آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

ولید اور معیز کی دوستی فورتھ کلاس میں ہوئی تھی۔ دونوں میں بظاہر کچھ بھی مشترک نہیں تھا۔ ولید کلاس کا سب سے قابل اسٹوڈنٹ تھا اور معیز اوسط درجے کا تھا لیکن جو چیز انھیں پاس لے آئی تھی، وہ اسپورٹس کا شوق تھا۔ اسپورٹس کے بارے میں معیز کی معلومات زبردست تھیں اور دوسری چیز جس نے ولید کو معیز کا گرویدہ تھا، وہ معیز کی انگلش تھی۔ وہ مسقط میں ایک امریکن اسکول میں پڑھتا رہا تھا، اسی لیے وہ بڑی خوبصورت اور رواں انگلش اور عربی بولتا تھا۔ معیز کی طرف دوستی کا ہاتھ ولید نے بڑھایا تھا پھر ولید کے ساتھ رہنے سے یہ ہوا کہ معیز کی پڑھائی میں دلچسپی بڑھتی گئی۔ ناصر کی وفات کے بعد جب اس کے حالات بدلنا شروع ہوئے تو اس میں تبدیلیاں آنے لگیں اور اس نے ولید سے بھی الگ ہونے کی کوشش کی کیونکہ اب وہ خود کو ولید کے مقابلے میں کمتر محسوس کرتا تھا۔ ولید کو شروع میں اس کے رویے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی لیکن پھر اس نے ایک دن اسے پکڑ کر زبردستی اس سے پوچھنا شروع کر دیا اور اس کے پوچھنے پر معیز یک دم رونے لگا تھا۔ پھر اس نے ولید کو آہستہ آہستہ سب کچھ بتا دیا۔
ولید عمر میں اس سے ایک دو سال بڑا تھا اور بہت سمجھ دار تھا اس نے معیز کو جتائے بغیر اس طرح اپنی سرگرمیوں میں انوالو کرنا شروع کر دیا جس طرح وہ پہلے کرتا تھا۔ ان کی دوستی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور اس میں بڑا ہاتھ ولید کا تھا۔ پھر جب معیز آٹھویں کلاس میں پہنچا تو اس نے ولید سے کہا کہ وہ اپنے باپ سے بات کرے کہ وہ اس کو اپنی فیکٹری میں آ کر کام سیکھنے دیں۔
ولید کے ڈیڈی نے پہلے تو بالکل انکار کر دیا اور انھوں نے معیز سے کہا کہ اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ان کو بتائے وہ اسے دے دیں گے کیونکہ وہ اسے بھی ولید کی طرح ہی سمجھتے ہیں مگر بعد میں ولید کے اصرار پر وہ معیز کو کام سکھانے پر تیار ہو گئے۔ کیونکہ ولید جانتا تھا کہ معیز مفت میں کچھ بھی لینے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ ولید کے ڈیڈی نے بادل نخواستہ اسے فیکٹری آنے کی اجازت دی تھی لیکن معیز نے جس رفتار اور شوق سے کام سیکھنا شروع کیا تھا اس نے انھیں حیران کر دیا تھا۔
اسے سیکھنے کا صرف شوق ہی نہیں تھا بلکہ جنون تھا اور پھر وہ محنت سے بھی گھبراتا نہیں تھا۔ شروع میں ولید کے ڈیڈی اسے دو گھنٹے سے زیادہ وہاں رکنے نہیں دیتے تھے مگر آہستہ آہستہ وہ چار سے پانچ گھنٹے وہاں گزارنے لگا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ولید کے ڈیڈی کو اس کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی، وہ پہلے پہل لیدر کی جیکٹس کسی دوسری فیکٹری سے تیار کرواتے تھے اور پھر اپنی پیکنگ اور اپنی کمپنی کے ٹیگ کے ساتھ اسے ایکسپورٹ کر دیتے تھے مگر بعد میں انھوں نے خود ہی جیکٹس تیار کروانا شروع کر دیں۔





شروع میں انھوں نے ایک ڈیزائنر رکھا تھا۔ معیز نے ان ہی دنوں فیکٹری میں آنا شروع کیا تھا۔ تیرہ سال کا وہ لڑکا سولہ سال تک پہنچتے پہنچتے نہ صرف جیکٹ کی کٹنگ سیونگ بلکہ ڈیزائننگ میں بھی ماہر ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ اس نے ان کی فیکٹری کے لیے جیکٹس ڈیزائن کرنا شروع کر دیں۔
انھیں دنوں راشد صاحب نے ولید کو ہائر سکینڈری اسکول کے بعد مزید تعلیم کے لیے باہر بھجوایا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد انھوں نے اس کمپنی کو ٹریننگ کے لیے اس کا نام بھجوایا تھا جس کے ساتھ مل کر انھوں نے Joint venture کیا تھا، وہ تقریباً ایک سال کوریا رہ کر آیا تھا اور واپس آنے کے بعد اس نے ڈیزائننگ کے شعبے کا پورا کام اپنے سر لے لیا تھا۔ ان ہی دنوں ولید کے ڈیڈی نے اپنے بھائی سے اپنا کاروبار الگ کرنا شروع کیا تھا اور یہ معاملہ ایک بہت بڑے تنازعہ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔
ان دنوں معیز ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ فیکٹری کے معاملات سنبھالا کرتا اور راشد صاحب اپنے مقدمے کے سلسلے میں کورٹس کے معاملات سے نبٹا کرتے۔ پھر اچانک ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا یہ معیز اور ولید دونوں کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔
ولید اپنی تعلیم چھوڑ کر واپس آ گیا تھا۔ اس کے چچا نے موقع سے فائدہ اٹھایا تھا اور مختلف حربے استعمال کر کے مقدمہ جیت گئے تھے فیکٹری کے حصے ہو گئے تھے اور وہ بڑی فیکٹری ایک چھوٹی سی فیکٹری کی شکل میں ولید کے حصے میں آئی تھی۔ جس فرم کے نام سے وہ ساری ایکسپورٹ کرتے تھے، وہ ولید کے چچا کو مل گئی تھی۔ ولید ان معاملات میں ناتجربہ کار تھا۔ وہ کسی اور جھگڑے میں انوالو نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اس چھوٹی سی فیکٹری پر صبر کر لیا تھا۔
باپ کے چہلم کے بعد اس نے معیز سے کہا تھا کہ وہ امتحانات دینے واپس امریکہ جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں معیز فیکٹری کا انتظام سنبھالے۔ معیز نے فیکٹری کا انتظام سنبھالنے کی ہامی بھر لی تھی اور ولید پاور آف اٹارنی اسے دے کر امریکہ چلا گیا تھا۔
فیکٹری کا انتظام سنبھالتے ہی مشکلات کا ایک پہاڑ تھا جو معیز کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ باری باری فیکٹری میں کام کرنے والے بہترین کاریگر کام چھوڑ کر ولید کے چچا کی فیکٹری میں چلے گئے تھے کیونکہ انھوں نے ان لوگوں کو بہتر تنخواہ کی آفر کی تھی۔ جو پارٹیز پہلے ان کو آرڈر دیا کرتی تھیں، وہ اب ولید کے چچا کی فیکٹری کو آرڈر دیتی تھیں کیونکہ فرم کا نام وہی استعمال کرتے تھے۔
فیکٹری کے اکاؤنٹس میں اتنا روپیہ نہیں تھا کہ معیز کوئی بڑا آرڈر لیتا۔ وہ ویسے بھی کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ فیکٹری اس کی اپنی نہیں تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی خطرہ مول لے کر وہ فیکٹری کو مزید دشواری میں ڈال دے۔ ولید تقریباً چھ ماہ باہر رہا تھا اور ان چھ ماہ میں معیز اسے ”سب اچھا ہے” کی رپورٹیں دیتا رہا تھا کیونکہ وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ فیکٹری کے اکاؤنٹ سے ولید کو اس کے اخراجات کے لیے اور اس کی فیملی کو ماہانہ خرچ کے لیے روپے بھجواتا رہا۔ ان چھ ماہ میں اس نے کچھ لوکل اور کچھ چھوٹے باہر کے آرڈرز پورے کیے تھے۔ مگر ان کی تعداد کم تھی۔ چھ ماہ بعد ولید امتحانات سے فارغ ہو کر واپس آ گیا تھا۔
معیز نے اس کی واپسی پر فیکٹری کی پوری صورت حال اس کے سامنے رکھ دی تھی۔ ولید کو شاک لگا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ فیکٹری کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں مگر وہ بہت جلد اس شاک سے باہر آ گیا تھا اور ایک بار پھر اس نے اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے معیز کی مدد مانگی تھی اور معیز نے ہر چیز کو پلان کرنا شروع کر دیا تھا ان کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا تھا کہ ان کے بہترین کاریگر انھیں چھوڑ گئے تھے اور اچھے کاریگر ملنا آسان نہیں تھا، معیز نے ولید کو مجبور کیا کہ وہ خود ان کاریگروں کے گھر جا کر انھیں زیادہ تنخواہ کی آفر دے کر واپس آنے پر مجبور کرے۔
ولید اس معاملے میں بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ان لوگوں نے نمک حرامی کی ہے اور مشکل وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ کر گئے ہیں پھر اب وہ انھیں کیوں واپس لائے لیکن معیز نے بہت تحمل سے دلائل کے ساتھ اسے سمجھایا تھا کہ کاریگروں کو اس کی ضرورت نہیں، اسے کاریگروں کی ضرورت ہے اور انھوں نے نمک حرامی نہیں کی۔ وہ بھی انسان تھے مجبوریوں اور ضرورتوں سے بندھے۔ ولید کے والد کے انتقال کے بعد فیکٹری کا انتظام ڈانواں ڈول تھا اور کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ فیکٹری کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے ایسی صورت حال میں جب انھیں ولید کے چچا کی طرف سے ا چھی آفر ہوئی تو انھوں نے قبول کر لی۔
ولید اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گیا تھا۔
وہ دونوں ان پرانے کاریگروں کے گھر گئے جو دس پندرہ سال سے ولید کے باپ کے پاس کام کرتے رہے تھے اور انھیں زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑا زیادہ تر کاریگر واپس آ گئے تھے۔
سب سے بڑا مسئلہ اب ان کے سامنے روپے کی فراہمی کا تھا۔ فیکٹری کے اکاؤنٹس میں زیادہ روپے نہیں تھے۔
اس مسئلے کوولید نے حل کیا تھا اس نے اپنی فیکٹری اور گھر پر بینک سے لون لے لیا تھا، پھر دونوں کام میں جت گئے تھے۔ انھوں نے ایک نئی فرم لانچ کی اور ان ساری پارٹیز کولیٹرز لکھے تھے جن کے ساتھ وہ پہلے بزنس کرتے تھے لیکن کسی طرف سے بھی کوئی حوصلہ افزا جواب نہ ملا، پھر ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ ولید کچھ سیمپل بنوا کر اپنے ساتھ یورپ اور امریکہ لے کر جائے گا اور آرڈر حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جیکٹس کے یہ سیمپل معیز نے خود ڈیزائن کیے تھے اور یہ اس کی پہلی مکمل ڈیزائننگ کا تجربہ تھا۔
ولید ان سیمپلز کو لے کر باہر چلا گیا اور اس بار انھیں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ پہلی ہی پارٹی سے انھیں دس ہزار جیکٹس کا آرڈر مل گیا تھا اور یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا آرڈر تھا۔ دونوں نے جی توڑ کر محنت سے یہ آرڈر پورا کیا تھا۔
ولید کو مال کے بارے میں زیادہ نہیں پتا تھا۔ وہ دفتری امور کو سرانجام دیتا رہا اور معیز نے ان جیکٹس کے لیے نہ صرف لیدر کی خریداری خود کی بلکہ تیاری کے ہر مرحلے میں خود انوالو رہا۔ اس نے ایک ایک جیکٹ کو خود ذاتی طور پر چیک کیا تھا۔ اس کے بعد ان کی پیکنگ کروائی تھی۔ وہ لوگ کاریگروں سے اوور ٹائم کرواتے رہے اور مقررہ وقت سے پہلے ہی انھوں نے آرڈر پورا کر دیا تھا۔
جیکٹس کی کوالٹی اور ڈیزائننگ اتنی پسند کی گئی تھی کہ فوراً ہی اسی فرم کی طرف سے انھیں ایک اور بڑا آرڈر مل گیا۔ پھر تو آرڈرز کی ایک لمبی لائن لگ گئی تھی اور بعض آرڈرز تو اتنے بڑے ہوتے کہ وہ انھیں نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے وہ انھیں انکار کر دیتے۔ آہستہ آہستہ ان کے پاس کاریگروں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ پہلے ان کے پاس پچیس تیس کاریگر ہوتے تھے۔ پھر یہ تعداد دو سو کے قریب پہنچ گئی۔ وقتی طور پر ہائر کرنے والے کاریگروں کی تعداد ان کے علاوہ تھی۔ انھوں نے فیکٹری کی عمارت میں بھی توسیع کی تھی اور آج کل انھوں نے کچھ نئی مشینری منگوائی ہوئی تھی جس کی تنصیب وہ اس نئے حصے میں کروا رہے تھے۔
معیز کا اگرچہ فیکٹری میں کوئی شیئر نہیں تھا اور نہ ہی اس کی ایسی کوئی خواہش تھی لیکن وہ اب پروڈکشن مینیجر کے طور پر کام کر رہا تھا اور ڈیزائننگ کے شعبے کا انچارج بھی وہی تھا۔ اس کو تقریباً تیس ہزار کے قریب تنخواہ ملتی تھی اور دوسری بہت سی سہولیات بھی مگر پھر بھی وہ مطمئن نہیں تھا۔ وہ اب اپنی الگ فیکٹری لگانا چاہتا تھا اور اسی لیے وہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ بینک میں جمع کرواتا جا رہا تھا۔ پھر ان ہی دنوں اس نے ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہونے کی کوشش کی تھی مگر ولید نے اس سے کہا کہ وہ کرائے پر گھر لینے کے بجائے اس کے اس گھر میں شفٹ ہو جائے جہاں وہ باہر سے کاروبار کے سلسلے میں آنے والے لوگوں کو ٹھہراتا تھا۔
معیز نے بہت پس و پیش کی تھی لیکن ولید نے اس کی ایک نہ سنی، اس کا کہنا تھا کہ وہ گھر زیادہ تر خالی ہی رہتا ہے اور دو منزلہ ہونے کی وجہ سے معیز اس کی کسی بھی منزل پر اپنی امی کے ساتھ رہ سکتا ہے اور بقیہ حصے میں کوئی بھی آنے والا مہمان ٹھہر سکتا ہے۔ رابعہ نے تب اپنی ماں کی وجہ سے معیز کے ساتھ آنے سے انکار کر دیا تھا اور معیز اکیلا ہی وہاں شفٹ ہو گیا تھا اوراب جب اس کی امی آنے پر تیار ہو گئی تھیں تو وہ انھیں بھی وہیں لے آیا تھا۔
رابعہ کو یہاں آتے ہی وہ بدلا ہوا لگنے لگا تھا اب وہ پہلے کی طرح سنجیدہ اور خاموش نہیں رہتا تھا بلکہ جب بھی گھر آتا تو زیادہ سے زیادہ وقت رابعہ کے پاس گزارنے کی کوشش کرتا انھیں اپنی باتیں بتاتا۔ اپنی مصروفیات کے بارے میں بتاتا ان سے مختلف قسم کے کھانوں کی فرمائش کرتا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر ہنس پڑتا، پتا نہیں وہ اپنی کون کون سی خواہش کو دبائے بیٹھا تھا۔ رابعہ کو اب احساس ہو رہا تھا کہ اکلوتی اولاد کتنی تنہائی کا شکار ہوتی ہے اور وہ بھی جو معیز جیسے حالات سے دوچار رہی ہو۔
پھر چند ہفتوں کے بعد وہ اپنی امی سے ملنے گئی تھیں۔ وہ اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں جب سعدیہ کی امی ان کے پاس آئی تھیں اور انھیں سعدیہ کی شادی کا کارڈ دیا تھا۔ انھوں نے بجھے دل سے وہ کارڈ لیا تھا اور وہاں سے آ گئی تھیں۔ معیز نے سعدیہ کی شادی کا کارڈ دیکھنے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ بالکل نارمل تھا۔
…***…
اس دن چھوٹے ماموں اوران کی فیملی ایک شادی میں انوائیٹڈ تھے۔ معیز بھی ولید کے ساتھ اس شادی میں گیا ہوا تھا۔ دولہا ولید کا کاروباری دوست تھا اور اس حوالے سے معیز سے بھی اس کی اچھی جان پہچان تھی اور اس نے معیز کو بھی شادی میں انوائیٹ کیا تھا۔ چھوٹے ماموں معیز کو وہاں دیکھ کر کچھ حیران ہوئے تھے مکس گیدرنگ تھی اس لیے نہ صرف انھوں نے بلکہ ان کے بیوی بچوں نے بھی معیز کو دیکھا تھا۔
جس چیز نے انھیں زیادہ حیران کیا تھا وہ اس کا حلیہ تھا، وہ بلیک ڈنر سوٹ میں ریڈ پرنٹڈ ٹائی لگائے کہیں سے بھی کوئی معمولی ورکر نہیں لگ رہا تھا۔ معیز نے بھی انھیں دیکھ لیا تھا لیکن وہ ان کی طرف نہیں آیا۔ چھوٹے ماموں پوری طرح متجسس ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے دوست سے معیز کے بارے میں پوچھا تھا اور اس نے ان سے کہا تھا کہ معیز کو اس کے بیٹے نے انوائیٹ کیا ہے۔ اسے معیز کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں جب چھوٹے ماموں نے زیادہ ہی تجسس کا اظہار کیا تو وہ اپنے بیٹے کے پاس گیا تھا اور تھوڑی دیر کے بعد آ کر اس نے انھیں معیز کے بارے میں معلومات دی تھیں۔
وہ جس فرم میں پروڈکشن مینیجر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس فرم نے پچھلے سالوں سے چیمبر آف کامرس میں اپنے بڑے بڑے ایکسپورٹ آرڈرز کی وجہ سے خاصی دھوم مچائی ہوئی تھی۔ چھوٹے ماموں خود بھی لیدر گڈز کی ایکسپورٹ کا کام کرتے تھے۔ انھیں اب یاد آیا تھا کہ چیمبر آف کامرس میں جب بھی اس فرم کا ذکر ہوتا تو اس کے پروڈکشن مینجر معیز ناصر کا ذکر بھی ہوتا جسے کئی دوسری فیکٹریز بھاری تنخواہ پر اپنے لیے کام کرنے کی آفرز کر رہی تھیں مگر تب چھوٹے ماموں کو قطعاً خیال نہیں آیا تھا کہ معیز ناصر ان کا اپنا بھانجا بھی ہو سکتا ہے۔
ان کے دوست نے ان کی کیفیت سے بے خبر انھیں معیز کے بارے میں معلومات فراہم کر دی تھیں اور اب چھوٹے ماموں عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گئے تھے اور کچھ یہی حال ان کے بیوی بچوں کا تھا، ان کو یاد آیا تھا چند ہفتے پہلے کس طرح انھوں نے کھڑے کھڑے اپنے گھر میں اس کی بے عزتی کی تھی اور انھوں نے یا ان کے کسی بھائی نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ دونوں کہاں گئے ہیں۔ کھانا کھانے کے دوران وہ سب گاہے بگاہے دور کھڑے ہوئے معیز کو دیکھتے رہے جو کچھ لوگوں کے ساتھ کسی گفتگو میں مصروف کھانا کھا رہا تھا۔
واپسی پر گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ان کی بیوی مسلسل رابعہ اور معیز پر تنقید کرتی رہی تھی مگر وہ خاموش رہے تھے اگلے دن تینوں گھروں میں معیز کے بارے میں معلومات اور خبریں گردش کر رہی تھیں اور ہر شخص بھونچکا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد رابعہ ایک بار پھر ماں سے ملنے آئی تھیں اور وہ اس بار اپنے استقبال سے حیران ہو گئی تھی۔ وہ بھابھیاں جنھوں نے پچھلی دفعہ بمشکل ان کے سلام کا جواب دیا تھا اس بار ہنس ہنس کر ان کا حال احوال دریافت کر رہی تھیں۔ پھر جب وہ اپنی ماں کے پاس آ کر بیٹھیں تو ان کی بھابھیاں باری باری وہاں آ گئی تھیں اور پھر بڑی بھابھی اصل بات زبان پر لے ہی آئی تھیں۔ انھوں نے شکوہ کیا تھا کہ رابعہ اور معیز نے انھیں غیر سمجھا جوا نہیں اس کی ترقی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
رابعہ خود بھی حیران تھیں کیونکہ وہ صرف یہ جانتی تھی کہ معیز ولید کے ساتھ کام کرتا ہے مگر کس عہدے پر کام کرتا ہے اس سے وہ بے خبر تھیں پھر بھی انھوں نے اپنی بھابھیوں سے معذرت کر لی تھی۔
چند ہفتے پہلے جب وہ گھر چھوڑ کر آئی تھیں تو کسی نے جانے سے پہلے ان کے ایڈریس کے بارے میں نہیں پوچھا تھا اور اس دن انھوں نے اصرار کر کے ان کا ایڈریس لیا تھا پھر کچھ دن بعد ہی ان کے بڑے بھائی اور بھابھی ان سے ملنے آ موجود ہوئے تھے۔ گھر کو دیکھ کر وہ خاصے مرعوب ہوئے تھے حالانکہ رابعہ نے انھیں بتا دیا تھا کہ یہ گھر ان کا نہیں ہے۔ معیز کی واپسی سے پہلے وہ چلے گئے تھے پھر تو جیسے آمد و رفت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ گاہے بہ گاہے ان کا کوئی نہ کوئی بہن بھائی ان سے ملنے آتا رہتا اور انھیں اپنے گھر مدعو کر جاتا۔
معیز بڑی خوش دلی اور خوش اخلاقی سے ہر ایک سے ملتا تھا حتیٰ کہ چھوٹے ماموں سے بھی جنھوں نے رابعہ سے اپنے رویے کی معذرت کر لی تھی معیز ان سے اس طرح پیش آیا تھا جیسے ان سے کبھی اس کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا ہو۔
سعدیہ کی شادی پر چھوٹے ماموں زبردستی رابعہ کو شادی سے چند دن پہلے اپنے گھر لے آئے تھے۔ معیز شادی پر نہیں آیا تھا۔ اسے کسی کام سے کراچی جانا تھا۔ شادی کی ایک ایک رسم رابعہ کو خود پر بھاری لگی۔ سعدیہ دلہن بن کر اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ انھوں نے اسے دوبارہ نظر بھر کر نہیں دیکھا کہ کہیں اسے نظر نہ لگ جائے۔ لیکن انھیں بار بار معیز کا خیال آ رہا تھا وہ تصور میں اس کے شوہر کے بجائے معیز کو اس کے ساتھ بیٹھے دیکھنے لگتیں۔
انھیں یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی ان کی سب سے قیمتی چیز چھین کر لے جا رہا تھا۔ سعدیہ کی شادی نے انھیں بہت نڈھال کر دیا تھا جس دن وہ واپس آئی تھیں۔ معیز انھیں گھر پر ہی ملا تھا اور اس نے رسمی سے انداز میں شادی کے بارے میں پوچھا تھا۔ رابعہ کے تاثرات سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ابھی بھی ناخوش ہیں۔ اس نے ایک بار پھر ماں کو دلاسا اور تسلی دی تھی۔
…***…
”ولید! میں اپنی الگ فیکٹری کھولنا چاہتا ہوں اور کچھ دوسری فرمز کی طرف سے مجھے جیکٹس کی ڈیزائننگ کے لیے آفرز ہیں۔ میں ان کے لیے بھی کام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے فیکٹری کے لیے ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے۔ میں تمھیں یہ سب اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ میں اصولی طور پر تمہارا ملازم ہوں اور مجھے کسی اور کے لیے کام کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس لیے میں ریزائن کرنا چاہتا ہوں۔”
اس دن وہ ولید کے آفس میں بیٹھا اسے شاک پر شاک دے رہا تھا۔
”معیز! تمھیں کس چیز کی کمی ہے؟ میں نے ہمیشہ تمھیں ہر سہولت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے تمھیں کبھی ملازم نہیں سمجھا، یہ فرم جتنی میری ہے۔ اس سے زیادہ تمہاری ہے پھر تم یہ جاب کیوں چھوڑنا چاہتے ہو؟” ولید اس کی باتوں پر بھونچکا رہ گیا تھا۔
”ولید! مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے میں یہ بھی مانتا ہوں کہ مجھے ہر قسم کی سہولت دی گئی ہے لیکن پھر بھی میری حیثیت اس فیکٹری میں ایک ملازم کی ہے۔ مجھے ابھی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ جاب تو صرف ایک آغاز تھا۔”
ولید نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
”جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ میں تمھیں چھوڑ کر نہیں جا رہا۔ تم اگر چاہو گے تو میں تمھارے لیے بھی کام کروں گا لیکن میں اپنی الگ فیکٹری بھی قائم کرنا چاہتا ہوں۔ تم میری خواہشات اور عزائم سے واقف ہو اور میری خواہشات میں صرف ایک باب شامل نہیں ہے، مجھے زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ اس لیے بہت غیر جانبدار ہو کر میرے فیصلے کے بارے میں سوچو۔”
”تم فیکٹری لگانا چاہتے ہو۔ لیکن اس کے لیے تمھیں سرمایہ کہاں سے ملے گا؟” ولید نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے سوال کیا۔
”کچھ غیر ملکی کمپنیز جن کے ساتھ میں کافی عرصے سے بات چیت کرتا آ رہا ہوں۔ ان ہی میں سے ایک کمپنی یہاں جوائنٹ وینچر کرنا چاہتی ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ وہ میرے ساتھ یہ پروجیکٹ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ کچھ روپیہ میرے پاس ہے اور کچھ میں دوسری فرمز کے لیے کام کر کے اکٹھا کر لوں گا لیکن ابھی یہ صرف منصوبے ہیں کوئی چیز بھی فائنل نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے، میں اسی سال اپنی فیکٹری شروع کر دوں ہو سکتا ہے اس میں کچھ سال لگ جائیں۔”




Loading

Read Previous

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

Read Next

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Well done

  • Well done your all stories are awesome

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!