آشنا ۔ افسانہ

دو سال پہلے عبےد حےدر کے چھوٹے بھائی عثمان حےدر جب اپنی فےملی کے ساتھ پاکستان شفٹ ہوئے تو انہوں نے عبےد حےدر سے افق کا ہاتھ اپنے اکلوتے بےٹے فےضان کے لےے مانگا تھا۔ عثمان حےدر کے لاڈ پےار نے فےضان کو بگاڑ رکھا تھا۔ پوراخاندان جانتا تھا کہ فےضان اچھا انسان نہےں ہے مگر پھر بھی عبےد حےدر نے بھائی کے پےار مےں افق کی شادی فیضان سے بہ خوشی کروادی۔ شادی کے بعد بھی فےضان مےں کوئی مثبت تبدےلی رونما نہےں ہوئی۔ اب تو وہ پہلے سے بھی زےادہ غےر ذمہ د ار ہوگےاتھا۔ عثمان حےدر کے کہنے پر جب افق نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے افق پر ہاتھ اُٹھانا شروع کردےا۔ عورت سب کچھ برداشت کرلےتی ہے مگر تذلےل نہےں مگر اکثر وہ اپنا گھر بچانے کے لےے تذلےل کا زہرےلا گھونٹ بھی پوری عمر پےنے کو تےار ہوجاتی ہے۔ عورت اتنی نادان کےوں ہوتی ہے؟ کےوں وہ سوچتی ہے کہ پٹ کر، اپنی حےثےت کھو کر وہ اپنے گھر کی بنےاد بچا رہی ہے۔ کےوں وہ ےہ نہےں سوچتی کہ گھر کی بنےاد مےں عزت کا ہونا لازم ہے، جہاں عزت نہےں ہوتی وہاں کچھ بھی نہےں ہوتا۔ وہ صرف سمجھوتا ہوتا ہے، صرف سمجھوتا…. شادی کو صرف اےک سال ہوا تھا مگر وہ اےک سال…. تکلےفوں بھرا سال صدےوں پر محےط تھا۔ وہ اےک سال کانٹوں بھرا سفر تھا۔ جو افق نے صرف اس منزل کی تلاش مےں طے کےا تھا جو اپنا وجود رکھتی ہی نہےں تھی۔ اےک سال بعد فےضان نے کسی دوسری عورت کی محبت مےں گرفتار ہوکر افق کو طلاق دے دی۔ افق کے لےے اےک سفر ختم ہوا تو دوسرا شروع ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی فےضان نے جو طلاق ےافتہ کا ٹےگ اس کے ماتھے پر لگاےا ہے معاشرہ کبھی اسے اس ٹےگ کے ساتھ قبول نہےں کرے گا۔
”ماں باپ بےٹوں کو تعلےم تو دلادےتے ہےں مگر ان کو عورت کے ساتھ کےسا برتاﺅکرنا ہے ےہ کےوں نہےں سےکھاتے۔ ےہی اےک بڑی وجہ ہے کہ معاشرے مےں طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے اور پھر اسی معاشرے کے عظےم لوگ طلاق ےافتہ لڑکی کو اپنانے مےں عےب اور خرابی سمجھتے ہےں۔“ افق نے اےک سال فےضان کے ساتھ جس تکلےف اور کرب مےں گزارا تھا، اس تکلےف مےں مزےد اضافہ افق کی سابقہ ساس نے خاندان بھر مےں افق کے متعلق جھوٹی خبرےں پھےلا کر کےا تھا۔ اپنے بےٹے کی غلطےوں کو چھاپنے کے لےے انہوں نے افق کی عزت اچھالی تھی۔ خاندان بھر مےں اسے بدکردار ، مکّار، آوارہ اور ناجانے کےسے کےسے ناموں سے مشہور کےا تھا اس لےے خاندان بھر اور پھر باہر سے بھی رشتوں سے انکار ہونے لگا۔ اس کی ہر خوبی کو بالائے طاق رکھ کر لوگوں نے طلاق ےافتہ کا لےبل اور اس سے متعلق جھوٹی خبروں کو اہمےت دی تھی۔ افق نے ہر بات کو برداشت کےا ۔ صبر کا دامن تھامے رکھا۔ بہ ظاہر وہ جتنی خاموش لگتی اند ر سے اتنی ہی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی رہی۔ طلاق تو فےضان کی بھی ہوئی تھی پر وہ تو جلد ہی اےک نئی زندگی شروع کرچکا تھا تو پھر ساری تلخےاں، ساری رسوائےاں صرف افق کے حصّے مےں ہی کےوں۔
٭….٭….٭
وہ سمندر کنارے گاڑی کے بونٹ پربےٹھا پانی اور آسمان کے کنارے ملتے ہوئے دےکھ رہا تھا۔ وہ ذہن مےں گھر سے جو ہلچل لےے ےہاں آےا تھااب وہ نہےں تھی شاےد وہ کسی نتےجے پر پہنچ گےا تھا۔ کچھ لمحے بڑے فےصلہ کن ہوتے ہےں۔ اس مےں انسان وہ فےصلے کر لےتا ہے جو ساری زندگی بھی سوچے تو نہ کر پائے۔ کافی دےر وہاں بےٹھنے کے بعد وہ گھر آگےا۔ چہرے پر بلا کا سکون لےے وہ گاڑی پورچ مےں کھڑی کر کے اندر جارہا تھا کہ افق کو دےکھ کر اس کے قدم لان کی طرف بڑھ گئے وہ وہاں بےٹھی خاموشی سے چاند کو رات کی سےاہی مےں ڈوبتے دےکھ رہی تھی، جب حسّان دبے قدموں اس کے سامنے آکر کرسی کھےنچ کر بےٹھ گےا۔
”کےا سوچ رہی ہو؟“ افق نے اسے کہتے سنا، تو چاند سے نظرےں ہٹا کر اےک نظر اُسے کو دےکھا اور نفی مےں سر ہلا دےا۔
”تم کہاں گئے تھے؟“
”تائی امّی اتنی پرےشان ہورہی تھےں۔ کےوں ناراض ہو کر گئے تھے ان سے؟“
”مےں امّی سے نہےں ، تم سے ناراض ہوکر گےا تھا۔“ حسّان نے کھٹاک سے جواب دےا، تو متحےر سی افق اسے دےکھنے لگی۔
”مجھ سے…. کےوں؟“
”کےوں کہ تم ڈرپوک ہو، بزدل ہو۔“
”تم اپنے حق کے لےے بولنا نہےں جانتی جب فیضی سے شادی ہوئی تب تم کچھ نہ بولی ۔ اس الّو کے پٹھے کی زےادتےاں برداشت کرتی رہی ےہ تمہاری کمزوری ہے۔ اس نے طلاق کے تےن بول تمھارے منہ پر دے مارے اور تےن کپڑوں مےں تمہیں تنہا چھوڑ دےا۔ تب بھی تم اپنے حق کے لےے نہ بولی۔ نصرت چچی نے خاندان بھر مےں تمہارے بارے مےں جھوٹی خبرےں پھےلائیں تب بھی تم نے اپنی زبان پر پڑا قفل نہ کھولااور اب جب روز روز کے انکارسے تمہیں تکلےف ہوتی ہے، تب بھی تم مےں اتنی ہمت نہےں کہ ممی بابا سے اس بارے مےں بات کرو۔ اب تم ہی بتاﺅ، تم ڈرپوک نہےں تو کےا ہو؟“ حسّان غصّے اور تاسف کے ملے جلے تاثرات لےے کہہ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے سنتے ہوئے ذرا سی مسکرائی اور سےدھی ہوکر بےٹھ گئی۔
”ہاں شاےد تم ٹھےک کہہ رہے ہو، …. مےں کمزور ہوں۔ مجھے نہےں پتا کہ مےں نے فےضی سے شادی کے لےے ہاں کےوں کی،پر جب اس نے پہلی بار مجھ پرہاتھ اٹھاےا تھا ، تب مےرے نسوانی وقار نے ےہ قبول نہ کےا۔ مےرا دل چاہا کہ اسے چھوڑ دوں پر پھر دل مےں خےال آےا کہ گھر کی دہلےز چھوڑنے والی عورت کی کوئی عزت نہےں کرتا۔ مےں اگر گھر چھوڑ دےتی تو ساری عمر ےہ بات سائے کی طرح مےرے ساتھ رہتی کہ مےں نے خود اپنا گھربسانے کی کوشش نہےں کی۔“
”جب فےضان نے مجھے چھوڑنے کا فےصلہ کیاتو اس رات مےں اللہ کے سامنے بہت روئی ،بہت دعائےں کیں۔ مےں نے اس سے اپنے گھر کو بچانے کی دعا کی۔ وہ گھر جس کی بنےاد پانی پر تھی، اپنا وہ رشتہ بچانے کی دعائےں کی جس مےں رشتے جےسا کچھ تھا ہی نہےں۔ مےں اس رات اپنے رب کے سامنے اپنی ہر نےکی کو لے گئی کہ وہ ان نےکےوں کے عوض مےرا گھر بچالے۔ مےں نے اپنے ہر گناہ کی معافی مانگی کہ شاےد معافی کی صورت ہی مےری دعا قبول ہوجائے۔ مےں فےضان کے ساتھ اس لےے نہےں رہنا چاہتی تھی کہ مجھے اس سے محبت تھی، نہےں ہرگز نہےں ۔ ظلم کرنے والے کو معاف تو کےا جا سکتا ہے مگر اس سے محبت نہےں کی جاسکتی ۔ مےں توصرف طلاق کے لےبل سے بچنا چاہتی تھی۔“ اُفق کھوئے کھوئے لہجے میں بول رہی تھی۔
”جانتے ہو حسّان…. اللہ کے نزدےک ناپسندےدہ عمل طلاق ہے۔ فرش پر بولے جانے والے ےہ تےن بول عرشِ معلی کو ہلا دےتے ہےں۔ مجھے خوف تھا تو صرف اپنے رب کا کہ کہےں مےں اس کو ناراض نہ کردوں۔ جب فےضان نے مجھے چھوڑا تو مےں جانتی تھی کہ اب دنےا مجھ پر تنگ کردی جائے گی۔ ہر الزام مےری ذات سے منسوب کردےا جائے گا۔ نصرت چچی نے مےرے بارے مےں جو کچھ کہا مےں اس کا جواب انہےں نہےں دےنا چاہتی، کےوں کہ اگر مےں نے کچھ کہا تو ہوسکتا ہے مےں بھی ان کی طرح کچھ اےسا کہہ جاﺅں جو مناسب نہ ہو اور مےں جو ہوں وہ مےرا رب جانتاہے۔ اس کے لےے مجھے لوگوں کو صفائےاں پےش کرنے کی ضرورت نہےں۔ خاموش رہنے کا مطلب کمزور ی نہےں ، بلکہ خاموشی تو بہادروں کا ہتھےارہے۔“
حسّان اس کی آنکھوں مےں آنکھےں ڈالے تےرتی نمی کو دےکھ رہا تھا، وہ جس کو کمزور سمجھ رہا تھا،وہ اندر سے کتنی مضبوط تھی۔
”مےں آج بھی اپنی ذات کا محاسبہ کرتی ہوں کہ مےں کہاں غلط ہوگئی، کہاں کمی رہ گئی مجھ سے۔ حسّان کوئی لڑکی کبھی نہےں چاہتی کہ اس پر ےہ بدنما ٹےگ لگے۔ چادر جتنی بھی خوبصورت کےوں نہ ہو، اےک پےونداس کی خوبصورتی ختم کردےتا ہے۔ چاند سے پہلے اس کے داغ پر نظر جاتی ہے، اسی طرح طلاق ےافتہ لڑکی کتنی بھی خوبےوں کی مالک کےوں نہ ہو ، سطحی لوگوں کی نظرےں اس سے جڑے لےبل کو دےکھتی ہےں بہت کم نظرےں ہوتی ہےں جو اس پےوند ، اس داغ اور اس لےبل کو نظر انداز کر کے اس کی خوبےوں کو دےکھتی ہےں۔“ وہ بہت نرمی سے کہتے ہوئے مسکرا دی۔
”شکر ہے خدا کا، پرانی افق واپس آگئی۔ مجھے تو لگا تھاوہ اُفق تو گُم ہوگئی جو مجھ سے ہر بات شےئر کرتی تھی۔ مجھ سے گھنٹوں کسی موضوع پر بات کر سکتی تھی۔ شکر ہے تمھاری زبان واپس آگئی۔“ لہجے اور آنکھوں مےں بھر پور شرارت لےے وہ مُسکرارہا تھا، افق بھی جواباًمسکرائی تھی۔ کچھ دےر ےونہی بےٹھنے کے بعد وہ اٹھی اور اندر جانے لگی۔
”جلدی چلے جانا سونے، ےہاںبےٹھ کر تارے مت گننا۔ شب بخےر۔“ گھاس پر پڑی چپل مےں پےر ڈالتے وہ مُڑ گئی۔
”افق…. اگر تمھےں وہ نظر ملے جو چادر مےں پےوند ، چاند مےں داغ اور تمھارے نام کے ساتھ جڑا وہ لےبل نہ دےکھے تو؟“ وہ استفہامےہ نظروں سے افق کو دےکھ رہا تھا۔ افق چند سکےنڈ کھڑی رہی پھر مستحکم لہجے مےںبولی۔
”خزاںکی اداس شاموں کے بعد باغ مےں آئی خوشےوں کی بہار کسے اچھی نہےں لگتی۔“ وہ ذو معنی بات کہتی ہوئی چلی گئی۔ حسّان نے سکون سے اےک گہرا سانس ہوا کے سپرد کےااور چاند کو دےکھنے لگا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گھر سے مکان تک ۔ افسانہ

Read Next

شاہ ماران ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!