اس دن رابعہ نے اپنے گھر پر میلاد کروایا تھا۔ چھٹی ہونے کی وجہ سے عائشہ بھی گھر پر ہی تھی۔ رابعہ نے ایک دن پہلے عائشہ کی امی کو اس تقریب کے بارے میں بتا دیا تھا۔ حسب معمول عائشہ کی امی معصومہ کے ساتھ رابعہ کے ہاں چلی آئی تھیں۔ عائشہ کو ان کے ساتھ نہ دیکھ کر رابعہ نے اس کے بارے میں پوچھا تھا اور پھر اسے خود لانے کے لیے اس کے گھر چلی آئی تھیں۔ عائشہ کے بہانوں کے باوجود وہ پہلی بار اسے زبردستی اپنے گھر لے آئی تھیں۔ یہاں آ کر عائشہ قدرے نروس ہو گئی تھی۔ رابعہ نے باری باری اسے اپنے پورے خاندان سے متعارف کروایا تھا اور وہ رابعہ کے منہ سے اپنی تعریفیں سن سن کر شرمندہ ہوتی رہی تھیں۔ رابعہ کے اصرار کی وجہ سے اسے تقریب کے اختتام تک رکنا پڑا ورنہ وہ بہت پہلے ہی واپس آ جانا چاہتی تھی۔
اس تقریب کے بعد رابعہ اسے اکثر ضد کر کے اپنے گھر لے جانے لگی تھیں۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی بات مان لیتی اور ان کے گھر آ جاتی اور پھر یہ جیسے ایک معمول ہو گیا تھا۔ وہ اکثر اس وقت رابعہ کے گھر جاتی تھی۔ جب معیز گھر پر نہیں ہوتا تھا۔ چھٹی والے دن بھی وہ فیکٹری چلا جایا کرتا تھا اور اسی وجہ سے ان دونوں کی کبھی ایک دوسرے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ مگر صرف ملاقات نہیں ہوئی تھی ورنہ رابعہ کی زبانی وہ معیز کے بارے میں سب کچھ جان چکی تھی۔ وہ کیا کھاتا ہے۔ کیا پہنتا ہے کیا پسند کرتا ہے۔ کیا ناپسند کرتا ہے۔ اس نے بچپن کیسے گزارا ہے کتنی محنت کی ہے کون کون سی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ کیسی تنگی دیکھی ہے۔
رابعہ نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ ان کی زبان پر ہر وقت معیز کا نام ہی رہتا تھا۔ وہ چپ چاپ ان کی زبان سے معیز کے قصے سنتی رہتی اور ان کا چہرہ دیکھتی رہتی۔ معیز کے نام پر ان کا چہرہ چمکنے لگتا تھا۔
شروع شروع میں وہ صرف مروتاً رابعہ سے معیز کے قصے سنا کرتی تھی اور اکثر رابعہ کی ایسی گفتگو کے دوران اس کا دماغ کہیں اور پہنچا ہوا ہوتا تھا۔ رابعہ اپنی دھن میں بولتی جاتیں۔ انھیں اندازہ ہی نہ ہو پاتا کہ وہ متوجہ نہیں ہے مگر پھر آہستہ آہستہ اسے معیز اور اس کی زندگی میں دلچسپی ہونے لگی تھی۔ وہ اسے اپنے جیسا لگنے لگا تھا۔ گر گر کر اٹھنے والا ٹھوکریں کھا کر سنبھلنے والا۔
…***…
اس دن بھی وہ اس سے دوسری باتیں کرتے کرتے معیز کا ذکر لے بیٹھی تھیں۔
”دنیا میں بہت سے لوگوں کی اولاد نیک اور تابعدار ہوتی ہے مگر میں کہتی ہوں، جتنا ادب، لحاظ اور مروت معیز میں ہے میں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔ میری عزت تو کرتا ہی ہے۔ ظاہر ہے میں اس کی ماں ہوں مگر دیکھو عائشہ! میرے بیٹے کا ظرف کتنا بلند ہے کہ اپنے ان رشتہ داروں کی بھی عزت کرتا ہے جنھوں نے پوری زندگی اس کا مذاق اڑایا۔ مجال ہے جو کبھی اس نے کسی کو جتایا ہو کہ اس نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا میرے بھائیوں اور ان کی اولادوں نے ساری عمر اسے ذلیل کیا، اس کی شکل سے لے کر لباس اور کھانے پینے کے طریقے تک پر اعتراض کرتے رہے۔ مذاق اڑاتے رہے۔ بے عزت کرتے رہے۔ مگر معیز کا اتنا حوصلہ ہے کہ وہ جب بھی ان سے ملتا ہے بہت ہنس کر ملتا ہے۔ میرے بھائی کہتے ہیں کہ اتنی عزت ان کی اپنی اولاد نہیں کرتی جتنی معیز ان کی کرتا ہے۔ کبھی اس نے انھیں پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ ان سے بدتمیزی نہیں کی۔ ان کے جھڑکنے پر ناک بھوں نہیں چڑھائی۔ کبھی ان کے سامنے اونچی یا تیز آواز میں بات نہیں کی۔ پہلے کی تو خیر بات ہی اور تھی، وہ ان کے گھر پہ رہتا تھا، عزت کرنے پر مجبور تھا مگر وہ اب بھی جب اسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ ان کی اسی طرح عزت کرتا ہے۔
میں کہتی ہوں۔ خدا معیز جیسی اولاد سب کو دے۔ اسے اس کے صبر، برداشت اور محنت کا اجر ملا ہے۔ جب یہ چھوٹا ہوتا تھا تو مجھے خیال آتا تھا کہ میں اسے کس طرح پالوں گی۔ یہ اتنا ضدی اور بدتمیز ہوتا تھا۔ مگر ناصر کے مرنے کے بعد اس میں خود برداشت پیدا ہو گئی۔ مجال ہے اس نے کبھی بچپن میں مجھے عام بچوں کی طرح مختلف چیزیں مانگ مانگ کر تنگ کیا ہو بس جو لا دیتی تھی۔ خاموشی سے لے لیتا تھا۔ بعض دفعہ تو مجھے رونا آ جاتا تھا کہ یہ عام بچوں کی طرح ضد کیوں نہیں کرتا۔ مجھے یہی خوف رہتا تھا کہ یہ کہیں بگڑ نہ جائے مگر خدا کا ایسا کرم ہے کہ مجھے کبھی اس کی نگرانی کرنی نہیں پڑی۔ اس کی زندگی اتنی سیدھی گزری ہے۔”
وہ معیز کے بارے میں مسلسل بولتی جا رہی تھیں اور عائشہ بیزار ہونے کے بجائے مستقل ان کی باتیں سن رہی تھی اور اس کی دلچسپی اب پہلے سے بڑھ گئی تھی۔
…***…
اس دن چھٹی تھی۔ وہ حسب معمول صبح دس بجے اٹھی تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد یک دم اس کا دل رابعہ کے گھر جانے کو چاہا اور وہ ان کی طرف آ گئی۔ رابعہ اسے اس وقت ہمیشہ اپنے کمرے میں ہی ملا کرتی تھیں۔ وہ سیدھا ان کے کمرے کی طرف آئی اور دروازہ بجا کر حسب عادت اندر داخل ہو گئی تھی۔ لیکن اندر داخل ہوتے ہی وہ یک دم گڑبڑا گئی تھی۔ کیونکہ کمرے میں رابعہ کے بجائے صوفہ پر معیز اخبار لے کر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ عائشہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔
”السلام علیکم، کیسی ہیں آپ؟” اسے گھبراتے دیکھ کر معیز نے کہا تھا۔ وہ قدرے حیران ہوئی کہ کسی تعارف کے بغیر وہ اس کا حال کیسے دریافت کر رہا ہے لیکن اس نے اس کے سلام کا جواب دے دیا۔
”امی نہا رہی ہیں۔ بس ابھی آ جائیں گی۔ آپ پلیز بیٹھیں۔” وہ صوفہ چھوڑ کر خود بیڈ کی طرف چلا گیا تھا۔
”نہیں، میں پھر آ جاؤں گی۔”
”عائشہ! آپ کو دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امی واقعی تھوڑی دیر میں باہر آ جائیں گی۔”
اس بار عائشہ کی حیرانی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ اس کی زبان سے اپنا نام سن کر۔
”آپ پلیز بیٹھیں۔ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” عائشہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”میں اصل میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ امی کی مدد۔” معیز نے بات شروع کی تھی مگر عائشہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”پلیز آپ اس بات کو رہنے دیں۔ یہ بہت پرانا واقعہ ہے، اب تو اسے کئی ماہ گزرچکے ہیں۔”
”میں اسی سلسلے میں شرمندہ ہوں کہ پہلے آپ کا شکریہ ادا نہیں کر سکا حالانکہ میں آپ سے پہلے ہی ملنا چاہتا تھا۔ لیکن بس کچھ مصروفیات کی وجہ سے مل نہیں سکا۔”
”لیکن میں نے آپ سے کہا ہے نا کہ اس سلسلے میں شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس لیے یہاں نہیں آئی ہوں۔”
عائشہ کے انداز میں کچھ بے بسی تھی۔ معیز خاموش ہو گیا۔
”امی اکثر آپ کے بارے میں بتاتی رہتی ہیں۔ بہت تعریف کرتی ہیں آپ کی۔” معیز کے جملے پر عائشہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا اور معیز کو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے یقینی نظر آئی۔ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ عائشہ نے ایک بار پھر اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”آپ جاب کرتی ہیں؟” معیز نے گفتگو کا سلسلہ ایک بار پھر جوڑنے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں۔”
”کہاں پر؟” عائشہ نے معیز کو چند جملوں میں اپنی جاب اور کمپنی کے بارے میں بتایا۔
”جاب پسند ہے آپ کو؟” کچھ لمحوں بعد اس نے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں۔ میں نے کبھی اس بارے میں سوچا نہیں۔” معیز عائشہ کے جواب پر کچھ حیران ہوا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اس کے چہرے کو دیکھتا رہا اور اچانک اسے احساس ہوا تھا کہ وہ خطرناک حد تک خوبصورت تھی۔ بہت چبھتے ہوئے تیکھے نقوش تھے اس کے خاص طور پر اس کی آنکھیں۔ کوئی بہت ہی عجیب تاثر تھا اس کی آنکھوں میں جو دوسرے کو یکدم چپ ہو جانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ معیز نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ دونوں کے درمیان اس دن مزید گفتگو نہیں ہوئی۔ دونوں خاموش بیٹھے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد رابعہ نہا کر باہر نکل آئی تھیں اور معیز اٹھ کر کمرے سے آ گیا۔
…***…
پھر ان دونوں کی اکثر ملاقات ہونے لگی تھی۔ معیز خلاف عادت اتوار کو گھر پہ رہنے لگا تھا۔ لاشعوری طور پر اسے عائشہ کا انتظار رہتا تھا اور جس دن عائشہ نہ آتی، اسے ایک نامعلوم سی بے چینی رہتی۔ دونوں کے درمیان آہستہ آہستہ گفتگو بھی ہونے لگی تھی۔ پھر گفتگو کا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ وہ دونوں پارک میں بھی ملنے لگے۔ عائشہ شام کے وقت گھر کے قریب پارک میں وقت گزارنے جایا کرتی تھی اور معیز بھی وہیں جاگنگ کے لیے جایا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ پارک میں عائشہ کے ساتھ واک کیا کرتا تھا۔ وہ بہت اچھا سامع تھا۔ شروع میں وہ صرف عائشہ کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ اسے تب یہ احساس ہوا تھا کہ وہ اتنی خاموش طبع نہیں ہے جتنی وہ اسے تب تک نظر آئی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی بولنے لگا تھا۔ بہت سی باتیں جو اس نے آج تک کسی سے نہیں کی تھیں وہ اس سے کرنے لگا تھا۔
”پاپا سب کچھ تھے میرے لیے دوست، ساتھی، باپ سب کچھ جب ان کی ڈیتھ ہوئی تو میں سولہ سال کی تھی۔ بہت دنوں تک تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ زندہ نہیں ہیں جب یقین آیا تو میرے لیے دنیا ہی ختم ہو چکی تھی۔”
اس دن بھی وہ پارک میں بیٹھے ہوئے تھے جب وہ اپنے والد کی بات کرنے لگی تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب میں دنیا میں کیسے رہوں گی۔ پاپا کے بغیر کچھ کرنا مجھے بہت ناممکن سا لگتا تھا۔ پھر ہر ایک نے جی بھر کے بلف کیا ہمیں۔ ددھیال والوں نے، ننھیال والوں نے ہر ایک نے، کسی نے کوئی لحاظ نہیں کیا۔ میں نہیں جانتی تھی پاپا کے نہ ہونے سے فرق پڑے گا۔ پاپا نے ہمیشہ سب کی مدد کی تھی۔ کبھی کسی کو دھوکا دیا تھا نہ مایوس کیا تھا۔ مگر وہ سب احسان فراموش نکلے سانپ کی طرح دنیا میں کوئی کسی کو اس طرح بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا جیسے انھوں نے ہمیں چھوڑ دیا تھا۔”
عائشہ کے لہجے میں بہت تلخی تھی۔
”سب ایسا ہی کرتے ہیں، تمھارے رشتے دار اس سے مستثنیٰ نہیں یہ دنیا ہی ایسی ہے۔” معیز نے اس سے کہا تھا۔
”سب تو ایسا نہیں کرتے جس طرح انھوں نے کیا تھا۔” وہ اب بھی اپنی بات پر مصر رہی۔
”عائشہ! لوگوں کو معاف کر دینا چاہیے اس طرح۔” عائشہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کیا آپ نے معاف کر دیا؟ آپ نے بھی تو بہت کچھ برداشت کیا ہے، ایسے ہی حالات سے گزرے ہیں آپ۔”
”میں نے کبھی کسی کو مجرم سمجھا ہی نہیں۔ ہر چیز کی تلافی اللہ نے کر دی تھی پھر میں کسی سے نفرت کر کے کیا کرتا۔” وہ نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آپ بہت عجیب ہیں، اپنے گھر میں ان لوگوں کو آنے دیتے ہیں اس طرح ہنسی خوشی ملتے ہیں جیسے انھوں نے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔ کیا آپ کا دل نہیں چاہتا کہ آپ ان سب لوگوں کو باری باری بتائیں کہ انھوں نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ انھیں آئینہ دکھائیں۔ ان کے ساتھ میل جول ختم کر دیں۔”
وہ اس کی بات پر مسکرانے لگا تھا۔ ”نہیں۔ میں نے یہ کبھی نہیں چاہا ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ زندگی ہے اس میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ظرف کو بہت بڑا کرنا پڑتا ہے۔ میں ان جیسا بننا نہیں چاہتا، کسی کو بے عزت نہیں کر سکتا۔”
وہ اب جھیل میں بوٹنگ کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھنے لگا تھا، وہ اضطراب کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔ وہ واقعی بہت عجیب تھا، بہت اعلا ظرف تھا۔
”آپ کے لیے یہ سب کہنا اور کرنا بہت آسان ہے۔ آپ نے میرے جیسی زندگی نہیں گزاری، سیلز آفیسر کی جاب بھی کوئی جاب ہوتی ہے۔ ہر وقت مسکراہٹ، ہر وقت نرمی جن لوگوں کو میرا دیکھنے کو دل نہیں چاہتا ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینی پڑتی ہے۔ اب یہ سب اتنا ناقابل برداشت نہیں ہے جتنا پہلے تھا۔ اس جاب کی وجہ سے مجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ نفرت ہوئی تھی۔ مجھے ان کی خود غرضی کی وجہ سے گھر سے باہر نکل کر اس طرح کی جاب کرنا پڑی تھی۔”
معیز نے اسے دیکھا۔
”اب تو آپ کو کوئی مجبوری نہیں ہے۔ آپ کا بھائی گھر کو سپورٹ کر رہا ہے پھر آپ یہ جاب چھوڑنا چاہیں تو چھوڑ سکتی ہیں۔”
عائشہ نے اس کی بات پر نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔
”شاید آپ ان سہولیات کو چھوڑنا نہیں چاہتیں جو اس جاب کی وجہ سے آپ کو حاصل ہیں۔ ہر جاب گاڑی، موبائل اور اتنی تنخواہ نہیں دیتی جتنی آپ کو ملتی ہے۔”
وہ معیز کی بات پر ایک بار پھر خاموش رہی تھی لیکن اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ معیز کچھ دیر اس کے جواب کا منتظر رہا لیکن وہ خاموش ہی رہی۔ ایسا اکثر ہوتا تھا۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو جاتی اور پھر معیز کے لاکھ اصرار پر بھی کچھ نہ بولتی، بس گھر چلی جاتی، وہ حیرانی سے یہ سب دیکھتا رہ جاتا۔
…***…
”آؤ عائشہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔” اس شام رابعہ نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔ وہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔
”آپ کو کیوں انتظار تھا میرا؟”
”بس آج مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔” وہ ان کے جملے سے زیادہ ان کے انداز پر چونکی تھی۔ وہ بہت خوش ،بہت پرُجوش نظر آ رہی تھیں۔
”ایسی بھی کیا بات ہے؟” وہ کچھ الجھ گئی تھی۔
”بتا دوں گی۔ تم پہلے چائے تو پیو۔”
رابعہ نے ملازم کو چائے لاتا دیکھ کر کہا تھا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ ملازم نے چائے بنا کر کپ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔رابعہ بھی چائے پینے میں مصروف ہو گئیں۔
”یہ بات اصولاً تو مجھے تم سے نہیں تمھارے گھر والوں سے کرنی چاہیے تھی۔”
چائے کے چند گھونٹ لینے کے بعد رابعہ نے بات شروع کی تھی۔
”لیکن معیز کا اصرار تھا کہ پہلے میں تم سے بات کروں۔ دراصل معیز تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔” وہ رابعہ کی بات پر دم بخود رہ گئی تھی۔
”وہ تمھیں بہت پسند کرتا ہے اور صرف وہ ہی نہیں بلکہ میں بھی۔” رابعہ کہہ رہی تھیں۔
”میں نے معیز کے لیے جس طرح کی لڑکی کا سوچا تھا، تم بالکل ویسی ہی ہو نیک، باکردار، نرم دل، سمجھدار، باادب۔”
عائشہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ ”میں نے ہمیشہ خدا سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے میری بہو میں یہ ساری خصوصیات ضرور دے مگر اللہ نے مجھے میری دعا سے بڑھ کر نوازا ہے۔ تم میں تو اتنی خوبیاں ہیں عائشہ! کہ میں گنوانا بھی چاہوں تو گنوا نہیں سکتی۔ وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جنھیں تمہارے جیسی اولاد ملتی ہے اور میں چاہتی ہوں۔ اس خوش نصیبی کو اپنا مقدر بھی بنا لوں۔ معیز نے مجھ سے کہا تھا کہ میں پہلے تمہاری رائے لوں۔ اس کے بعد رشتہ لے کر تمھارے گھر جاؤں۔ میں نے تو اس سے کہا تھا کہ عائشہ کسی اور کو پسند نہیں کر سکتی وہ ایسی لڑکی ہی نہیں ہے اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ کبھی مجھ سے ذکر تو کرتی۔ مگر اس نے مجھ سے کہا کہ میں پھر بھی پہلے تم سے پوچھوں، اس کے بعد ہی بات آگے بڑھاؤں۔”
وہ جیسے کسی سکتے کے عالم میں تھی۔ رابعہ کہتی جا رہی تھیں۔
”میرے بیٹے نے کبھی کسی کو دھوکا دیا نہ کسی کا دل دکھایا ہے۔ ہر ایک پر احسان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسے خدا نے انعام کے طور پر تمھارے جیسی لڑکی سے ملوایا ہے۔ اب تم بتاؤ عائشہ! تمہاری کیا رائے ہے۔ میں کب تمھارے گھر تمہاری امی سے بات کرنے آؤں؟”
وہ اب عائشہ سے پوچھ رہی تھیں۔ وہ خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی، رابعہ کے چہرے پر موجود اعتماد اور فخر کی چمک نے اس کے پورے وجود کو تاریک کر دیا تھا وہ کچھ کہے بغیر کپ رکھ کر کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”مجھے کچھ وقت دیں۔ ابھی میں آپ کو اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دے سکتی۔”
…***…
2 Comments
Well done
Well done your all stories are awesome