آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

”تم میرے ساتھ مل کر یہ فیکٹری کیوں نہیں لگا لیتے۔” ولید نے اچانک اسے ایک آفر دی تھی۔
”تمھارے ساتھ؟” وہ کچھ حیران ہوا تھا۔
”ہاں میرے ساتھ۔ تم اپنی فیکٹری میں میرے شیئرز رکھو ساٹھ پرسنٹ تمھارے اور چالیس پرسنٹ میرے اس کے بدلے میں تمہاری فیکٹری کے لیے سرمایہ فراہم کروں گا۔ لیکن اس فیکٹری کے انتظامات میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ اس کے ورکنگ پارٹنر تم ہو گے۔”
معیز اس پیش کش پر حیران تھا۔ ”اور اگر سرمایہ ڈوب گیا تو؟” اس نے ولید سے کہا تھا۔
”تب وہ میری ذمہ داری ہوگی۔ میں تمھیں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراؤں گا۔” اس نے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔
”تم فیکٹری کے لیے سائٹ تلاش کرو۔”
معیز نے اس کی آفر قبول کر لی تھی۔ چند ہفتوں میں اس نے فیکٹری کے لیے سائٹ تلاش کی اور تعمیر شروع کروا دی۔ قسمت کا ہر دراس پر جیسے کھلتا ہی جا رہا تھا۔ وہ جس کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرنا چاہتا تھا انھوں نے اس کے ساتھ ڈیل سائن کر لی اب اگر وہ چاہتا تو ولید کے سرمائے کے بغیر بھی فیکٹری تعمیر کر سکتا تھا لیکن اس نے ولید کے ساتھ پارٹنر شپ ختم نہیں کی تھی۔ فیکٹری کے لیے عمارت اس نے تعمیر کروائی تھی اور روپیہ اور مشینری ولید اور اس کمپنی نے فراہم کیا تھا۔ ڈیڑھ سال میں یہ پروجیکٹ مکمل ہوا تھا اور پھر جیسے روپے کی ایک ریٹ ریس تھی جس میں وہ شریک ہو گیا تھا۔
پہلے اسے روپیہ کمانے کے لیے محنت کرنی پڑتی تھی اب روپیہ جیسے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ پہلے اس نے لیدر گڈز ایکسپورٹ کرنی شروع کی تھیں پھر گڈز کی رینج میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیدر سے وہ سپورٹس گڈز کی طرف آیا اور پھر کارپٹ انڈسٹری کی طرف۔ اس کے ہاتھ جیسے کوئی پارس آ گیا تھا کہ وہ جس چیز کو بھی چھوتا وہ سونا بن جاتی۔
لوگوں کو اس کی کامیابی پر رشک آتا تھا۔ سات سال اسی طرح گزر گئے اور ان سات سالوں میں وہ ظاہری طور پر بالکل بدل گیا تھا۔ جو لوگ پہلے ان سے کتراتے تھے، اب ان کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔ باطنی طور پر معیز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ پہلے سے زیادہ خوش اخلاق اور نرم مزاج ہو گیا تھا۔ یہی حال رابعہ کا تھا۔
معیز کے چھوٹے ماموں نے رابعہ سے کہا تھا کہ وہ معیز کے لیے اپنی چھوٹی بیٹی کا رشتہ دینا چاہتے ہیں اور یہ پہلا موقع تھا جب رابعہ نے انھیں کسی بات پر انکار کیا تھا۔
”سجاد بھائی! اب مجھے معیز کی شادی آپ کے گھر نہیں کرنی۔ سعدیہ سے رشتہ آپ نے توڑ ڈالا تھا۔ اب پھر آپ کی چھوٹی بیٹی سے رشتہ کروں اور کل کو میرے بیٹے پر کوئی برا وقت آ جائے تو آپ تو پھر رشتہ توڑ دیں گے۔ نہیں آپ مجھے معاف کر دیجئے گا لیکن میں یہ رشتہ نہیں کروں گی۔”
سجاد بھائی کو ان کا جواب طمانچے کی طرح لگا تھا لیکن وہ جواب میں کچھ بول نہیں پائے اور وہ خاندان میں واحد نہیں تھے جو اپنی بیٹی کے لیے معیز کا رشتہ چاہتے تھے۔ لیکن معیز خاندان میں شادی کرنا نہیں چاہتا تھا اور رابعہ کا اصرار بھی اسے خاندان میں شادی پر آمادہ نہیں کر سکا تھا۔
…***…





وہ موڑ کاٹ رہی تھی جب اس نے ایک بوڑھی عورت کو ایک گاڑی سے ٹکراتے اور دور گرتے دیکھا۔ وہ گاڑی رکنے کے بجائے ایک طوفانی رفتار سے وہاں سے نکل گئی تھی۔ اسے عورت کی فکر لاحق ہو گئی اپنی گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے وہ اس جگہ آئی، جہاں وہ عورت گری تھی۔ تیزی سے وہ اس عورت کے پاس آئی اور سیدھا کیا۔ وہ عورت کراہ رہی تھی اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے کھڑے ہو کر متلاشی نظروں سے اردگرد دیکھا اور پھر ایک آتی ہوئی گاڑی کو ہاتھ دے کر روکا اور اسے ڈرائیو کرنے والے آدمی کے ساتھ مل کر بوڑھی عورت کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں لٹا دیا۔ عورت نیم غشی کے عالم میں تھی، پھر وہ سیدھی اسے ایک پرائیویٹ کلینک لے آئی، نرس اور وارڈ بوائے نے جب اس عورت کو اسٹریچر پر منتقل کیا تھا تو وہ تب بھی کراہ رہی تھی۔
اس نے اس عورت کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دینے کی کوشش کی چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز نے اسے بتایا تھا کہ اس عورت کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور اس کا آپریشن کرنا پڑے گا۔ آپریشن کے لیے انھوں نے جتنی رقم مانگی تھی وہ اس کے پاس نہیں تھی۔ اسنے کاؤنٹر پر ریسپشنسٹ کو کہا کہ وہ یہ رقم گھر سے لے آتی ہے تب تک وہ گارنٹی کے طور پر اس کا لاکٹ اور ایئر رنگز رکھ لیں اور اس عورت کا آپریشن کر دیں تاکہ وہ اس طرح تکلیف سے تڑپتی نہ رہے۔ ریسپشنسٹ نے ڈاکٹر سے بات کی اور پھر اس نے اس کا لاکٹ اور ایئر رنگز رکھ لیے۔ وہ گھر آئی اور وہاں سے چیک بک لے کر بینک گئی۔ جب وہ واپس ہاسپٹل پہنچی تو اسے پتا چلا کہ وہ عورت ہوش میں آ گئی تھی اور اس کا بیٹا اسے وہاں سے لے گیا تھا اور اس نے بل بھی ادا کر دیا تھا ریسپشنسٹ نے اسے ایک کارڈ دیا تھا جو اس عورت کا بیٹا اس کے لیے دے گیا تھا تاکہ وہ اس سے رابطہ کرے۔
اس نے کارڈ نہیں لیا تھا، اسے رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اسے یہ جان کر ہی تسلی ہو گئی تھی کہ وہ عورت محفوظ تھی اور وہ اپنے خاندان کے پاس پہنچ گئی تھی۔ وہ ریسپشنسٹ سے اپنی چیزیں لے کر واپس آ گئی۔
معیز کو رابعہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع آفس میں ملی تھی اور وہ اندھا دھند اس کلینک کی طرف دوڑ پڑا، ماں کو ہوش میں دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی تھی وہ اپنی تکلیف پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر بڑھاپے کی چوٹ کی تکلیف پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔ ماں کو دیکھنے کے بعد وہ بل ادا کرنے کے لیے کاؤنٹر پر گیا تھا۔ بل ادا کرتے ہوئے اس نے پوچھا تھا کہ رابعہ کو وہاں کون لایا تھا۔
”عائشہ حسن نامی ایک لڑکی تھی اس نے بتایا تھا کہ کوئی گاڑی انھیں ٹکر مار کر چلی گئی تھی اور وہ انھیں اٹھا کر یہاں لے آئی تھی۔ بل کے لیے اس نے ہمیں کچھ روپے دیے تھے لیکن اس کے پاس زیادہ روپے نہیں تھے، اس لیے اس نے اپنی کچھ جیولری ہمیں دی تھی کہ ہم یہ رکھ لیں اور آپریشن کر دیں کیونکہ آپ کی والدہ کو فوری آپریشن کی ضرورت تھی۔”
ریسپشنسٹ نے بل بناتے ہوئے وہ جیولری نکال کر اس کے سامنے کاؤنٹر پررکھ دی۔ وہ ایک عجیب سی کیفیت میں وہاں کھڑا رہ گیا۔ پتا نہیں وہ کون تھی جس نے اپنے جسم پر سجایا ہوا زیور اس کی ماں کی جان بچانے کے لیے دے دیا تھا۔ اگر وہ لڑکی اس وقت اس کے سامنے ہوتی تو وہ شاید اس کے قدموں پر گر جاتا۔ اس وقت اس کی کچھ ایسی ہی حالت ہو رہی تھی۔ معیز نے اس لاکٹ کو ہاتھ میں لے کر دیکھا، ایک خوبصورت تختی پر اللہ کا نام بڑے خوبصورت انداز میں منقش تھا۔ معیز نے دوبارہ اسے کاؤنٹر پررکھ دیا۔ بل ادا کرتے ہوئے اس نے نرس کو اپنا کارڈ دیا۔
”دیکھیں، یہ جب واپس آئیں تو انھیں ان کے روپے اور جیولری واپس کر دیں اور انھیں یہ کارڈ دے کر کہیں کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے جلدی ہے کیونکہ میں اپنی امی کو کسی اچھے ہاسپٹل میں شفٹ کرنا چاہتا ہوں ورنہ میں یہیں رک کر ان کا انتظار کرتا۔”
اس نے ریسپشنسٹ سے کہا اور پھر اپنی امی کو لے کر ایک بڑے کلینک پر آ گیا۔ ایک دفعہ پھر رابعہ کے ٹیسٹ ہوئے اور دو گھنٹے کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ رابعہ کا آپریشن ٹھیک کیا گیا تھا اور اب اسے کسی انتہائی نگہداشت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے تسلی ہو گئی تھی اس سارے عرصے کے دوران اسے بار بار اس لڑکی کا خیال آتا رہا، وہ منتظر تھا کہ وہ لڑکی کارڈ پانے کے بعد اس سے رابطہ قائم کرے لیکن اس نے کوئی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اگلے دن اس نے اپنی ماں کو اس لڑکی کے بارے میں بتایا۔ رابعہ کو بے اختیار وہ آواز یاد آ گئی جو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے مسلسل اسے کچھ کہتی رہی تھی۔ وہ عام طور پر گھر سے باہر نہیں جاتی تھیں مگر چھ ماہ قبل اس نئے گھر میں منتقل ہونے کے بعد وہ اکثر ماڈل ٹاؤن کے پارک میں چلی جاتی تھیں جو گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ وہاں وہ کافی دیر بیٹھی رہتیں۔ لوگوں کو گھومتے دیکھتیں اور تنہائی کا احساس ختم ہو جاتا۔ اس دن بھی وہ پارک میں چہل قدمی کے بعد واپس آ رہی تھیں جب اچانک سڑک پار کرتے ہوئے وہ اس گاڑی کے سامنے آ گئیں۔ ساری غلطی نہ تو ان کی تھی نہ ہی گاڑی کے ڈرائیور کی۔ گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ نیم بے ہوش ہو گئی تھیں۔ ٹانگ اور سر میں اٹھتی ہوئی درد کی لہروں کے باوجود انھیں وہ لمس یاد تھا جو وقتاً فوقتاً ان کا ہاتھ تھام لیتا تھا۔
چند دنوں تک وہ دونوں ہی اس لڑکی کا انتظار کرتے رہے پھر رابعہ نے معیز سے کہا کہ وہ خود اس لڑکی کا پتا لگانے کی کوشش کرے معیز دوبارہ اس کلینک پر گیا تھا اور اس نے انکوائری کاؤنٹر سے اس لڑکی کا ایڈریس حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ریسپشنسٹ نے چند منٹوں کی تلاش کے بعد عائشہ حسن کا ایڈریس اس کے سامنے کر دیا۔
”بالکل جی، نام پتا تو انھوں نے لکھوایا تھا۔ اب پتا نہیں یہ صحیح ہے یا نہیں۔” ریسپشنسٹ نے کہا۔
معیز وہ پتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ اس کے ساتھ والے گھر کا ایڈریس تھا۔ گھر واپس جاتے ہوئے معیز گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اپنے گھر سے آگے لے گیا تھا اور پھر اس گھر کے آگے گاڑی روک کر وہ بڑے دھیان سے اس گھر کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ اس کے گھر کی نسبت بہت چھوٹا گھر تھا اور اس کے سامنے ایک مختصر سا لان بھی تھا۔ وہ گاڑی ٹرن کر کے واپس آ گیا۔ ایک ہفتے کے بعد وہ رابعہ کو لے کر گھر واپس آ گیا۔ ڈاکٹر کے کہنے پر اس نے رابعہ کے لیے وہیل چیئر منگوا لی تھی تاکہ وہ ہر وقت گھر ہی میں نہ رہیں اور گھر میں آسانی سے پھرنے کے علاوہ باہر بھی نکل سکیں۔ ایک کل وقتی نرس بھی اس نے ان کے لیے رکھ دی۔
معیز نے رابعہ کو بتا دیا تھا کہ وہ لڑکی ان کے ساتھ والے گھر میں رہتی ہے۔ وہ بھی اس اتفاق پر حیران ہوئی تھیں۔ گھر آنے کے دوسرے ہی دن انھوں نے معیز سے کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کے گھر جا کر اس کا شکریہ ادا کرے اور ہو سکے تو اسے ان کے پاس لے کر آئے تاکہ وہ خود اس کا شکریہ ادا کر سکیں۔ معیز شام کو اس گھر کی طرف آیا تھا۔ بیل بجانے پر چودہ سالہ ایک لڑکا باہر آیا۔ معیز کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کیا کہے۔
”میں آپ کے ساتھ والے گھر میں رہتا ہوں۔” اس نے ہاتھ سے اپنے گھر کی طرف اشارہ کیا۔ لڑکے کے چہرے پر یک دم مرعوبیت کے آثار نمودار ہو گئے۔
”میرے ابو تو فوت ہو چکے ہیں۔ آپ اندر آئیں میں آپ کو اپنی امی سے ملوا دیتا ہوں۔”
معیز اس کے ساتھ چلتا ہوا اندر آ گیا، وہ لڑکا اسے اندرونی دروازے پر ٹھہرا کر اندر چلا گیا۔ چند منٹوں کے بعد وہ واپس آیا اور اسے اندر لے گیا۔ ایک بہت ہی ویل ڈیکوریٹڈ ڈرائنگ روم اس کے سامنے تھا۔ وہ لڑکا اسے وہاں بٹھا کر غائب ہو گیا۔ معیز طائرانہ نظروں سے ڈرائنگ روم کا جائزہ لیتا رہا، کچھ دیر بعد وہ لڑکا ایک ادھیڑ عمر عورت کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ معیز عورت کے اندر آنے پر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”بیٹھو بیٹا بیٹھو۔” اس عورت نے نرمی سے اس سے کہا اور خود بھی سامنے صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”میں آپ کے ساتھ والے گھر سے آیا ہوں۔ چند دن پہلے۔” معیز نے بات شروع کی اور آہستہ آہستہ ساری باتیں بتا دیں۔ اسے اس عورت اور لڑکے کے چہرے پر نمودار ہونے والے تاثرات دیکھ کر حیرانی ہوئی تھی۔ وہ بہت عجیب سی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
”مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ آپ کا عائشہ حسن سے کیا رشتہ ہے مگر میں ان سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔”
معیز نے اپنی بات کے اختتام پر کہا تھا۔
”بیٹا! وہ میری بیٹی ہے۔ اس وقت تو وہ آفس میں ہوگی۔ آج وہ دیر سے آئے گی۔ دراصل وہ ایک کمپنی میں سیلز آفیسر ہے۔ اسے اکثر دیر ہو جاتی ہے۔ میں تمہارا پیغام اس تک پہنچا دوں گی لیکن شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تکلیف میں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ میں کل تمہاری امی کی خیریت دریافت کرنے آؤں گی۔” عائشہ کی امی نے کہا پھر بات چیت کا یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا۔ معیز اٹھنا چاہتا تھا مگر عائشہ کی امی کے اصرار پر وہ چائے کے لیے رک گیا۔
دوسرے دن شام کو عائشہ کی امی ان کے گھر آئی تھیں۔ معیز صرف ان کے لیے خاص طور پر گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ عائشہ ان کے ساتھ نہیں تھی۔ اس کی امی نے ایک بار پھر اس کی طرف سے معذرت کی کہ اسے کوئی ضروری کام تھا۔ اس لیے وہ نہیں آ سکی۔
رابعہ نے عائشہ کی امی کو زبردستی کھانے پر روک لیا تھا اور کھانے پر ان کے لیے خصوصی اہتمام کیا تھا باتوں باتوں میں انھوں نے عائشہ کی امی سے ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے سب سے بڑا بیٹا امریکہ میں ہوتا تھا اور اس نے وہیں شادی کر رکھی تھی۔ اس کے بعد عائشہ تھی۔ اس سے چھوٹی فریحہ تھی جس کی شادی اس کے تایا کے بیٹے سے ہوئی تھی اور ایک بیٹی اور ایک بیٹا بالترتیب بی اے اور ایف ایس سی میں پڑھتے تھے۔
عائشہ کی امی سادہ مزاج کی تھیں اور یہی خصوصیات رابعہ میں تھیں اس لیے دونوں ایک دوسرے کی صحبت سے کافی محظوظ ہوئی تھیں۔
…***…
آہستہ آہستہ دونوں گھروں میں میل جول شروع ہو گیا۔ رابعہ کو عائشہ سے ملنے کا جتنا اشتیاق تھا وہ ان سے اتنا ہی کترا رہی تھی۔ ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ ان کے گھر نہیں آئی تھی۔ ہر بار اس کی امی اس کی مصروفیت کا بہانہ بنا دیتیں۔ رابعہ کا اشتیاق بڑھتا ہی گیا تھا اور یہی اشتیاق ایک دن انھیں بنا بتائے عائشہ کے گھر لے گیا تھا۔ وہ وہیل چیئر پر نرس کی مدد سے اس کے گھر گئی تھیں۔ عائشہ کی امی انھیں دیکھ کر حیران ہو گئی تھیں۔ انھوں نے رابعہ کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور پھر ان کے اصرار پر عائشہ کو بلانے چلی گئیں۔ دس پندرہ منٹ بعد سفید کھدر کے کرتے اور سیاہ شلوار اور دوپٹہ میں ملبوس تراشیدہ بالوں والی ایک دراز قد لڑکی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ اس نے اندر آتے ہی رابعہ کو سلام کیا اور پھر صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”تم عائشہ ہو؟” رابعہ نے بے اختیار اس سے پوچھا۔
”ہاں، آپ کیسی ہیں؟” اس کا لہجہ اور چہرہ دونوں بے تاثر تھے مگر رابعہ کو اس وقت اس پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔
”بیٹا! میرے پاس آؤ۔” رابعہ نے بے ساختہ بازو پھیلا دیے۔ اس نے حیرانی سے ان کو دیکھا اور پھر جیسے شش و پنج میں پڑ گئی۔ رابعہ نے ایک بار پھر اسے اپنے پاس بلایا۔ اس بار وہ کچھ جھجکتے ہوئے ان کے پاس آ گئی، رابعہ نے پاس آنے پر اسے گلے لگایا اور اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ یک دم جیسے ہکا بکا رہ گئی تھی۔ تب ہی اس کی امی کمرے میں آ گئی تھیں۔
وہ کچھ نروس سی دوبارہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔ رابعہ اس کا شکریہ ادا کرتی رہیں مگر وہ گونگوں کی طرح گم صم بیٹھی رہی پھر کچھ دیر بعد وہ کسی کام کا بہانہ بنا کر اٹھی اور دوبارہ اندر نہیں آئی۔ رابعہ کافی دیر تک عائشہ کی امی کے پاس بیٹھی رہیں اور پھر گھر واپس آ گئیں۔
معیز جب رات کو گھر آیا تو رابعہ نے اسے عائشہ سے ملاقات کا قصہ بڑی بے چینی سے سنایا وہ ماں کی بے تابی پر مسکراتا رہا۔
”آپ ایسا کریں امی! ان کی پوری فیملی کو کھانے پر بلائیں۔ میں بھی عائشہ سے مل لوں گا اور اس کا شکریہ ادا کر دوں گا۔ آپ تو کر ہی چکی ہیں۔”
اس نے کھانا کھاتے ہوئے سرسری انداز میں رابعہ سے کہا تھا۔
”ہاں، ٹھیک ہے۔ میں ان لوگوں کو کھانے پر بلاؤں گی۔” رابعہ کو اس کی تجویز اچھی لگی تھی۔
تیسرے دن انھوں نے عائشہ کی امی کو کھانے کی دعوت دے ڈالی۔ عائشہ کی امی نے شروع میں انکار کیا مگر رابعہ نے اتنا اصرار کیا کہ وہ دعوت قبول کرنے پر تیار ہو گئیں۔ لیکن جس دن وہ لوگ کھانے پر آئے تھے اس دن عائشہ ان کے ساتھ نہیں تھی۔ رابعہ کو مایوسی ہوئی۔ ان کے پوچھنے پر عائشہ کی امی نے کہا کہ عائشہ آج کسی دوست کی شادی پر گئی ہے، اس وجہ سے نہیں آ سکی۔ رابعہ ان کی بات سن کر خاموش ہو گئیں۔
پھر ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا تھا۔ وہ مختلف تقاریب میں عائشہ کو بلا لیتیں مگر عائشہ کی فیملی تو ان کے گھر آ جاتی مگر وہ کبھی نہیں آئی۔ دو تین بار رابعہ نے خود جا کر بھی اسے آنے کی دعوت دی وہ خاموشی سے ہامی بھر لیتی مگر پھر نہیں آتی۔ رابعہ کو یہ محسوس ہونے لگا جیسے وہ ان سے کترانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ بات انھیں کافی عجیب لگی تھی۔ عائشہ کے گھر وہ اکثر جاتی رہتی تھیں مگر عائشہ سے ان کا سامنا بہت کم ہی ہوتا تھا اگر ہو بھی جاتا تو بھی عائشہ سلام دعا کے بعد اپنے کمرے میں چلی جاتی اور دوبارہ سامنے نہ آتی اور پھر اگر وہ عائشہ سے ملنا بھی چاہتیں تو بھی وہ نیچے نہ آتی اور انھیں یوں لگتا جیسے عائشہ کی امی بھی یہ نہیں چاہتیں کہ عائشہ زیادہ دیر ان کے پاس بیٹھے۔ عائشہ کے برعکس سب سے چھوٹی بہن معصومہ سارا وقت ان کے پاس بیٹھی رہتی۔ رابعہ کو اس کی عادات بہت پسند تھیں اور وہ اکثر اوقات اسے اپنے گھر کسی نہ کسی کام کے لیے بلاتی رہتیں۔
…***…




Loading

Read Previous

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

Read Next

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Well done

  • Well done your all stories are awesome

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!