وہ پارک میں اپنے مخصوص بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ معیز نے اسے دور سے دیکھ لیا تھا۔ قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ معیز کو اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ایک جھٹکا لگا تھا۔ اسے قیافہ شناسی کا دعوا نہیں تھا مگر وہ چہرہ شناس ضرور تھا۔
”السلام علیکم!” اس نے عائشہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے آہستہ آواز میں کہا تھا۔ وہ جواب دیے بغیر ایک ٹک اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ معیز کو یوں لگا جیسے وہ ذہنی طور پر وہاں موجود نہیں تھی۔ اسے ہمیشہ اس کی آنکھیں بولتی ہوئی لگی تھیں اور آج پہلی بار وہ آنکھیں اسے گونگی لگی تھیں۔
”کیا بات ہے؟ کوئی مسئلہ ہے عائشہ؟” وہ نرم لہجے میں کہتا ہوا اس سے کچھ فاصلے پر بینچ کے دوسرے سرے پر بیٹھ گیا۔ اس نے معیز کو دیکھنا بند کر دیا تھا وہ دور جاگنگ ٹریک پر بھاگتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔
”مجھے کچھ بتانا ہے۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں جو آپ نہیں جانتے۔” وہ سامنے نظریں جمائے آہستہ سے بولی تھی۔
”کیا یہ بہت ضروری ہے؟” معیز نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ہاں بہت ضروری ہے۔” اس بار معیز کو اس کی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔
”میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ اور آنٹی مجھے جو سمجھ رہے ہیں میں وہ نہیں ہوں۔” وہ اس کی بات پر چونکا نہیں تھا بس سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
میں آپ کو کسی دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتی۔ آپ نے زندگی میں بہت محنت کی ہے۔ بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں اب آپ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ میرے جیسی لڑکی آپ کی زندگی میں شامل ہو۔ میں اتنی پاکیزہ، مقدس اور نیک نہیں ہوں جتنا آپ لوگ مجھے سمجھتے ہیں۔ میں ہر لحاظ سے تھرڈ کلاس ہوں۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں آپ دونوں کو دھوکہ دیتے ہوئے آپ کی زندگی میں شامل ہو جاؤں۔ آپ کے سکون کو تباہ کروں۔ میں یہ سب آنٹی سے کہنا چاہتی تھی مگر مجھ میں اتنا حوصلہ، اتنی ہمت نہیں تھی۔ وہ مجھے پتا نہیں کیا سمجھتی ہیں اور میں انھیں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں کتنی عام، گری ہوئی لڑکی ہوں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ میں سب کچھ آپ کو بتا دوں۔ آپ آنٹی کو خود ہی میرے بارے میں بتا دیجئے گا۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ معیز نے اسے اپنے ہونٹ بھنیچتے ہوئے دیکھا یوں جیسے وہ کچھ بتانے کے لیے ہمت مجتمع کر رہی ہو۔ پھر اس نے سر جھکا لیا۔
”چار سال پہلے مجھے اپنے تایا کے بیٹے سے محبت ہو گئی تھی۔ تب ہم ان کی فیملی کے ساتھ نہیں ملتے تھے۔ میں کسی کو بھی اپنے گھر آنے نہیں دیتی تھی۔ وہ ایک بار میرے آفس آیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے۔ وہ چاہتا تھا میں اپنے خاندان کو ان کے خاندان سے ملنے سے نہ روکوں۔ ان کے خاندان پر پابندیاں نہ لگاؤں۔ شروع میں مجھے اس کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔” وہ اب بات کرتے ہوئے اپنی ہتھیلیاں دیکھ رہی تھی۔ ”مگر وہ بار بار آتا رہا۔ بار بار مجھ سے کہتا رہا کہ اسے مجھ سے محبت ہے۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ آہستہ آہستہ مجھے اس کی باتوں پر یقین ہونے لگا۔ پھر تایا کی فیملی سے ہمارے تعلقات بحال ہونے لگے۔ وہ لوگ ہمارے گھر آنے جانے لگے۔ پھر ایک دن حاذق نے مجھے بتایا کہ اس کے ماں باپ میرا رشتہ مانگنے کے لیے ہمارے گھر آئیں گے۔ اس نے اپنے ماں باپ کو ہمارے گھر بھجوایا لیکن انھوں نے میرا نہیں فریحہ کا رشتہ مانگا۔ انھوں نے کہا یہ سب حاذق کی خواہش پر ہو رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے حاذق سے پوچھا تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ کبھی بھی نہ تو مجھ سے محبت کرتا تھا نہ ہی مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ اور فریحہ ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ مگر ان کی شادی تب تک نہیں ہو سکتی تھی جب تک میں امی کو تایا کی فیملی سے تعلقات بحال نہ کرنے دیتی۔ انھوں نے تعلقات بحال کروانے کے لیے یہ طریقہ سوچا۔
میں کچھ نہیں کہہ سکی۔ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ رہ ہی نہیں گیا تھا۔ حاذق نے مجھ سے معذرت کر لی مگر فریحہ نے نہیں۔ اس کا خیال تھا کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اس نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ ٹھیک تھی، اس نے بالکل صحیح کیا تھا۔ غلطی تو مجھ سے ہوئی تھی۔
امی نے حاذق کا رشتہ منظور کر لیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔ مجھے اپنا وجود بالکل بے کار لگنے لگا۔ میں ایک ایسی چیز بن گئی تھی جس سے کوئی بھی محبت کرتا تھا نہ ہی پسند کرتا تھا۔ سب کو اعتراض ہونے لگا تھا۔ میری ہر بات پر، ہر کام پر۔
فریحہ کی شادی پر احمر بھی آیا تھا اس نے بھی وہاں شادی کر لی تھی اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اب اس جاب کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ جاب چھوڑ دوں اور گھر بیٹھ جاؤں۔ اسے میرے کردار پر دوسروں کی طرح اعتراضات تھے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اس نے میرے ساتھ سارے تعلقات ختم کر دیے۔ جب تک میرے گھر والوں کو میری ضرورت تھی وہ مجھے استعمال کرتے رہے۔ جب انھیں میری ضرورت نہیں رہی تو انھوں نے مجھے ایک استعمال شدہ چیز کی طرح پھینک دیا۔ پہلے میں گھر کو سپورٹ کرتی تھی کیونکہ احمر امریکہ میں سیٹل نہیں ہو رہا تھا پھر اس نے باہر سے لمبی چوڑی رقم کے ڈرافٹ بھیجنا شروع کر دیے۔ تب کسی کو میرے چند ہزار کی ضرورت نہیں رہی تو گھر میں میرا عمل دخل بھی ختم کر دیا گیا۔ ان دنوں میں نے ڈرنک کرنا شروع کر دی۔”
وہ بات کرتے کرتے ایک بار پھر رکی۔ معیز کا چہرہ اب بھی بے تاثر تھا۔
”ڈرنک کے بعد کوکین پھر ہیروئن۔ گھر والوں کو شروع میں پتا نہیں چلا جب پتا چلا تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ میں وہ سب کچھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھی۔ ہاں گھر چھوڑنے پر تیار تھی۔ ایسا کرتی تو شاید گھر والوں کی بہت بدنامی ہوتی۔ اس لیے انھوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر ان ہی دنوں آنٹی والا حادثہ ہوا۔ آپ لوگوں کے ساتھ واقفیت بڑھی۔ میں نے آنٹی سے شروع میں بچنے کی بہت کوشش کی۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ میرے بارے میں کچھ جانیں مگر ایسا نہیں ہوا، مجھے نہیں پتا کس طرح میں ان کے پاس جانے لگی۔ شاید مجھے کوئی سہارا چاہیے تھا۔ محبت کے چند لفظ چاہیے تھے۔ وہ آپ کے بارے میں بات کرتی رہتی تھیں آپ نے بچپن کس طرح گزارا۔ کتنی تنگی برداشت کی۔ رشتہ داروں کے ہاتھوں کتنی ذلت اٹھائی۔ مجھے آپ سے انس ہونے لگا۔ مجھے آپ کی زندگی اپنی جیسی لگتی تھی۔ پھر میں لاشعوری طور پر آپ کے پاس آنے لگی۔ آپ سے باتیں کرنے لگی اور تب میرا دل چاہا میں زندگی سے محبت کروں۔ میں وہ سب کچھ چھوڑ دوں جس کی میں عادی ہو چکی تھی اور میں نے یہی کیا۔ میں نے ایک سینٹر جوائن کیا اور ڈرگز کو چھوڑ دیا۔ گھر والے آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میں ڈرگز استعمال کرتی ہوں لیکن میں نہیں کرتی۔ میں نے آپ کو پہلے کبھی یہ سب نہیں بتایا مجھے خوف تھا دوسروں کی طرح آپ بھی مجھ سے نفرت کریں گے۔ رابعہ آنٹی مجھے اپنے گھر نہیں آنے دیں گی میں ایک بار پھر پہلے کی طرح اکیلی رہ جاؤں گی۔ میں ماضی کو دفن کر دینا چاہتی تھی مگر ماضی دفن ہی تو نہیں ہوتا۔ آپ نے زندگی میں ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے کیا آپ کے مقدر میں میرے جیسی کرپٹ لڑکی ہونی چاہیے؟ میں نے آپ کے پرپوزل دیے جانے کے بعد یہی سوچا تھا پہلے میرا دل چاہا تھا کہ میں آپ کو کچھ بھی نہ بتاؤں سب کچھ چھپا ہی رہنے دوں۔ مگر یہ سب بہت مشکل ہے۔ مجھے رابعہ آنٹی اور آپ سے خوف آنے لگا ہے۔ میں آپ دونوں کو پچھلے چھ ماہ سے بلف کر رہی ہوں۔ آپ دونوں مجھے بہت پاکیزہ، نیک، ایثار پسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں تو ایسی ہوں ہی نہیں۔ میری حقیقت کبھی نہ کبھی تو آپ لوگوں کے سامنے کھل ہی جاتی پھر آپ لوگ مجھ سے نفرت کرتے۔ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔ آپ کسی اچھی لڑکی سے شادی کریں یا پھر معصومہ سے شادی کر لیں وہ ہر لحاظ سے آپ کے قابل ہے۔ ہر لحاظ سے مجھ سے بہتر ہے۔ میرے جیسے عیب نہیں ہیں اس میں، آپ اس کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گے۔ وہ رابعہ آنٹی کو بھی بہت پسند ہے۔ وہ معصومہ جیسی بہو ہی چاہتی ہیں۔”
وہ خاموش ہو گئی۔
”ایک کہانی سنیں گی آپ؟” جو جملہ اس کی تمام گفتگو کے بعد اس کی سماعتوں سے ٹکرایا تھا۔ اس نے اسے حیران کر دیا تھا وہ سر اٹھا کر معیز کے چہرے کو دیکھنے لگی۔
آج سے چھبیس سال پہلے ایک بچے نے اپنی دنیا کو ختم ہوتے اور ایک نئی دنیا کو ابھرتے دیکھا۔ ختم ہونے والی دنیا محبتوں، آسائشوں، رنگینیوں کی دنیا تھی اور نئی دنیا ذلتوں، آزمائشوں اور ٹھوکروں کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں اس نے پچھلی دنیا کے کرداروں کو نئے چہروں کے ساتھ دیکھا، اصلی چہروں کے ساتھ اور وہ چہرے بہت ہولناک تھے۔”
وہ آنکھوں میں ابھرتی نمی کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اسے کیا سنا رہا تھا۔
”اس نے ہر رشتے کو بہت معمولی، بہت بے معنی پایا۔ انسانوں پر سے اس کا اعتبار اٹھ گیا۔ لمبے عرصے تک وہ لوگوں سے خوف کھاتا رہا۔ پھر اس نے ایک بار پھر اپنی دنیا نئے سرے سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسے ایک بار پھر پرانی دنیا میں اصلی کردار نقلی چہروں کے ساتھ چاہیے تھے۔ چھبیس سال تک اس نے ایک لمبی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں اس نے بہت کچھ گنوایا۔ اپنی منگیتر، اپنا بچپن، ماں کی توجہ اور وقت، اپنی تعلیم اپنی جوانی اور یہ سب گنوانے کے بعد وہ پرانی دنیا کو دوبارہ سے تعمیر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تب وہ چونتیس سال کا ہو چکا تھا۔ تب اسے محبت کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس محبت کی نہیں جسے وہ روپے سے خرید سکتا تھا بلکہ اس محبت کی جو اس کے وجود کی ساری کمیوں کو پورا کر دے پھر اسے ایک لڑکی ملی۔”
اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ وہ اسے دیکھنے کے بجائے پارک میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
”اسے لگا جیسے اس کی تلاش ختم ہو گئی تھی۔ وہ اسے ہر اعتبار سے اپنے جیسی لگی۔ اس لڑکی میں بہت سی خامیاں تھیں، بالکل اس کی طرح مگر اسے تو اس کے وجود سے نہیں اس کے دل سے محبت تھی جس نے ایک بار اس لڑکی کو اس کی ماں کو بچانے پر مجبور کیا تھا۔”
کوئی چیز عائشہ کے گال بھگونے لگی۔ وہ اب بھی بول رہا تھا۔
”بہت عرصہ دونوں نے اکٹھے گزارا پھر اس نے اس لڑکی کو پرپوز کر دیا۔ تب ایک دن وہ لڑکی اپنے پورے ماضی کو اٹھا کر اس کے سامنے پہنچ گئی۔ اسے بتانے لگی کہ اس نے زندگی میں کیا کیا ہے وہ صاف گو اور ایماندار بننا چاہتی تھی۔ اس کو دھوکا نہیں دینا چاہتی تھی۔”
”آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں صاف گو بننا چاہتی ہوں نہ ایماندار میں تو صرف۔”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر معیز نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں صرف حاذق کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ باقی سب کچھ جانتا تھا، یہ بھی کہ تم ڈرنک کرتی ہو۔ یہ بھی کہ تم ڈرگز لیتی ہو۔”
اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ معیز آپ سے تم پر آ چکا تھا۔
”میں نے تمھیں پرپوز کرنے سے پہلے تمھارے بارے میں سب کچھ پتا کروایا تھا جہاں تم کام کرتی ہو وہاں تمہاری ریپوٹیشن کیا ہے۔ تمہاری کمپنی کیسی ہے۔ پھر وہ Rehabilitation سینٹر جہاں تم اپنے علاج کے لیے جاتی رہیں وہاں سے بھی میں تمہارا سارا ریکارڈ دیکھ چکا ہوں۔ جس عمر میں میں شادی کر رہا ہوں۔ اس عمر میں کوئی بھی مرد آنکھیں بند کر کے صرف محبت کے لیے شادی نہیں کرتا۔ میں نے بھی تمھارے بارے میں پوری چھان بین کی تھی۔ یہ مانتا ہوں کہ مجھے شاک لگا تھا، یہ جان کر کہ تم ڈرگز استعمال کرتی رہی ہو۔ بے شک یہ بہت زیادہ مقدار میں نہیں تھا مگر پھر بھی کسی ڈرگ ایڈکٹ سے شادی کرنے کا فیصلہ کافی مشکل تھا۔ میں نے اس پر کافی سوچا، تمھارے حق میں سب سے بڑا پوائنٹ یہ جاتا تھا کہ تم ڈرگز سے نجات حاصل کر چکی تھیں اب نارمل تھیں۔ اس لیے مجھے فیصلہ کرنے میں کچھ مشکل تو ہوئی لیکن بہرحال میں نے تمھارے حق میں ہی فیصلہ کیا۔
جہاں تک حاذق کا تعلق ہے تو میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ تم ماضی میں کسے پسند کرتی تھیں یا کس سے محبت کرتی تھیں۔ مجھے اگر دلچسپی ہے تو صرف اس بات سے کہ تم اس وقت کس سے محبت کرتی ہو۔ عائشہ! تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم بہت جذباتی ہو اور اس جذباتیت نے تمھیں بہت کمزور بنا دیا ہے۔ تم زندگی میں ہمیشہ سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرتی رہی ہو۔ ہمیشہ اپنے ماضی کو سر پر اٹھائے پھرتی رہی ہو۔ ہم میں سے کچھ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور انھیں دوبارہ نہیں دہراتے کچھ غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھتے اور وہی غلطیاں دوبارہ کرتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو ساری عمر اپنی غلطیوں کو پچھتاوؤں کی صورت میں ساتھ لیے پھرتے ہیں پھر وہ اپنی زندگی کو ہی ایک پچھتاوا بنا دیتے ہیں تم بھی اسی کیٹیگری میں آتی ہو۔”
وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی جا رہی تھی۔ وہ بڑے ٹھنڈے لہجے میں بولتا جا رہا تھا۔
”حاذق اور فریحہ نے تمھارے ساتھ جو کیا وہ اسے بھلا چکے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اچھی زندگی ہے۔ تم نے کچھ نہیں بھلایا بلکہ اپنے آپ سے نفرت کرنی شروع کر دی۔ کیوں؟ حاذق ہی زندگی میں سب کچھ نہیں تھا اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ تم نے خود کو سب سے کاٹ لیا۔ سگریٹ نوشی شروع کر دی پھر ڈرنک پھر ڈرگز کیا ان چیزوں نے تمہاری مدد کی؟ یہ چیزیں کبھی کوئی حل نہیں کرتیں کیونکہ وہ تو خود ہی ایک مسئلہ ہوتی ہیں۔ تم نے اچھا کیا۔ خود ان سے جان چھڑا لی۔ یہ تمھارے لیے اس لیے آسان ثابت ہوا کیونکہ تم ابھی انھیں بہت کم مقدار میں استعمال کرتی تھیں اگر زیادہ مقدار میں کرتیں تو جتنی کم قوت ارادی تمہاری ہے تم کبھی بھی ان چیزوں سے نجات حاصل نہ کر سکتیں۔ تم نے زندگی میں دوسروں سے اتنا انتقام نہیں لیا جتنا اپنے آپ سے لیا ہے۔ تم خود کو دوسروں سے کاٹ کر انھیں سزا دینا چاہتی ہو تمہارا خیال ہے اس طرح انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا یا کم از کم انھیں تکلیف تو ضرور ہوگی۔ عائشہ حقیقی زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوتا آپ صرف خود کو اکیلا کر لیتے ہیں۔ انتقام لینے میں دوسروں کو کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہوگی انتقام لینے والے کی تو پوری زندگی، پوری ذات، پوری شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔”
اس کے گال ایک بار پھر بھیگنے لگے تھے۔ وہ دھندلی آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”میں روز شام کو یہاں جاگنگ کرنے آتا تھا اور میں نے بہت دفعہ تمھیں شام گئے تک یہیں بیٹھے دیکھا۔ بعض دفعہ تم اسموکنگ کر رہی ہوتی تھیں تب میری تم سے کوئی زیادہ سلام دعا نہیں تھی، اس لیے میں کبھی تمھارے پاس نہیں آیا لیکن میں حیران ضرور ہوتا تھا کہ تم پارک میں آ کر شام تک کیوں بیٹھی رہتی ہو۔ آفس سے سیدھی گھر کیوں نہیں جاتیں۔ پھر آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہوا کہ تم دراصل گھر جانا ہی نہیں چاہتی تھیں تم اپنے ماحول سے فرار چاہتی تھیں۔ کئی سال پہلے میں بھی اسی طرح گھر سے بھاگتا تھا۔ گھر سے باہر بے مقصد وقت گزارتا تھا۔ گھر جانا ہی نہیں چاہتا تھا میرا مسئلہ اور تھا۔ امی کے علاوہ میرا کوئی نہیں تھا اور جو تھے ان سے مجھے انس نہیں تھا نہ انھیں میری ضروری تھی۔”
اس کے لہجے میں اب عجیب سی افسردگی تھی۔ وہ دم بخود اس کی باتیں سنتی جا رہی تھی۔
”مگر تمہاری تو ساری فیملی تھی پھر تم ان کے پاس کیوں جانا نہیں چاہتی تھیں۔ تم ایک بار دعوت پر ہمارے گھر آئیں تو اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھنے کے بجائے اکیلے ایک طرف بیٹھی رہیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی تم میں دلچسپی لینے پر مجبور ہو گیا۔ میں تمہاری ذات کی گرہوں کو کھولنا چاہتا تھا۔ میں تمھارے اسرار کو بوجھنا چاہتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ تمھارے بارے میں بہت کچھ میرے علم میں آتا گیا۔ تم جب بھی امی کے پاس آتی تھیں اپنے ابو کی باتیں کرتی رہتی تھیں۔ یاد ہے تم نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔ آپ بالکل میرے پاپا جیسے ہیں۔ تم ہر مرد کے وجود میں اپنے پاپا کو تلاش کیوں کرتی رہتی ہو۔ تمھیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ بہت سال پہلے مر چکے ہیں اور کوئی دوسرا شخص کبھی بھی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ میں جانتا ہوں، یہ مشکل ہے مگر یہ بہت ضروری ہے۔ میرے ڈیڈی بھی بچپن میں مر گئے تھے۔ بہت دیر تک مجھے بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ بہت دیر تک ان کے بغیر مجھے چلنا نہیں آیا پھر میں نے حقیقت تسلیم کر لی۔ ان کے بغیر زندگی گزارنا سیکھا۔ عائشہ! تم یہ کبھی نہیں کر سکیں۔ ہے نا؟”
وہ بہت دھیمے بہت نرم لہجے میں اس سے کہہ رہا تھا۔ وہ بے آواز روتی رہی۔
”لیکن ان خامیوں کے سوائے تم میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں۔ تم بہت ایثار پسند ہو، کرپٹ نہیں ہو، حیران کن بات یہ ہے کہ تم ایک بہت کامیاب سیلز آفیسر ہو۔ تمھارے آفس میں تمہاری ریپوٹیشن بہت اچھی ہے۔ اگر تم باہر کی دنیا میں ایک کامیاب انسان کے طور پر زندگی گزار سکتی ہو تو نجی زندگی میں بھی ایسا ممکن ہے۔ ابھی تمھارے پاس بہت وقت ہے۔ تم سب کچھ ٹھیک کر سکتی ہو۔ میں تمہاری امی سے بات کروں گا۔ احمر سے بھی بات کروں گا۔ تم نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی جسے معاف کیا ہی نہ جا سکے۔ ایک دفعہ پھر سے تم اپنی فیملی کے ساتھ نئی زندگی شروع کر سکتی ہو۔ میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ تمہاری امی اور گھر والوں کو تم سے محبت بھی ہے اور تمہاری ضرورت بھی۔ تم یہ سمجھنا چھوڑ دو کہ انھوں نے تمھیں استعمال کر کے پھینک دیا ہے۔ تم کوئی چیز نہیں انسان ہو۔ انسانوں کو چھوڑا نہیں جاتا۔”
پارک میں تاریکی پھیل چکی تھی۔ دور کہیں کچھ لائٹس جل رہی تھیں مگر ان کی روشنی ان دونوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ اسے معیز کا چہرہ اب نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف آواز سنائی دے رہی تھی۔ بعض دفعہ چہرے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف آوازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ایسی آواز کی جس میں آپ کے لیے ہمدردی ہو، جو آپ کے وجود کے تمام ناسوروں کو نشتر کی طرح کاٹ پھینکے اور پھر بہت نرمی سے ہر گھاؤ کو سی دے۔ اس وقت اس کی سماعتوں میں ایک ایسی ہی آواز آ رہی تھی، وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ زندگی گزارنے کا ہنر سکھا رہا تھا۔ اس کا محاسبہ کر رہا تھا۔ اس کے عیب دکھا رہا تھا۔ اسے کچھ بھی برا نہیں لگ رہا تھا۔ بہت عرصہ کے بعد وہ کسی کے سامنے اس طرح آنسو بہا رہی تھی اسے اپنے آنسوؤں پر شرمندگی نہیں تھی۔ وہ اس شخص کے سامنے بہہ رہے تھے جو اس کے اندر کو اس سے بھی بہتر جانتا تھا۔ وہ اس سے دوسرے لوگوں کی طرح کچھ بھی چھپا نہیں سکی تھی حتیٰ کہ آنسو بھی۔
”آؤ اب چلتے ہیں۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔”
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ ہتھیلی کی پشت سے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
”ہاں اور امی کو اپنے بارے میں یہ بتانے کی حماقت مت کرنا۔ بہت سی چیزیں ان کے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوں گی۔”
وہ اس کے آگے چلتا ہوا کہتا جا رہا تھا۔ وہ آگے پیچھے چلتے ہوئے واکنگ ٹریک پر آ گئے تھے۔ الیکٹرک پولز پر لگی ہوئی روشنیاں راستے پر چلتے ہوئے لوگوں کو بھی روشن کر رہی تھیں۔ اس نے سر اٹھا کر اپنے آگے چلتے ہوئے اس دراز قد، معمولی شکل کے غیر معمولی انسان کو دیکھا جو اسے ہمیشہ ہی بہت بہتر، بہت بلند تر لگا تھا اور آج اس کا قد کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔
…***…
2 Comments
Well done
Well done your all stories are awesome