتبار کا، عزّت کا، تم نے ہر قدم پر مےرا ساتھ دےا تم باقی لوگوں کی طرح نہےں ہو۔ تم نے کبھی مجھ پر کوئی سوال نہےں اٹھاےا۔ ہمےشہ مےری عزّت کی۔ مےری ہر تکلےف کو سمجھا۔ کسی نگران فرشتے کی طرح تم نے مجھے ہر درد سے بچانے کی کوشش کی۔ مےں تم سے محبت کرتی ہوں اور بہت کرتی ہوں۔ پر اس سے کہیں زےادہ مےں تمھاری عزّت کرتی ہوں۔ تم کبھی اجنبی تھے ہی نہےں تم تو ہمےشہ سے مےرے آشنا تھے۔“ وہ اس کے بازو کے خم مےں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ چلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ اسی کے ساتھ جو اس کا آشنا تھا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

گھر سے مکان تک ۔ افسانہ

Read Next

شاہ ماران ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!